موجودہ عرف و حالات کے تناظر میں نمازِ جمعہ کیلئے شہر کی شرط

اتنی بات تو متفقہ طور پر مسلم ہے کہ جمعہ دیگر پانچ نمازوں کی طرح نہیں ہے کہ ہر قسم کی آبادی میں، جنگل میں، حضر ہو یا سفر، زمین ہو یا سمندر کی سطح، انفرادا‌ ہو یا جماعت کے ساتھ، ادا ہو یا قضاء، ہر طرح پڑھنے کی اجازت ہو۔ بلکہ نماز جمعہ کیلئے کچھ خصوصی شرائط ہیں، یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ اور محدثین میں سے کسی کے نزدیک بھی آبادی سے دور صحراء اور جنگل میں جمعہ جائز نہیں۔ انہی شرائط میں سے ایک شرط احناف کے نزدیک مصر یعنی شہر کا ہونا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ اپنے عموم اور اطلاق پر باقی نہیں ہے۔ تمام ائمہ نماز جمعہ درست اور واجب ہونے کیلئے کچھ نہ کچھ تخصیص ضرور کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ احناف کے ہاں شہر کی قید کی وجہ سے تخصیص بڑھ گئی ہے۔ دوسرے ائمہ کے ہاں دیہات میں جمعہ درست ہے، اس لیے ان کے ہاں تخصیص کچھ کم ہے۔

نماز جمعہ کیلئے شہر کے شرط ہونے پر حنفیہ کے دلائل

نماز جمعہ صحیح ہونے کیلئے شہر کے شرط ہونے پر حنفیہ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

(١) عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: أنہ قال: "لا جمعۃ ولا تشریق إلا فی مصر جامع۔ (کتاب الآثار لأبی یوسف: باب صلاۃ العیدین)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جمعہ اور عید کی نماز صرف بڑے شہر میں درست ہے۔‘‘

یہ حدیث مرفوعا‌ و موقوفا‌ دونوں طرح مروی ہے، چنانچہ محقق علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر، ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق اور علامہ ابن حزمؒ سے اس روایت کی تصحیح نقل کی ہے۔

علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فتح الباری اور درایہ میں اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں اسنادہ صحیح اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ومن ذلک حدیث علی لا جمعۃ ولا تشریق إلا فی مصر جامع أخرجہ أبو عبید بإسناد صحیح۔ (فتح الباری، باب فضل العمل فی أیام التشریق: ۲/۴۵۷/ط: دار المعرفۃ، بیروت)

(٢) بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ مدینہ منورہ کے آس پاس چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے، جن کو ’’عوالی‘‘ کہا جاتا ہے، وہاں جمعہ نہیں پڑھا جاتا تھا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی وہاں جمعہ ادا نہیں کیا، وہاں کے لوگ باری باری نماز جمعہ کیلئے مدینہ طیبہ حاضر ہوا کرتے تھے۔ اگر گاؤں میں جمعہ قائم کرنا جائز ہوتا، نیز اگر گاؤں، دیہات والوں پر نماز جمعہ فرض ہوتا تو مدینہ منورہ کے آس پاس دیہات کے لوگ سات سات میل کے فاصلے سے باری باری مدینہ طیبہ کیوں حاضر ہوتے، اپنے یہاں کیوں نہیں پڑھا کرتے تھے؟ اور جو مسجد نبوی نہیں آتے تو کیا ان پر جمعہ فرض تھا؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گاؤں، دیہات میں جمعہ قائم کرنا درست نہیں، ورنہ مدینہ کے اہل عوالی اپنے یہاں جمعہ قائم فرماتے۔

عن عائشۃ، زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قالت: کان الناس ینتابون یوم الجمعۃ من منازلہم والعوالی، فیأتون فی الغبار یصیبہم الغبار والعرق، فیخرج منہم العرق، فأتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إنسان منہم وہو عندی، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: «لو أنکم تطہرتم لیومکم ہذا» ( صحیح البخاری ،باب من أین تؤتی الجمعۃ، وعلی من تجب: ۲/۶/ط: دار طوق النجاۃ)

(۳) راجح قول کے مطابق جمعہ کی فرضیت مکہ مکرمہ میں ہو چکی تھی، مگر چونکہ قدرت نہیں تھی، اس لیے وہاں جمعہ ادا کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ کی طرف تشریف لا رہے تھے تو مدینہ طیبہ سے باہر بنو عمرو بن عوف کی بستی میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق چودہ روز قیام فرمایا، جہاں جمعہ کا دن اور وقت آیا، کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی، چاہتے تو ادا کر سکتے تھے، مگر چونکہ چھوٹی بستی تھی اس لیے خود بھی جمعہ ادا نہ کیا اور دوسروں کو بھی ادائیگی کا حکم نہیں دیا۔

(۴) حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں قیام فرمایا، عرفات میں مسلمانوں کا بڑا مجمع موجود تھا، مگر آپ نے یہاں جمعہ ادا نہیں کیا، بلکہ ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)۔ کیوں کہ آبادی نہ ہونے کی وجہ سے مقام عرفات محل جمعہ نہیں تھا۔

مصر کی لغوی اور شرعی تعریف

عربی لغت کی مشہور کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں ہے کہ مصر لغت میں بکری یا اونٹنی کا دودھ تین انگلیوں سے یا پوروں سے دوہنے کو کہتے ہیں، دودھ والی اونٹنی کا دودھ کم ہونے کو بھی مصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ مصر کا اطلاق دو چیزوں یا دو زمینوں کے درمیان آڑ، رکاوٹ، باڑ وغیرہ پر بھی ہوتا ہے۔ مصر القوم المکان، کسی جگہ کو آباد کرنا، شہر بنانا، شہر کا نام۔ المصران، شہر کو فرو بصرہ، سرخ مٹی۔ (لسان العرب: تحت لفظ مصر، ۵/۱۷۵، بیروت) (القاموس الوحید ۸/۱۵۵/مادہ، مصر، ط: ادارہ اسلامیات ،لاہور)

واضح رہے کہ مصر ان اصطلاحات میں سے ہے، جس کی قرآن و سنت میں کوئی تعریف، تحدید اور تعیین نہیں کی گئی ہے۔ اور یہ متفقہ مسلمہ اصول ہے کہ جن الفاظ اور اصلاحات کی شریعت نے کوئی مخصوص معنی اور تعریف کی وضاحت بیان نہ کی ہو، تو ان کی تحدید و تعیین لغت اور عرف عام سے کی جاتی ہے۔ اس لئے فقہائے کرام نے اپنے فقیہانہ بصیرت کے مطابق اپنے زمانے کے عرف و حالات کا اعتبار کرتے ہوئے مصر یعنی شہر کی تحدید و تعریف کی ہے۔ تعریف چونکہ عرف کے اعتبار سے تھی اس لئے عرف کے بدلنے سے تعریف بدلتی رہی۔

حاصل یہ کہ فقہاء کرام نے مصر کی تعریف حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے بیان نہیں کی ہے، بلکہ جس زمانے میں جیسا عرف تھا، اس کے موافق علامات و آثار متعین کر کے تعریف کی ہے۔ ظاہر ہے علامات عرف کے بدلے سے بدلتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی علامات ایسی ہیں جو پہلے زمانے میں قابل رعایت تھیں، اب ان کا اعتبار نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مصر کی تعریف کے سلسلے میں فقہاء کرام کے اقوال میں اچھا خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ وجہ وہی ہے کہ ان حضرات نے اپنے زمانے کے عرف کے مطابق مصر کی تعریفات بیان کی ہیں۔ حقیقی تعریف اور ماہیت کی تعریف مقصود نہیں تھی۔ اور عرف کے تبدیل ہونے کی وجہ سے عرفی تعریف بھی بدل جاتی ہے۔ اس لئے فقہاء کرام کی بیان کردہ تعریفات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور نہ ان تعریفات پر مصر کا مدار ہے، بلکہ اس کا مدار عرف پر ہو گا۔ عرف میں جو جگہ اور مقام شہر کہلائے گی وہی شہر ہو گا، اور جس جگہ کو عرف میں گاؤں، دیہات سمجھا جائے گا وہ گاؤں، دیہات ہی ہو گا۔

مصر کی تعریف کے سلسلے میں فقہاء کرام کے متداول اقوال

مصر کی تعریف کے متعلق فقہاء کرام کے متداول اقوال مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) امام ابو حنیفہؒ نے مصر کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے کہ مصر وہ ہے جہاں گلی کوچے ہوں، بازار ہو، اس کے ماتحت دیہات ہو، وہاں والی (حاکم) ہو جو اپنے اثر و رسوخ اور اختیارات کی بنیاد پر ظالم اور مظلوم کے درمیان برحق فیصلہ کرتا ہو، نیز پیش آمدہ مسائل میں لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

(٢) حنفیہ کی ظاہر روایت کے مطابق مصر وہ جگہ ہے جہاں امیر، قاضی اور مفتی موجود ہو اور ان کو اتنی قدرت حاصل ہو کہ وہاں شرعی احکامات اور حدود نافذ کر سکیں، اور اس کی کم از کم آبادی منی کے برابر ہو۔

(۳) امام کرخیؒ اور صاحب ہدایہؒ کے قول کے مطابق مصر وہ جگہ ہے جہاں امیر اور قاضی موجود ہو، جو احکام اور حدود نافذ کرنے پر قدرت رکھتے ہوں۔

(۴) امام ابویوسفؒ کے ایک قول کے مطابق مصر اس بڑی بستی کا نام ہے کہ اگر اس بستی کے آبادی کے لوگ وہاں کی بڑی مسجد میں اکھٹے ہو جائیں تو مسجد ان کیلئے ناکافی ہو۔

(۵) امام ابو یوسفؒ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ مصر وہ مقام ہے جہاں کی مجموعی آبادی دس ہزار ہو۔

(۶) بعض مشائخ نے مصر کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے کہ مصر وہ مرکزی جگہ ہے جہاں ایک پیشہ کا آدمی کسی دوسرے پیشے میں لگے بغیر ایک سال تک صرف اپنے پیشے سے روزی کما کر زندگی بسر کر سکے۔

(۷) فقیہ ابو القاسم الصفارؒ فرماتے ہیں کہ مصر اس جگہ کا نام ہے جہاں اس قدر لوگ آباد ہوں جو کسی بھی بیرونی جارحیت اور حملے کی صورت میں اپنا دفاع کرنے پر پوری طرح قادر ہوں۔

(۸) امام سفیان ثوریؒ سے منقول ہے کہ جس جگہ کو لوگ اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے شہر سمجھتے ہوں وہی شہر ہے، اور جس مقام کو لوگ اپنے عرف میں شہر نہ سمجھیں وہ شہر نہیں ہو گا۔

(۹) ایک تعریف یہ بھی نقل کی جاتی ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں دینی اور دنیاوی ضروریات اور لوازم میسر ہوں۔

(۱۰) جہاں روزانہ کی بنیاد پر پیدائش اور موت کا سلسلہ جاری ہو۔

(۱۱) بعض حضرات نے یہ تعریف کی ہے کہ وہ آبادی جس کا شمار کرنا کچھ دشواری اور تکلف کے بغیر معلوم نہ ہو سکے۔

(۱۲) امام محمدؒ سے منقول ہے کہ وہ موضع جس کو وقت کا حکمران شہر کی حیثیت دے، وہ شہر ہے۔

(۱۳) بعض مشائخ سے منقول ہے کہ جہاں ہر پیشہ اور صنعت کا آدمی ہو اور بنیادی ضروریات میسر ہو، وہ شہر ہے۔

(بدائع الصنائع ۲ / ۱۹۲/ فصل فی بیان شرائط الجمعہ/ ط: دارالحدیث قاہرۃ، سنۃ الطبع : ۱۴۲۶ھ)

(المحیط البرہانی ۲۱ / ۴۳۹ /الفصل الخامس والعشرون صلاۃ الجمعۃ / ط: ادارۃ القرآن کر اتشی الطبعۃ الثانیۃ : ۱۴۳۹ھ)

(الفتاوی التاتارخانیۃ ۲ / ۵۴۸/ النوع الثانی : شرائط الجمعۃ / ط : فاروقیۃ کوئٹہ، ۱۴۳۱ھ)

فقہائے کرام کی ذکر کردہ تعریفوں میں قدر مشترک

مصر کی تعریف کے متعلق فقہاء کرام کے متداول اقوال ذکر کرنے کے بعد، اب اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے کہ فقہاء کرام کے ان مختلف اقوال میں قدر مشترک کیا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ فقہاء کرام کے ان تمام اقوال کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک عام گاؤں، دیہات اور مصر میں فرق کی بنیاد دو اہم امور ہیں:

(۱) ایک آبادی کی کثرت اور قلت کا فرق کہ گاؤں، دیہات کی آبادی شہر کی آبادی کی بنسبت کم ہوتی ہے۔

(۲) دوسرا فرق یہ ہے کہ مصر کو ایک نمایاں اور مرکزی مقام کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وہاں آس پاس مضافات اور اطراف کے لوگوں کا اہم اور بنیادی چیزوں کے سلسلے میں رجوع ہوتا ہے۔ لوگوں کیلئے ایک مرجع اور مرکزی جگہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

امام ابو حنیفہؒ کے حوالے سے جو تعریف نقل کی جاتی ہے، اس میں مصر کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہاں گلی کوچے ہوں، بازار ہو، اس کے ماتحت دیہات ہو، یہ آبادی کی کثرت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ قاضی، مفتی اور والی کا موجود ہونا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ اطراف کے لوگ وہاں مقدمات، تنازعات اور پیش آمدہ مسائل میں رجوع کریں گے۔ اور یہ لوگوں کیلئے ایک مرکزی مقام اور جگہ ہوگی۔

ظاہر الروایت کی تعریف اور امام کرخیؒ و صاحب ہدایہؒ سے منقول تعریف کہ جہاں قاضی، امیر اور مفتی موجود ہو اور ان کو شرعی احکام اور حدود کے تنفیذ پر قدرت ہو۔ اسی طرح بعض مشائخ کی ذکر کردہ یہ تعریف کہ جہاں ایک پیشہ کا آدمی کسی دوسرے پیشہ میں لگے بغیر ایک سال تک صرف اپنے پیشہ پر گزر بسر کر سکے، اسے دوسرا پیشہ اختیار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ نیز یہ تعریف کہ جہاں انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات و لوازم میسر ہو۔

ان تمام تعریفات سے بالکل واضح طور پر معلوم ہوتا ہے مصر وہ جگہ ہے جو لوگ کیلئے مرکزی مقام ہو، جہاں اطراف کے لوگوں کا رجوع رہتا ہو۔

مصر کی دیگر دوسری تعریفات

ما لا یسع اکبر مساجدہ اھلہ  آبادی کے لوگوں کیلئے بڑی مسجد نہ کافی ہو۔

مجموعی آبادی دس ہزار ہو، جہاں اتنے لوگ آباد ہوں جو کسی بھی حملے کی صورت میں اپنے دفاع پر قادر ہو۔

جہاں روزانہ پیدائش اور موت کا وقوع ہو۔

جہاں کی آبادی بغیر زحمت کے معلوم نہ ہو سکے۔

یہ تمام تعریفات آبادی کی معتد بہ کثرت پر صریح دلیل ہے۔

مصر کی تعریف میں دو اہم بنیادی امور

مذکورہ بالا تفصیل اور وضاحت سے بھی صاف طور پر معلوم ہوا کہ درحقیقت فقہائے کرام کے ان مختلف اقوال میں کوئی تعارض اور اضطراب نہیں ہے، بلکہ جگہ کے مرکزی مقام اور آبادی کی کثرت کے اظہار کیلئے ہر فقیہ نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے الگ الگ تعبیر اختیار کی ہے۔ اور یہ وھذا من اختلاف عصر و زمان لا من حجۃ و برہان کے قبیل سے ہے۔

لہذا جو علاقہ ایسا ہو، جہاں عام انسانی زندگی کے بنیادی ضروریات میسر ہونے کی وجہ سے مرکزی مقام اور لوگوں کیلئے مرجع ہونے کی شان رکھتا ہو اور اس میں عام علاقوں کے اعتبار سے آبادی زیادہ ہو تو وہ مصر کہلانے کا مستحق ہو گا، اور اس میں جمعہ کی ادائیگی ضروری ہوگی۔

مصر کا مدار عرف پر ہے

واضح رہے کہ مقام کی مرکزیت اور آبادی کی کثرت کیلئے فقہاء کرام نے کسی تعداد کو حتمی طور پر متعین نہیں کیا ہے اور نہ کسی تعریف کو حتمی طور پر حرف اخیر قرار دیا ہے، بلکہ اس کا مدار عرف پر رکھا ہے۔ عرف ہی فیصلہ کرے گا کہ کس آبادی کی کیا حیثیت ہے؟ اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ شریعت نے مصر کی تحدید و تعین نہ کرتے ہوئے اس کا مدار عرف عام پر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے اپنے اجتہاد کے موافق اپنے زمانے کے عرف و احوال کا اعتبار کرتے ہوئے مصر کی تعیین و تشخیص کی ہے۔ کونسی آبادی مصر کہلائے گی اور کونسی گاؤں، دیہات؟ اور پھر کونسی قصبہ اور قریہ کبیرہ ( بڑا گاؤں)؟ شہر کی کیا خصوصیات ہیں؟ گاؤں، دیہات اور قصبات کے کیا امتیازات ہیں؟ قریہ کبیرہ اور قریہ صغیرہ کہتے وقت عموما‌ کن صفات کا لحاظ رکھا جاتا ہے؟ ان تمام امور کا تعلق عرف کے ساتھ ہے، عرف عام ہی سے ان امور کی پہچان ہو گی۔

محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: مصر کی تعریف عرف اور لغت پر محمول ہے۔ (فیض الباری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری)

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی صاحبؒ لکھتے ہیں: عرفا جس قریہ کو کبیرہ سمجھیں وہ کبیرہ ہے اور جس کو صغیرہ سمجھیں وہ صغیرہ ہے۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں، قریہ کی تعریف عرف پر مفوض ہے۔ (فتاری دار العلوم دیوبند کتاب الجمعۃ : ۱ / ٣٨ - ٥٣)

فتاوی محمودیہ میں ہے: مصر کی تعریف میں بہت سے اقوال ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر اور قریہ ہونا عرفی چیزیں ہیں، جس زمانے میں جیسا عرف ہوا ویسی ہی علامات متعین کر کے، علماء نے تعریف کر دی۔ (٨ / ١٤١ / باب صلاۃ الجمعۃ)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ مصر ان اصطلاحات میں سے ہے کہ کتاب و سنت میں، اس کی تحدید و تعیین نہیں کی گئی ہے، اس لئے اس کا مدار عرف پر ہے، لوگ عرف میں جس زمانہ میں جو جگہ شہر کہلائے اور حکومت کی طرف سے جس کو شہر کی حیثیت دی جائے، وہی شہر ہے۔ (جدید فقہی مسائل : ۱/ ۱۱۴ / عبادات، ط: زمزم پبلشرز)

خلاصہ یہ کہ عرف میں جو مقام اور جگہ کثرت آبادی اور مرکزیت کی وجہ سے شہر سمجھا جاتا ہو، وہ شہر ہو گا اور جس جگہ کو عرف میں گاؤں دیہات قرار دیا جاتا ہو وہ گاؤں، دیہات ہو گا۔

مصر، قصہ، بڑا گاؤں، چھوٹا گاؤں میں فرق اور جمعہ کا حکم

جہاں تک مصر کا تعلق ہے، تو وہ معروف و متعین ہے، کوئی کسی شہر کو دیہات نہیں کہتا اور نہ کوئی دیہات کو شہر سمجھتا ہے۔ قصبہ جو عام دیہات اور گاؤں سے بڑی ہوتی ہے اور شہر سے چھوٹی، جس کو آج کل تحصیل بھی کہا جاتا ہے، انگریزی زبان میں اس کو ٹاؤن کہتے ہیں، اس کی حیثیت بھی شہر کی طرح نمایاں اور ممتاز ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کی پہچان میں اشتباہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی پوزیشن واضح ہوتی ہے۔ البتہ چھوٹے گاؤں اور بڑے گاؤں کے فرق میں بعض اوقات اشتباہ ہو جاتا ہے اور جمعہ قائم کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنا دشوار ہوتا ہے۔ چھوٹے گاؤں اور بڑے گاؤں کو پرکھنے کے لیے یہ معیار اور اصول یاد رکھا جائے تو کافی حد تک ذہنی الجھن اور اشتباہ ختم ہو جائے گا کہ کثیر آبادی کی وجہ سے عرف میں جسے بڑا گاؤں سمجھا جاتا ہو اور لوگوں کی بکثرت رجوع کی وجہ سے اسے مرکزی مقام کی حیثیت حاصل ہو تو اسے بڑا گاؤں قرار دے کر اس میں جمعہ قائم کرنا درست ہو گا، اگر ایسا نہ ہو بلکہ عام گاؤں، دیہات ہو تو اس میں جمعہ کرنا درست نہیں ہو گا۔

بڑے گاؤں کی آبادی کی کوئی حتمی تعیین و تحدید اور تعداد فقہاء کرام نے بیان نہیں فرمائی ہے بلکہ اس کو عرف پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ فتاوی محمودیہ میں لکھتے ہیں کہ مردم شماری کے لحاظ سے کوئی خاص عدد لازم نہیں۔ یہ علامات کچھ مدت پہلے تین چار ہزار کی آبادی میں ہوتی تھیں۔ اب تمدن تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اب اس سے کم آبادی میں بھی یہ علامات جمع ہوتی ہیں۔ بعض بستیوں کی آبادی دو ہزار ہے، اس میں بھی یہ علامات موجود ہیں، بعض میں نہیں ۔(فتاویٰ محمودیہ، ۸ / ٨٣ / باب صلاۃ الجمعۃ / مکتبہ فاروقیہ کراچی)

مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں احناف کے نزدیک مندرجہ ذیل مقامات میں جمعہ قائم کرنا واجب ہے: (۱) شہر میں (۲) قصبہ میں (۳) بڑے گاؤں میں (۴) فناء مصر میں (۵) ربض المصر میں۔

کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی حکم سے گاؤں میں جمعہ قائم کرنا

اصل مسئلے سے پہلے بطور تمہید عرض یہ ہے کہ احناف کے نزدیک جمعہ صحیح ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ جس مقام پر جمعہ قائم کیا جائے وہ شہر ہو یا بڑا گاؤں۔

چھوٹے گاؤں، دیہات میں جمعہ کی ادائیگی درست نہیں ہوتی۔ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں گاؤں، دیہات میں بعض شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے جمعہ ادا کرنا درست ہوتا ہے، لیکن کسی ایک مسئلے میں مالکیہ یا شافعیہ کے قول کو لینا اور باقی نماز حنفیہ کے طریقے پر پڑھنے میں ’’تلفین‘‘ کا اندیشہ ہے، جو جمہور فقہاء کرام کے ہاں باطل ہے اور اس سے نماز درست نہیں ہوتی۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کسی مسئلے میں ائمہ اربعہ کے مابین اختلاف ہو اور حاکم وقت یا اس کا نائب چاروں مذاہب میں کسی ایک مذہب کے مطابق حکم جاری کر دے تو رعایا کیلئے ایسی صورت میں مذہب الغیر پر عمل کرنا جائز ہوتا ہے، کیونکہ مجتہد فیہ مسائل میں حکم حاکم رافع اختلاف ہوتا ہے۔

اس تمہید کے بعد اصل مسئلہ یہی ہے کہ اگر کسی جگہ احناف کے مسلک کے مطابق جمعہ قائم کرنے کی شرائط موجود نہ ہوں، لیکن امام شافعیؒ کے مسلک کے موافق جمعہ ادا کرنا درست ہو، اور اس علاقے کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر جمعہ قائم کرنے کا حکم دے دے، تو وہاں امام شافعیؒ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے جمعہ ادا کرنا صحیح ہو گا۔

وفی الدر المختار: إذن الحاکم ببناء الجامع فی الرستاق إذن بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی وإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ وفی حاشیۃ ابن عابدین: إذا أذن الوالی أو القاضی ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعۃ لأن ہذا مجتہد فیہ فإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ، وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز فی الصغیرۃ التی لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب کما فی المضمرات والظاہر أنہ أرید بہ الکراہۃ لکراہۃ النفل بالجماعۃ؛ ألا تری أن فی الجواہر لو صلوا فی القری لزمہم أداء الظہر، وہذا إذا لم یتصل بہ حکم، فإن فی فتاوی الدیناری إذا بنی مسجد فی الرستاق بأمر الإمام فہو أمر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قال السرخسی اہ فافہم والرستاق القری کما فی القاموس۔ [تنبیہ]
فی شرح الوہبانیۃ: قضاۃ زماننا یحکمون بصحۃ الجمعۃ عند تجدیدہا فی موضع بأن یعلق الواقف عتق عبدہ بصحۃ الجمعۃ فی ہذا الموضع وبعد إقامتہا فیہ بالشروط یدعی المعلق عتقہ علی الواقف المعلق بأنہ علق عتقہ علی صحۃ الجمعۃ فی ہذا الموضع وقد صحت ووقع العتق فیحکم بعتقہ فیتضمن الحکم بصحۃ الجمعۃ، ویدخل ما لم یأت من الجمع تبعا اہ قال فی النہر وفی دخول ما لم یأت نظر فتدبر۔ اہ۔
أقول: الجواب عن نظرہ أن الحکم بصحۃ الجمعۃ مبنی علی کون ذلک الموضع محلا لإقامتہا فیہ وبعد ثبوت صحتہا فیہ لا فرق بین جمعۃ وجمعۃ فتدبر۔ وظاہر ما مر عن القہستانی أن مجرد أمر السلطان أو القاضی ببناء المسجد وأدائہا فیہ حکم رافع للخلاف بلا دعوی وحادثۃ۔ وفی قضاء الأشباہ أمر القاضی حکم کقولہ: سلم المحدود إلی المدعی، والأمر بدفع الدین، والأمر بحبسہ إلخ وأفتی ابن نجیم بأن تزویج القاضی الصغیرۃ حکم رافع للخلاف لیس لغیرہ نقضہ۔:(باب الجمعۃ،۵/۱۰/ ط:دار الثقافۃ والتراث)
وفی الفتاوی التاتارخانیۃ:لو أذن الوالی أو القاضی أن یعقد الجمعۃویبتنی المسجد الجامع فی قریۃ کبیرۃ فیھا سوق جاز بالاتفاق لأن عند الشافعی تصلی الجمعۃبالقریۃ التی فیھا أربعون رجال حر بالغا عاقلا مقیما،فکان فصلا مجتھدا فیہ،فإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ۔(کتاب الصلاۃ، شرائط الجمعۃ،۲/۵۵۴)

فتنے کے خوف سے گاؤں، دیہات میں جمعہ جاری رکھنے کا حکم

جن گاؤں، دیہات میں جمعہ کی شرائط موجود نہ ہونے کے باوجود ایک عرصہ دراز سے جمعہ ہو رہا ہو، تو اگر وہاں کے علمائے کرام کو یہ ظن غالب ہو کہ اگر عوام کو یہ بات سمجھائی جائے کہ اس علاقے میں جمعہ کی ادائیگی درست نہیں ہے بلکہ ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہے، تو لوگ اس بات کو سن کر قبول کریں گے، اور جمعہ کو بند کرنے سے فتنہ، انتشار اور فسادات پیدا نہیں ہوں گے، تو ایسی صورت میں علمائے کرام پر لازم ہے کہ حکمت و بصیرت اور پیار و نرمی سے لوگوں کو مسئلہ بتائیں اور انہیں جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز پڑھنے پر آمادہ کریں۔

لیکن اگر اس کے باوجود لوگ اس بات کو تسلیم نہ کریں اور جمعہ روکنے کی صورت میں گاؤں میں اختلاف و انتشار، فتنہ و فسادات برپا ہونے کا خطرہ ہو تو بہتر صورت یہ ہے کہ اس علاقے کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر سے باضابطہ طور پر جمعہ قائم کرنے کی اجازت لی جائے، اور وہ جمعہ کے اجراء کا حکم جاری کر دے، تو پھر وہاں جمعہ کی ادائیگی درست ہو جائے گی، بشرطیکہ آبادی کم از کم چالیس افراد پر مشتمل ہو۔ اور اگر کمشنر سے اجازت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو یا اس کی ترتیب نہ بن پا رہی ہو، اور جمعہ رکوانے سے واقعتا‌ فتنہ و فساد، اختلاف و انتشار کی فضا قائم ہونے کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں بھی امام شافعیؒ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے جمعہ پڑھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ اس صورت میں فتنہ و فساد کو ضرورت کے دائرہ میں داخل کر کے مذہب غیر پر عمل کی گنجائش دی گئی ہے، کیونکہ جس مسئلے میں ضرورت و حاجت اور ابتلاء عام کی وجہ سے اپنے امام کے مذہب پر عمل کرنے میں شدید دشواری ہو تو ایسی صورت میں فقہاء کرام نے مذہب غیر پر فتوی دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء احناف نے ضرورت و حاجت اور ابتلاء عام کی وجہ سے کئی مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوی دیا ہے۔

واضح رہے کہ یہاں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: پہلی بات یہ ہے کہ ایسی جگہ پر جمعہ کی نئی جماعت قائم نہ کی جائے۔ اگر جمعہ رکوانے سے فتنہ اور فسادات کا اندیشہ نہ ہو تو ایسی صورت میں جمعہ بند کرنا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ نماز جمعہ میں انقطاع آنے کے بعد دوبارہ شروع کرنے سے گریز ضروری ہے۔

مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں:

’’حنفی مذہب کے موافق قری یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا، اس لئے اگر کسی گاؤں میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہیئے، کیونکہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہو گا، اور فرض ظہر جمعہ پڑھنے سے ساقط نہ ہو گا۔ لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱) یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا، تو حنفی مذہب کی رو سے بھی وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے، اس لئے بند کرنا درست نہیں۔
(۲) یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں، یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا، مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا ہے، اس صورت میں حنفی مذہب کے اصول کے موافق تو اسے بند کرنا چاہیئے، یعنی بند کرنا ضروری ہے، لیکن چونکہ عرصہ دراز سے قائم شدہ جمعہ کو بند کرنے میں جو فتنے اور مفاسد پیدا ہوتے ہیں، ان کے لحاظ سے اس مسئلے میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کر لینا جائز ہے، اور جبکہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کر کے جمعہ پڑھیں گے تو پھر ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں۔ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کیلئے وجہ جواز ہیں۔‘‘ (کفایت المفتی: ۵/۱۲۱/ فصل فی شرائط المصر الجمعۃ/ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی عثمانی میں ہے:

’’فقہائے کرام کے ہاں جمعہ کی ادائیگی شرائط پر موقوف ہے، اور جہاں شرائط مفقود ہوں وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی درست نہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی جگہ نماز جمعہ ادا ہوتی ہو اور اس کو بند کرنے سے آپس میں انتشار اور فتنہ بر پا ہونے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اس جگہ نماز جمعہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ تاہم اگر ایک مرتبہ نماز جمعہ میں انقطاع آنے کے بعد اس انقطاع کو برقرار رکھنے میں کوئی مانع نہ ہو تو دوبارہ شروع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے‘‘۔ (فتاوی عثمانیہ پشاور: ۲/۵۱۲/باب الجمعۃ/ط:العصر اکیڈمی)

وفی الدر المختار: 

إذن الحاکم ببناء الجامع فی الرستاق إذن بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی وإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ وفی حاشیۃ ابن عابدین: إذا أذن الوالی أو القاضی ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعۃ لأن ہذا مجتہد فیہ فإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ، وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز فی الصغیرۃ التی لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب کما فی المضمرات والظاہر أنہ أرید بہ الکراہۃ لکراہۃ النفل بالجماعۃ؛ ألا تری أن فی الجواہر لو صلوا فی القری لزمہم أداء الظہر، وہذا إذا لم یتصل بہ حکم، فإن فی فتاوی الدیناری إذا بنی مسجد فی الرستاق بأمر الإمام فہو أمر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قال السرخسی اہ فافہم والرستاق القری کما فی القاموس۔فی شرح الوہبانیۃ: قضاۃ زماننا یحکمون بصحۃ الجمعۃ عند تجدیدہا فی موضع بأن یعلق الواقف عتق عبدہ بصحۃ الجمعۃ فی ہذا الموضع وبعد إقامتہا فیہ بالشروط یدعی المعلق عتقہ علی الواقف المعلق بأنہ علق عتقہ علی صحۃ الجمعۃ فی ہذا الموضع وقد صحت ووقع العتق فیحکم بعتقہ فیتضمن الحکم بصحۃ الجمعۃ، ویدخل ما لم یأت من الجمع تبعا اہ قال فی النہر وفی دخول ما لم یأت نظر فتدبر۔ اہ۔
أقول: الجواب عن نظرہ أن الحکم بصحۃ الجمعۃ مبنی علی کون ذلک الموضع محلا لإقامتہا فیہ وبعد ثبوت صحتہا فیہ لا فرق بین جمعۃ وجمعۃ فتدبر۔ وظاہر ما مر عن القہستانی أن مجرد أمر السلطان أو القاضی ببناء المسجد وأدائہا فیہ حکم رافع للخلاف بلا دعوی وحادثۃ۔ وفی قضاء الأشباہ أمر القاضی حکم کقولہ: سلم المحدود إلی المدعی، والأمر بدفع الدین، والأمر بحبسہ إلخ وأفتی ابن نجیم بأن تزویج القاضی الصغیرۃ حکم رافع للخلاف لیس لغیرہ نقضہ۔ (باب الجمعۃ،۵/۱۰/ ط:دار الثقافۃ والتراث)

وفی الفتاوی التاتارخانیۃ: 

لو أذن الوالی أو القاضی أن یعقد الجمعۃ ویبتنی المسجد الجامع فی قریۃ کبیرۃ فیھا سوق جاز بالاتفاق لأن عند الشافعی تصلی الجمعۃ بالقریۃ التی فیھا أربعون رجال حر بالغا عاقلا مقیما، فکان فصلا مجتھدا فیہ، فإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعا علیہ۔ (کتاب الصلاۃ، شرائط الجمعۃ، ۲/۵۵۴)

وفی رشد المجلۃ للرستم باز لبنانی: 

درء المفاسد أولی من جلب المنافع، أی إذا تعارض مفسدۃ ومصلحۃ، قدم رفع المفسدۃ، لأن اعتناء الشرع بالمنھیات أشد من اعتنائہ، بالمامورات۔ (المادۃ،۳۰،۳۲،/ط:المکتبۃ الحنفیۃ کوئٹۃ)

وفی حاشیۃ ابن عابدین: 

لو افتی بہ فی موضع الضرورۃ لا بأس بہ علی ما أظن،قلت ونظیر ھذہ المسألۃ عدۃ ممتدۃ الطھر التی بلغت برویۃ الدم ثلاثۃ أیام ثم امتد طھرھا فإنھا تبقی فی العدۃ إلی أن تحیض ثلاث حیض، و عند مالکؒ تنقضی عدتھا بتسعۃ أشھر، وقال فی البزازیۃ: الفتوی فی زماننا علی قول مالک وقال الزاھدی کان بعض أصحابنا یفتون بہ للضرورۃ۔ (کتاب المفقود،۴/۲۹۰)

وفی أصول الإفتاء وأدابہ: 

أن یکون فی مسألۃ مخصوصۃ خرج شدید لا یطاق، أو حاجۃ واقعیۃ لا محیص عنھا، فیجوز أن یعمل بمذھب آخر للحرج وإنجاز للحاجۃ، وھذا کما أفتی علماء الحنفیۃ بمذھب الشافعیۃ فی جواز الإستئجار علی تعلیم القرآن و بمذھب المالکیۃ، فی مسألۃ زوجۃ المفقود والعنین والمتعنت۔ (الإفتاء بمذھب أخر،۲۰۳/ط:مکتبہ:معارف القران)

فقہ / اصول فقہ

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۴

انبیاء کی اہانت کا جرم اور عالمی برادری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے
ڈاکٹر محمد امین

تحکیم سے متعلق حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے مواقف کا مطالعہ اور خوارج کا قصہ
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مذہبی شناختیں: تاریخی صورتحال اور درپیش چیلنجز
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

اقبال: پاکستانی جوہری توانائی منصوبے کا معمارِ اوّل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عید کا تہوار اور شوال کے روزے
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

موجودہ عرف و حالات کے تناظر میں نمازِ جمعہ کیلئے شہر کی شرط
مفتی سید انور شاہ

وطن کا ہر جواں فولاد کی دیوار ہو جائے
سید سلمان گیلانی

بین الاقوامی معیارات اور توہینِ مذہب کے قوانین پر رپورٹ
انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ

Blasphemy Against Prophets and the International Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۳)
ڈاکٹر محی الدین غازی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۲)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۳)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

ماہانہ بلاگ

’’نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے‘‘
مولانا طارق جمیل

اتحادِ مذاہب کی دعوت اور سعودی علماء کا فتویٰ
سنہ آن لائن

امام ترمذیؒ، ایک منفرد محدث و محقق
ایم ایم ادیب

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

فقہی منہاج میں استدلال کے سقم اور اہلِ فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط
ڈاکٹر عرفان شہزاد

تراث، وراثت اور غامدی صاحب
حسان بن علی

غزہ کے لیے عرب منصوبہ: رکاوٹیں اور امکانات
عرب سینٹر ڈی سی

غزہ کی خاموش وبا
الجزیرہ
حدیل عواد

حافظ حسین احمد بھی چل بسے
سید علی محی الدین شاہ

حافظ حسین احمد، صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
مولانا حافظ خرم شہزاد

دارالعلوم جامعہ حقانیہ کا دورہ / یومِ تکمیلِ نظریہ پاکستان
پاکستان شریعت کونسل

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا مولانا عبد القیوم حقانی نمبر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا خصوصی نمبر دو جلدوں میں
ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ نصرۃ العلوم کا فکرِ شاہ ولی اللہؒ نمبر
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

مولانا عبد القیوم حقانی کی تصانیف
ادارہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter