شاہ ولی اللہ وہ نادر روزگار شخصیت ہیں جن کی تعلیمات سے رہتی دنیا تک انسانیت مستفیض ہوتی رہے گی۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد دنیا میں کم ہی ایسی شخصیات پائی گئی ہیں جن کے افکار نے دنیا سے اپنی حقیقت منوائی ہو۔ عالمِ اسلام میں آپ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے شریعت کا فلسفہ مدون کیا اور عقائد و اعمال کی حکیمانہ تشریح کی اور اسرار و رموز کو اور کلی و جزوی احکام کو فلسفہ کے ساتھ اس طرح بیان کیا کہ شریعت با آسانی سمجھ آ جاتی ہے۔
آپ کے والد محترم شاہ عبد الرحیم بھی جید عالمِ دین تھے۔ فتاوٰی عالمگیری کی نظرثانی اور اصلاح کا کام آپ نے ہی کیا تھا اور مدرسہ رحیمیہ کے بانی آپ ہی تھے۔
شاہ صاحب کے صاحبزادوں نے بھی اپنے باپ اور دادا کی تقلید میں کام کرتے ہوئے نام پایا ہے۔ شاہ عبد العزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبد القادر اپنے وقت کے مشہور مفسر و محدث ہوئے، جبکہ چوتھے بیٹے شاہ عبد الغنی خود تو مشہور نہ ہوئے مگر آپ کے صاحبزادے شاہ اسماعیل شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد شروع کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور بالاکوٹ میں شہید ہوئے۔
شاہ صاحب کے کارنامے
شاہ صاحب نے ۱۱۴۴ھ میں مکہ مکرمہ میں خواب دیکھا تھا جس میں آپ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ہندوستان میں آپ کی مساعی جمیلہ سے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے مفاسد کا تدارک ہو گا اور دینی و سیاسی امامت آپ کو ملے گی۔
(۱) آپ نے سب سے پہلے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ ’’فتح الرحمان‘‘ کیا۔
(۲) آپ نے تقلید کے بجائے اجتہاد کی راہ اپنائی۔
(۳) امت کے مختلف طبقات کی اصلاح کے لیے کوشش شروع کر دی۔
(۴) حدیث کے احیاء کے لیے مدرسہ رحیمیہ میں کام شروع کیا اور یہ مدرسہ برصغیر میں اولین دارالحدیث کہلایا۔
(۵) اسرائیلیات اور ضعیف روایات کو ترک کر کے کتاب و سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔
(۶) آپ نے فقہ میں اجتہاد کو ہر دور میں فرضِ کفایہ قرار دیا اور جامد و اندھی تقلید کی مذمت کی۔
(۷) مختلف فقہی مسالک میں صلح اور تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی، فقہا و صوفیا میں صلح کرائی، اور فقہائے محدثین کا ایک گروہ تیار کیا۔
(۸) آپ نے شیعہ و سنی اختلاف کو ختم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ آپ نے عالی سنیوں کے تشدد اور شیعوں کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ’’ازالۃ الخفا من خلافۃ الخلفا‘‘ تحریر کی۔
(۹) وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مسئلہ پر اختلاف کے سبب شریعت و تصوف میں تطبیق پیدا کی۔ آپ نے مذہب کی ’’رسوم‘‘ کے بجائے مذہب کی اصل روح پر زور دیا۔
سیاسی نظریات
شاہ صاحب نے اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اہلِ سیاست کو بھی اصلاح کی ترغیب دی اور خود سیاست سے باہر رہ کر اہلِ سیاست کو متاثر کیا۔ آپ نے نجیب الدولہ کو سیاسی لحاظ سے مضبوط کیا اور اسلام کے دفاع کی ترغیب دی۔ آپ نے مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے عزائم کو خاکستر کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی جس نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست فاش دی۔ آپ مرکزیت اور متحدہ ہندوستان کے قائل تھے۔ اس کے لیے آپ نے تجاویز اور نیا دستور پیش کیا۔ آپ نے عدل و انصاف کے رائج کرنے اور تمام مسلمانوں کو یکساں حقوق عطا کرنے کے داعی تھے۔ کیوں نہ ہوتے کہ آپ کی رگوں میں فاروقی خون دوڑتا تھا۔
مخالفت و ابتلا
اہلِ حق کو مخالفت اور ابتلا کا جس طرح سامنا کرنا پڑتا ہے، شاہ ولی اللہ بھی اس سے نہ بچ سکے۔ قرآن مجید کے ترجمہ کرنے کے سبب شہر کے علماء آپ کے مخالف ہو گئے اور فتوٰی لگا کر قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔ جامع مسجد فتح پور دہلی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ بے پناہ ہجوم آپ پر چڑھ دوڑا، خوش قسمتی سے وہاں سے بچ نکلے۔ بعد میں حالات سے پریشان ہو کر مکہ مکرمہ چلے گئے، کچھ عرصہ بعد واپس آئے تو نجف علی خان نے ہاتھوں کو بے کار کروا دیا تاکہ کچھ لکھ نہ سکھیں۔
آپ نے اپنے پیچھے ۴۳ عدد مشہور و معروف کتب چھوڑیں اور چار عالم و فاضل بیٹے امت کو ترکے میں دیے۔