گلاسگو میں نظامِ شریعت کانفرنس

ادارہ

تحریکِ نفاذِ اسلام گلاسگو کے زیر اہتمام ۲۵ ستمبر ۱۹۹۴ء کو مسلم کمیونٹی ہال مرکزی جامع مسجد گلاسگو (برطانیہ) میں ایک روزہ نظامِ شریعت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت تحریکِ نفاذِ اسلام کے امیر مولانا مفتی مقبول احمد نے کی جبکہ مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ عنایت اللہ گجراتی، جمعیۃ علماء اسلام بہاولپور ڈویژن کے امیر علامہ غلام مصطفٰی بہاولپوری، آل جموں و کشمیر جمعیۃ علماء اسلام کے نائب امیر مولانا قاری سعید الرحمٰن تنویر، جامع مسجد خضراء گلاسگو کے خطیب مولانا قاضی منظور حسین رضوی، اور تحریکِ نفاذِ اسلام کے سیکرٹری چوہدری محمد یعقوب نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ صدر کانفرنس مولانا مفتی مقبول احمد نے قراردادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور ہوئیں اور تحریکِ نفاذِ اسلام کی مرکزی کونسل کے رکن حاجی محمد صادق نے نعتِ رسولِ مقبولؐ پیش کی۔

مولانا زاہد الراشدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل جو پہلے ہی بہت سست رفتاری کے ساتھ چل رہا تھا، اب تعطل کا شکار ہے، بلکہ کسی مزید پیشرفت کی بجائے پہلے سے کیے گئے اقدامات کو بھی ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے، جس کی ذمہ داری سب سے زیادہ دینی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو اپنے خلفشار اور شخصیات کے ٹکراؤ کے باعث اسلام دشمن لابیوں کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے وقت جو نظام ہمیں ورثے میں ملا تھا وہ قطعی طور پر ناکام ہو گیا ہے اور ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے۔ نظام کی تبدیلی کی بات ملک کے تمام سیاسی حلقے کر رہے ہیں اور اس پر تمام حلقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ناکام ہو گیا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لانے کی ضرورت ہے، لیکن نئے نظام کے بارے میں بڑی سیاسی جماعتوں کا ذہن صاف نہیں ہے اور وہ اسلام کو بطور نظام قبول کرنے کی بجائے اس سلسلہ میں راہنمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ حالانکہ صرف اور صرف اسلام ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف ہم مسلمانوں کے بلکہ پورے انسانی معاشرہ کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے سوا کسی اور نظام کا تجربہ مزید وقت ضائع کرنے اور قوم کو اور زیادہ پریشانیوں سے دوچار کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان کی  حیثیت سے قرآن و سنت کے تمام احکام قبول کرنے کے پابند ہیں، اور ہمیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں چاہیں قرآن و سنت کے احکام کو اختیار کر لیں اور جس شعبے میں نہ چاہیں انہیں ترک کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں خدائی احکام کو تقسیم کرنے والی قوموں کے لیے دنیا کی زندگی میں سخت ذلت اور رسوائی کی وعید سنائی ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنی قومی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر ہم نے بحیثیت قوم ایک عہد کر رکھا ہے کہ پاکستان کے نام پر الگ ملک ملنے کی صورت میں خدا تعالٰی اور اس کے آخری رسول کے احکام کی عملداری قائم کریں گے، لیکن پچاس برس سے ہم اس قومی عہد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ قومی عہد کی خلاف ورزی کرنے والی قوموں پر اللہ تعالٰی دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکیں قیادت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور دنیا بھر کی اسلام دشمن لابیاں پاکستان سے خوفزدہ ہیں کہ یہی ایک ملک ہے جو دنیا میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا اور اسلامی نظام کے دوبارہ نفاذ کی قیادت کر سکتا ہے، لیکن پاکستان کی دینی جماعتیں باہمی خلفشار اور گروہی بالادستی کی ترجیحات میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مسئلہ اب پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کی جنگ اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ جنیوا اور نیویارک میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کی قیادت واشنگٹن اور لندن کر رہے ہیں۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی ادارے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے خلاف فریق بن چکے  ہیں، اور وہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نفاذِ اسلام کا راستہ روک دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی دینی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے ہوش مندی کے ساتھ نفاذِ اسلام کی جنگ لڑیں۔ 

انہوں نے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں اور پاکستانیوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسلام اور پاکستان کے خلاف مغربی لابیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب اور اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے منظم محنت کریں اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ کام کریں، کیونکہ اگر نیویارک اور لندن میں رہنے والے یہودی صہیونیت اور اسرائیل کے لیے لابنگ کر سکتے ہیں تو مسلمانوں اور پاکستانیوں کو بھی اپنے دین اور وطن کے لیے لابنگ اور جدوجہد کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی راہنما علامہ عنایت اللہ گجراتی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے الگ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں میں سے کوئی بھی اسلام کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ ایک گروہ کی قیادت اسلامی قوانین کو وحشیانہ اور غیر انسانی قرار دیتی رہی ہے اور دوسرے گروہ کی قیادت مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بنیاد پرست نہ ہونے کا واضح اعلان کر چکی ہے۔ اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی اسلام کے نفاذ کے سلسلہ میں کوئی مثبت توقع نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اتحاد اور اجتہاد کی ہے کہ علماء کرام فرقہ وارانہ اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے متحد ہو جائیں اور اجتہاد کے ذریعے آج کے مسائل کا حل پیش کریں تاکہ وہ اسلامائزیشن کے سلسلہ میں قوم کی صحیح راہنمائی کر سکیں۔ حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں، ہمیں بہرحال نفاذِ اسلام کی جنگ لڑنی ہے اور دینی جماعتوں کو اس کے لیے شخصیات کے ٹکراؤ کے دائرہ سے نکل کر مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کرنا ہو گا۔

مولانا سعید الرحمٰن تنویر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلام نافذ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان میں لاقانونیت، غنڈہ گردی اور بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوا ہے وہاں اس سے آزادیٔ کشمیر کی جنگ کو بھی نقصان پہنچا ہے اور پاکستان کی صورتحال کو دیکھ کر مجاہدینِ کشمیر کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتیں آج بھی متحد ہو جائیں تو اسلامی نظام نافذ ہو سکتا ہے۔

کانفرنس کی قراردادیں

مکمل نفاذِ اسلام کا مطالبہ

تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان (گلاسگو) کے زیراہتمام نظامِ شریعت کانفرنس کا یہ اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ میں مسلسل تاخیر پر سخت تشویش، اضطراب اور افسوس کا اظہار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ نفاذِ اسلام کے تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث نہ صرف قیامِ پاکستان کا مقصد ابھی تک ادھورا ہے بلکہ قومی زندگی فکری انتشار اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں بدعنوانی، نا اہلیت، رشوت، اور بددیانتی قومی زندگی کے ہر شعبہ میں تیزی کے ساتھ سرایت کرتی جا رہی ہے اور وطنِ عزیز جرائم اور لاقانونیت کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔

یہ اجتماع اپنے اس یقین کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی اور اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کے بغیر قومی زندگی کو موجودہ خلفشار اور افراتفری کی دلدل سے نجات دلانا ممکن نہیں ہے۔ 

یہ اجتماع نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کے طرزعمل پر قطعی عدمِ اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور دینی قوتوں کے باہمی خلفشار کو نفاذِ اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کے سلسلہ میں اپنے نیم دلانہ طرز عمل اور گومگو کی پالیسی پر نظرثانی کریں اور قیامِ پاکستان کے حقیقی مقصد کی طرف عملی اور سنجیدہ پیشرفت کا اہتمام کریں۔

قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی سے اپیل

یہ اجلاس دستورِ پاکستان بالخصوص آٹھویں آئینی ترمیم کے بل پر نظرثانی کے لیے قومی اسمبلی کی قائم کردہ آئینی کمیٹی کے حوالہ سے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ آئین پر نظرثانی کا مقصد آئین کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانا ہے تاکہ پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے کے لیے مغربی قوتوں کے تقاضوں کی تکمیل کی جا سکے۔

یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ اگر دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ قیامِ پاکستان کے نظریاتی مقاصد کے ساتھ بے وفائی ہو گی، اس لیے قومی اسمبلی کی آئینی کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اسلامیانِ پاکستان کے دینی جذبات کو ملحوظ رکھے اور نظرثانی کے کام کے دوران اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کی بجائے دستور کی ان دفعات میں ترامیم تجویز کرے جو اسلام کے عملی نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں، تاکہ دستوری تضادات کو دور کر کے پاکستان میں قرآن و سنت کی عملداری کی راہ ہموار کی جا سکے۔

وحدتِ پاکستان کے خلاف سازشیں

یہ اجلاس وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت کے خلاف مبینہ سازشوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے جن میں

  • کراچی کو فری پورٹ بنانے کا منصوبہ،
  • کشمیر کو خودمختار حیثیت دے کر امریکہ کا فوجی اڈہ بنانے کی تجویز،
  • اور شمالی علاقہ جات کو کشمیر سے الگ کر کے ایک جداگانہ اسماعیلی ریاست بنانے کے پروگرام شامل ہیں۔

یہ اجلاس پاکستان کی حکومت، حزبِ اختلاف اور دینی و سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وطنِ عزیز کی وحدت اور استحکام کے خلاف عالمی سطح پر سامنے آنے والی ان سازشوں کے بارے میں ملکی رائے عامہ کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے سدباب کے لیے مشترکہ طور پر مؤثر لائحۂ عمل اختیار کیا جائے۔

مجاہدینِ کشمیر کے ساتھ یکجہتی

یہ اجلاس کشمیر کی آزادی کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ مرتب کرنے والے مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے موجودہ سیاسی خلفشار کو مجاہدینِ کشمیر کی جدوجہد کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی اور سیاسی امداد کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

قاہرہ کانفرنس کی تجاویز پر اظہارِ افسوس

یہ اجلاس اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی طرف سے

  • شادی کے بغیر جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی،
  • تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ،
  • اسقاطِ حمل کے قانونی تحفظ، اور
  • مانع حمل اشیاء کی کھلے بندوں فراہمی

کی تجاویز کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہیں مسلم معاشرت کی مذہبی بنیادوں پر براہ راست حملہ سمجھتا ہے اور حکومتِ پاکستان سمیت تمام مسلم حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تجاویز کو مسترد کرنے کا اعلان کریں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل

یہ اجلاس اسلام اور پاکستان کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی لابیوں کے منفی پراپیگنڈا پر افسوس کا اظہار کرتا ہے، اور پاکستان کے داخلی اور نظریاتی معاملات کو انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی فلسفہ کے سانچے میں ڈھالنے کی مہم کو ملتِ اسلامیہ کے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتا ہے۔ جس کی واضح مثال توہینِ رسالت کی سزا کے قانون، قادیانیت آرڈیننس، اور اسلامی قوانین کے خلاف مغربی لابیوں کا طرزعمل ہے۔

یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام اور وطن عزیز پاکستان کا دفاع مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں اس کے لیے منظم فکری اور نظریاتی جدوجہد کرنی چاہیے۔

نیز یہ اجلاس مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو اسلام اور اسلامی معاشرت کے ساتھ وابستہ رکھنے کی فکر کریں اور نوجوانوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ مسلمانوں کی نئی پود کے مذہبی تشخص کا تحفظ ہو سکے۔

تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان کی جدوجہد

نظامِ شریعت کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ تحریکِ نفاذِ اسلام پاکستان گلاسگو اپنی جدوجہد کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرتی ہے۔ یہ پاکستان میں نفاذِ اسلام اور بیرون ملک اسلام اور پاکستان کے دفاع کی نظریاتی اور فکری جدوجہد ہو گی جو فرقہ وارانہ کشمکش، انتخابی سیاست اور حکومتی لابیوں سے بالاتر رہتے ہوئے شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے جاری رہے گی۔ یہ اجلاس ان مقاصد سے اتفاق رکھنے والے تمام مسلمانوں سے اس مقدس مشن میں دامے، قدمے، سخنے ہر طرح کے تعاون کی اپیل کرتا ہے۔

اخبار و آثار

(نومبر ۱۹۹۴ء)

نومبر ۱۹۹۴ء

جلد ۵ ۔ شمارہ ۱۱

تلاش

Flag Counter