بہ اہتمام و نگرانی: مولانا راشد الحق سمیع حقانی
ترتیب: مولانا عماد الدین محمود
کیا آپ مولانا عبد القیوم حقانی کو جانتے ہیں؟ نہیں جانتے؟ تعجب ہے! آپ نے اکوڑہ خٹک (ضلع نوشہرہ) کا نام تو سنا ہو گا، وہی جہاں جامعہ حقانیہ ہے، پاکستان میں دارالعلوم دیوبند ثانی۔
کہیں پڑھا تھا کہ جو بڑے درخت ہوتے ہیں جیسے بڑ کا یا پیپل کا، ان کے نیچے چھوٹے درخت نہیں اُگتے، ان کی ہمت ہی نہیں ہوتی اُگنے کی، اتنے بڑے درخت کے نیچے اگ کر وہ اس کا مقابلہ کیا کریں گے، اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ لیکن ٹھہریے! مولانا عبد القیوم حقانی اگرچہ فنا فی الحقانیہ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جامعہ حقانیہ کے چھتنار درخت سے نکلے اور اس کی بغل میں جامعہ ابوہریرہ اور القاسم اکیڈمی کی بستی بسائی۔ بستی نہیں بسائی بلکہ خالق آباد میں ایک جہانِ معنی تخلیق کر لیا، چھتنار درخت کے ساتھ ایک اور بڑا درخت۔ یہ کمال ہے مولانا عبد القیوم حقانی کا کہ اس وقت جامعہ ابوہریرہؓ میں تقریباً ایک ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے دورہ حدیث میں ۱۵۰ سے زائد طلبہ ہیں۔
میں مزاجاً اور ذوقاً سادہ ہوں، سادہ نثر لکھتا ہوں، سادہ نثر پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ جو لوگ نثر میں شاعری کرتے ہیں، سچ کہوں تو انہیں پڑھنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے۔ میں نے ابوالکلام آزادؒ کو زیادہ نہیں پڑھا کیونکہ وہ نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ جب نکلا تو پڑھا کرتا تھا لیکن الطاف حسن قریشی صاحب کی نثر میں شاعری پڑھ کر طبیعت اوبھتی تھی۔ چلیے، ابوالکلام آزادؒ کو حق ہے کہ وہ نثر میں شاعری کرے کہ وہ ’’ابوالکلام‘‘ ہے، لیکن بھائی! مولانا عبد القیوم حقانی کو کیا حق ہے کہ وہ نثر میں شاعری کریں۔ پٹھانوں کی تو تذکیر و تانیث ہی درست نہیں ہوتی (ہم پنجاب کے رہنے والے پشاور سائیڈ میں رہنے والے سب لوگوں کو پٹھان ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ پشتون اور پٹھان نہ بھی ہوں) لیکن مولانا حقانی نثر میں شاعری کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں اور کتابوں کے ڈھیر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت تک ان کی تصانیف و تالیفات کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہو چکی ہے جن میں شرح صحیح مسلم (۲۳ جلدیں)، شرح شمائل ترمذی (تین جلدیں)، توضیح السنن شرح آثار السنن (دو جلدیں)، اور بزرگوں کے سوانح پر ۲۲ کتب شامل ہیں۔ اور ان کے زیرانتظام القاسم اکیڈمی ۱۵۰ کتابیں شائع کر چکی ہے۔
میں لاہور میں رہتا ہوں جسے لوگ علمی ادبی اعتبار سے پاکستان کا دل کہتے ہیں، بلاشبہ یہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کا شہر ہے۔ یہاں جامعہ اشرفیہ، جامعہ مدنیہ اور جامعہ نعیمیہ جیسے بڑے دینی مدارس بھی ہیں، لیکن میں حیران ہوتا ہوں جب میں خیبرپختونخوا میں بڑے بڑے مدارس اور بڑے بڑے علماء کثرت سے دیکھتا ہوں۔ حد تو یہ کہ ان میں مولانا عبد القیوم حقانی جیسے ذہین و فطین و متین علماء موجود ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر رشک تو آتا ہی ہے، بعض اوقات تھوڑا سا حسد بھی ہونے لگتا ہے (اللہ اس سے بچائے) کہ آخر ان دینی مدارس کو اتنے بڑے بڑے آدمیوں کی ضرورت کیا ہے؟ دیکھیے معاشرہ ایک وسیع تر کینوس (Canvas) ہوتا ہے، دینی مدارس اس کا محض ایک جزو ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر مولانا عبد القیوم حقانی جیسے عبقری حضرات پورے معاشرے کے لیے ہوتے، اگر جدید تعلیم و تہذیب و تمدن کے لیے ہوتے تو وہ کیا کیا گل افشانیاں کرتے، ان کی تخلیقی صلاحیتیں رنگ و بو کے کتنے نئے جہاں تخلیق کرتیں، لیکن اب وہ اور ان کی صلاحیتیں مدارس کی تنگ دامانی میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں۔
جن لوگوں نے جامعہ حقانیہ کی طبع کردہ مولانا عبد القیوم حقانی کی سوانح نہیں پڑھی، میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ وہ اسے پڑھیں، خود نہیں پڑھتے تو اسے اپنی اولاد کو پڑھائیں اور اس سے یہ قیمتی سبق سیکھیں کہ بڑے آدمی وہ نہیں ہوتے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوں، بڑے آدمی وہ ہوتے ہیں جو سیلف میڈ ہوں، جو یتیم پیدا ہوں، جن کی مائیں غربت کی چکی میں پس کر انہیں پالیں، جو چھوٹے چھوٹے مدرسوں میں دھکے کھائیں، پھر وہ دھکے کھاتے مولانا عبد القیوم حقانی کی طرح کسی جامعہ حقانیہ میں پہنچ جائیں جہاں انہیں کوئی مولانا عبد الحق جیسا پارس مل جائے جو انہیں مانجھ رگڑ کر سونا بنا دے۔
مولانا عبد القیوم حقانی زندہ باد۔ جامعہ ابوہریرہ و القاسم اکیڈمی پائندہ آباد۔
مولا نا عبدالقیوم حقانی کی سوانح اور ان کی تالیفات خریدنے کے لیے رابطہ:
(ماہنامہ البرہان فروری ۲۰۲۵ء بحوالہ ماہنامہ القاسم مارچ ۲۰۲۵ء)