چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز

ملی مجلس شرعی

ملی مجلس شرعی، جو تمام دینی مکاتب فکر کے علماء کا مشترکہ علمی فورم ہے اور 2007ء سے کام کر رہا ہے، اس کے علماء کرام کا ایک اجلاس 5 مارچ 2024ء کو جامعہ عثمانیہ/ جامع آسٹریلیا لاہور میں مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت ہوا۔ علماء کرام نے چیف جسٹس صاحب کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر شق وار غور کیا اور مندرجہ ذیل رائے دی جسے سپریم کورٹ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔

(۱) پیرا گراف 6

اپنے فیصلے کے پیراگراف 6 میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی آیت (لا اکراہ فی الدین) [البقرہ ۲۵۶:۲] کا حوالہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جبکہ زیر بحث موضوع سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ کیس یہ ہے ہی نہیں کہ مسلمان قادیانیوں کو زبردستی مسلمان کر رہے ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، لہٰذا چیف جسٹس صاحب کا یہاں اس آیت کا حوالہ دینا غیر متعلق ہے۔

(۲) پیراگراف 7

یہاں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی دو آیتیں پیش کی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری دین پہنچا دینے کی تھی نہ کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان کرنے کی۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ حوالہ بھی زیر بحث کیس سے غیر متعلق ہے اور خلط مبحث کا باعث ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیس زیربحث میں زبردستی مسلمان کرنے کی شکایت نہ تو قادیانیوں نے کی ہے اور نہ مسلمان اس کے مدعی ہیں اور نہ اس پر عامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ پھر پہنچا دینے کا مفہوم بھی چیف جسٹس صاحب غلط لے رہے ہیں۔ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ذمہ داری دین پہنچا دینے ہی کی تھی، لیکن قرآنی تعلیمات اس پر شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اس کا گواہ ہے کہ آپؐ نے اسلامی معاشرہ بھی قائم کیا اور اسلامی ریاست بھی اور ریاست کی قوت سے اسلامی احکام پر عمل بھی کرایا۔ لہٰذا ’’پہنچا دینے‘‘ کا جو مفہوم چیف جسٹس صاحب لے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے اس پیراگراف میں یہ بھی کہا ہے کہ دین میں جبر تصورِ آخرت کے بھی منافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام دین میں جبر کا قائل ہی نہیں، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس پر عمل کیا، نہ اس کا حکم دیا، نہ مسلمان اس کے قائل ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، تو چیف جسٹس صاحب کو یہ مقدمہ پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لہٰذا اس آیت کا ذکر بھی یہاں بے محل اور غیر متعلق ہے۔

(۳) پیراگراف 8

اس میں چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور اس کے لیے انہوں نے قرآن حکیم کی دو آیات نقل کی ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کیس میں آیات پر تدبر کرنے کی بجائے مدعی کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کو توہین قرآن اور گستاخی رسول کا مرتکب قرار دے۔

اس کو اردو محاورے میں کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ جناب! قرآن حکیم میں تدبر کرنے کا اس بات سے کیا تعلق ہے کہ کسی مرتد (و اولادِ مرتد) اور غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے اور اس کی مسلمانوں میں تشہیر کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ جبکہ ریاست قرآن کی اس تشریح کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال انگیز قرار دے کر پہلے ہی اس پر پابندی لگا چکی ہے۔

پھر چیف جسٹس صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن پر غور و تدبر کا مقصود کیا ہے؟ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور اس پر غور و تدبر کرنے کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ اس پر عمل کیا جا سکے۔ اور تعلیم ہی اگر غلط ہو تو اس پر عمل بھی غلط ہو گا۔ لہٰذا اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے پر ٹوکا ہے، یا ریاست نے اسے اس سے روکا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ یہ قرآن حکیم پر صحیح تدبر کا صحیح نتیجہ ہے، لیکن چیف جسٹس صاحب اسے خلافِ تدبر قرار دے رہے ہیں۔

پھر اس پیراگراف میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی اس آیت کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قرآن ہم پر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا زیربحث کیس سے کیا تعلق ہے؟ یا یہ مدعی کے خلاف اور مدعا علیہم کے حق میں کیسے جاتی ہے؟ اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان اور ان کی ریاست متنِ قرآن کی حفاظت کریں اور قرآن کی اس تشریح کی حفاظت کریں جو مسلمانوں کی 1450 سالہ جمہور اہل علم اور جمہور امت کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی اس آیت کو پیش کر کے اس کی تشریح کرے تو یہ مدعی کے حق میں جاتی ہے نہ کہ مدعا علیہم کے حق میں۔ جو مسلمانوں کی قرآن کی متفقہ علیہ تعبیر کی مخالفت کرتے ہیں اور انہوں نے اس پر ایک نیا مذہب کھڑا کر لیا ہے۔

(۴) چیف جسٹس صاحب کو مشورہ

i۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں جتنی قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا ہے وہ اس موضوع سے غیر متعلق ہیں، جس کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں خود محسوس کرنا چاہیے کہ وہ قرآنی علوم کے ماہر نہیں ہیں، لہٰذا انہیں چاہیے کہ قرآن حکیم سے براہ راست خود استفادہ کرنے کی بجائے ان اہلِ علم سے مشورہ لے لیا کریں جنہوں نے ساری عمر قرآن حکیم کو سمجھنے اور سمجھانے اور سیکھنے سکھانے میں گزاری ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے 26 فروری 2024ء والے فیصلے میں کیا ہے کہ بعض دینی اداروں کو اس سلسلے میں معاونت کے لیے کہا ہے۔ یہ کام انہیں 6 فروری 2024ء کے فیصلہ کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔

ii۔ اہلِ علم سے مشورہ لینے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مشورہ ان سے لیا جائے جو امت کی 1450 سالہ علمی روایت کے امین ہیں اور ’’جمہور علماء‘‘ اور ’’جمہور امت‘‘ کہلاتے ہیں، نہ کہ شاذ رائے رکھنے والے کسی ایسے متجدد سے جو مغرب کی الحادی فکر و تہذیب سے مرعوب ہو کر قرآن و سنت کی تشریح ایسے کرتا ہو جو مغربی فکر و تہذیب اور اس کے علمبرداروں کے مفادات کے مطابق ہو، جیسے جاوید احمد غامدی صاحب جنہیں سارے پاکستان کے علماء گمراہ قرار دے چکے ہیں اور جن کے ادارے المورد کو چیف جسٹس صاحب نے دینی امور میں مشاورت کے لیے بلایا ہے۔ اگر وہ ان جیسے لوگوں سے مشاورت کریں گے تو پاکستان کی ملت اسلامیہ کبھی ان کے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی، لہٰذا انہیں المورد کو مشاورت کے لیے نہیں بلانا چاہیے تھا۔

(۵) پیراگراف 8

چیف جسٹس صاحب نے یہاں فرمایا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق غیر مسلموں کو اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے مذہب کی تعلیم و تلقین کی اجازت دیتے ہیں۔

i۔ یہاں پہلی بات تو نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ آئین یہ اجازت غیر مشروط طور پر نہیں دیتا بلکہ اسے قانون کی مطابقت سے مشروط کرتا ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ آئین پاکستان قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور قانون ان کو اسلامی شعائر اور مصطلحات کے استعمال سے روکتا ہے، جیسے امیر المومنین، صحابہ کرامؓ، اہل بیت ، مسجد، اذان وغیرہ۔

ii۔ دوسرے یہ کہ قادیانی حضرات اپنے مذہب کو ساری دنیا میں، اور پاکستان میں صحیح اسلام اور صحیح مسلمان کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنا لٹریچر وسیع پیمانے پر طبع اور تقسیم کرتے ہیں اور اس مقصد سے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کو (یعنی عامۃ المسلمین) کو وہ کافر اور جہنمی قرار دیتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی مسلمان اور علماء کرام اس کو صحیح تسلیم نہیں کر سکتے کہ قادیانیوں کو بنیادی انسانی حقوق کے کور (Cover) کے تحت غیر اسلامی مواد کی طباعت اور تقسیم کی اجازت دی جائے، اپنے اداروں میں بھی اور باہر بھی۔

(۶) دفعہ 298C

چیف جسٹس صاحب کو یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب کے ادارے ’’قرآن بورڈ‘‘ نے اس قرآنی تفسیر ’’تفسیر صغیر‘‘ پر 2016ء سے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن حکیم کی تشریح قادیانی نقطۂ نظر سے اس طرح کی گئی ہے کہ اس کی طباعت اور تقسیم عام مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی نہ صرف اسے پاکستان میں چھپوا رہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں اسے صحیح اسلامی تفسیر کہہ کر پھیلا رہے ہیں۔ ملزم اس کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کو اصل مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کی ترویج و تقسیم میں مصروف تھا جو 298C کے تحت جرم بنتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملزم نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی جگہ اس دفعہ کے خارج کیے جانے کا مطالبہ ہی نہیں کیا، لیکن فاضل چیف جسٹس نے اس خود ملزمان کو اس دفعہ سے خارج کر دیا ہے۔

(۷) دفعہ 295B

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ملزم کے خلاف 295B کا الزام ثابت نہیں ہوتا اور اسے مقدمے سے خارج کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب 295B میں Defilement کا لفظ موجود ہے جس کے معنی آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق یہ ہیں:

To make something dirty or no longer pure

اور اس کے مترادفات (Synonyms) ہیں: Spoil, Debase, Pollute, Degrade, Dishonour جبکہ یہی بات تو یہاں زیر بحث ہے کہ ملزمان نے قرآن کے متن، ترجمہ اور تفسیر کی ایسی طباعت و اشاعت کی ہے جس میں قرآنی مفاہیم میں تحریف اور زیادتی کی گئی ہے، تو اس پر 295B کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ اور چیف جسٹس صاحب نے کیونکر اس پر 295B کے اطلاق سے انکار کیا ہے؟

(۸)

جس مواد پر حکومت پابندی لگا دے، اس کی طباعت و اشاعت دہشت گردی کے ضمن میں آتی ہے (دیکھیے دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 8 اور 11W)۔ لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس پر غور ہی نہیں فرما سکے اور ملزمان کو بری کر دیا۔

(۹)

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اس مقدمے پر کریمنل امینڈمنٹ ایکٹ 1932ء لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ قید ہے (جبکہ ملزم اس سے زیادہ قید کاٹ چکا ہے لہٰذا اس کی ضمانت قبول کی جانی چاہیے تھی) ۔ جبکہ مذکورہ ایکٹ 64 سال پہلے پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ 1960ء کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ جس کے ثبوت میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس کیس پر اطلاق درحقیقت ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011ء دفعہ 7 اور 9 کا ہوتا ہے جس کے تحت اس کی سزا عمر قید اور کم از کم تین سال ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔

(۱۰) پیراگراف 9

چیف جسٹس صاحب اس میں فرماتے ہیں کہ ہر شہری کو مذہبی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مگر بنیادی حقوق کی دفعہ 4 میں یہ آزادی مشروط ہے قانون کی مطابقت سے۔ پھر آئین کے آرٹیکل 260B کے مطابق قادیانی کوئی مذہب نہیں (ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح) بلکہ چند افراد کا ایک گروپ ہے جو اسلام کے حساس عقائد میں تحریف کرتا ہے۔ یہ بات قومی اسمبلی کی ان ابحاث سے بالکل واضح ہے جو 260B بناتے وقت قومی اسمبلی میں ہوئیں۔

(۱۱) پیراگراف 10

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اگر متعلقہ ادارے قرآن، آئین اور قانون کو دیکھ لیتے تو FIR درج ہی نہ ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ ہر فرد کو آزادی حاصل ہے مگر قانون کے مطابق۔ اور قانون کہتا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور وہ مسلمانوں کے شعائر اور اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ تحریف شدہ ترجمہ قرآن بھی خلافِ قانون اور قابلِ سزا ہے۔ قرآن بورڈ نے ہولی قرآن ایکٹ 2011ء کے تحت اس پر پابندی لگائی ہے تو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ FIR درج ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔

(۱۲) پیراگراف 16

چیف جسٹس صاحب اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہبی جرائم کی روک تھام ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی اکیلے آدمی کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اور اگر بن جائے تو ہر مسلمان کو حق ہے کہ وہ اسے اس بنیاد پر چیلنج کرے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ مذہب کے خلاف قوانین کو کوئی فرد چیلنج نہیں کر سکتا۔ یہاں تو ریاست کی حالت یہ ہے کہ مدعی نے 2019ء میں ریاست سے مطالبہ کرنا شروع کیا کہ ملزمان توہین قرآن کے مرتکب ہو رہے ہیں، لیکن پوری کوشش اور بھرپور فالو اَپ کے بعد کہیں ۲۰۲۲ء میں جا کر ملزمان کے خلاف FIR کاٹی گئی۔

(۱۳) 

ایک ملزم چیف جسٹس صاحب کے پاس ضمانت کرانے آیا تھا، باقی ملزمان مفرور تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں بغیر مانگے، ان کی درخواست ضمانت کو اپیل میں بدلا اور پھر اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا، یعنی وہ سب جرم سے بری قرار دیے گئے۔ قادیانیوں سے یہ آوٹ آف دی باکس مہربانی کی وجہ چیف جسٹس صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ اور پھر ان کا مشہورِ زمانہ رویہ کہ وکیلوں کو بولنے نہ دو، ڈانٹ ڈپٹ کر کے انہیں توہینِ عدالت کی دھمکی دو، خود بولتے رہو اور خود ہی فیصلہ کر دو۔ چیف جسٹس صاحب کا Tenure بہت تھوڑا ہے لیکن اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ مدتوں یاد رکھے جائیں گے، جیسا کہ لوگ آج بھی اس چیف جسٹس کو یاد کرتے ہیں جس کے پاس ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قوانین میں تبدیل کرنے کی اجازت لینے گیا اور سپریم کورٹ نے اسے آئین تبدیل کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ ما شاء اللہ!۔

(۱۴) آئین و قانون میں تبدیلی کی ضرورت

i۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کرام اور عوام نے تحریک چلا کر 1974ء میں پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ پھر تجربے نے ثابت کیا کہ قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور وہ مسلسل خود کو اصلی مسلمان ظاہر کرتے اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر علماء کے مطالبے پر جنرل ضیاء الحق کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس 1984ء میں پاس کرنا پڑا ۔ اور 295B میں قادیانیوں کو مسلمانوں کی بعض اصطلاحات اور شعائر کا نام لے کر ذکر کرنا پڑا کہ وہ انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود ہمارا تجربہ یہ ہے کہ قادیانی بدستور التباس پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لہٰذا ایسے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ کچھ چیزوں کے نام لے کر ان کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کو ان کے استعمال سے روک دیا جائے جن کی فہرست ہم یہاں دے رہے ہیں۔

ii۔ آئین میں تبدیلی کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور ان کی طرح کے کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو قانون سازی کی گئی ہے وہ اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر اور آئین پاکستان میں مذکور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس بات سے اگر صرفِ نظر بھی کر لیا جائے کہ آئینِ پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق سے لیے گئے ہیں اور ان میں سے کئی قرآن و سنت کے خلاف ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اس التباس سے بچنے کی موزوں صورت یہ ہے کہ آئین کے متعلقہ بنیادی حقوق میں جہاں شہری آزادیوں کا ذکر ہے، وہاں اسے قادیانیوں سے متعلق قوانین سے مشروط کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ یہ وجہ بہت اہم ہے، اور وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسئلہ غیر مسلموں (ہندوؤں اور عیسائیوں) جیسا نہیں ہے بلکہ وہ مرتد (اور اولادِ مرتد) ہیں اور انہوں نے اسلام ترک کیا ہے۔ لہٰذا ان پر ایسی پابندیوں کا اطلاق تقاضائے انصاف ہے جن سے وہ خود کو مسلمان نہ ظاہر کر سکیں اور انہیں مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی اجازت نہ ہو۔

اس لیے ہم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو آئین میں مذکورہ آئینی تبدیلی کے علاوہ 295B میں مندرجہ ذیل امور کو قانون میں شامل کرنے کی تجویز دیں:

۱۔ ’’احمدیوں‘‘ کو ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ کہا جائے اور انہیں ’احمدی‘ نہ کہا جائے، کیونکہ احمدی اور محمدی تو عام مسلمان ہیں۔

۲۔ شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ رکھا جائے اور اس میں انہیں ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ لکھا جائے۔

۳۔ قادیانی اور لاہوری غیر مسلموں کو مسلمانوں جیسے نام رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

۴۔ وہ قرآن کو اپنی مذہبی کتاب نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کی طباعت و اشاعت و تدریس کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب ہے نہ کہ ان کی۔ یہی معاملہ کتبِ حدیث کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔

۵۔ ان کے مرد و خواتین کا لباس اور ان کی وضع قطع (داڑھی ٹوپی وغیرہ) مخصوص ہونی چاہیے اور عام مسلمانوں جیسی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ عہدِ صحابہ میں تھا اور حضرت عمرؓ نے اس کا حکم دیا تھا۔

۶۔ وہ اسلام کے کسی رکن مثلاً‌ صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج اور جمعہ، عیدین، قربانی کو اپنی عبادت کے طور پر اختیار نہیں کر سکتے۔

۷۔ وہ اسلام کی اصطلاحات، شعائر، اسماء اور کسی بھی ایسے امر/رسم کو اختیار اور استعمال نہیں کر سکتے جس سے وہ یہ التباس پیدا کر سکیں کہ وہ مسلمان ہیں، اور نہ انہیں کسی بھی شکل میں خود کو مسلمان کہلانے کی اجازت ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ وہ عام کفار یعنی ہندوؤں، عیسائیوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ مرتد ہیں اور ترکِ اسلام کے مجرم ہیں، لہٰذا ان کا مسلمانوں سے اور ان کے شعائر، مقدسات، عبادات، اصطلاحات، رسوم و رواج سے الگ اور متمیز ہونا ضروری ہے، تاکہ ان کی الگ شناخت ممکن ہو سکے۔

اسمائے گرامی شرکاء مجلس

۱۔ مولانا زاہد الراشدی (شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم و ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

۲۔ مولانا مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان (چیئرمین وفاق المدارس الرضویہ، لاہور)

۳۔ مولانا عبد المالک (صدر وفاق رابطۃ المدارس، لاہور)

۴۔ مولانا عبد الرؤف ملک (سرپرست جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)

۵۔ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (مہتمم جامعہ اہلحدیث، چوک دالگراں، لاہور)

۶۔ مولانا محمد الیاس چنیوٹی (امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، پاکستان)

۷۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی (مہتمم جامعہ اسلامیہ و مرکز تحقیق اسلامی، کامونکی)

۸۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (نائب امیر جماعت اسلامی، پاکستان)

۹۔ مولانا سردار محمد خان لغاری (ناظم اعلیٰ متحدہ علماء کونسل، لاہور)

۱۰۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (مہتمم جامعہ رحمانیہ و پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

۱۱۔ مولانا حافظ محمد عمران طحاوی (نائب ناظم اعلیٰ ملی مجلسِ شرعی، لاہور)

۱۲۔ مولانا عبد اللہ مدنی (ناظم تعلیمات جامعہ فتحیہ و مسئول وفاق المدارس العربیہ لاہور)

۱۳۔ حافظ ڈاکٹر محمد سلیم (مہتمم جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)

۱۴۔ مولانا ڈاکٹر محمد امین (سابق پروفیسر علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۴

احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ملی مجلس شرعی

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter