مذہبی لحاظ سے سطحِ ارض پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہو چکے ہیں، اب بھی موجود ہیں اور تا قیامت باقی رہیں گے لیکن فتنۂ انکارِ حدیث اپنی نوعیت کا واحد فتنہ ہے۔ باقی فتنوں سے تو شجرِ اسلام کے برگ و بار کو ہی نقصان پہنچتا ہے لیکن اس فتنہ سے شجرِ اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور اسلام کا کوئی بدیہی سے بدیہی مسئلہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس عظیم فتنہ کے دست برد سے عقائد و اعمال، اخلاق و معاملات، معیشت و معاشرت اور دنیا و آخرت کا کوئی اہم مسئلہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا حتٰی کہ قرآن کریم کی تفسیر اور تشریح بھی کچھ کی کچھ ہو کر رہ گئی ہے اور اس فتنہ نے اسلام کی بساطِ کن الٹ کر رکھ دی ہے جس سے اسلام کا نقشہ ہی بدل چکا ہے، سچ ہے
ستم کیشی کو تیری کوئی پہنچا ہے نہ پہنچے گا
اگرچہ ہو چکے ہیں تجھ سے پہلے فتنہ گر لاکھوں
نزولِ وحی کے زمانہ سے لے کر تقریباً پہلی صدی تک صحیح احادیث کو بغیر کسی تفصیل کے متفقہ طور پر حجت سمجھا جاتا تھا اور حسبِ مراتب عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات وغیرہا میں قرآن کریم کے بعد احادیثِ صحیحہ سے بلاچون چرا استدلال و احتجاج درست سمجھا جاتا تھا اور احادیث کو دینی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔ حتٰی کہ بعض فتنہ گھر اور خواہش زدہ فرقے ظاہر ہوئے جن میں پیش پیش معتزلہ تھے جن کا پیشواءِ اول واصل بن عطاء المتولد ۸۰ھ تھا جن کے نزدیک دلائل و براہین کی مد میں ایک سب سے بڑا معیار و مقیاس عقل بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے راحتِ قبر و عذابِ قبر، حشر نشر کے بعض حقائق، رؤیت باری تعالیٰ، شفاعت، صراط و میزان اور جنت و دوزخ وغیرہ وغیرہ کے بہت سے حقائقِ ثابتہ اور کیفیات کو اپنی عقلِ نارسا کی زنجیروں میں جکڑ کر اپنی خام عقل کی ترازو سے تولنا چاہا اور راہِ راست سے بھٹک کر ورطۂ ضلالت میں اوندھے منہ گر پڑے اور اس سلسلہ میں داروشدہ تمام احادیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دے کر یوں گلوخلاصی کی ناکام اور بے جا سعی کی، اور جن کا آسانی سے انکار نہ کر سکے ان کی نہایت ہی لچر اور رکیک تاویلات شروع کر دیں تاآنکہ بعض قرآنی حقائق اور نصوصِ قطعیہ بھی ان کی دوراَزکار اور لاطائلِ تاویلات سے محفوظ نہ رہ سکے جو بزبان حال ان کی اس تحریف کی وجہ سے ان پر لعنت کا تحفہ بھیجتے ہیں۔
معتزلہ اور ان کے بہی خواہوں کے علاوہ باقی سب اسلامی (یا منسوب بہ اسلام) فرقے صحیح احادیث کو برابر حجت تسلیم کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مشہور محدث حافظ ابن حزمؒ (المتوفی ۴۵۶ھ) تحریر فرماتے ہیں کہ اہل سنت، خوارج، شیعہ اور قدریہ تمام فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو جو ثقہ راویوں سے منقول ہوں، برابر حجت تسلیم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پہلی صدی کے بعد متکلمین معتزلہ آئے اور انہوں نے اس اجماع کے خلاف کیا (الاحکام ج ۱ ص ۱۱۴ لابن حزمؒ)۔ اس کے بعد یہ مہلک فتنہ رفتہ رفتہ اپنا نطاق اور حلقہ وسیع کرتا چلا گیا اور بہت سے بندگانِ خواہشات و ہواء اس فتنہ کے دام ہم رنگ زمین میں الجھ کر رہ گئے اور یوں اپنی عاقبت برباد کر دی۔ نعوذ باللہ من سوء العاقبۃ۔
کتابی شکل میں اس فتنہ کی خبر سب سے پہلے مقتداء اہلسنت حضرت امام شافعیؒ (المتوفی ۲۰۴ھ) نے اپنے رسالہ اصولِ فقہ میں لی ہے جو ان کی مشہور کتاب ’’الاُم‘ کی ساتویں جلد کے ساتھ منضم اور بہت مفید اور مدلدل رسالہ ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ (المتوفی ۲۴۱ھ) نے بھی اطاعتِ رسول کے اثبات میں ایک مستقل کتاب لکھی اور قرآن و حدیث سے مخالفین کی خوب معقول تردید کی ہے، جس کا کچھ حصہ حافظ ابن القیمؒ (المتوفی ۷۵۱ھ) نے اپنی تالیف اعلام الموقعین (جلد ۲ ص ۲۱۷) میں نقل کیا ہے۔
علماء اہل مغرب میں سے شیخ الاسلام ابوعمر ابن عبد البرؒ (المتوفی ۴۶۳ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں اس فرقے کے بعض باطل اور حیاسوز نظریات کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیری ہیں۔ ایسے ہی بعض بدباطن اور رایفین سے امام حاکمؒ (المتوفی ۴۰۵ھ) کو بھی سابقہ پڑا تھا جن کی شکایت انہوں نے ’’مستدرک‘‘ ج ۱ ص ۳ میں کی ہے کہ وہ رواتِ حدیث پر سبّ و شتم کرتے اور ان کو موردِ طعن قرار دیتے ہیں۔ اور علامہ ابن حزمؒ نے ’’الاحکام‘‘ میں اس باطل گروہ کے کاسد خیالات کے بخیئے ادھیڑے ہیں اور ٹھوس عقلی اور نقلی دلائل سے ان کا خوب رد کیا ہے۔ اور امام غزالیؒ (المتوفی ۵۰۵ھ) نے اپنی معروف تصنیف ’’المستصفٰی‘‘ میں اس گمراہ طائفے کے مزعومہ دلائل کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے اور عقلی دلائل کے بے پناہ سیلاب میں اس گمراہ کن ٹولہ کے خودساختہ براہین کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ہے۔ حافظ محمد بن ابراہیم وزیریمانیؒ المتوفی (۸۴۰ھ) نے اس حزب باطل کی تردید میں اپنی انوکھی تالیف ’’المروض الباسم‘‘ میں کافی وزنی اور ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں۔ اور حضرت امام سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ) نے بھی اس ناپاک فرقہ کی ’’مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ‘‘ میں خوب تردید کی ہے اور دینِ قویم کی حفاظت کا حق ادا کیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی متعدد علمائے حق نے حدیث کے حجیّت ہونے اور نہ ہونے کے مثبت اور منفی پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس باطل اور گمراہ کن نظریہ کی کہ ’’حدیث حجیّت نہیں ہے‘‘ اچھی خاصی تردید کی ہے اور معقول و مبنی بر انصاف دلائل کے ساتھ حق اور اہلِ حق کی طرف سے مدافعت کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں باطل کے مقابلہ میں حق تعالیٰ نے کچھ ایسے نفوسِ قدسیہ پیدا کئے ہیں جن کی علمی و عملی، اخلاقی و روحانی زندگی حق پسند لوگوں کے لیے مشعلِ راہ اور مخالفین کے باطل خیالات کے لیے سدّسکندری بنتی رہی ہے جن کے قلموں اور زبانوں نے تلواروں اور نیزوں کی طرح باطل پرستوں کے پیش کردہ دلائل کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے اور قبائے باطل کے ایسے بخیئے ادھیڑے ہیں کہ تمام ’’رفوگر‘‘ مل کر بھی ان کو جوڑنے سے رہے۔ سچ ہے ’’لِکُلِّ فِرْعَوْنٍ مُوْسٰی‘‘۔ علامہ اقبال کی زبان سے
شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیر اللہ کی
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو