حافظ حسین احمد، صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

جمعیۃ طلباء اسلام میں جب شعور کی آنکھ کھولی تو وہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا بدترین دور تھا۔ لولی لنگڑی جمہوریت بھی موجود تھی، ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کی وجہ سے دینی طبقے کو ایک حوصلہ ملا ہوا تھا۔ اس وقت پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا ابتدائی دور تھا اور جن چند شخصیات کا میڈیا پر راج تھا ان میں سرِ فہرست نام حافظ حسین احمد صاحب کا تھا۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز ان کے بغیر ادھورے اور پرنٹ میڈیا ان کی خبر لگائے بغیر پھیکے رہتے۔

اس وقت حافظ صاحب کی شخصیت فُل پیک پر تھی۔ پھر ان کی شخصیت اور وجاہت بھی توجہ کا مرکز رہتی۔ خوبصورت چہرہ، حسین داڑھی، سر پر بلوچی ٹوپی کے گرد لپٹی کریم کلر سفید چمکیلی پگڑی جو صرف انہی کو ہی جچتی۔ سفید شلوار قمیص اور زیب تن نفیس ویسکوٹ کے علاوہ چشمہ اور ہاتھ میں پہنی انگوٹھی ان کی شخصیت کو مزید نمایاں کرتیں۔ وہ پارلیمنٹ میں جاتے تو سب ہاتھ باندھے ان کی شخصیت کو ویلکم کہتے، پارلیمنٹ سے نکلتے تو میڈیا اُن پر امنڈ آتا، ہر ایک کو اپنی شہ سرخیوں کے لیے حافظ صاحب کے برجستہ بزلہ سنج جملوں اور تبصروں کا انتظار ہوتا۔ ٹاک شوز میں جاتے تو اپنے اندازِ بیاں اور شگفتہ گفتگو سے اپنے سیاسی مخالف کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان، جاوید ہاشمی اور اعتزاز احسن سب انہیں اپنی پارٹیوں میں شمولیت پر زور دیتے رہے مگر وہ اپنی معمولی اور وقتی جماعتی ناراضگی کے باوجود تحریک انصاف، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور کسی اور جماعت میں شمولیت تو دور کی بات اس کے قریب سے بھی نہ گزرے۔ وہ مکمل نظریاتی شخصیت تھے، انہیں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کی قیادت میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی۔ اور ویسے بھی ان کے والدِ گرامی حضرت مولانا عرض محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک صاحبِ نسبت بزرگ تھے، وہ شیخ الاسلام حضرت مدنی اور شیخ التفسیر حضرت لاہوری رحمہما اللہ کے خصوصی فیض یافتگان میں سے تھے، حضرت لاہوری سے انہیں خلافت بھی حاصل تھی۔ حافظ حسین احمد صاحب مولانا عرض محمد کے اکلوتے بیٹے تھے۔

حافظ صاحب سے میرا زمانۂ طالب علمی سے عقیدت اور آخر وقت تک تعلق قائم رہا۔ اکثر وہ خود فون کر کے خیریت دریافت کرتے۔ متعدد مرتبہ وہ میرے ہاں کامونکی (ضلع گوجرانوالا) بھی تشریف لائے۔ آٹھ نو سال سے وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور ان کی صحت دن بہ دن کمزور ہوتی گئی۔ مگر اس کے باوجود وہ اسفار بھی کرتے اور متحرک رہتے۔ گزشتہ سال عید الفطر کے بعد کوئٹہ جانا ہوا تو چند روز انہیں کے ہاں مہمان رہا۔ بڑی طویل مجلسیں اور ملاقاتیں رہیں۔ اسی دوران انہیں اپنے چیک اپ کے لیے لاہور آنا پڑ گیا۔ آتے ہوئے اپنے صاحبزادے حافظ زبیر احمد کو میرے سامنے مخاطب کر کے فرمایا کہ "یہ جب تک ادھر رہیں ان کی مہمانی کا خیال رکھنا"۔ یہ فرما کر رخصت ہوئے اور لاہور جانے کے لیے کوئٹہ ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ دو دن بعد میری کوئٹہ سے واپسی تھی، دورانِ سفر حافظ صاحب کا فون آیا، فرمایا کہ "آپ کی ٹھیک مہمان نوازی نہیں ہو سکی، مجھے بھی لاہور آنا پڑا گیا، امید ہے آپ محسوس نہ فرمائیں گے" یہ تھے حافظ حسین احمد! جو اپنی حسین یادیں چھوڑ کر خلدِ بریں ہوگئے ہیں۔ ان سے وابستہ بڑی حسین یادیں اور باتیں ذہن میں محفوظ ہیں، جو نوکِ قلم ہوتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ آمین یارب العالمین

2004ء کی بات ہے، میں اس وقت جمعیۃ طلباء اسلام ضلع گوجرانوالہ کا ذمہ دار تھا اور بعد میں پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات بھی بن گیا۔ میڈیا سے مضبوط رابطہ تھا اور اس کا وقت میڈیا اخبارات تھے، پریس ریلیز پہ خبر لکھنا، اس کی کاپیاں کروا کر خود اخباری دفاتر میں پہنچانا، نمائندگان سے علیک سلیک رکھنا اور انہیں اچھی کوریج کے ساتھ خبر کی درخواست کرنا اور پھر اگلے روز علی الصبح اخباری اسٹال پر جا کر اخبارات چیک کرنا اور مطلوبہ اخبار خرید کر خبروں کی کٹنگ کر کے رجسٹر میں محفوظ رکھنا یہ ہمارا محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ اس وقت جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت میں حافظ حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چھائے ہوئے تھے۔ کسی ذمہ دار سے ان کا نمبر حاصل کیا، رابطہ کیا اور تعارف کروایا تو فرمانے لگے آپ بھی ہمارے میڈیا کے ہی نمائندہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت اگر کبھی کبھار مجھے فون پر بیان لکھوا دیا کریں تو گوجرانوالہ اسٹیشن سے بھی خبریں لگ جایا کریں گی۔ تو خوشی سے فرمانے لگے کہ کیوں نہیں۔ پھر اکثر و بیشتر ان سے فون پر رابطہ ہوتا، وہ بیان لکھواتے اور میں پریس ریلیز تیار کر کے دفاتر میں پہنچاتا اور اگلے روز مین پیجز پر ان کا بیان شائع ہوتا۔

ایک مرتبہ وہ جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق مرکزی صدر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے۔ لاہور سے روانگی وقت مجھے فون پر بتایا کہ "گوجرانوالہ آرہا ہوں، تعزیت کے بعد آپ کے ہاں کچھ دیر قیام کروں گا اور پھر اسلام آباد روانگی ہوگی"۔ میں نے کہا کہ صحافیوں کو بلا لوں؟ فرمانے لگے ہاں بلالیں۔ میرے دیرینہ دوست اور بھائی حافظ سعد کو اطلاع دی اور انہی کے گھر حافظ صاحب کا قیام طے ہوا، صحافیوں کو اطلاع دی تو پندرہ بیس کے قریب ٹی وی چینلز کے رپورٹر اور کیمرہ مین حافظ صاحب سے پہلے ہی قیام گاہ پہنچ گئے۔ حافظ صاحب تشریف لائے، سب کی خدمت میں چائے پیش کی گئی، اس دوران میں نے عرض کی کہ حالاتِ حاضرہ پر ان صحافتی برادری کو بریف کر دیا جائے۔ حافظ صاحب چائے پی رہے تھے اور ساتھ برجستہ گفتگو بھی فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک لطیفہ ہوا، کہ روزنامہ نوائے وقت کے ٹی وی وقت نیوز (جو اک عرصہ سے بند ہو چکا ہے) کا نمائندہ پریس بریفنگ کے بعد آخر میں پہنچا اور حافظ صاحب سے ملتے ہوئے کہنے لگا کہ "سر معذرت چاہتا ہوں، میں لیٹ ہوگیا، مجھے اطلاع لیٹ ہوئی تھی"۔ حافظ صاحب نے پوچھا کہ آپ کس چینل سے ہیں؟ اس نے کہا وقت نیوز سے! حافظ صاحب نے برجستہ فرمایا اسی لیے بے وقت پہنچے ہو۔ اس پر مجلس میں قہقہوں کی بارش برس گئی اور حاضرین دیر تک اس جملے کا لطف اٹھاتے رہے۔ بعد میں حافظ صاحب نے اسے الگ سے ریکارڈنگ کروا دی۔

گزشتہ سال رمضان المبارک کے دوران مجھے قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کے ہاں ایک افطاری کے موقع پر ملاقات کی سعادت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ آج قائد محترم نے صحافی حضرات کو مدعو کیا ہے۔ افطاری کے دوران میں نے اس مجلس میں گوجرانوالہ کا یہ واقعہ سنا دیا کہ حافظ صاحب نے اس صحافی سے کہا کہ "اس لیے بے وقت آئے ہو"۔ یہ سنتے ہی سب کے قہقہے چھوٹ گئے۔ وہاں موجود ایک سینئر صحافی نے کہا کہ حافظ حسین احمد کا سامنا کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔

2018ء میں حافظ حسین احمد صاحب جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے سالانہ جلسہ برائے دستارِ فضیلت میں تشریف لائے اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اجتماع سے خطاب بھی فرمایا، وہ اپنی علالت کے باوجود میری درخواست پر کوئٹہ سے گوجرانوالہ تشریف لائے، مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم حضرت مولانا محمد فیاض خان سواتی صاحب سے بڑی بے تکلفی سے گفتگو کرتے رہے ۔ اسی طرح ناظم جامعہ حضرت مولانا محمد ریاض خان سواتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی جب انہیں اطلاع دی گئی تو اپنی علالت کے باعث وہ تعزیت کے لیے تشریف تو نہ لا سکے مگر انہوں نے اپنے وائس میسج میں جس انداز سے تعزیت کی اس سے ان کے جامعہ نصرۃ العلوم اور شیوخِ جامعہ سے والہانہ تعلق اور عقیدت کا پتا چلتا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر جب گوجرانوالہ کے احباب کا احوال پوچھتے تو مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ اور حضرت مولانا محمد فیاض خان سواتی صاحب مدظلہ کی خیریت ضرور دریافت فرماتے اور اپنی صحت اور تندرستی کے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے۔

آہ! لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرنے والا آج ہم سب کو غمگین کر کے چلا گیا، حق مغفرت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔



اخبار و آثار

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۴

انبیاء کی اہانت کا جرم اور عالمی برادری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے
ڈاکٹر محمد امین

تحکیم سے متعلق حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے مواقف کا مطالعہ اور خوارج کا قصہ
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مذہبی شناختیں: تاریخی صورتحال اور درپیش چیلنجز
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

اقبال: پاکستانی جوہری توانائی منصوبے کا معمارِ اوّل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عید کا تہوار اور شوال کے روزے
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

موجودہ عرف و حالات کے تناظر میں نمازِ جمعہ کیلئے شہر کی شرط
مفتی سید انور شاہ

وطن کا ہر جواں فولاد کی دیوار ہو جائے
سید سلمان گیلانی

بین الاقوامی معیارات اور توہینِ مذہب کے قوانین پر رپورٹ
انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ

Blasphemy Against Prophets and the International Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۳)
ڈاکٹر محی الدین غازی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۲)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۳)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
محمد یونس قاسمی

ماہانہ بلاگ

’’نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے‘‘
مولانا طارق جمیل

اتحادِ مذاہب کی دعوت اور سعودی علماء کا فتویٰ
سنہ آن لائن

امام ترمذیؒ، ایک منفرد محدث و محقق
ایم ایم ادیب

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

فقہی منہاج میں استدلال کے سقم اور اہلِ فلسطین کے لیے استطاعت کی شرط
ڈاکٹر عرفان شہزاد

تراث، وراثت اور غامدی صاحب
حسان بن علی

غزہ کے لیے عرب منصوبہ: رکاوٹیں اور امکانات
عرب سینٹر ڈی سی

غزہ کی خاموش وبا
الجزیرہ
حدیل عواد

حافظ حسین احمد بھی چل بسے
سید علی محی الدین شاہ

حافظ حسین احمد، صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
مولانا حافظ خرم شہزاد

دارالعلوم جامعہ حقانیہ کا دورہ / یومِ تکمیلِ نظریہ پاکستان
پاکستان شریعت کونسل

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا مولانا عبد القیوم حقانی نمبر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا خصوصی نمبر دو جلدوں میں
ڈاکٹر محمد امین

ماہنامہ نصرۃ العلوم کا فکرِ شاہ ولی اللہؒ نمبر
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

مولانا عبد القیوم حقانی کی تصانیف
ادارہ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter