عالیجاہ محمد کون تھا؟
سوال: امریکہ کے حوالے سے اکثر عالیجاہ محمد کا نام سننے میں آتا ہے۔ یہ صاحب کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں؟ (حافظ عطاء المجید، کبیر والا)
جواب: عالیجاہ محمد سیاہ فام امریکیوں کا ایک لیڈر تھا جس نے اپنے آپ کو مسلم راہنما کی حیثیت سے متعارف کرایا اور سفید فام امریکیوں کے خلاف سیاہ فام طبقہ کی روایتی نفرت کو بھڑکا کر اپنے گرد ایک اچھی خاصی جماعت اکٹھی کر لی، لیکن اس کے عقائد اسلامی نہیں تھے بلکہ اس نے اسلام کا لیبل چسپاں کر کے اپنے خودساختہ عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ۱۹۳۵ء میں اس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح پہلے ہلکے پھلکے دعاوی کے ساتھ لوگوں کا مانوس کیا اور پھر ۱۹۵۰ء میں نبوت و رسالت کا کھلا دعوٰی کر دیا۔
اس نے اسلام کے بنیادی احکام کو بدل دیا۔ تمام سفید چیزوں کو حرام قرار دیا۔ نماز کے بارے میں کہا کہ نماز کھڑے ہو کر دعا کرنے کا نام ہے۔ روزے دسمبر میں رکھنے کا حکم دیا۔ حج منسوخ کر کے شکاگو میں اپنے ہیڈکوارٹر پر آنے کو حج کا قائم مقام قرار دیا۔ اور عمومی چندہ کو زکٰوۃ کا نام دے دیا۔
عالیجاہ محمد نے سفید فام لوگوں کے خلاف اپنے پیروکاروں کا یہ ذہن بنایا کہ سفید فام شیطان کی اولاد ہیں اور کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام سیاہ فام تھے اور ان کی ساری اولاد سیاہ فام ہے۔
عالیجاہ محمد کے ایک قریبی ساتھی اور دست راست مالکم ایکس نے سب سے پہلے اس کے جھوٹے مذہب سے بغاوت کی اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد اختیار کرنے کا اعلان کیا مگر ۱۹۶۵ء میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ مالکم ایکس اب مالکم شہباز شہیدؒ کے نام سے متعارف ہیں اور ان کی یاد میں نیویارک میں ’’مالکم شہباز مسجد‘‘ تعمیر کی گئی ہے جو تبلیغِ اسلام کا معروف مرکز ہے۔
مکہ بازی کے سابق عالمی چیمپئن محمد علی کلے نے بھی ابتداء میں جب قبول اسلام کا اعلان کیا تو وہ عالیجاہ محمد کے پیروکار تھے لیکن جلد ہی مالکم شہباز شہیدؒ کے گروپ میں شامل ہو گئے اور اب وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔
عالیجاہ محمد کی موت کے بعد اس کے فرزند وارث دین محمد بھی باپ کے عقائد سے منحرف ہو چکے ہیں اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ایک بڑے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں، جبکہ مالکم شہباز شہیدؒ کا ایک قریبی ساتھی لوئیس فرخان اسلام کے صحیح عقائد سے (معاذ اللہ) منحرف ہو کر اب عالیجاہ محمد کے گمراہ گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔
اسلامی نظام میں نمائندگی کا تصور کیا ہے؟
سوال: کیا اسلامی نظام میں حکومت اور عوام کے درمیان نمائندوں کے کسی طبقے کا وجود ہے؟ اور اسلام میں اس کا تصور کیا ہے؟ (حافظ عبید اللہ عامر، گوجرانوالہ)
جواب: کسی مسئلہ پر عوام کی رائے کو صحیح طور پر معلوم کرنے کے لیے نمائندگی کا تصور اسلام میں موجود ہے۔ غزوۂ حنین کے بعد غنیمت کا مال تقسیم ہوا اور مفتوحین کی طرف سے اپنے قیدی واپس لینے کے لیے ایک وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تو چونکہ قیدی مجاہدین میں تقسیم ہو چکے تھے اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کی واپسی کے لیے مجاہدین کی رضا اور رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مجاہدین کو جمع کیا جن کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی، ان سب کے سامنے مسئلہ پیش کر کے ان کی رائے طلب کی، سب نے اجتماعی آواز سے جواب دیا کہ ہمیں قیدیوں کی واپسی بخوشی منظور ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتماعی جواب پر اکتفاء نہیں کیا اور ارشاد فرمایا کہ
انا لا ندری من اذن منکم فی ذٰلک ومن لم یاذن فارجعوا حتٰی یرفع الینا عرفاءکم امرکم۔ (بخاری ج ۲ ص ۶۱۸)
’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں۔ اس لیے تم سب (اپنے خیموں میں) واپس جاؤ حتٰی کہ تمہارے عرفاء تمہارا معاملہ ہمارے سامنے پیش کریں۔‘‘
چنانچہ مجاہدین اپنے خیموں میں چلے گئے اور عرفاء نے ان سے الگ الگ رائے معلوم کر کے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک اسے پہنچایا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کی واپسی کا فیصلہ کیا۔
عرفاء ’’عریف‘‘ کی جمع ہے اور عریف عرب معاشرے میں ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو عوام کے مسائل سرداروں اور حکمرانوں تک پہنچاتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس طبقہ کو اپنے فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے بلکہ ایک موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
ان العرافۃ حق ولابد للناس من عرفاء رواہ ابوداؤد (مشکٰوۃ ص ۳۳۱)
’’عرافہ حق ہے اور لوگوں کے لیے عرفاء کا وجود ضروری ہے۔‘‘
اس لیے اسلامی نظام میں حکومت اور عوام کے درمیان ایک ایسے طبقے کے وجود اور اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے جو عام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مسائل اور اجتماعی امور پر ان کی رائے حکومت تک پہنچا سکے۔
جمعیۃ العلماء ہند کب وجود میں آئی؟
سوال: جمعیۃ العلماء ہند کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کے بنیادی مقاصد کیا تھے؟ (عبد الوحید بٹ، گکھڑ ضلع گوجرانوالہ)
جواب: ۲۲ نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں متحدہ ہندوستان کے سرکردہ علماء کرام کا ایک اجلاس مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں ’’جمعیۃ العلماء ہند‘‘ کے نام سے علماء کی ایک مستقل جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا مفتی کفایت اللہؒ کو جمعیۃ کا پہلا صدر اور مولانا احمد سعیدؒ کو ناظم منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد جمعیۃ کا پہلا اجلاس عام ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ء کو امرتسر میں ہوا جس میں اس کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط کی منظوری دی گئی۔ اور اغراض و مقاصد میں مسلمانانِ ہند کی دینی و سیاسی معاملات میں راہنمائی کے ساتھ ساتھ آزادیٔ وطن کو جمعیۃ کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔
بنیاد پرست مسلمان کون ہیں؟
سوال: آج کل عام طور پر بعض راہنماؤں کے بیانات میں بنیاد پرست مسلمانوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اس سے ان کی مراد کون لوگ ہیں؟ (مسعود احمد، لاہور)
جواب: ایک عرصہ سے عالمی اسلام دشمن لابیاں اس منظم کوشش میں مصروف ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے بنیادی عقائد و احکام سے ہٹا کر جدید افکار و نظریات کے ساتھ مفاہمت کے لیے تیار کیا جائے اور مسلمانوں کے اندر ایک ایسی لابی منظم کی جائے جو جدید تعبیر و تشریح اور اجتہاد مطلق کے نام پر قرآن و سنت کے احکام کو نئے اور خودساختہ معنی پہنا سکے۔ مگر راسخ الاعتقاد مسلمانوں اور علماء کے سامنے ان کا بس نہیں چل رہا کیونکہ علماء کرام اس موقف پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح وہی قابل قبول ہے جو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امتِ مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، اس سے ہٹ کر کی جانے والی کوئی بھی تعبیر سراسر الحاد اور گمراہی ہو گی۔
ان علماء اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو جو قرآن و سنت کی چودہ سو سالہ اجماعی تعبیر و تشریح پر سختی کے ساتھ قائم ہیں، اسلام دشمن لابیوں کی طرف سے مختلف خطابات و القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس سے قبل انہیں دقیانوسی اور رجعت پسند کہا جاتا تھا اور اب ان کے لیے ’’بنیاد پرست‘‘ کی نئی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔