بعد الحمد والصلٰوۃ۔
بزرگانِ محترم! قرآن شریف کی آل عمران کی تین آیتیں اس وقت میں نے تلاوت کیں۔ اس میں حق تعالیٰ شانہ نے حضرت مریم علیہا السلام کا ایک واقعہ ذکر فرمایا جس میں ملائکہ علیہم السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کو خطاب فرمایا ہے۔ اس جلسہ کے منعقد کرنے کی غرض و غایت چونکہ عورتوں کو خطاب ہے اس لیے میں نے اس آیت کو اختیار کیا۔
واقعہ یہ ہے کہ عورتوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مردوں کے ہیں بلکہ بعض امور میں مردوں سے عورتوں کے حقوق زیادہ ہیں، اس لیے کہ بچوں کی تربیت میں سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے، اسی سے بچہ تربیت پاتا ہے، سب سے پہلے جو سیکھتا ہے ماں سے سیکھتا ہے، باپ کی تربیت کا زمانہ شعور کے بعد آتا ہے، لیکن ہوش سنبھالتے ہی بلکہ بے ہوشی کے زمانے میں بھی ماں ہی اس کی تربیت کرتی ہے۔ گویا اس کی تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔ اگر ماں کی گود علم، نیکی، تقوٰی اور صلاحیتوں سے بھری ہوئی ہے وہی اثر بچے میں آئے گا، اور اگر خدانخواستہ ماں کی گود ہی ان نعمتوں سے خالی ہے تو وہ بچہ بھی خالی رہ جائے گا۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تاثر یامی رود دیوار کج
کسی فارسی کے شاعر نے کہا ہے کہ جب عمارت کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے تو اخیر تک عمارت ٹیڑھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ شروع کی اینٹ اگر سیدھی رکھ دی جائے تو اخیر تک عمارت سیدھی چلتی ہے۔ جس چیز کا آغاز اور ابتداء درست ہو جائے تو اس کی انتہا بھی درست ہو جاتی ہے۔ اس واسطے عورتوں کا مردوں سے زیادہ حق ہے اور ہم اسی حق کو زیادہ پامال کر رہے ہیں۔ مرد تو ہر جگہ موجود ہیں اور عورتوں کو سنانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر عورتیں مردوں کے حکم سے آئی ہیں تو مردوں کا شکریہ، اور اگر ازخود آئی ہیں تو پھر ان کے دینی جذبہ کی داد دینی چاہیئے کہ ان کے اندر بھی ازخود ایک جوش و جذبہ ہے کہ دینی باتیں سیکھیں اور معلوم کریں۔ بہرحال سب سے زیادہ خوشی یہ ہے کہ ان کے اندر دین کی طلب ہے۔ اگر خود پیدا ہوئی تو وہ شکرئیے کی مستحق ہیں اور اگر طلب پیدا کی گئی ہے تو اس طلب کے پیدا کرنے والے بھی اور جنہوں نے اس کو قبول کیا وہ بھی شکرئیے کی مستحق ہیں۔ اس واسطے میں نے کہا مردوں سے عورتوں کا حق زیادہ ہے اس لیے کہ زندگی کی ابتداء انہیں سے ہوتی ہے۔
عورتوں کی قوتِ عقل
اس وجہ سے بھی کہ بچوں کا قصہ بعد میں آتا ہے، خود خاوند بھی عورت سے متاثر ہوتا ہے۔ عورتیں جب کسی چیز کو منوانا چاہتی ہیں تو منوا کے رہتی ہیں۔ وہ ضد کریں، ہٹ دھرمی کریں یا کچھ کریں خاوند کو مجبور کر دیتی ہیں۔ اس میں ایک پہلو جہاں عورتوں کے لیے عمدہ نکلتا ہے وہاں ایک بات کمزوری کی بھی نکلتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما رایت من ناقصات عقل و دین اذھب للب الرجل الحازم من احدکن۔
(یعنی) یہ عورتیں ہیں تو ناقص العقل، ان کی عقل کم ہے، مگر بڑے بڑے کامل العقل مردوں کی عقلیں اچک کر لے جاتی ہیں، اچھے خاصے عقل مند بھی ان کے سامنے پاگل بن جاتے ہیں۔ جب وہ چاہتی ہیں کہ یہ ہو تو مرد ان کے سامنے مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں اور یہاں آپ کے ہاں بھی ایسا ہی ہو گا اس لیے کہ عورتوں کا مزاج سب جگہ ایک ہی ہے اور مردوں کی ذہنیت بھی ایک ہی ہے، البتہ تمدن کا فرق ہے۔ شادی بیاہ وغیرہ میں جو اکثر رسمیں ہوتی ہیں وہ رسمیں تباہ کن ہوتی ہیں۔ وہ دولت اور دین کو بھی برباد کرتی ہیں۔ جب مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ بھئی! کیوں ان خرافات میں پڑے ہوئے ہو؟ تم سمجھ دار اور عقل مند آدمی ہو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دولت اور دین بھی برباد ہو رہا ہے تو کیوں ایسا کرتے ہو؟ کہ جی عورتیں نہیں مانتیں کیا کریں۔ گویا عورتیں حکّام ہیں، وہاں سے آرڈر جاری ہوتا ہے اور یہ غلام و رعایا ہیں ان کا فرض ہے کہ اطاعت کریں۔
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہیں تو یہ ناقص العقل مگر اچھے بڑے عقل والوں کی عقلیں اچک کر لے جاتی ہیں اور انہیں بے وقوف بنا دیتی ہیں۔ تو جب عورت میں یہ قوت موجود ہے کہ عقل مند کو بھی بے وقوف بنا دیتی ہے اور اچھے بھلے مرد کو مجبور بنا دے، اگر وہ کسی اچھی چیز کے لیے مرد کو مجبور کرے گی تو مرد کیوں نہیں مجبور ہو گا؟
اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے یوں کہہ دے کہ جناب سیدھی بات ہے آپ کا حکم واجب الاطاعت ہے، آپ خدا کی طرف سے میرے مربّی سب کچھ ہیں لیکن آپ نماز نہیں پڑھتے، جب تک آپ نماز نہیں پڑھیں گے میں بھی آپ کے حکم کی پابند نہیں ہوں۔ وہ جھک مارے گا ضرور پڑھے گا چاہے خدا کی نہ پڑھے بیوی کی ضرور پڑھے گا۔ جب عورتیں ضد کر کے دنیا کی بات منوا لیتی ہیں کوئی وجہ نہیں کہ دین کی بات نہ منوا لیں۔ عورتوں کی بدولت بہت سے خاندانوں کی اصلاح ہو گئی ہے، عورتوں نے ضد کی، مرد مجبور ہو گئے۔ ہمارے ہاں بعض خاندان ایسے تھے جو کچھ خرافات میں مبتلا تھے، اس واسطے کہ گھر میں دولت تھی، کہیں سینما کہیں تھیٹر وغیرہ، نماز کا تو کہیں سوال ہی نہیں، اتفاق سے عورت نہایت صالح اور دیندار گھرانے کی آگئی۔ چند دن اس نے صبر کیا، بعد میں اس نے کہا صاحب! یہ نبھاؤ بڑا مشکل ہے اس واسطے کہ رمضان آئے گا تو میں روزے سے رہوں گی اور تم بیٹھ کے کھانا کھاؤ گے اور پکانے پر مجھے مجبور کرو گے، میں پکانے کے لیے مجبور نہیں ہوں جہاں چاہے پکواؤ اس گھر میں یہ نہیں ہو گا۔ اس واسطے کہ اس بد دینی میں تمہاری اعانت کر سکوں یہ خود گناہ کی بات ہے۔ یا تو اپنا بندوبست کرو یا پھر ان خرافات کو چھوڑ دو۔ آخر مرد مجبور ہوئے، نماز روزے کے پابند ہو گئے اور ان میں بہت سی اچھی خصلتیں پیدا ہو گئیں۔ اس لیے سب سے بڑا مربّی تو عورت ہے جو گھر کے اندر موجود ہے اس کی تربیت سے آدمی کام لے۔
اس لیے اپنی بہنوں سے یہ خطاب ہے کہ جب وہ ایسا دباؤ ڈال سکتی ہیں کہ مرد ان کے سامنے مجبور ہیں تو جہاں دنیا کے لیے زیور، کپڑے لانے کے لیے، برتن لانے کے لیے، گھر بنانے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں، اگر دیندار گھر بنانے کے لیے دباؤ ڈالیں تو یقیناً وہ دیندار بنیں اور وہ اپنے خاوند کے لیے اصلاح کا ذریعہ بن جائیں گی۔ اس لیے ان کے دل میں نیکی، تقوٰی اور بھلائی کا جذبہ ہونا چاہیئے تاکہ خاوند پر بھی اس کا اثر پڑے۔ تو ایک عورت بچوں پر، خاوند پر اور کنبہ والوں پر بھی بہتر اثر ڈال سکتی ہے۔
عموماً سننے میں آیا ہے کہ خاندانوں میں جو جھگڑے اور تفریقیں پیدا ہوتی ہیں عورتوں کی بدولت پیدا ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو اتار چڑھاؤ کر کے بدظن بنا دیتی ہیں۔ دو حقیقی بھائیوں میں لڑائی پیدا کر دیتی ہیں حتٰی کہ خاندانوں میں نزاع اور جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر عورت نیک نہاد اور نیک طینت ہے تو بڑے بڑے جھگڑے ختم کرا دیتی ہے، خاندان مل جاتے ہیں۔ اور اپنی اس طاقت کو نیکی میں کیوں نہ خرچ کیا جائے برائی اور بدی میں کیوں خرچ کیا جائے؟ جب اللہ نے ایک طاقت دی ہے تو اس کو صحیح راستے پر خرچ کیا جائے۔
اس واسطے میں نے یہ آیت تلاوت کی تھی، اس میں خصوصیت سے عورتوں ہی کے واقعات کا ذکر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ ترین بی بی کا ذکر فرمایا ہے۔ اور اس وجہ سے بھی اس آیت کے پڑھنے کی نوبت آئی کہ عورتوں کو یہ شکایت پیدا نہ ہو، جب خطاب کیا جاتا ہے مردوں ہی کو کیا جاتا ہے، قرآن مجید میں بھی اللہ نے مردوں ہی کو خطاب کیا۔ تاکہ یہ غلط فہمی ان کی رفع ہو جائے، جیسے مردوں کو خطاب کیا ہے عورتوں کو بھی کیا ہے، کہیں مرد و عورت دونوں کو ملا کر خطاب کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ جو دین کی ترقی مرد کے لیے ہے وہی عورت کے لیے ہے، جیسے فرمایا:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآءِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَالذَّاکِرٰتِ اَعَدَّ اللہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (احزاب ع ۵ پ ۲۲)
’’مسلم مرد مسلم عورت، مومن مرد اور مومن عورت، عبادت گزار مرد اور عبادت گزار عورت، سچا مرد اور سچی عورت، صدقہ دینے والا مرد اور صدقہ دینے والی عورت، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورت، حیا کا حفاظت کرنے والا مرد اور حیا کی حفاظت کرنے والی عورت، اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والا مرد اور کثرت سے ذکر کرنے والی عورت، ان کے لیے وعدہ دیا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے مغفرت، اجر عظیم اور آخرت کے درجات تیار کیے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ دین کے راستہ پر چل کر جتنی ترقی مرد کر سکتا ہے وہی بعینہٖ عورت بھی کر سکتی ہے۔ اگر ایک مرد ولی کامل بن سکتا ہے تو عورت بھی ولی کامل بن سکتی ہے۔ اسلام میں جیسے مردوں میں اولیاء اللہ کی کمی نہیں ہے ویسے ہی عورتوں میں بھی اولیاء اللہ کی کمی نہیں ہے۔ اس بارے میں بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں ان عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ولایت کے مقام کو پہنچی ہیں اور ولیٔ کامل گزری ہیں۔ ایک دو نہیں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ کہیں حضرت رابعہ بصریہؒ، کہیں رابعہ عدویہؒ، اور پھر صحابیاتؓ جتنی ہیں وہ تو ساری اولیائے کاملین میں سے ہیں۔ تو تابعین، تبع تابعین اور بعد کے لوگوں میں بڑی بڑی کامل عورتیں پیدا ہوئی ہیں۔ پھر ہر فن کے اندر پیدا ہوئی ہیں۔ محدث، مفسر، ادیب، شاعر اور مؤرخ بھی گزری ہیں۔ ان کی تصنیفات ہیں اور ہزاروں مرد ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر عورت دینی ترقی نہ کر سکتی تو یہ عورتیں کہاں سے پیدا ہو گئیں؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ پاک ہیں ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری وحی کا آدھا علم میرے سارے صحابہؓ سے حاصل کرو اور آدھا علم تنہا عائشہؓ سے حاصل کرو۔ گویا عائشہ صدیقہؓ اتنی زبردست عالم ہیں۔ گویا نبوت کا آدھا علم صدیقہؓ کے پاس ہے، آدھا علم سارے صحابہؓ کے پاس ہے۔ صدیقہ عائشہؓ ایک عورت ہی تو ہے۔ تو عورت کو اللہ نے وہ رتبہ دیا کہ ہزارہا صحابہؓ ایک طرف اور ایک عورت ایک طرف۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب عورت ترقی کرنے پر آتی ہے اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ بہت سے مرد بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تو اللہ کی طرف سے عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے چاہے دنیا میں ترقی کریں یا دین میں، علم و فضل میں بھی برابر چل سکتی ہیں۔
آپ نے امام ابی جعفر صادقؒ کا نام سنا ہو گا جن کی کتاب ’’طحاوی شریف‘‘ جو حدیث شریف کی کتاب ہے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ عورت کا طفیل ہے۔ امام طحاویؒ کی بیٹی نے حدیث کی کتابیں املاء کی ہیں۔ باپ حدیث اور اس کے مطالب بیان کرتے تھے، بیٹی لکھتی جاتی تھی، اس طرح کتاب مرتب ہو گئی۔ گویا جتنے علماء اور محدث گزرے ہیں یہ سب امام ابی جعفر صادقؒ کی بیٹی کے شاگرد اور احسان مند ہیں۔ یہ بھی ایک عورت تو تھی۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ امام طحاویؒ کی بیٹی تو محدث بن سکے ہماری کوئی بہو بیٹی نہ بن سکے۔ وہی نسل ہے وہی چیز ہے وہی ایمان وہی دین ہے وہی علم آج بھی موجود ہے۔ توجہ اور بے توجہی کا فرق ہے۔ ان لوگوں نے توجہ دی تو عورتیں بھی ایسی بنیں کہ بڑے بڑے مرد بھی ان کے شاگرد بن گئے۔ آج توجہ نہیں کرتیں کمال نہیں پیدا ہوتا مگر صلاحیتیں موجود ہیں۔
عورت میں ترقی کی صلاحیت
بہرحال علماء اسلام نے ان بڑی بڑی عورتوں کا ذکر کیا ہے جو ولایت کے مقام تک پہنچی اور کامل ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ کچھ عہدے اسلام نے ایسے رکھے ہیں جو عورتوں کو نہیں دیے گئے۔ وہ اس بنا پر کہ عورت کا جو مقام ہے وہ حرمت و عزت کا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ اجنبی مردوں میں خلط ملط اور ملی جلی پھرے، اس سے فتنے پیدا ہوتے ہیں، برائیوں کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے عورتوں کو ایسے عہدے نہیں دیے گئے جس سے فتنوں کے دروازے کھلیں، لیکن صلاحیتیں موجود ہیں۔ صلاحیت اس حد تک تسلیم کی گئی ہے کہ علماء کی ایک جماعت اس بات کی بھی قائل ہے کہ عورت نبی بن سکتی ہے، رسول تو نہیں بن سکتی لیکن نبی بن سکتی ہے۔
نبی اسے کہتے ہیں جس سے ملائکہ علیہم السلام خطاب کریں اور خدا کی وحی اس کے اوپر آئے۔ رسول اسے کہتے ہیں جو شریعت لے کر آئے اور خلق اللہ کی تربیت کرے۔ اس لیے تربیت کا مقام تو نہیں دیا گیا مگر ان کے نزدیک نبوت کا مقام عورت کے لیے ممکن ہے (۱)۔ حتٰی کہ ظاہریہ کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام نبی ہیں، فرشتے نے خطاب کیا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ نبی تھیں اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ علیہا السلام جو ابتداء سے ہی مسلمان تھیں وہ نبوت کے مقام پر پہنچیں۔ تو نبوت سے بڑا عالم بشریت میں انسان کے لیے کوئی مقام نہیں ہے۔ خدائی کمالات کے بعد اگر بزرگی کا کوئی درجہ ہے تو وہ نبوت کا ہے اس سے بڑا کوئی درجہ نہیں۔ جب عورت کو یہ درجہ بھی مل سکتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ عورت کی صلاحیت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ سب مقام طے کر سکتی ہے البتہ رسول نہیں بن سکتی۔ اس لیے محبتِ خداوندی کا مقام پیدا ہو، اس مقام کی عورتیں بھی گزری ہیں جن کے جذبات کا یہ عالم ہے۔
عورتوں نے بڑے بڑے اولیائے کاملین کی تربیت کی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اور صوفیاء کے امام ہیں اور سلسلۂ چشتیہ کے اکابر اولیاء میں سے ہیں۔ ان کے واقعات میں لکھا ہے کہ حضرت رابعہ بصریہؓ ان کے مکان پر آئیں، کوئی مسئلہ پوچھنا تھا یا کوئی بات کرنی تھی۔ معلوم ہوا کہ حضرت حسن بصریؒ مکان پر نہیں ہیں، پوچھا کہاں گئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ دریا کے کنارے پر گئے ہیں اور ان کی عادت یہ ہے کہ اپنا ذکر اللہ یا عبادت وغیرہ دریا کے کنارے پر کرتے ہیں۔ بعض اہل اللہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ انہوں نے ذکر اللہ کے لیے جنگلوں کی راہ اختیار کی یا پہاڑوں میں بیٹھ کر اوراد کرتے ہیں، اس میں ذرا یکسوئی زیادہ ہوتی ہے۔ اور دریا کے کنارے پر بیٹھنے کے بارے میں بھی صوفیاء لکھتے ہیں کہ قلب میں تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ مادی تاثیر اس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ پانی کے کنارے پہنچ کر قلب میں فرحت زیادہ ہوتی ہے، جتنی فرحت اور نشاط پیدا ہو گا اتنا ہی قلب ذکر اللہ کی طرف مائل ہو گا۔ بنیادی اور باطنی وجہ اس کی یہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ چلتا ہوا پانی خود اللہ کی تسبیح کرتا ہے، اللہ کا نام لیتا ہے اور ذکر کرتا ہے۔ پانی کے ذکر کا اثر بھی انسان کے قلب پر پڑتا ہے تو اس کی طبیعت اور زیادہ ذکر اللہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے، ان وجوہ کی بنا پر حضرت حسن بصریؒ اکثر دریا کے کنارے پر جا کر عبادت کرتے تھے۔
بہرحال رابعہ بصریہؒ کو معلوم ہوا کہ حسن بصریؒ اپنی عادت کے مطابق ذکر و عبادت کرنے کے لیے دریا کنارے پر گئے ہیں، یہ بھی وہاں پہنچ گئیں۔ وہاں جا کے یہ عجیب ماجرا دیکھا کہ حسن بصریؒ نے پانی کے اوپر مصلّٰی بچھا رکھا ہے اور اس کے اوپر نماز پڑھ رہے ہیں۔ نہ مصلّٰی ڈوبتا ہے نہ تر ہوتا ہے گویا کرامت ظاہر ہوئی۔ رابعہ بصریہؓ کو یہ چیز ناگوار گزری اور اسے اچھا نہ سمجھا کیونکہ یہ عبدیت اور بندگی کی شان کے خلاف ہے۔ بندگی کے معنی یہ ہیں کہ بڑے سے بڑا بزرگ لوگوں میں ملا جلا رہے۔ کوئی امتیازی مقام پیدا کرنا یہ ایک قسم کا دعوٰی اور صورۃ تکبّر ہے کہ میں سب سے بڑا ہوں اس لیے کہ تم وہ کام نہیں کر سکتے جو میں کر سکتا ہوں۔ گویا میں بڑا صاحبِ کرامت اور صاحبِ تصرف ہوں۔ زبان سے اگرچہ نہ کہے مگر صورتحال سے ایک دعوٰی پیدا ہوتا ہے اور اہل اللہ کے نزدیک سب سے بری چیز جو ہے وہ دعوٰی کرنا ہے اس لیے کہ اس میں تکبر اور کبر کی علامت ہے۔ اور ولایت کا مقام یہ ہے کہ تکبر مٹ کر خاکساری پیدا ہو، تو جس بزرگ میں تکبر یا کبر کی صورت بن جائے وہ بزرگ ہی کیا ہوا؟ حضرت رابعہؓ کو یہ چیز اس لیے ناگوار گزری کہ حسن بصریؒ بزرگوں کے امام اور وہ ایسی صورت پیدا کریں جس سے دعوٰی نکلتا ہو کہ میں بھی کوئی چیز ہوں، میں گویا بڑا کرامت والا ہوں، حسن بصریؒ کے لیے یہ زیبا نہیں تھا، یہ شانِ عبدیت کے خلاف ہے۔ بلکہ درپردہ گویا یہ دعوٰی ہے کہ میں خدائی اختیارات رکھتا ہوں کہ تم اسباب کے تحت مجبور ہو کر پانی پر کشتی سے جاؤ اور میں مجبور نہیں ہوں میں پانی پر ویسے ہی چل سکتا ہوں میرے پاس خدائی قوتیں موجود ہیں۔ جب یہ دعوٰی ہو گیا تو بزرگی کہاں رہی؟ اس واسطے یہ چیز اچھی نہ معلوم ہوئی۔ مگر چونکہ یہ بھی بزرگ ہیں تو انہوں نے اصلاح کی۔ اصلاح کس طرح کی؟ زبان سے کچھ نہ کہا عمل سے اصلاح کی۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے پانی کے اوپر مصلّٰی بچھا رکھا تھا۔ انہوں نے یہ کیا کہ اپنے مصلّٰی کو ہوا کے اوپر اڑا کر اس کے اوپر نماز پڑھنی شروع کر دی۔ اب مصلّی ہوا کے اوپر لٹکا ہوا ہے اور نماز پڑھ رہی ہیں، حسن بصریؒ سمجھ گئے کہ مجھے ہدایت کرنی مقصود ہے فورًا اپنا مصلّی لپیٹا اور دریا کے کنارے پر آگئے۔ رابعہ بصریہؒ نے بھی ہوا سے مصلّٰی لپیٹا اور نچے آئیں اور آ کر دو جملے ارشاد فرمائے، وہ کتنے قیمتی اور زریں جملے تھے کہ دین و دنیا کی ساری نصیحتیں ان دو جملوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ فرمایا اے حسن بصریؒ
بر آب روی خسے باشیٔ بر ہوا پری مگسے باشی
دل بدست آر کہ کسے باشی
اے حسن بصریؒ! اگر تم پانی پر تیر گئے تو کوڑا کباڑ اور کچرا بھی پانی کے اوپر تیرتا ہے، یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے اور اگر رابعہ ہوا میں اڑی تو مکھیاں بھی تو ہوا میں اڑتی ہیں، یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ اپنے نفس کو قابو میں کرو، اس پر کنٹرول حاصل کرو تاکہ صحیح معنٰی میں انسان بنو۔ انسان بننا کمال ہے مکھی بننا کمال نہیں ہے، آدمی بننا کمال ہے کوڑا کچرا بننا کمال نہیں ہے۔ اگر ہم ہوائی جہاز سے پچاس ہزار فٹ بلندی پر اڑ جائیں بے شک یہ بڑے کمال کی بات ہے مگر یہ حیوانیت کا کمال ہے انسانیت کا کمال نہیں ہے۔ اگر ہم ڈبکتی کشتی کے ذریعے سمندر کی تہہ تک پہنچ جائیں یہ بھی حیوانیت کا کمال ہے اس لیے کہ مچھلیاں بھی تو پہنچتی ہیں۔ آدمی سے ہم اگر مچھلی بن گئے تو کونسا کمال کیا؟ اسی طرح ہوا میں کرگسیں بھی اڑتی ہیں، اگر آدمی سے کرگس بن گئے تو کونسا کمال کیا، یہ حیوانیت کا کمال ہے انسانیت کا کمال نہیں ہے۔ انسانیت کا کمال یہ ہے کہ گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور عرش پہ باتیں کر رہا ہو، اپنے مصلّٰی کے اوپر ہو اور خدا سے اسے نیاز حاصل ہو، معاملات وہاں سے چل رہے ہوں۔ وہ فرشی ہو مگر حقیقت میں وہ عرشی ہو، فرش پر بیٹھے ہوئے عرش کے اوپر مقام ہو۔ یہ سب سے بڑا انسانیت کا کمال ہے جس کو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے سکھلایا۔
تو رابعہ بصریہ نے کتنی قیمتی بات کہی کہ حضرت حسن بصریؒ نادم اور شرمندہ ہوئے اور توبہ کی کہ میں آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ میں اسے بڑا کمال سمجھ رہا تھا مگر آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ دیکھئے رابعہ بصریہ عورت ہے اور حسن بصریؒ مردوں کے امام ہیں۔ ایک عورت ایک مردِ کامل کو ہدایت کر رہی ہے اور اسے راستہ ہاتھ آجاتا ہے۔ اس لیے عورت اگر کمال پیدا کرنا چاہے تو وہ بڑے بڑے مردوں کی مربّی بن سکتی ہے۔
حضرت عائشہؓ، امت کی استاذ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں، امت میں سب سے بڑے مفسر قرآن ہیں لیکن حضرت عائشہ ؓ کے شاگرد ہیں، علم زیادہ تر انہی سے سیکھا ہے۔ فتوے کی ضرورت ہوتی ہے تو عائشہ صدیقہ ؓ سے فتوٰی لیتے تھے۔ تو ابن عباسؓ ساری امت کے استاذ ہیں اور ان کی استاذ حضرت عائشہ ؓ ہیں۔ گویا حضرت عائشہ ؓ علوم و کمالات کے اندر پوری امت کی استاذ ہیں۔ بعض صحابہؓ حضرت عائشہ ؓ سے کہا کرتے تھے ’’ما ھٰذہٖ باَوّل برکتکم یا ال ابی بکر‘‘ اے آل ابی بکر یہ پہلی برکت نہیں۔ تمہاری تو اتنی برکتیں ہیں کہ امت احسان سے تمہارے سامنے سر نہیں اٹھا سکتی۔ اس لیے کہ حضرت عائشہ ؓ کے سوالات کرنے سے ہزاروں مسئلے کھلے ہیں، بڑی ذہین و ذکی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات ایسے کیا کرتی تھیں کہ دوسرے کی جرأت نہیں ہو سکتی تھی۔ جواب میں آپؐ علوم ارشاد فرماتے۔ یہ ساری امت پر احسان تھا، اگر وہ سوال نہ کرتیں تو علم نہ آتا۔
مثلاً حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی شخص کے تین بچے پیدا ہوں اور پیدا ہونے کے بعد دودھ پینے کی حالت میں گزر جائیں۔ برس، دن یا چھ مہینے کے بعد انتقال کر جائیں تو وہ تینوں ماں باپ کی نجات کا ذریعہ بنیں گے، شفاعت کریں گے اور اس طرح سے کریں گے گویا اللہ تعالیٰ کے اوپر اصرار کریں گے کہ ضرور بخشنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے کہ ماں باپ کے لیے جہنم کا حکم ہو جائے گا کہ یہ سزا کے مستحق ہیں، جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے، یہ تین بچے ملائکہ کے آگے آ کے سامنا روکیں گے کہ یہ ہمارے ماں باپ ہیں آپ ان کو کہاں لے کے جا رہے ہو؟ وہ کہیں گے کہ انہیں جہنم کا حکم ہے، بچے کہیں گے ہم نہیں جانتے یہ ہمارے ماں باپ ہیں، جیسے بچے کی ضد ہوتی ہے اسی طرح ضد کریں گے۔ وہ کہیں گے حکم خداوندی ہے، بچے کہیں گے ہو گا، اللہ نے ہمیں تو معصوم بنایا ہم انہیں نہیں جانے دیں گے ہمارے ہوتے ہوئے نہیں جائیں گے۔ ملائکہ علیہم السلام کو لوٹنا پڑے گا اور عرض کریں گے الٰہی! یہ بچے راستہ روک رہے ہیں جانے نہین دیتے۔ معلوم ہوتا ہے بچوں کی ضد کے آگے فرشتوں کی نہیں چلے گی۔ جیسے باپ اگر بادشاہ بھی ہو اور بچہ ضد کرے تو بادشاہ کو بھی بچے کی ماننی پڑتی ہے، اس کی حکومت کی ساری قوت دھری رہ جاتی ہے اسی طرح فرشتوں کی طاقت بھی رکھی رہ جائے گی اور وہ مجبور ہو جائیں گے بچے انہیں لوٹا دیں گے تو فرشتے عرض کریں گے کہ خداوند! آپ کا ارشاد تھا کہ انہیں جہنم میں ڈال دو یہ بچے روک رہے ہیں ضد کر رہے ہیں جانے نہیں دیتے۔ حق تعالیٰ فرمائیں گے ارے نادان بچو! تمہارے ان ماں باپ نے یہ برائی کی یہ برائی کی یہ گناہ کیا یہ معصیت کی یہ جہنم کے مستحق ہیں۔ یہ کہیں گے ہم نہیں جانتے انہوں نے کیا کیا یہ تو ہمارے ماں باپ ہیں اگر آپ کو انہیں جہنم میں ہی بھیجنا ہے تو ہمیں بھی بھیج دیجیئے۔ اب ظاہر ہے کہ معصوم تو جہنم میں نہیں بھیجے جائیں گے۔ اور اگر آپ نے ہمیں جنت میں بھیجنا ہے تو ہم انہیں بھی لے کے جائیں گے۔ حق تعالیٰ حجت کریں گے جواب دیں گے بچے وہاں بھی ضد کریں گے اخیر میں حق تعالیٰ فرمائیں گے، جاؤ ارے جھگڑالو بچو! ہمارا پیچھا چھوڑو، لے جاؤ ان ماں باپ کو جنت میں۔ چنانچہ ان کو جنت میں لے جائیں گے۔
یہ حدیث آپؐ نے صدیقہ عائشہ ؓ کو سنائی۔ اس پر صدیقہ عائشہ ؓ سوال کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ! اگر کسی کے دو بچے اس طرح گزر جائیں؟ فرمایا دو کا بھی یہی حکم ہے۔ پھر سوال کیا اگر ایک بچہ گزر جائے؟ فرمایا ایک کا بھی یہی حکم ہے، حتٰی کہ فرمایا اگر کوئی حمل ضائع ہو جائے بشرطیکہ بچے میں جان پڑ گئی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ اس طرح سے ضد کر کے اپنے ماں باپ کو بخشوائے گا۔
اب دیکھئے چھوٹا بچہ جب گزرتا ہے تو ماں باپ پر اور بالخصوص ماں پر کیا گزرتی ہے، اس کے تو وہ جگر کا ٹکڑا تھا، اس نے نو مہینے اسے اپنے پیٹ میں رکھ کے پالا ہے پرورش کیا تھا اور پیدا ہونے کے بعد جب گزر جاتا ہے تو باپ کو تو کچھ جلدی صبر بھی آجاتا ہے مگر ماں کو نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس کے لیے تو ایسا ہے جیسے اس کے بدن کا ٹکڑا کٹ کے ضائع ہو جائے، تو ماں بہت زیادہ پریشان ہوتی ہے لیکن جب یہ حدیث سنے گی کہ یہ میری نجات کا سبب بنے گا تو شاید اسے خوشی پیدا ہو جائے کہ میرے لیے کوئی دکھ نہیں، اگر ضائع ہو گیا تو بلا سے ضائع ہو گیا میرے لیے تو جنت اور نجات کا سامان ہو گیا۔
اگر صدیقہ عائشہ ؓ یہ سوال نہ فرماتیں نہ اتنا علم کھلتا نہ اتنی آسانی پیدا ہوتی۔ ہم تو یہی کہتے کہ اگر تین بچے گزریں تو پھر جنت کا وعدہ ہے اور اگر دو یا ایک ہوا تو پھر جنت کا وعدہ نہیں۔ مگر صدیقہ عائشہ ؓ کے سوال کرنے سے معلوم ہوا کہ دو اور ایک کا بھی یہی حکم ہے بلکہ حمل ساقط ہو جائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ روح پڑ گئی ہو۔ تو صدیقہ عائشہ ؓ کی ذہانت و ذکاوت اور سوال کرنے سے امت کے لیے کتنی بڑی آسانی پیدا ہو گئی کتنے راستے نکلے۔ تو عورتیں ایسی بھی گزری ہیں جنہوں نے ہزاروں مردوں کے راستے درست کر دیے اور ان کے لیے ہدایت کا سبب بن گئیں۔
عورت میں تحمل کی صلاحیت
شادی اور غمی ایسی چیز ہوتی ہے اس میں آدمی کچھ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ زیادہ غم پڑے جب بھی پاگل سا ہو جاتا ہے۔ زیادہ خوشی آئے جب بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی سنبھال لے وہ بڑا محسن ہوتا ہے۔ اسلام میں ایسی بھی عورتیں گزری ہیں انہوں نے ایسے وقتوں میں مردوں کو سنبھالا حالانکہ مرد بہ نسبت عورت کے قوی القلب ہوتا ہے، عورت کا دل گو اتنا قوی نہیں ہوتا لیکن عورت میں سمجھ بوجھ اور دین و دیانت ہے تو بڑے بڑے قوی مردوں کو سنبھالنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ حدیث میں واقعہ فرمایا گیا ہے کہ حضرت جابرؓ ان کا چھ سات برس کا بچہ بڑا ہونہار حسین و جمیل بیمار ہوا۔ اس زمانے کے مطابق دوا دارو کی گئی مگر بچہ اچھا نہ ہوا۔ ادھر حضرت جابرؓ کو اچانک سفر پیش آیا اور انہیں ضروری جانا پڑ گیا تو بیوی سے کہا کہ دیکھو مجھے مجبوری کا سفر پیش آ گیا میرا جانا ضروری ہے اور بچے کی حالت ایسی ہی ہے۔ ذرا دوا اور تیمارداری اچھی طرح سے کرنا اور میں جلدی آجاؤں گا، کوئی زیادہ دیر کے لیے مجھے نہیں جانا۔ یہ فرما کر حضرت جابرؓ چلے گئے۔
جب آنے کا دن ہوا تو بچے کا انتقال ہو گیا۔ آپؓ گھر میں تشریف لائے۔ اور بیوی کی دانش مندی، دیانت داری اور ہوشیاری یہ ہے، ورنہ کوئی اگر آج کی طرح کی بیوی ہوتی جب وہ دیکھتی کہ خاوند آ رہے ہیں تو وہ بڑا رونا شروع کر دیتی تاکہ معلوم ہو بڑا غم پڑا ہوا ہے۔ مگر دانشمند تھیں اس لیے حضرت جابرؓ کے آنے کا وقت ہوا تو اپنے کو سنبھالا اور صورت ایسی بنائی کہ اسے کوئی غم نہیں ہے اور بچے کو اندر لٹا دیا، اس کی لاش پر چادر ڈال دی۔ حضرت جابرؓ آئے تو جیسے عرب کا دستور ہے بیوی نے بڑھ کر استقبال کیا مصافحہ کیا اور اپنے خاوند کے ہاتھ چومے۔ حضرت جابرؓ نے آتے ہی پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ کہا ’’الحمد للہ بعافیۃ و خیر‘‘ خدا کا شکر ہے عافیت میں ہے اور بڑی خیر ہے۔ غلط بات بھی نہیں کہی اس لیے کہ مرنے کے بعد بڑی عافیت و خیر ہوتی ہے۔ تو ایسا جملہ کہا کہ غلط بھی نہ ہو اور خاوند کو تسلی بھی ہو جائے۔ وہ بھی مطمئن ہو گئے۔ ان کے ہاتھ دھلائے کھانا کھلایا۔ اس لیے کہ آتے ہی صدمے کی خبر سنا دیتی ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا۔ پھر کہاں کا کھانا ہوتا، وہ اس کے سوگ میں لگ جاتے۔
کھانا کھلاتے کھلاتے کہا، میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں اس میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ فرمایا پوچھو۔ کہا اگر کوئی شخص ہمارے پاس امانت رکھوائے اور اس کی میعاد مقرر کرے کہ برس دن کے لیے رکھواتا ہوں، برس دن کے بعد واپس لے لوں گا۔ تو شریعت کا اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا، حکم کھلا ہوا ہے اس کو ٹھیک وقت پر ادا کرنا چاہیئے۔ (پوچھا) اگر امانت کے ادا کرتے ہوئے دل میں گھٹنے لگے اور دل نہ چاہے۔ فرمایا، دل میں گھٹنے کا حق کیا ہے، چیز دوسرے کی ہے، اپنی چیز پر آدمی گھٹے۔ جب دوسرے کی امانت ہے اور دلت مقرر تھا، اب اس نے مانگ لی تو گھٹنے اور غم کرنے کا کیا حق ہے؟ کہا، شریعت کا یہی مسئلہ ہے؟ فرمایا، ہاں مسئلہ یہی ہے۔ کہا، وہ بچہ جو تھا وہ امانت تھا، اللہ نے وہ سات برس کے لیے رکھوایا تھا، کل قاصد پہنچ گیا کہ امانت واپس کر دو، میں نے امانت واپس کر دی، تو ہمیں گھٹنے کا تو کوئی حق نہیں؟ فرمایا نہیں ہے اور بیوی کے ہاتھ چومے اور کہا خدا تجھے جزائے خیر دے، تو نے ایسی تسلی دی کہ مجھے بجائے غم کے خوشی ہے کہ ہم امانت ادا کر چکے اور بوجھ ہلکا ہو گیا۔
یہ عورتیں ہی تھیں جو اس طرح سے تسلی بھی دیتی تھیں۔ مگر یہ ان عورتوں کا کام تھا جن میں حوصلہ اور دین و دیانت کا جذبہ تھا۔ اور اگر عورتیں رواج کے مطابق چلیں تو آنکھوں میں نہ بھی آنسو ہوں گے مگر جب تعزیت کے لیے کوئی آئے تو بنا بنا کے رونا شروع کر دیں گی۔ دوسری آئیں وہ بھی رونا شروع کر دیں گی۔ تیسری آئیں وہ بھی۔ لیکن تحمل کی بات یہ ہے کہ روتے ہوؤں کو تھام لیا جائے، غم زدہ لوگوں کو تھام لیا جائے اور تسلی دی جائے، یہ کام کیا تو مرد کرتے ہیں مگر عورتیں بھی ایسے حوصلے کی گزری ہیں جنہوں نے مردوں کے غموں کو ہلکا کر دیا ہے۔
حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کا پوری امت پر احسان
حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ پاک ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ساری امت پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا احسان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی مرتبہ وحی آئی اور عالم غیب سے پہلی بار سابقہ پڑا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپؐ نے اصلی شکل میں دیکھا ورنہ انسانی صورت میں آتے تھے۔ صحابہؓ میں حضرت دحیہ کلبیؓ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل صحابی تھے، ان کی شکل میں حضرت جبرائیل’ آیا کرتے تھے۔ صحابہؓ دیکھتے تھے کہ دحیہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک اِدھر ایک اُدھر۔ تو دو مرتبہ اصلی شکل میں حضور علیہ السلام نے دیکھا۔ ایک تو جب غار حرا میں سب سے پہلی وحی آئی ہے اس وقت اپنی اصلی شکل میں نمایاں ہوئے اور ایک معراج کی شب میں۔ اور یہ دیکھنا اس شان سے تھا کہ ان کے چھ چھ سو بازو ہیں، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک جتنی فضا ہے سب ان کے بدن سے گھری ہوئی ہے، اتنا عظیم قدوقامت ہے کہ سر آسمان پر ہے، پیر زمین پر ہیں، موڈھے جنوب و شمال میں، چھاتی اور سینہ مشرق و مغرب میں ہے۔ گویا پوری فضا جبرائیل علیہ السلام کے بدن سے بھری ہوئی ہے۔ چہرہ سورج کی طرح چمک رہا ہے، ایک تاج بھی ان کے سر پر رکھا ہوا ہے جو سورج سے زیادہ روشن ہے اس سے شعاعیں پھوٹ رہی ہیں، اور ایک سبز رنگ کا کپڑا ہے جو ان کے بدن پر پڑا ہوا ہے۔ تو اتنی حسین و جمیل شکل مگر اتنی عظیم دیکھ کر ایک دفعہ آپؐ گھبرا گئے اور آپؐ کے اوپر ہیبت اور لرزہ طاری ہوا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ رجالِ غیب کو اس طرح سے دیکھا اور دیکھا بھی اتنی عظیم شکل میں۔ آپؐ گھبرا گئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
زملونی زملونی زملونی لقد خشیت علٰی نفسی۔
’’مجھے کمبل اڑھاؤ، کمبل اڑھاؤ، کمبل اڑھاؤ، مجھے ڈر ہے کہ اب میں زندہ نہیں رہوں گا میری جان نکل جائے گی۔‘‘
حضرت خدیجہؓ نے کہا، کیا واقعہ ہوا؟ آپؐ نے واقعہ بیان کیا تو حضرت خدیجہؓ نے تسلی دی اور فرمایا:
کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدًا۔ انک لتصل الرحم وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تحمل الکل وتعین علیٰ نوائب الحق۔
’’خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ صلہ رحمی، غریبوں کی مدد اور مہمان نوازی آپؐ کرتے ہیں، مسکینوں کو آپؐ پناہ دیتے ہیں، ساری دنیا کی خیر خواہی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے بندوں کو اللہ ضائع نہیں کیا کرتا، آپ بالکل نہ گھبرائیں آپ کی جان نہیں جا سکتی۔‘‘
یہ تو زبان سے تسلی دی اور عمل یہ کیا کہ ہاتھ پکڑ کر ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں۔ یہ عرب کے لوگوں میں بہت بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے تھے، مذہبًا نصرانی تھے اس لیے انجیل اور تمام آسمانی کتابیں لکھا بھی کرتے تھے اور ان کو یہ کتابیں یاد تھیں اور ان کے علوم سے واقف بھی تھے۔ مشرکین عرب یا خاندانِ قریش میں ایک یہ تھے جو اہلِ کتاب میں شامل ہوئے اور آسمانی کتابوں کے بڑے زبردست عالم ہوئے۔ حضرت خدیجہؓ حضورؐ کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس لے گئیں کہ ان کے حالات کا صحیح پتہ وہ دے سکتا ہے جو عالم ہو اور دینی و تاریخی علوم سے واقف ہو۔ حضرت خدیجہؓ جب ان کے پاس پہنچیں اور کہا ذرا سنیئے یہ آپ کا بھتیجا کیا کہتا ہے؟ ’’اسمع لابن اخیک‘‘ اپنے بھائی کے بچے سے پوچھیئے یہ کیا کہہ رہا ہے۔ ’’یا ابن اخی ما ذرا ترٰی؟‘‘ میرے بھتیجے! کیا بات تم نے دیکھی؟ کیوں گھبرائے ہوئے ہو؟ آپؐ نے سارا واقعہ سنایا کہ میں اس طرح غارِ حرا میں بیٹھا ہوا تھا، ایسی شخصیت نمایاں ہوئی، یہ اس کی شکل تھی اور یہ اس نے مجھ سے خطاب کیا۔ ورقہ ابن نوفل نے کہا ’’ابشر ابشر‘‘ خوشخبری حاصل کرو، یہ وہ ناموس ہے جو موسٰی علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آتا تھا اور دیگر پیغمبروں کے پاس آتا تھا۔ خدا نے تم کو اس امت کا پیغمبر بنایا ہے، جس کی خبریں سننے میں آ رہی تھیں وہ تھیں وہ تم ہی معلوم ہوتے ہو، اس لیے تم مت گھبراؤ، یہ تمہارے لیے بشارت ہے۔ اور کہا کہ کاش جب تم تبلیغ کا نام لے کر کھڑے ہو اور اسلام کی دعوت دو میں اس وقت زندہ ہوتا تو میں تمہاری مدد اور اعانت کرتا لیکن میں تو قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں۔ سو برس سے زیادہ عمر ہو چکی تھی، بڑے معمر اور بوڑھے تھے۔
آپ نے دیکھا کہ ایک ایسا کٹھن معاملہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا، یہ معاملہ کوئی بدنی بیماری کا نہیں تھا کہ کوئی بخار آگیا ہو، کھانسی آگئی ہو، یہ روحانی معاملہ تھا اور روحانی معاملہ بھی وہ جو پیغمبروں سے پیش آتا ہے، کسی معمولی ولی کا بھی نہیں بلکہ نبی الانبیاءؐ کا معاملہ تھا۔ اس میں تسلی دینے کے لیے ایک عورت کھڑی ہوئی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔ ہمارے زمانے کی کوئی عورت ہوتی وہ گھبرا کے کہتی خدا جانے اب کیا ہو گا جلدی سے کمبل اڑھاؤ اور ایک واویلا شروع ہو جاتا۔ لیکن ان کا گھبرانا تو بجائے خود ہے، اس ذات اقدس کو تسلی دی جو پورے عالم کی سردار بننے والی تھی۔ ان کے دل کو تھامنے کی کوشش کی۔ قول سے الگ تھاما، عمل سے الگ تھاما۔ زبان سے یہ تسلی دی کہ آپ وہ نہیں ہیں کہ اللہ آپ کو ضائع کرے، آپ تو سرتاپا بزرگ ہی بزرگ خیر ہی خیر ہیں، عادت اللہ یہ ہے کہ ایسی ہستیوں کو اللہ کھویا نہیں کرتا۔ اور عمل یہ کہ ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں۔ یہ ایک عورت ہی تھیں جس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا درحقیقت اس پوری امت کو تسلی دینا ہے جو قیامت تک آنے والی ہے۔ گویا اکیلی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پوری امت پر احسان ہے۔
میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ عورتیں ایسی ایسی بھی گزری ہیں۔ اس لیے عورتوں کا یہ خیال کرنا کہ ہمارا کام تو بس اتنا ہے کہ گھر میں بیٹھ جائیں، کھانا پکا دیا، زیادہ سے زیادہ بچوں کے کپڑے سی دیے اور زیادہ ہوا ان کی تربیت کر دی، اس سے زیادہ ہم ترقی کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ میدان مردوں کا ہے۔ ولی بھی مرد بنے گا، امام بھی مرد بنے گا، مجتہد اور خلیفہ بھی بنے گا، ہم اس کام کے لیے نہیں ہیں۔ تم چاہو تو مجتہد، ولیٔ کامل بن سکتی ہو، اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ الہام کا معاملہ ہو کہ تمہارے اوپر الہام آئے، تم یہ بھی کر سکتی ہو۔ جو ایک بڑے سے بڑے ولی کا حال ہو سکتا ہے وہ ایک عورت کا بھی ہو سکتا ہے بشرطیکہ عورت توجہ کرے، مگر یہ توجہ نہیں کرتیں۔ یہ ساری بات میں نے اس لیے کہی ہے کہ یہ غلط فہمی رفع ہو جائے کہ عورت کے دل میں یہ کھٹک پیدا ہو گئی کہ ہم نہ دینی ترقی کے لیے ہیں نہ علمی ترقی کے لیے، اس کام کے لیے تو مرد ہیں۔
قصور مردوں کا ہے
اگر برا نہ مانا جائے تو میں کہوں گا کہ اس میں زیادہ قصور مردوں کا ہے۔ یہ خیال انہوں نے اپنے عمل سے پیدا کیا ہے۔ زبان سے تو کسی نے نہیں کہا ہو گا مگر غریب عورتوں کے ساتھ جو طریق عمل برتا گیا ہے کہ نہ ان کو تعلیم و ترقی دینے کا بندوبست نہ دین سکھلانے کا بندوبست۔ گویا عملاً زبانِ حال سے آپ نے انہیں باور کرا دیا کہ تم اس لیے پیدا ہی نہیں کی گئی ہو کہ دینی و اخلاقی ترقی کرو۔ یہ کچھ کریں گے تو ہم کریں گے اور ہم بھی افریقہ میں رہ کے نہیں کریں گے کوئی ہندوستان میں رہ کے ترقی کر لے تو کر لے ہم اس لیے پیدا ہی نہیں کیے گئے نہ ہماری عورتیں اس لیے پیدا کی گئی ہیں۔
جب آپ نے اپنے طرزِ عمل سے عورتوں کے راستے بند کر دیے ہیں تو ان غریب عورتوں کا کوئی قصور نہیں۔ یہ قصور اصل میں مردوں کا ہے اور قیامت کے دن ان مردوں سے باز پرس ہو گی کہ تم نے کیوں تربیت کی طرف توجہ نہیں کی؟ کیوں ان کو تعلیم نہ دی؟ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ
’’کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘
تم میں سے ہر شخص بادشاہ ہے اور قیامت کے دن ہر بادشاہ سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اپنی رعیت کو کس طرح رکھا؟ آرام و سکھ سے رکھا یا تکلیف سے؟ صحیح تربیت کی یا نہیں کی؟ دین پر لگایا یا دین سے ہٹایا؟ تو فرمایا ہر گھر کا مرد بادشاہ ہے اور جتنے گھر میں رہنے والے ہیں وہ درحقیقت اس کی رعایا ہیں، اس کے زیر عیال ہیں۔ قیامت کے دن سوال ہو گا کہ گھر والوں کے ساتھ تم نے کس قسم کا برتاؤ کیا؟ ملک کا بادشاہ ہے تو پورا ملک اس کی رعیت ہے۔ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے اپنی رعیت کو کس حال میں رکھا، اس کی آسائش کی خبر لی یا انہیں تکلیفیں پہنچائیں؟ ان کو آبرو بخشی یا انہیں بے آبرو اور بے عزت کیا؟ ان کو ایذا پہنچائی یا ان کی راحت رسانی کا سامان کیا۔
یہ ہر بادشاہ سے سوال ہو گا۔ استاذ سے اس کے شاگردوں کی نسبت سوال ہو گا کہ تیرے شاگرد تیرے حق میں بمنزلہ رعیت کے تھے، تو ان کا بادشاہ تھا، وہ تیری حکم برداری کرتے تھے، تو نے ان پر کیا کیا حکم چلایا؟ شیخ سے اس کے مریدین کی نسبت سوال ہو گا کہ مریدین بمنزلہ رعیت کے تھے، تو حکم کرنے والا تھا، تجھے منوانے کا مقام دیا گیا تھا اور وہ ماننے والے تھے، تو نے کیا کیا چیزیں منوائیں؟ تو نے ان سے دین منوایا یا بری چیزیں ان سے منوائیں؟ غرض ہر شخص سے سوال کیا جائے گا، تو آپ سے اور مجھ سے بھی سوال ہو گا۔ عورتوں کے بارے میں بھی سوال ہو گا کیونکہ وہ ہمارے زیرتربیت اور زیرعیال ہیں۔
رسول اللہؐ کی وصیت
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ توجہ عورتوں کی طرف دی ہے حتٰی کہ عین وفات کے وقت جو آخری کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا کہ
’’اتقوا اللہ فی النسآء‘‘
اے لوگو! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یہ امانتیں ہیں جو تمہارے سپرد کی کی گئی ہیں، ایسا نہ ہو کہ تم امانت میں خیانت کرو اور قیامت کے دن تم سے بازپرس ہو۔ یہ آخری کلمہ ہے جو عین وفات کے وقت فرمایا ہے وہ یہ تھا کہ عورتوں کی فکر کرو کہیں یہ ضائع نہ ہو جائیں، ان کو خراب نہ کر دیا جائے، ان کی تربیت نہ تباہ ہو جائے، ان کا دین نہ برباد ہو جائے اور دنیا نہ خراب ہو جائے۔ تو جس ذاتِ اقدس نے خود عورتوں کے بارے میں اتنی توجہ کی اس کی امت کا بھی فرض ہے کہ وہ توجہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ
ان اکرم المؤمنین احسنکم اخلاقا الطفکم اھلا۔
تم میں سب سے زیادہ قابل تکریم وہ مسلمان ہے جس کے اخلاق پاکیزہ ہوں اور عورتوں، بیویوں کے ساتھ لطف و مروّت اور مدارت کا برتاؤ کرتا ہو۔ مطلب یہ کہ جو عورتوں کے ساتھ زیادتی اور سختی سے پیش آئے وہ قابلِ تکریم نہیں ہے، اس حدیث کا حاصل یہی ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ فرمائی اور پوری توجہ فرمائی اور عین وفات کے وقت آپؐ نے جو نصیحت ارشاد فرمائی وہ عورتوں کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ امت کے لیے نبی اکرمؐ نے جہاں اتنا خیال کیا، امت کیا خیال کر رہی ہے؟ امت نے یہ کیا کہ طرزِ عمل سے باور کرا دیا کہ تم نہ دینی ترقی کے قابل، نہ دینی عمل کے قابل، یہ تمہارا کام ہی نہیں۔ بس تمہارا کام یہ ہے اگر تم غریب ہو تو گھر بیٹھ کے کھانا پکاؤ، اور اگر تم دولت مند ہو تو کھانا ملازمہ پکا لے گی، تم اچھے کپڑے پہن لیا کرو، بہترین زیور پہن لیا کرو اور جو جی میں آئے آرائش زیبائش کر لیا کر، بس قصہ ختم ہو گیا، زیادہ سے زیادہ یہ کیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بدنوں کو تو سنوار دیا لیکن دلوں کو بھی سنوارا ہے؟ بدن کی آرائش و زیبائش تو چند دن کی بہار ہے، یہ چند دن میں ختم ہونے والی ہے۔ خدا بھلا کرے بخار کا، تین دن میں بتلا دیتا ہے، ساری جوانی ڈھیلی پڑ جاتی ہے، اگر آدمی جوانی کے اوپر ناز کرے اور چہرے کی تازگی اور رونق پر اترائے تو تین دن کا بخار بتلا دیتا ہے کہ جوانی کی یہ حقیقت تھی۔ چہرے کی سرخی بھی ختم، منہ پر جھریاں پڑ گئیں اور تین دن میں بخار سے ایسا حال ہو گیا اور بخار نے بتلا دیا کہ سب سے بڑا مربّی اور ناصح میں ہوں، یہ بتلا دیتا ہے کہ جس کے لیے سارا سب کچھ کیا جا رہا ہے اس کی یہ قدر و قیمت ہے۔ اسی واسطے اہل اللہ نے اس کی خاص طور پر تاکید کی ہے کہ صورتوں کے حسن و جمال میں زیادہ مت گھسو، سیرت کے حسن و جمال کو دیکھو، اخلاق کی پاکیزگی کو دیکھو۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ کی خانقاہ میں اللہ اللہ سیکھنے کے لیے ہزاروں آدمی آتے تھے۔ ایک شخص آیا، ابھی بے چارہ نیا تھا، بزرگی نے اس کے دل میں گھر نہیں کیا تھا، شیخ سے بیعت ہوا۔ شیخ نے اسے اللہ اللہ بتا دی، اس نے بھی ذکر اللہ شروع کر دیا۔ اور طریقہ یہ تھا کہ خانقاہ میں جتنے مریدین ٹھہرے ہوئے تھے ان کا کھانا شیخ کے گھر سے آتا تھا۔ ایک باندی تھی جو کھانا تقسیم کر جاتی تھی۔ یہ مرید جو نووارد تھے، باندی انہیں کھانا دینے کے لیے آئی، باندی ذرا اچھی صورت کی تھی، ان کی طبیعت اس کی طرف مائل ہو گئی، اب جب وہ کھانا لے کے آئے یہ اسے گھورنا شروع کریں۔ شیخ کو پتہ چل گیا کہ یہ باندی کی صورت کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ وہ جتنا صورت و شکل میں الجھیں حقیقت اتنی کم ہو گی اور ذکر اللہ وغیرہ چھوٹ گیا، بس یہ نگاہ بازی رہ گئی، جب وہ آئے تو اسے گھور رہے ہیں، نہ اللہ کا نام اور نہ ذکر۔ عادت اللہ یہی ہے کہ بندہ صورتوں میں جتنا الجھتا ہے حقیقت سے اتنا ہی بے خبر بن جاتا ہے، جب صورت کے عشق میں مبتلا ہو گیا حقیقت کا عشق ختم ہو جاتا ہے۔ تو وہ صورت کے دیکھنے میں لگ گئے، اور جو حقیقت تھی اللہ اللہ کرنا اور یادِ خداوندی اس سے غفلت شروع ہو گئی۔
شیخ کو پتہ چل گیا کہ ہمارے مرید اس بلا میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ سبحان اللہ انہوں نے بڑی تدبیر سے علاج کیا، انہیں بلا کر یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی، ایسا مت کرو۔ بلکہ ایک تدبیر اختیار کی اور ہنسی کی تدبیر اختیار کی اور ان کی اصلاح بھی ہو گئی۔ وہ یہ کہ دستوں کی ایک دوا لا کر اس باندی کو کھلا دی، جمال گھوٹا یا کوئی دوسرا مسہل۔ صبح سے شام تک اسے بڑی تعداد میں دست آ گئے اور باندی کو یہ حکم دیا کہ ایک چوکی رکھ دی گئی ہے اس پر جا کر حاجت کرنا۔ وہ بیچاری ہر دست منٹ کے بعد جاتی۔ شام کو جب وہ چہرے کی سرخی باقی نہ رہی، ہڈی کو چمڑا لگ گیا، صورت دیکھو تو دیکھ کے نفرت آئے اور وہ جو گلاب سا چہرہ کھل رہا تھا وہ سب ختم ہو گیا، ایک زردی سے چھا گئی۔ شیخ نے اب اس کو کہا کہ اس مرید کے پاس کھانا لے کے جا اور تیرے ساتھ جو معاملہ کرے مجھے اس کی اطلاع دینا۔ اب وہ کھانا لے کے آئی تو انتظار میں بیٹھے رہتے تھے کہ کب وہ آئے اور میں اس کو گھوروں۔ اور اب جو آئی تو دیکھا کہ ہڈیاں نکلی ہوئیں، چہرے پر جھریاں پڑی ہوئیں، سرخی کے بجائے زردی چھائی ہوئی، انہیں بڑی نفرت پیدا ہوئی، کہا رکھ دے کھانا اور چلی جا جلدی سے یہاں سے، وہ بیچاری کھانا رکھ کے چلی گئی۔ شیخ سے اس نے جا کے یہ کہا، یہ اس نے کہا۔ اور کہا بجائے اس کے کہ مجھے دیکھے کہا چلی جا یہاں سے۔
شیخ سمجھ گیا کہ علاج ہو گیا۔ شیخ تشریف لائے اور اس مرید سے فرمایا کہ میرے ساتھ تشریف لے چلیئے۔ انگلی پکڑ کے لے گئے۔ وہ جو قدمچہ رکھا ہوا تھا جس میں کثیر تعداد دستوں کی نجاست بھری ہوئی تھی۔ فرمایا یہ ہے آپ کا معشوق، اسے لے جائیے۔ اس لیے کہ جب تک یہ باندی میں موجود تھا باندی سے محبت تھی، اب یہ نکل گیا اور تو کوئی چیز نہیں نکلی، آپ کو نفرت ہو گئی۔ معلوم ہوا اس باندی سے محبت نہیں تھی اس گندگی سے محبت تھی۔ اس گندگی کو احتیاط سے لے جائیے اور صندوق میں رکھیے، یہ آپ کا معشوق و محبوب ہے۔
عشقِ صورت آخرت ننگے بود
حقیقت یہ ہے کہ صورتوں کا عشق گندگی کا عشق ہے، سیرت کا عشق پاکیزگی کا عشق ہے، اعلیٰ ترین سیرت اخلاق ہیں، محبت کے قابل یہ چیز ہے۔
صورت نہیں سیرت
بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ صورت کی خوبی فتنے پیدا کرتی ہے اور سیرت کی خوبی امن پیدا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ خوبصورت حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، حدیث میں فرمایا گیا
فاذا قد اعطی شطر الحسن۔
آدھا حسن اللہ نے ساری دنیا کو دیا اور آدھا حسن و جمال تنہا یوسف علیہ السلام کو عطا کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اتنے بڑے حسین و جمیل تھے لیکن یوسف علیہ السلام پر جتنی مصیبتیں آئیں وہ صورت کے حسن کی وجہ سے آئیں۔ بھائیوں نے کنعان کے کنویں میں ڈالا، مصر کے بازار میں غلام بنا کر بیچے گئے، نو برس تک جیل خانہ بھگتا، یہ ساری صورت کی مصیبت تھی۔ اور جب مصر کی سلطنت ملنے کا وقت آیا اس وقت خود حضرت یوسفؑ نے کہا ’’اجلعنی علٰی خزآئن الارض‘‘ مجھے مصر کی سلطنت دے دو تو وجہ یہ نہیں بیان کی ’’انّی حسین جمیل‘‘ میں بڑا خوبصورت ہوں اس لیے مجھے بادشاہ بنا دو۔ بلکہ یوں فرمایا ’’اِنّیْ حَفِیْظ عَلِیْم‘‘ مجھے سلطنت بخش دو اس واسطے کہ میں عالم ہوں، میں جانتا ہوں کہ سلطنت کس طرح سے چلتی ہے، میں اپنے علم و کمال سے سلطنت چلا کے دکھاؤں گا۔ تو مصیبتوں کا جب وقت آیا تو حسن و جمال سامنے آیا۔ اور سلطنت ملنے کا وقت آیا تو اندرونی سیرت، علم و کمال سامنے آیا۔ اس لیے صورت کی خوبیاں فتنے میں مبتلا کرتی ہیں اور سیرت کی خوبیاں دنیا میں امن پیدا کرتی ہیں۔
میں اس پر عرض کر رہا تھا کہ اگر غریب گھرانے کی عورت ہے تب تو بڑے سے بڑا کام مردوں کی طرف سے کیا سپرد ہوتا ہے؟ یہ کہ کھانا پکا دے، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پال پرورش کر دے، اس کے فرائض ختم ہو گئے۔ اور اگر امیر گھرانے کی عورت ہے تو وہ بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرے گی، وہ ملازمہ کرے گی، کھانا بھی وہ پکائے گی، ان کا کام یہ ہے کہ ذرا اچھے کپڑے پہن لیے، اچھا زیور پہن لیا، ذرا اور آزاد ہوئیں تو تفریح کے لیے بازار بھی ہو آئیں، یہ کام کر لیا اور زندگی کے فرائض ختم ہو گئے۔ آگے یہ کہ تمہاری سیرت کیسی ہے؟ تمہارا قلب کیسا ہے؟ اخلاق کیسے؟ اس میں علم ہے یا نہیں؟ آخرت کا تعلق ہے یا نہیں؟ اللہ کے سامنے جانے کا کچھ خطرہ تمہارے سامنے ہے یا نہیں؟ قبر و حشر میں کیا گزرے گی؟ انجام کیا ہو گا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں، بس کھا لیا، پی لیا، عمدہ لباس پہن لیا، بہتر سے بہتر زیور پہن لیا اور فرائض ختم ہو گئے۔ یہ تو اللہ کے ہاں سوال ہو گا کہ تمہیں بادشاہ بنایا گیا تھا کیا اس لیے کہ رعیت کو اچھا کھلا دو، پہنا دو، اور ہم سے غافل کر دو؟ اس لیے تمہیں بادشاہ بنایا گیا تھا کہ مقصد کی طرف متوجہ کرو، وہ یہ کہ ہماری طرف متوجہ کرتے، جس کے لیے تمہیں دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یہ نہیں کیا تو تم سزا کے مستحق ہو۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں اس میں عورتوں کا کوئی قصور نہیں، یہ سارا مردوں کا قصور ہے کہ نہ ان کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں نہ ان کی تربیت کا۔ ان کی دلداری کا بڑے سے بڑا طریقہ ان کے ہاں یہ ہے کہ جو اُن کو خواہش ہو وہ پوری کر دو۔ کپڑے زیور دے دو بس فرض ختم ہو گیا۔ یہ نہیں کرتے کہ ان کے دل کو سنواریں، ان کی روح میں آراستگی پیدا کریں۔ کیا قیامت کے دن اس بارے میں ہم سے سوال نہیں ہو گا؟ کیا ہم سے پوچھا نہیں جائے گا؟ ضرور پوچھا جائے گا، ضرور پرسش ہو گی، اس جواب دہی کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب عورت کی گود علم و کمال سے خالی ہو گی تو بچے میں علم کہاں سے آئے گا؟ بچہ تو ماں کی گود سے علم حاصل کرتا ہے، وہاں جہالت ہے تو وہ بھی جاہل ہو گا۔ وہاں محض ظاہری ٹیپ ٹاپ کی خواہش ہے، بچے میں بھی یہی ٹیپ ٹاپ پیدا ہو گی، اسے بھی دل کے سنوارنے کی کوئی فکر نہیں ہو گی۔ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا اور وہ بڑی عبرت کا واقعہ ہے۔ وہ اس کا ہے کہ اگر عورت دیندار بننا چاہے اور اس کو بنانا چاہیں تو بڑے بڑے آرام اور عیش میں رہ کر بھی دیندار بن سکتی ہے۔ اور بددین بننا چاہے تو فقر و فاقہ میں بھی بددین بن سکتی ہے۔ دین کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آدمی بھک منگا بن جائے تو دیندار بنے گا اور اگر کوئی کروڑ پتی ہو گیا تو وہ دین دار ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ غلط ہے۔ دیندار بننا چاہے تو کروڑ پتی بن کے بھی دیندار بن سکتا ہے اور نہ بننا چاہے تو فاقہ مست ہو پھر بھی بددین بن سکتا ہے، اس پر میں واقعہ عرض کر رہا ہوں۔
وہ یہ کہ کابل کے بادشاہوں میں امیر دوست محمد خان بہت دیندار بادشاہ گزرے ہیں۔ امیر امان اللہ خان مرحوم کے باپ امیر حبیب اللہ خان تھے اور حبیب اللہ خان کے باپ امیر عبد الرحمٰن تھے، ان کے باپ دوست محمد خان ہیں۔ ان کا زمانہ تھا۔ ان کے زمانے میں کسی دوسرے بادشاہ نے افغانستان کے اوپر حملہ کیا اور فوج لے کر چڑھ دوڑا۔ امیر صاحب کو اس سے صدمہ بھی ہوا اور دکھ بھی کہ ایک بادشاہ نے میری سلطنت پر حملہ کر دیا، ممکن ہے کہ بادشاہت بھی ختم ہو اور آنے والا ملک کو برباد کر دے۔ اسی فکر میں شاہی محل میں اندر تشریف لائے، ان کی بیگم کھڑی ہوئی تھیں، بیگم سے یہ کہا کہ آج ایسی خبر آئی ہے کہ کسی بادشاہ نے حملہ کیا ہے، میں نے اپنے شہزادے کو فوج دے کر بھیج دیا ہے تاکہ وہ جا کے دشمن کا مقابلہ کرے۔ بیگم نے کہا ٹھیک کیا اور گبھرائیے مت، اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ غرض اپنے شہزادے کو فوج دے کر بھیج دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرے اور اس کو ملک میں نہ آنے دے اور اسے دور دھکیل دے، شہزادہ فوج لے کر چلا گیا۔ دوسرے دن امیر صاحب گھر میں آئے اور چہرے پر غم کا اثر، بیگم سے کہا کہ آج ایک بڑے صدمے کی خبر آئی ہے اور وہ یہ کہ میرا شہزادہ ہار گیا اس نے شکست کھائی، اور دشمن ملک کے اندر چڑھا ہوا آ رہا ہے اور میرا بیٹا شکست کھا کر واپس بھاگتا ہوا آ رہا ہے۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہے، ملک بھی جا رہا ہے اور یہ بات بھی پیش آگئی۔ بیگم نے کہا یہ بالکل جھوٹی خبر ہے اور آپ اس کا بالکل یقین نہ کریں۔ اس نے کہا جھوٹی نہیں ہے یہ تو سرکاری پرچہ نویس نے اطلاع دی ہے، محکمہ سی آئی ڈی کی اطلاع ہے۔ بیگم نے کہا آپ کا محکمہ بھی جھوٹا ہے اور سی آئی ڈی بھی آپ کی جھوٹی ہے، یہ خبر غلط ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔
اب امیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ سلطنت کی باضابطہ اطلاع ہے، یہ گھر میں بیٹھ کے کہہ رہی ہے کہ خبر جھوٹی ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں، یہ باضابطہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ امیر نے کہا کہ اب اس عورت سے بیٹھ کر کون جھک جھک کرے، وہی مرغے کی ایک ٹانگ، نہ کوئی دلیل نہ کوئی حجت، میں دلائل بیان کر رہا ہوں کہ محکمہ کی اطلاع اور ضابطہ کی خبر، اس نے کہا سب جھوٹے۔ اب اس سے کون بحث کرے۔ جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے:
اَوَمَن یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ وَھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ۔
فرمایا کہ عورت میں کچھ عقل کی کمی ہوتی ہے، جب بحث ہوتی ہے تو وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہانکتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہ بچپن سے زیوروں کی جھنکار میں پرورش پاتی ہے۔ جب ابتداء ہی سے رات دن سونا چاندی دل میں گھس گیا تو علم اور کمال کہاں سے گھسے گا۔ ایک چیز گھس سکتی ہے، یا سونا گھس جائے یا علم۔ ذرا دودھ پینا چھوٹا تو اس کے کان میں سوراخ کر دیا تاکہ اس میں سونے کی بالی پڑ جائے اور ذرا بڑی ہوئی تو ناک میں سوراخ کر دیا تاکہ اس میں سونے کی بالی بھی ڈال دو اور زیادہ ہوا تو گلے میں سونے کا طوق ڈال دیا۔ ہاتھوں میں سونے کی ہتھکڑیاں ڈال دیں اور پیروں میں سونے کی بیڑیاں ڈال دیں۔ غرض سونے چاندی کی قیدی۔ اور واقعی اگر عورتوں سے یوں کہا جائے کہ تمہارے سارے بدن میں کیلیں ٹھونکی جائیں گی مگر وہ سونے کی ہوں گی، فورًا راضی ہو جائیں گی، جلدی کرو ٹھونک دو مگر کیل سونے چاندی کی ہونی چاہیئے۔ اس درجہ سونے اور چاندی کی محبت میں گرفتار ہیں کہ بدن چھدوانے کو تیار ہیں مگر سونا اور چاندی ہو۔ جب اس درجے پر بات ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جو قرآن نے فرمایا ’’او من ینشؤا فی الحلیۃ وھو فی الخصام غیر مبین‘‘ وہ جو سونے اور چاندی میں نشوونما پاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علمی قوت نہیں پیدا ہوتی، جب خاوند سے بحث ہوتی ہے، وہ تو حجتیں پیش کرتا ہے اور یہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہانکتی ہے کہ نہیں یوں ہو گا۔
تو امیر صاحب نے دیکھا کہ بھئی میں حجت بیان کر رہا ہوں، سرکاری خبریں دے رہا ہوں، یہ کہتی ہے سب غلط ہیں۔ اب اس عورت سے کون بحث کرے، محل سرائے سے واپس چلے آئے۔ دوسرے دن بڑے خوش خوش آئے اور کہا مبارک ہو، جو تم نے کہا تھا بات وہی سچی نکلی۔ خبر یہ آئی ہے کہ میرا شہزادہ فتح پا گیا اس نے دشمن کو بھگا دیا اور وہ کامیابی کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔ بیگم نے کہا الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس نے میری بات اونچی کی اور میری بات سچی کر دکھائی۔ امیر نے کہا، آخر تم کہیں کیسے معلوم ہوا تھا جو تم نے کل یہ حکم لگا دیا کہ میرا محکمہ بھی جھوٹا، سی آئی ڈی اور پولیس بھی جھوٹی، تو تمہیں کوئی الہام ہوا تھا؟ اس نے کہا مجھے الہام سے کیا تعلق، اول تو عورت ذات، پھر ایک بادشاہی تخت پر بیٹھنے والی، یہ بزرگوں کا کام ہے کہ انہیں الہام ہو، بھلا مجھے الہام سے کیا تعلق؟ میں ایک معمولی عورت۔ انہوں نے کہا، آخر تم نے اس قوت سے کس طرح کہہ دیا کہ سب بات غلط ہے اور واقعہ بھی وہی ہوا کہ وہ غلط ہی ثابت ہوئی۔ اس نے کہا، اس کا ایک راز ہے جس کو میں نے اب تک کسی کے سامنے نہیں کھولا اور نہ اسے کھولنا چاہتی ہوں۔
امیر نے کہا وہ کیسا راز ہے؟ اب امیر صاحب سر ہو گئے کہ آخر ایسا کونسا راز ہے جو خاوند سے بھی چھپا ہوا رہ جائے۔ اس نے کہا صاحب! کہ ایسی بات ہے کہ میں اس کو کہنا نہیں چاہتی۔ ’’الانسان حریص فی ما منع‘‘ مثل مشہور ہے کہ جس چیز سے روکا جائے اس کی اور زیادہ حرص بڑھتی ہے کہ آخر اس میں کیا ہو گا؟ تو امیر صاحب نے کہا کہ اب تو بتانا پڑے گا۔ جب بہت زیادہ سر ہو گئے تو اس نے کہا آج تک میں نے یہ راز چھپایا اب کھولے دیتی ہوں۔ وہ راز یہ ہے کہ مجھے اس کا کیوں یقین تھا کہ شہزادہ فتح پا کے آئے گا یا قتل ہو گا مگر شکست نہیں کھا سکتا، دشمن کو پیٹھ دکھا کے نہیں آ سکتا۔ یہ میرا یقین کس بنا پر تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ میرے پیٹ میں تھا میں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اس نو مہینے میں ایک مشتبہ لقمہ بھی اپنے پیٹ میں نہیں ڈالوں گی، رزقِ حلال کی کمائی میرے پیٹ میں جائے گی۔ اس لیے کہ ناپاک کمائی سے خون بھی ناپاک پیدا ہوتا ہے اور ناپاک خون سے اخلاق بھی گندے اور ناپاک پیدا ہوتے ہیں تو میں نے عہد کیا اور نو مہینے اسے پورا کیا کہ لقمۂ حرام تو بجائے خود ہے میں نے کوئی مشتبہ لقمہ بھی پیٹ میں نہیں جانے دیا، خالص حلال کی کمائی سے پیٹ کو بھرا۔ ایک تو میں نے یہ عہد کیا، اس کو لازم رکھا اور اس پر عمل کیا۔
دوسری بات میں نے یہ کی کہ جب یہ پیدا ہو گیا تو ہزاروں دودھ پلانے والی ملازمات تھیں، میں نے اس کو انہیں نہیں دیا، اپنا دودھ پلایا، دودھ پلانے کا طریقہ یہ تھا، جب یہ روتا، میں پہلے وضو کرتی، دو رکعت نفل پڑھتی، اس کے بعد اسے دودھ پلاتی، دعائیں بھی مانگتی۔ تو ادھر تو اندر پاک غذا پھر اللہ کی طرف توجہ، غرض دودھ بھی پاک، اس سے پیدا ہونے والا خون بھی پاک، اور پاک خون سے پیدا ہونے والے اخلاق بھی پاک۔ اس لیے اس کے اندر بد اخلاقی نہیں ہو سکتی۔ پشت دکھلا کر آنا اور بزدلی کرنا یہ کمینے اخلاق میں سے ہے۔ شجاعت اور بہادری یہ پاکیزہ اخلاق میں سے ہے، جب اس کا خون پاک تھا تو یہ کیسے ممکن تھا یہ بزدل بنتا؟ یہ ممکن تھا یہ قتل ہو جاتا، شہید ہو جاتا۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ پشت کے اوپر زخم کھا کر واپس آتا اور بزدلی دکھلاتا، جب اس کے خون میں ناپاکی نہیں تو اس کے افعال میں ناپاکی کہاں سے آئے گی؟ یہ وجہ تھی جس کی بنا پر میں نے دعوٰی کر دیا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ وہ شکست کھا کے آئے۔ ہاں آپ یہ کہتے کہ شہید ہو گیا ہے میں یقین کر لیتی کہ وہ قتل ہو گیا۔ اس بنا پر میں نے یہ دعوٰی کیا تھا آج میں نے یہ راز کھولا۔
آپ اندازہ کریں کہ امیر دوست محمد خان کی بیوی ایک اقلیم کی ملکہ ہیں ہزاروں فوجیں اور سپاہ، حشم و خدم اس کے سامنے ہیں اور وہ جب تختِ سلطنت پر بیٹھ کر اتنی متقی بن سکتی ہے تو ہماری بہو بیٹیاں معمولی گھرانے میں رہ کر کیوں نہیں متقی بن سکتیں؟ ہمارے پاس کون سی ایسی دولت ہے؟ ہم اگر لکھ پتی یا کروڑ پتی بنیں سارے افریقہ کے مالک تو نہیں ہو گئے، ہفت اقلیم کے بادشاہ تو نہیں ہو گئے۔ ایک ملکہ اور بادشاہ کی بیوی جب یہ تقوٰی دکھلا سکتی ہے تو میری بہنیں کیوں نہیں تقوٰی دکھلا سکتیں؟ میری بیٹیاں کیوں نہیں یہ تقوٰی دکھلا سکتیں؟ ان کے پاس تو اتنی دولت بھی نہیں کہ دولت کے قصہ سے کوئی وقت فارغ نہ ہو۔ فارغ وقت بھی ہوتا ہے۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ اگر دیندار بننا چاہیں، عورت ہو یا مرد، کروڑ پتی بن کے بھی بن سکتا ہے، نہ بننا چاہے تو فاقہ زدہ ہو کے بھی دیندار نہیں بن سکتا، بددین رہے گا۔ یہ اپنے قلب پر موقوف ہے اور قلب میں یہ جذبہ جب پیدا ہو گا جب اس قلب کی تربیت کی جائے، اس کو تعلیم دی جائے، اس میں علم ڈالا جائے، اس میں اللہ کی عظمت پیدا کی جائے۔ اس میں حلال کی کمائی کی رغبت پیدا کی جائے، ناجائز باتوں سے بچنے کے جذبے پیدا کیے جائیں، تب قلب میں صلاحیت آئے گی، پھر جو اولاد تربیت سے پیدا ہو گی وہ صالحین میں سے ہو گی، وہ خودبخود تقوٰی و طہارت اور نفس کی پاکیزگی لیے ہوئے پیدا ہو گی۔
تو واقعہ یہ ہے کہ بنیاد عورت سے چلتی ہے مگر عورت کو بنانے کی بنیاد مردوں سے چلتی ہے۔ انجام کار ہماری اور آپ کی کوتاہی نکلتی ہے، ہماری بہنوں کا کوئی قصور نہیں۔
بچہ کی تربیت
یہ میں کوئی ان بہنوں کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا کہ بھئی آج فقط عورتوں کا جلسہ ہے اس لیے ایسی بات کہہ دوں جس سے وہ ناراض نہ ہوں۔ ایسا نہیں بلکہ امر حقیقت ہے کہ اگر ہم صحیح تربیت کریں، یہ ہمارا فرض ہے، چار پانچ برس کی بچی بے چاری کیا جانتی ہے جس راہ پر آپ ڈال دیں گے پڑ جائے گی۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ پیدا ہوا بچہ اسی وقت سے تربیت کے قابل بن جاتا ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جب چار پانچ برس کا ہو گا جب اس کو تعلیم و تربیت دیں گے، ایسا نہیں ہے، بلکہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ پیدا ہوتے ہی تربیت کا وقت آجاتا ہے، اس وجہ سے کہ بچہ مہینے بھر کا ہے اسے ظاہر میں کوئی عقل و شعور اور تمیز کچھ نہیں لیکن اس کے سامنے کوئی برا کلمہ مت کہو اور کوئی بری ہیئت بھی اس کے سامنے مت اختیار کرو، اس لیے کہ اسے ہوش تو نہیں مگر اس کا قلب ایسے ہے جیسے سفید کاغذ، آنکھ کے راستے جو ہیئت جائے گی وہ اس کے قلب کے اوپر جا کے چَھپ جائے گی۔ آپ برا کلمہ کہیں گے یا گالم گلوچ کریں گے وہ کان کے راستے سے جا کر اس کے دل پر چَھپ جائے گا، جب وہ ہوش سنبھالے گا تو وہی باتیں بکتا ہوا ہو گا۔
غرض تربیت وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اس خیال میں رہتے ہیں کہ یہ بچہ ہے اسے کیا شعور ہے؟ جو چاہے اس کے سامنے کہہ دو اور جو چاہو کر گزرو، جو چاہو ہیئت بنالو، اسے کیا شعور؟ یہ درست ہے کہ اسے تمیز اور شعور نہیں ہے مگر یہ چیز کان آنکھ کے راستے سے جا کر دل پر چَھپتی ہے۔ تو امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ دودھ پیتے بچے کے سامنے بات بھی کرو تو تہذیب اور شائستگی کی کرو۔ کوئی بے جا بات مت کرو، وہ بے جا بات اس کے دل میں گھر کر جائے گی اور جب کوئی ہیئت دکھلاؤ تو بری ہیئت مت دکھلاؤ، اچھی ہیئت دکھلاؤ، آنکھ کے راستے سے وہی ہیئت اس کے دل پر چَھپے گی۔ اس بنا پر کہتے ہیں کہ تربیت پانچ برس کی عمر میں نہیں ہوتی، پیدا ہوتے ہی تربیت کا موقع آجاتا ہے۔
بچہ نقال ہوتا ہے
یہ جب ہو گا جب خود ماں باپ میں تقوٰی و پاکیزگی اور احتیاط موجود ہو گی۔ جتنی یہ پاکیزگی برتیں گے اتنی ہی پاکیزگی بچے کے قلب میں بھی پیدا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات کے بچے عموماً گالیاں دیتے ہوئے بڑھتے ہیں، شہروں کے تہذیب یافتہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دیہات میں خود ماں باپ گالیاں بکتے ہیں، بچے کے دل میں بھی وہی چَھپتی رہتی ہیں، شہر میں ذرا تہذیب کے کلمے ہوتے ہیں، وہ چَھپتے رہتے ہیں اس کا اثر پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلام نے آداب میں سے یہ رکھا ہے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کے لیے سب سے پہلے بندوبست نہ روٹی کا کیا کہ اسے دودھ پلاؤ، نہ کپڑے کا کیا، خیر یہ بھی پہنا دے، پہلا بندوبست یہ کیا کہ اس کے (غسل دینے اور ظاہری آلودگی سے پاکی کے بعد) دائیں کان میں اذان دو اور بائیں کان میں تکبیر۔ اذان کہنا ایسا ہے جیسے دیوار کے سامنے کہے تو دیوار کو کیا خبر؟ تو یہی بات آتی ہے کہ اسے خبر تو نہیں ہے مگر کان کے راستے جب ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ‘‘ پہنچے گا تو دل میں ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے یہ کلمہ جب پہنچے گا تو دل میں اس کی چھاپ لگ جائے گی۔ جب آپ ’’اشھد ان محمدًا رسول اللہ‘‘ کہیں گے دل پر رسالت پر ایمان لانا چَھپ جائے گا۔ جب ’’حی علی الصلٰوۃ‘‘ کہیں گے کہ آپ نماز کی طرف دوڑو، یہی جملہ چَھپ جائے گا۔ تو دائیں کان کو آپ نے توحید و رسالت، عمل صالح اور اللہ کی عظمت و بڑائی سے بھر دیا اور بائیں کان کو تکبیر سے بھر دیا۔ اس میں اللہ و رسولؐ اور دین کی عظمت دل میں بٹھلائی تو اذان و تکبیر ہو گئی۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس اذان اور تکبیر کی نماز کونسی ہے؟ جو جنازہ کی نماز آپ پڑھیں گے اس کی یہ اذان و تکبیر ہے۔ دنیا میں آتے ہی اذان دی گئی، تکبیر بھی کہی گئی اور دنیا سے جاتے ہوئے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔ یہ اس کی اذان و تکبیر تھی تاکہ ایک مومن بچے کی ابتدا اور انتہا دونوں اللہ کے نام پر ہوں۔ تو اللہ اکبر سے زندگی شروع ہوئی اور اسی پر ختم ہو گئی۔ زندگی کا اول و آخر خدا کے نام سے چلا۔ اس کی بنا یہی ہے کہ ابتدا ہی جو اس کے دل میں چَھپے اللہ کا نام چَھپے، کوئی گالم گلوچ اور برا کلمہ نہ چَھپے۔
اب اگر آپ تربیت دیں گے تو دل میں پیدا ہوتے ہی بیچ تو آپ نے ڈال دیا۔ اب نماز کے لیے کہیں گے تو بیج موجود ہے اس میں پھل پھول لگنے شروع ہو جائیں گے، عملِ صالح شروع ہو جائے گا۔ ہاں خدانخواستہ تربیت نہ کی تو وہ جو بیچ ڈالا تھا وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ زمین میں آپ بیج ڈال دیں لیکن نہ پانی دیں نہ دھوپ سے بچائیں، بیج جل کر ختم ہو جائے گا۔ امید بھی نہیں رہے گی کہ اس میں کوئی درخت پیدا ہو۔ اس لیے بیج تو توحید و رسالت کا پیدا ہوتے ہی ڈال دیا جاتا ہے، آگے ماں باپ کو حکم ہے کہ ’’مروا صبیائکم اذا بلغوا سبعًا‘‘ بچوں کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات برس کے ہو جاویں، اور مار کر پڑھاؤ جب وہ درس برس کے ہو جائیں۔ یہ گویا تربیت اور آبیاری ہے کہ بیج وہاں ڈالا تھا اب پانی دینا شروع کرو۔ دھوپ سے بچاؤ تاکہ وہ بیج پھل لائے اور درخت بن جائے۔ یہ تربیت ہو گی تو اس کے بچے اور بچیاں بھی مستحق ہیں، لڑکے اور لڑکیاں بھی۔ آگے ماں باپ قصوروار ہیں اولاد قصوروار نہیں ہے۔ اولاد جب قصوروار بنے گی جب وہ عاقل بالغ ہو۔ شریعت کا خطاب متوجہ ہو، پھر اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ مگر ابتدائی تعلیم نہ دینے کا مواخذہ ماں باپ سے ہو گا کہ کیوں نہ تم نے صحیح راستے پر ڈالا؟ کیوں غلط راستے پر ڈالا؟
عورتوں کی صحیح تربیت کی ضرورت
تو اس کی ضرورت ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا بھی صحیح طریق پر بندوبست کیا جائے مثلاً ہمارے ہاں یہ قدیم زمانے میں دستور تھا بلکہ اب بھی کچھ قصبات میں ہے کہ اسکول یا کالج نہیں قائم ہوتے بلکہ محلے میں جو بڑی بوڑھیاں ہیں اور وہ پڑھی لکھی ہوئی ہیں تو محلے کی بچیاں ایک گھر میں جمع ہو جاتی ہیں۔ وہ گھر کے کام کاج بھی کر رہی ہیں اور قرآن شریف بھی پڑھ رہی ہیں، ترجمہ بھی پڑھ رہی ہیں، مسئلے مسائل کے لیے ان کو بہشتی زیور پڑھایا جا رہا ہے، یہ ان کی گھریلو تعلیم ہو جاتی تھی۔ جب یہ چیز کم ہو گئی تو مدرسے کھلے، بچیاں وہاں پڑھنے چلی جاتی ہیں۔ بہرحال کچھ نہ کچھ اس کی طرف توجہ ہے۔ یہ نہیں کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو جیسے خودرو درخت ہوتے ہیں کہ جدھر کو ان کا جی چاہے چلی جائیں۔ بہرحال ان کو گھریلو تعلیم دی جائے، جو عورتیں قرآن شریف پڑھی ہوئی ہیں، یا اردو جانتی ہیں، یا انہیں اپنی زبان میں مسائل معلوم ہوں، یا کوئی کتاب ہے وہ پڑھائیں تاکہ ابتداء سے مسئلے مسائل کا علم ہو۔
اس لیے کہ شریعتِ اسلام نے علم کے سلسلے میں دو درجے رکھے ہیں۔ ایک درجہ ہر انسان پر مرد ہو یا عورت واجب ہے، اور ایک درجہ فرضِ کفایہ ہے کہ سو میں سے ایک ادا کر دے تو سو کے لیے کافی ہے۔
- وہ حصہ جو ہر ہر شخص پر واجب ہے وہ ضروریاتِ دین کا ہے کہ جس سے عقیدہ معلوم ہو جائے، اخلاق کا پتہ چل جائے، حقوق کی ادائیگی، ماں باپ، اولاد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے کیا حقوق ہیں، اللہ و رسولؐ کا کیا حق ہے؟ کچھ عبادت، کچھ معاشرت، کچھ اخلاق، کچھ اعتقادات، یہ سیکھنے تو واجب ہیں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔
- اور ایک ہے پورا عالم بننا، یہ ہر ایک کے اوپر فرض نہیں ہے، سو دو سو میں سے اگر ایک دو بھی عالم بن گئے تو سب کے لیے کافی ہے، ہاں ایک بھی نہیں بنے گا تو سب گنہگار ہوں گے۔
غرض فرضِ کفایہ کی یہ شان ہے کہ پوری قوم مل کر فرض کو چھوڑ دے تو پوری قوم گنہگار ہے لیکن اگر ایک فیصد کو عالم بنا دیا، عمل دکھلا دیا تو ساری قوم کے اوپر سے گناہ ہٹ گیا۔ تو ایک عرض عینی ہے یعنی ہر ہر شخص گنہگار، جو نہیں کرے گا وہی گنہگار ہو گا۔ اس لیے اتنا حصہ عورت اور مرد دونوں کے لیے ضروری ہے جس سے وہ یہ سمجھیں کہ اسلام کسے کہتے ہیں؟ ہم مسلمان کیوں ہیں؟ ہم پر کیا چیزیں فرض ہیں؟ ہم پر کیا ضروریات عائد ہوتی ہیں؟ عورت بھی اور مرد بھی اس کا حقدار ہے۔ اس کا سکھانا فرض ہے خواہ مرد اپنی بچیوں کو سکھلائیں یا مرد کسی ایک عورت کو پڑھا دیں۔ وہ عورت اور عورتوں کو تیار کر دے کہ وہ گھروں میں جا کے یا کسی ایک جگہ مدرسہ قائم کر کے ان بچیوں کو پڑھا دے۔ اس سے زیادہ کوئی قصہ نہیں، ذرا توجہ کی جائے تو یہ معاملہ باآسانی ہو سکتا ہے۔
رہا عالم بنانا، سب کے لیے عالم بننا ضروری نہیں ہے، نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں کے لیے۔ قوم میں سے ایک دو بھی بن گئے یا باہر جا کے بن گئے، ہندوستان جا کے بن گئے، پوری قوم سے گناہ ہٹ گیا۔ اس عالم کا فرض ہے وہ اپنی قوم کی اصلاح کرے، جو ان کی دینی ضروریات ہیں انہیں پورا کرے۔ انہیں مسائل بتائے، فتوٰی دے، الجھنوں میں شرعی طور پر ان کی راہنمائی کرے، دل وساوس میں الجھ گئے ہوں تو فکر کا راستہ درست کرے، یہ اس کا فریضہ ہے۔
بہرحال مطلب یہ ہے کہ عورتیں بھی علم و اخلاق کی اتنی حقدار ہیں جتنے آپ حقدار ہیں، جتنا حصہ آپ پر ضروری ہے وہ ان پر بھی ضروری ہے، ان کی دیکھ بھال آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نہیں کرتے تو آپ سے مؤاخذہ ہو گا۔ اس واسطے یہ چند جملے میں نے عرض کیے تھے اور آیت یہ تلاوت کی تھی ’’وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ملائکہ علیہم السلام جب آئے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے خطاب کیا۔ یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔ نہایت مقدس اور پاک باز بی بی ہیں۔ حتٰی کہ بعض علماء ان کے نبی ہونے کے قائل ہیں، ان سے ملائکہ نے خطاب کیا اور کہا:
اے مریم! بشارت حاصل کر، اللہ نے تجھے منتخب کیا، تجھے پاکباز اور مقدس بنایا اور تیرے زمانے میں جتنی عورتیں ہیں ان سب پر تجھے فضیلت دی، بڑائی اور بزرگی دی، جب اللہ نے یہ انعام تجھے دیا اور برتر و برگزیدہ کر دیا تو تیرا کام یہ ہے ’’یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ‘‘ اے مریم! اپنے پروردگار کے سامنے عبادت گزار بندی بن کے رہ ’’وَاسْجُدِیْ‘‘ سجدے اختیار کر ’’وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ‘‘ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔ رکوع سے مراد نماز ہوتی ہے، جہاں رکوع کا لفظ آتا ہے وہاں نماز کا ذکر ہے، وہاں محض رکوع نہیں بلکہ پوری نماز مراد ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ نماز قائم کرو، عبادتِ خداوندی کو اپنا شعار اور اپنی طبیعت بناؤ
اس لیے میں نے یہ آیت پڑھی تھی کہ مریم علیہا السلام کتنی بڑی پارسا اور پاک بی بی ہیں، ان کو اللہ نے کتنا بڑا مقام دیا کہ فرشتوں نے ان سے خطاب کیا۔ یہ شرف کس کو حاصل ہوا؟ یہ بڑی قسمت کی چیز ہے، یہ ایک عورت کو شرف حاصل ہوا۔ اگر حضرت مریم علیہا السلام کو یہ شرف حاصل ہوا، ہماری بہو بیٹیوں کو کیوں نہیں ہو سکتا بشرطیکہ وہ بھی وہی کام کریں جو حضرت مریمؑ نے کیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی کچھ اور خصوصیات تھیں وہ ان کے ساتھ خاص تھیں لیکن جو بڑائی اور کمال اللہ نے دیا تھا اس کے دروازے اللہ نے کسی کے لیے بند نہیں کیے۔ مریم علیہا السلام اگر ولیٔ کامل بن سکتی ہیں تو ہماری عورتیں بھی ولیٔ کامل بن سکتی ہیں۔
نبوت کا بے شک دروازہ بند ہو گیا، نبی اب کوئی نہیں ہو سکتا، ایک ہی نبوت قیامت تک کے لیے کافی ہے، اس نبوت کے طفیل میں بڑے بڑے محدث، امام، مجتہد، اولیائے کاملین اور مجدّد پیدا ہوں گے۔ فیضان قیامت تک اسی نبوت کا کام کرتا رہے گا۔ گویا اتنی کامل نبوت ہے کہ اسے ختم کر کے کسی اور نبوت لانے کی ضرورت نہیں۔ جو مراتبِ نبوت تھے اسی ذات پر ختم کر دیے گئے۔ اب کوئی مرتبہ نبوت کا باقی نہ رہا جس کے لانے کے لیے کسی کو بھیجا جائے کہ اس پر یہ مرتبہ پورا کیا جائے۔ ایک ہی ذات پر سارے مراتب ختم ہو گئے۔ یہ وہی ذات ہے جس کی روشنی قیامت تک چلتی رہے گی۔ روشنی کو پہنچانے والے اللہ تعالیٰ ہزاروں آئینے پیدا کر دے گا کہ آئینہ آفتاب کے سامنے ہو گا اور عکس اندھیرے مکان میں ڈال دے گا۔ تو نبوت کا دروازہ تو بند ہو گیا مگر ولایت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اس لیے اس نبوت کے نیچے رہ کر جو بڑے سے بڑا کمال مرد کو مل سکتا ہے وہ عورت کو بھی مل سکتا ہے۔
عورتیں مایوس نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ علم وغیرہ تو مردوں کے لیے ہے، ہم صرف گھر میں بیٹھنے کے لیے ہیں۔ گھر میں ہی بیٹھ کر سب کچھ مل سکتا ہے اگر محنت کی جائے اور یہ توجہ کریں۔ اس واسطے میں نے یہ آیت تلاوت کی تھی اس کے تحت یہ تھوڑی سی تشریح عرض کی۔ خدا کرے ہمارے قلوب قبول کریں اور ہمارے دل مائل ہوں اور ہم حقوق کو پہچانیں۔ ہمیں اگر راعی بنایا گیا ہے تو ہم اپنی رعیت کی خبرگیری کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے، آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔