غیر اسلامی ماحول میں اسلامی تشخص

پروفیسر ڈاکٹر سید سلیمان ندوی

(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے شعبہ اسلامیہ ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلیمان ندوی کا خطاب)


آپ حضرات نے جس زہریلے ماحول میں سکونت کا فیصلہ کیا ہے، اس میں اگر زہر کے اثرات سے بچنے کے لیے تریاق حاصل نہ کیا تو پھر آپ کے اسلامی تشخص کی موت یقینی ہے۔ آج کل تو مسلم ممالک میں بھی اسلامی ماحول کا قائم رکھنا محال ہو رہا ہے، چہ جائیکہ غیرمسلم ممالک میں۔ اس لیے اگر بحیثیت مسلمان کے یہاں رہنا ہے تو پھر اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی، اس ماحول کے مناسب تعلیم و تربیت کا نظام قائم کرنا ہو گا۔

مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اس مجلس میں نوجوان یا اسکول و کالج کے طلبا موجود نہیں ہیں۔ جن کی تعلیم و تربیت کے نظام کے سلسلہ میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہی لوگ یہاں موجود نہیں۔ جن کے مستقبل کا ہم فیصلہ کر رہے ہیں وہی لوگ جب یہاں موجود نہیں تو کس طرح اس کا نظم ہو گا۔

یہاں کی وہ نسل جو یہاں پیدا ہوئی ہے اس کی مادری زبان تو اب انگریزی ہے۔ آپ حضرات نے اگر ان سے انگریزی میں رابطہ نہیں کیا تو آپ کے اور ان کے درمیان کوئی رابطہ قائم نہ ہو گا۔ ہمارے علما اور مدرسہ کے معلمین کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی سیکھیں۔ اللہ تعالٰی نے بھی اس کا اہتمام فرمایا کہ جو رسول بھی کسی قوم کی طرف مبعوث کیا اس قوم کی زبان کا علم بھی اس رسول کو دیا تاکہ قوم کو اس کی زبان میں تعلیم و ہدایت دیں۔ یہ تو معمولی سمجھ کی بات ہے کہ جن لوگوں سے بھی گفتگو کرنی ہے ان کی زبان سیکھنا پڑے گی۔ علما اور نوجوانوں کے درمیان فاصلہ و بُعد بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان علما کی زبان نہیں سمجھتے اور علما نوجوانوں کی زبان  نہیں سمجھتے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات اور مدرسہ میں دینیات کے لیے انگریزی زبان کا اہتمام کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے اس کا سامنا کرنا ہو گا۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ایک کان میں اذان اور ایک کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اس عمل سے ماں باپ یہ ظاہر کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ اس بچہ کو مسلمان رکھنا ہے اور یہ بچہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے بعد والدین اس کا نام بھی عبد اللہ یا عبد المجید یا جلیل رکھتے ہیں۔ پھر اس عمل سے دوبارہ اس کا اظہار ہوتا ہے کہ جو نام ہم نے دیا ہے وہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہ بچہ مسلمان ہے۔ یعنی اسلامی تشخص کے اظہار کا یہ بھی ذریعہ ہے۔ غرض اسلامی تشخص کے قیام کی بنیاد پیدائش کے وقت سے ہی پڑ جاتی ہے۔ اگر بچے کو مسلمان رکھنا ہے تو اس تشخص کو قائم رکھنے کے لیے اور اس کو قوی کرنے کے لیے بچوں اور نوجوانوں کی دینی و فکری تربیت اسلامی کرنی ہو گی۔

تعلیم و تربیت کی پہلی منزل وہ ہوتی ہے جب بچے کو پورا شعور نہیں ہوتا ہے اور بچہ بے چوں و چراں والدین کی بتائی ہوئی چیزوں کو قبول کر لیتا ہے اور اس کو صحیح سمجھتا ہے۔ اگر اس عمر کے بچہ کو یہ بتایا جائے کہ گدھا دراصل گھوڑا ہے تو وہ گدھے کو گھوڑا سمجھے گا لیکن شعور کے بعد فرق سمجھ جائے گا۔ بچوں کی تعلیم کا ایک دور وہ ہوتا ہے جب والدین بچہ کے ذہن میں اسلامی تعلیمات کو تکرار کر کے بٹھاتے ہیں، جس کو انگریزی میں Indoctrination کہتے ہیں۔ اس مرحلہ کے بعد بچے کا وہ دور آتا ہے جب وہ شعور حاصل کرتا ہے اور تعلیمات کو بے سمجھے بوجھے انڈوکٹریشن کے ذریعے قبول نہیں کرتا بلکہ سوالات کرتا ہے اور علمی الجھنوں کا حل طلب کرتا ہے۔ پھر یہی بچہ آگے بڑھ کر جوانی کی حدود میں قدم رکھتا ہے اور اسکول و یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے۔ اب یہ نوجوان پہلی بار اسلامی لٹریچر کے مخالف لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے اور روزانہ غیر اسلامی ادب و تہذیب کا سامنا کرتا ہے۔ یہی وہ نازک مرحلہ ہے کہ اگر اس نوجوان کی صحیح اسلامی ذہنی و فکری تعلیم کی گئی تو راہ راست پر رہے گا ورنہ پھر ہاتھ سے نکل جائے گا۔

صرف تعلیم کافی نہیں، علم برائے علم بے کار ہے، جب تک کہ علم کے ساتھ اس کی صحیح ذہنی و فکری اسلامی تربیت نہ کی جائے۔ ذہن و فکر اور دل و نگاہ بدلنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ شاعرِ اسلام علامہ اقبال کے بقول ؎

خِرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

صحیح اسلامی ذہنی و فکری تعلیم کے لیے صرف صحیح نصاب کا ہونا کافی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بنیادی کردار معلّم و استاذ کا ہے۔ نصاب کیسا ہی کمزور و ناقص ہو، اگر استاذ کی فکر و عقیدہ صحیح ہے تو طالب علم کے ذہن و فکر کو بھی صحیح غذا پہنچے گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی دینی تعلیم کے معلمین کے لیے بھی تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا جائے تاکہ وقت و ماحول کے تقاضوں کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو سکے۔ 

اگر آپ حضرات نے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد نہیں کی تو برطانیہ میں مسلمان بحیثیت مسلمان باقی نہیں رہیں گے، اور آئندہ کا مؤرخ برطانیہ کے مسلمانوں کے لیے وہی فیصلہ دے گا جو اسپین و سسلی کے مسلمانوں کے لیے دیا۔ مسلمان باقی نہیں ہوں گے لیکن اسلام یقیناً کسی نہ کسی گوشہ میں باقی رہے گا ؎

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

نوجوانوں سے قریب ہونے کی ضرورت ہے، ان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، ان کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ایسے دلچسپ تعلیمی پروگرام بنائیں جو مسلم نوجوانوں کے ذہن و فکر کو مطمئن کر سکیں۔ اور ان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے انگریزی سیکھیں اور ذریعۂ تعلیم بھی انگریزی کو بنائیں۔ آپ چونکہ برطانیہ میں ہیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انگریزی سیکھیں، اگر آپ عرب میں ہوں تو عربی ذریعۂ اظہار و تعلیم ہو گا۔ اگر جرمنی میں ہوں گے تو جرمن ذریعۂ ربط و تعلیم ہو گی۔ اگر آپ نے غفلت برتی تو یہ مسلم نوجوان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کہیں یہاں کا حال بھی اسپین و سسلی کا نہ ہو اور اقبال جیسے شاعر کو برطانیہ کے ساحل سے گزرتے ہوئے کہیں وہ نہ کہنا پڑے جو اقبال نے سسلی کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا تھا ؎

دیکھ لے دل کھول کے اے دیدہ خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار

اسلام اور عصر حاضر

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter