نئی نسل کی فکری اصلاح اور ذہنی تربیت کی اہمیت

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمود احمد غازی کا خطاب)۔


آج دنیائے اسلام جس افراتفری، بے مقصدیت اور انحطاط کا شکار ہے اس کی مثال ماضی کےکسی بحران میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ کی شاید ہی کوئی صدی ایسی گزری ہو جس میں مسلمانوں کو کسی بڑی آزمائش اور بحران سے دوچار ہونا نہ پڑا ہو، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان ہر آزمائش اور بحران میں سرخرو ہوئے اور بڑی کامیابی سے اس سے عہدہ برآ ہوئے۔یونانیوّں کے علوم و فنون کے استیلا اور غلبہ کا مسئلہ ہو، تاتاریوں کی یورش ہو، ہندوستان میں ہندو اساطیر کے زیر اثر غیر اسلامی تصوف کا عروج ہو، ان سب مسائل کا مسلمان اکابر و عوام نے بڑی کامیابی سے سامنا کیا۔ لیکن مغربی تہذیب کا غلبہ ایسا وسیع الاطراف اور کثیر الجہات بحران لے کر آیا ہے کہ جس سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے سارے مسائل و مشکلات زندگی کے کسی ایک پہلو پر اثرانداز ہوتے تھے اور زندگی کے دوسرے پہلو اس سے محفوظ رہتے تھے۔ یونانیوں کے علوم کا فتنہ اہلِ علم کے ایک بہت ہی محدود طبقہ میں منحصر تھا، جس کی تعداد امت میں شاید ایک فی ہزار بلکہ ایک فی لاکھ بھی نہ ہو۔ امت کے بقیہ افراد اس سے بالکل لاتعلق اور بے زار رہے اور یوں اس فتنہ کے اثرات سے عام آدمی ذرہ برابر متاثر نہ ہوا۔ یہی حال بقیہ تمام بحرانوں کا ہوا۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب و تمدن کا لایا ہوا بحران ہمہ جہت اور کثیر الاطراف ہے۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان سیاسی طور پر کمزور، عسکری طور پر شکست خوردہ، معاشی طور پر محتاج، فکری طور پر غلام، تہذیبی طور پر مغرب کے طفیلی، اور تمدنی طور پر استعمار کے حاشیہ نشین بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ہر پہلو دوسرے پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے اور یوں صورتحال دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

آج حالت یہ ہے کہ سیاسی کمزوری کے نتیجہ میں عسکری کمزوری پیدا ہو رہی ہے، اور عسکری کمزوری کا نتیجہ معاشی بدحالی اور اقتصادی غلامی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اقتصادی غلامی سے ذہنی مرعوبیت پیدا ہو رہی ہے، جس سے فکری آزادی کے سارے تصورات مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اور جوں جوں فکری غلامی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں، ہم ثقافتی اور تہذیبی میدانوں میں تیزی سے مغرب کے حاشیہ نشین اور نقال بنتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حاشیہ نشینوں اور نقالوں اور طفیلیوں میں سیاسی قوت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔

اس صورتحال میں یہ امر بڑا اہم ہے کہ کام کا آغاز کہاں سے ہو۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران سارے ممکنہ نسخے آزمائے گئے ہیں لیکن صورتحال روز بروز ابتری کی طرف مائل ہے۔ مغرب کے سیکولر جمہوری نظام سے لے کر ترقی پذیر معاشیات کے سارے گر اپنائے گئے لیکن نتیجہ جو کچھ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔

حضرت امام مالکؒ نے بہت خوب فرمایا تھا ’’لا یصلح اٰخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا‘‘۔ سرکاری دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے فکری اصلاح فرمائی، لوگوں کے ذہن بدلے، غلط تصورات اور عقائد کو لوگوں کے ذہنوں سے نکالا، اور پھر ایک ایک ایک کر کے دوسرے امور کی اصلاح فرمائی اور یوں ایک مکمل اسلامی زندگی وجود میں آئی۔

آج بھی آغازِ کار فکری اصلاح اور ذہنی تربیت ہی کے کام سے ہونا چاہیے، جس کے لیے سب سے پہلے تعلیم اور ابلاغ کے میدانوں میں کام کرنا ضروری ہے۔ جس طرح ہر دور کی ایک زبان، ایک عرف اور محاورہ ہوتا ہے، اسی طرح ہر دور کے علوم، فکری مسائل اور رکاوٹیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ فکری اصلاح اور ذہنی تربیت کے کام میں ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خود ہمارے فقہاء کرام نے فقیہ کے لیے فقیہ النفس اور فقیہ الاجتماع ہونا ضروری قرار دیا ہے۔

ان حالات میں تعلیم و تربیت کا نظام اور نصاب سب سے اہم مسئلہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ آج اہلِ علم کی ایسی نسل درکار ہے جو دورِ جدید کے علوم و مسائل اور معاصر افکار و حوادث پر گہری ناقدانہ بصیرت کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کے شناور ہوں۔ جس دور اور علاقہ میں اسلام کے نفاذ کی بات کی جائے گی، وہاں اس دور اور علاقہ کی ذہنی ساخت اور فکری الجھنوں کو سمجھے اور صاف کیے بغیر اسلام کی بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔

بین الاقوامی یونیورسٹی کا قیام اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس میں جدید علوم کے براہ راست تنقیدی مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم، حدیث، تفسیر، فقہ، کلام وغیرہ میں مہارت پیدا کرائی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بڑا حوصلہ افزا ہے اور اس کے ان شاء اللہ دیرپا اور انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ ایک طویل المیعاد کام ہے اور اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ اس لیے فوری اور قلیل المیعاد نوعیت کے منصوبوں کے لیے دعوۃ اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی کے نام سے دو ادارے قائم کیے گئے ہیں جو مختصر دورانیے کے بہت سے تربیتی پروگرام پیش کرتے ہیں۔ ان اداروں کے زیرانتظام متعدد خط و کتابت کورسز بھی شروع کیے گئے ہیں جن میں اب تک بیس بائیس ہزار افراد گھر بیٹھے شرکت کر چکے ہیں۔ اب ان کا دائرہ بیرونی ممالک تک پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام کے لیے جگہ جگہ علاقائی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلہ کا پہلا علاقائی مرکز ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام نوٹنگھم میں شروع ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اس کوشش کو کامیاب، مقبول اور با اثر بنائے۔

اسلام اور عصر حاضر

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter