حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں لندن اور برمنگھم میں تقریبات

ادارہ

لندن

برصغیر پاک و ہند کے نامور انقلابی مفکر اور تحریکِ آزادی کے  ممتاز راہنما مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں گزشتہ روز ساؤتھ آل لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰئ منصوری نے اس موقع پر بتایا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے پچاسویں سالِ وفات کے طور پر اس سال کے دوران پاکستان میں ان کی یاد میں مختلف تقریبات ہو رہی ہیں اور یہ نشست بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی، اس سے مذکورہ بالا راہنماؤں کے علاوہ مولانا قاری تصور الحق، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، مولانا قاری محمد طیب عباسی اور علی قریشی نے بھی خطاب کیا۔

مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھی کا تعلق پنجاب کے ایک غیر مسلم گھرانے سے تھا لیکن چونکہ ان کی تعلیمی اور تدریسی زندگی کا ایک بڑا حصہ سندھ میں گزرا، اور ان کی تعلیم و تربیت سندھ کے ایک عارف باللہ حضرت حافظ محمد صدیق آف بھرچونڈی شریف کے ہاتھوں میں ہوئی، اس لیے وہ سندھی کی نسبت سے مشہور ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے آج سے نصف صدی قبل ہمیں یہ سبق دیا تھا کہ

  • علماء کرام جدید علوم اور تقاضوں سے آگاہی حاصل کریں،
  • کالج کے طلبہ کو عربی گرامر کے ساتھ قرآن کریم کے ترجمہ کی تعلیم دی جائے،
  • اور اسلام کو پوری انسانیت کے مذہب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔

آج جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ان باتوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے لیکن ہم ان کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے۔

مولانا محمد عیسٰی منصوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ تحریکِ آزادی کے نامور رہنما تھے جنہوں نے جرمنی، جاپان اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ بنایا اور ساری زندگی آزادی کی جدوجہد کے لیے بسر کر دی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا سندھیؒ سادگی، قناعت اور مشقت برداشت کرنے میں اپنے دور کی سب سے ممتاز شخصیت تھے اور ایثار و قربانی میں اس دور کا کوئی دوسرا رہنما ان کا ہم پلہ نہیں ہے، انہیں دیکھ کر حضرت ابوذر غفاریؓ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ مولانا سندھیؒ کا موقف یہ تھا کہ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اس لیے اس میں دنیا کی تمام معاشرتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور وہ علماء کو تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ طرزِ معاشرت اور لباس جیسے معاملات پر سختی نہ کریں بلکہ بنیادی عقائد اور احکام کی طرف لوگوں کی توجہ دلائیں۔

مولانا قاری تصور الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے جس طرح اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ساتھ اطاعت اور وفاداری کا تعلق زندگی بھر نبھایا، اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ بڑوں کی بات ماننا اور ان کی اطاعت میں ہی برکت ہے، آج یہ جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا سندھیؒ نے غیر مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی مگر اپنے جذبہ اور شوق کے ساتھ اس مقام تک پہنچ کر سالہا سال تک مسجد حرام میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر علماء کو قرآن و حدیث کی تعلیم  دیتے رہے، یہ ان کی سچائی اور بارگاہِ خداوندی میں قبولیت کی علامت ہے۔

مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سندھیؒ کی زندگی مجاہدانہ خدمات سے بھری پڑی ہے اور یہ بھی ان کی خدمات کا حصہ ہے کہ جب برطانوی استعمار نے افغانستان پر تسلط قائم کرنا چاہا تو افغان قوم نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی راہنمائی کے باعث جنگِ استقلال میں برطانوی استعمار کا راستہ روک دینے میں کامیابی حاصل کی جس کا اعتراف اس دور کے ایک مغربی دانشور نے یہ کہہ کر کیا کہ یہ کامیابی افغانستان کی نہیں عبید اللہ سندھیؒ کی کامیابی ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۹۴ء)

برمنگھم

تحریکِ آزادیٔ ہند کے نامور رہنما اور انقلابی مفکر مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں گزشتہ روز مسجد طیبہ (واش وڈ ہیتھ، برمنگھم) میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر اختر الزمان غوری نے کی اور اس سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، مرکزی جمعیۃ علماء برطانیہ کے نائب امیر صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی، جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا قاری تصور الحق، مولانا ارشد محمود، مولانا ضیاء الحسن طیب اور مولانا محمد قاسم نے خطاب کیا۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ نئی نسل کو تحریکِ آزادی کے مجاہدین کی خدمات اور قربانیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ اسے آزادی کی حقیقی قدر و قیمت اور اس کے تقاضوں کا احساس ہو اور وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ آزادیٔ ہند اور قیامِ پاکستان کے لیے علماء کی جدوجہد کو نظرانداز کر دیا جائے تو تاریخ کے دامن میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ تحریکِ آزادی کے عظیم جرنیل ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کے مفسر اور بہت بڑے محدث تھے جن کے ہزاروں شاگرد مختلف مسلم ممالک میں قرآن و حدیث کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

دارالعلوم مدینہ بہاولپور کے مہتمم علامہ غلام مصطفٰی بہاولپوری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سندھی سادگی، ایثار اور محنت کا اعلیٰ نمونہ تھے اور آج کے علماء کرام کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر اختر الزمان غوری نے کہا کہ علماء اور نوجوان نسل کے درمیان ذہنی فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور ان فاصلوں کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان جیسے مجاہد علماء کی جدوجہد اور خدمات سے متعارف کرایا جائے، اور آج کے علماء اپنے کردار کو ان بزرگوں کی زندگیوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

صاحبزادہ امداد الحسن نعمانی نے کہا کہ ہم اپنے اکابر کے مشن اور جدوجہد کو بھول کر فکری انتشار کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مجاہدینِ آزادی کی یاد کو زندہ رکھا جائے تاکہ ہم ان کے کردار سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔

مولانا قاری تصور الحق نے کہا کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے جس طرح اپنے مشن اور پروگرام کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں وقف کر دی تھیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

(بشکریہ جنگ، لندن ۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۴ء)


اخبار و آثار

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter