اخبار و آثار

ادارہ

مولانا محمد عیسٰی منصوری کا دورۂ جنوبی افریقہ

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری ان دنوں جنوبی افریقہ کے دورہ پر ہیں۔ فورم کے سیکرٹری برائے تنظیمی امور مولانا محمد اسماعیل پٹیل بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ انہوں نے فورم کے سرپرست ڈاکٹر سید سلمان ندوی، جمعیۃ علماء افریقہ صوبہ نٹال کے صدر مولانا محمد یونس پٹیل، اور دارالعلوم زکریا کے مہتمم مولانا شبیر احمد سلوجی کے علاوہ متعدد دیگر سرکردہ علماء کرام سے بھی ملاقاتیں کیں اور فورم کے مقاصد اور پروگرام کے حوالے سے ان سے تبادلہ خیال کیا۔

مولانا منصوری نے مختلف مقامات پر دینی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت کو نسلِ انسانی کے تمام طبقوں تک پہنچانے اور اسلام کے بارے میں مختلف حلقوں میں پائے جانے والے خدشات و شبہات کے ازالہ کے لیے منظم اور سرتوڑ محنت کی ضرورت ہے اور علماء کرام کو اس کام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ مولانا منصوری نے علماء کرام، دانشوروں اور اصحابِ خیر سے اپیل کی کہ وہ ورلڈ اسلامک فورم کے مقاصد اور پروگرام کے لیے تعاون کریں اور اس جدوجہد کو منظم کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔

جمعیۃ اہلِ سنت گوجرانوالہ کا استقبالیہ

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ پاکستان میں شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کی جنگ اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن، نیویارک، جنیوا اور لندن میں لڑی جا رہی ہے اور مغربی لابیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کی آڑ میں ’’انسانی حقوق‘‘ کے ہتھیاروں کے ساتھ اسلامی نظامِ حیات پر حملہ آور ہیں۔ وہ گزشتہ شب مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہلِ سنت کی طرف سے دیے گئے استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے جو دورۂ برطانیہ سے واپسی پر ان کے اعزاز میں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت اور کمیونزم کے درمیان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ اور لابیوں کا سب سے بڑا ہدف اسلام ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسلام کو سولائزیشن کے مخالف اور انسانی حقوق سے محروم کرنے والے مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو اسلام سے متنفر کرنا اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور بے یقینی سے دوچار کرنا ہے۔ اس لیے اس محاذ پر ٹھوس فکری اور نظریاتی کام کی ضرورت ہے۔ اور ورلڈ اسلامک فورم اسی مقصد کے لیے جدوجہد کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ کی بنیاد پر اسلامی نظام کا صحیح تعارف دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا، ملیشیا، مراکش، مصر، ترکی، الجزائر، تونس اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکیں موجود ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران اپنے ملک کے عوام اور اسلام کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی حکومتوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور متعدد ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکات ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں بھی خلافتِ راشدہ اور قرآن و سنت کی بنیاد پر شرعی حقوق کی بحالی کے لیے علماء و مشائخ سرگرم عمل ہیں اور متعدد سرکردہ علماء اس جدوجہد کی وجہ سے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خلیج میں امریکہ کی نئی افواج کی آمد دراصل اس خطہ میں دینی بیداری کی تحریکات کو کچلنے اور مغربی مفادات کے لیے کام کرنے والی حکومتوں کے تحفظ کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ آنے والے حالات کا بروقت اندازہ کریں اور عالمِ اسلام کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار بننے والی دینی تحریکات کا ساتھ دیں۔

استقبالیہ تقریب کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی نے کی اور جمعیۃ اہلِ سنت کے راہنما مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے بھی خطاب کیا جبکہ علماء اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔


اخبار و آثار

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter