مغربی مسلمانوں کے مسائل ۔ علماء کیلئے چیلنج

مولانا مجاہد الاسلام قاسمی

(بھارت کے ممتاز عالمِ دین اور آل انڈیا ملّی کونسل کے سربراہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی اگست ۱۹۹۳ء میں ورلڈ اسلامک فورم کے پہلے سالانہ سیمینار میں شرکت کیلئے لندن تشریف لائے اور سیمینار کے علاوہ بھی فورم کے زیراہتمام برطانیہ کے مختلف شہروں میں اجتماعات سے خطاب کیا۔ مولانا محترم نے اپنے سہ ماہی علمی و تحقیقی مجلہ ’’بحث و نظر‘‘ کے ۱۹۹۴ء کے پہلے شمارہ میں اس سفر کے بارے میں مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا ہے۔ ادارہ)

ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر میں ۱۴ اگست کو لندن پہونچا۔ مولانا عیسٰی منصوری اور مولانا زاہد الراشدی اس فورم کے روحِ رواں ہیں۔ موضوع تھا ’’یورپی مسلمانوں کی دشواریاں اور ان کا حل‘‘ اس موضوع پر تفصیلی خطاب ہوا۔ اس سفر میں بہت سی ممتاز شخصیتوں اور اداروں کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور متعدد شہروں میں جانا ہوا، لوگوں نے بے حد مشغول رکھا لیکن یہ مشغولیت بہت مبارک تھی اور کارِ دین کے لیے تھی۔

انگلستان میں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں جو مختلف اسلامی ممالک سے آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ اصلاً یہ تلاشِ معاش میں آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ترک ہیں، عرب ہیں، ہندوستانی، پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے باشندے بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ مقامی انگریزوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے جن کی تعداد بہت کم ہے۔ مسلمانوں میں جو بھی اجتماعی جدوجہد ہے وہ ان جغرافیائی خانوں میں تقسیم ہے۔ جغرافیائی حد بندیوں سے بالاتر ’’امت اسلامیہ‘‘ کی تشکیل یہاں کا خاص مسئلہ ہے۔ بہت کم ایسے مواقع ہیں جہاں کون کہاں کا ہے اور کون سے مسلک سے تعلق رکھتا ہے، ان سوالات سے اونچا اٹھ کر صرف کلمہ کی بنیاد پر امتِ اسلامیہ کو جمع ہونے کا موقع ملے۔ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے منعقد ہونے والے سیمینار میں مسالک و فِرَق سے بالاتر ہو کر ’’مسلمانوں‘‘ کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو ایک حد تک کامیاب رہی۔

دوسری طرف ایک بڑا مسئلہ اس تہذیبی تضاد کا ہے جو مغرب میں آباد مسلمانوں کو درپیش ہے۔ مغربی تہذیب و معاشرت کی بنیادیں ہی کچھ اور ہیں۔ اور اسلامی تہذیب کی اساس کا تصور خیر و شر پر ہے جو وحیٔ الٰہی اور سنتِ نبوی پر مبنی ہے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ ہر علاقہ کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں سے کچھ رسوم و روایات اور معاشرتی اقدار کے ساتھ مغرب میں منتقل ہوئے ہیں جو مسلمانوں کی تہذیب تصور کی جاتی ہے۔ جہاں تک مسلم معاشرہ کا تعلق ہے تو اس میں خواتین، جو جلد متاثر ہونے کی فطرت رکھتی ہیں، وہ مغرب کی غیر اسلامی تہذیب سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ جو طبقہ دین دار مسلمانوں کا تصور کیا جاتا ہے ان کے اندر خواتین کی معاشرتی حالت بھی مغربی تہذیب سے زیادہ متاثر نظر آتی ہے۔

بہرحال یہاں کے علماء اور فقہاء کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے کتاب و سنت کے منصوص احکام اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو محفوظ رکھتے ہوئے دین کی ایسی تعبیر و تشریح جو مغرب کی راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اس سلسلہ میں:

  • مدارجِ احکام کا تعیّن،
  • ان احکامِ فقہیہ کی شناخت جو اپنے اپنے زمانہ، عرف، اور مقامی حالات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے ہیں اور جن میں ابدیت نہیں،
  • اس طرح کے مسائل پر موجودہ حالات اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حرج و تنگی کا دور کرنا،
  • معاشرہ کی واقعی مشکلات کا ازالہ،
  • مقاصد اور وسائل کے فرق، سدِ ذرائع کے اصول، اور استحسان و استصلاح کے قواعدِ فقہیہ کی روشنی میں غور کرنا

ان کی ذمہ داری ہے تاکہ اسلام جو ہر زمانہ اور ہر ملک کے لیے ہے، اس کی وسعت، ہمہ گیری، اور ابدیت نمایاں ہو کر سامنے آ سکے۔

عالم اسلام اور مغرب

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter