(اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی سیرت چیئر کے زیراہتمام ۱۸ و ۱۹ جنوری ۲۰۲۲ء کو ائمہ و خطباء کے لیے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کی افتتاحی نشست منعقدہ ۱۸ جنوری میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عزت مآب وائس چانسلر صاحب! قابل صد احترام مہمان خصوصی اور معزز شرکاءِ محفل!
اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اس پروگرام میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور اس سے اس عظیم ادارہ کے ساتھ پرانی نسبتیں بھی تازہ ہو رہی ہیں۔ اس کا پہلا دور جامعہ عباسیہ کے عنوان سے ہماری تاریخ کا حصہ ہے جس کی علمی و دینی خدمات ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، بالخصوص حضرت علامہ غلام محمد گھوٹویؒ کا نام سامنے آتا ہے اور ختمِ نبوت کے تاریخی مقدمہ بہاولپور کے حوالہ سے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت علامہ گھوٹویؒ کا تذکرہ نظر سے گزرتا ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد اس عظیم تعلیمی مرکز کا وہ دور بھی ہمارے سامنے ہے، جب اسے دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا مرکز بنایا گیا اور اس نے جامعہ عباسیہ سے جامعہ اسلامیہ کا سفر طے کیا، جس میں ملک بڑی بڑی علمی شخصیات نے اسے اپنی جولانگاہ بنایا اور میرے جیسے کارکنوں کو یہ امید لگ گئی کہ دینی و عصری تعلیم کے درمیان جو تفریق برطانوی استعمار کے دور میں پیدا کر دی گئی تھی اسے ختم کر کے اس سے پہلے دور کی طرح دینی و عصری علوم کی یکساں تعلیم کا ماحول دوبارہ دیکھنے کو مل جائے گا، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور ہم آج اسی تعلیمی ادارہ میں اس سے مختلف ماحول میں کھڑے ہیں۔
میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور اس کے حوالہ سے محترم وائس چانسلر صاحب کی موجودگی میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں آج بھی خود کو ذہنی طور پر اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اسی دور میں کھڑا دیکھتا ہوں جو جامعہ عباسیہ اور جامعہ اسلامیہ کے ملاپ کا دور تھا اور دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا دور تھا۔ کیونکہ ہماری قومی تعلیم کی اصل ضرورت تعلیم کا وہی دور ہے، ہمیں آج پھر اس طرف واپس لوٹنا ہو گا، ورنہ ہم اس تفریق کو ختم نہیں کر پائیں گے جس نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ میں اپنے موضوع کی طرف آنے سے قبل محترم وائس چانسلر صاحب سے یہ درخواست کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دور کی طرف واپسی کا راستہ نکالیے، ہم اس میں آپ کے ساتھ ہیں اور اس کو موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی تعلیمی ضروریات کا اصل حل سمجھتے ہیں۔
پہلے تو مسجد کی بات کر لیں کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کی حیثیت کیا ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مسجد مسلم معاشرہ میں دل کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ مدرسہ کو دماغ کا مقام حاصل ہے۔ مسجد مسلم سوسائٹی کا اعصابی مرکز ہے اور مسلم آبادی کا زیرو پوائنٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں انسان کی آبادی کا آغاز بیت اللہ کے قیام سے کیا تھا ’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا‘‘ میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ کے جبر کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا تو قبا کے چند روزہ قیام میں بھی پہلے مسجد بنائی۔ اور پھر مدینہ منورہ میں قیام کیا تو وہاں بھی اپنے گھروں سے پہلے مسجد کی تعمیر کا اہتمام فرمایا۔ اس لیے مسجد مسلم آبادی میں زیرو پوائنٹ ہے اور اعصابی مرکز ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز مسجد ہی ہے اور اسی سے مسلم آبادی کا آغاز ہوتا ہے۔
مسجد کے اعمال کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں سے عبادت، وعظ و نصیحت، اور تعلیم و تدریس کا ماحول تو آج بھی قائم ہے۔ مگر مسجد کے بہت سے اعمال آج متروک ہو چکے ہیں جنہیں دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے دو کی طرف آج کی محفل میں توجہ دلانا چاہوں گا۔
- مسجد کا ایک کردار یہ رہا ہے کہ اس سے متعلقہ ماحول میں اگر کوئی جھگڑا یا تنازعہ پیدا ہوا تو مسجد نے مصالحت کنندہ کا کا کردار ادا کیا، آج کے دور میں اسے کونسلنگ کہا جاتا ہے جو ہماری بہت بڑی معاشرتی ضرورت ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار عدل و انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ میرے خیال میں مسجد کا امام و خطیب اور انتظامی کمیٹی اگر اپنے ماحول میں کونسلنگ کا یہ کردار سنبھال لیں تو ہمارے بے شمار مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد عدالتوں کے اخراجات اور تنازعات میں وسعت کے چکر سے بچ جائے گی اور یہ قوم کے ساتھ بہت بڑی نیکی شمار ہو گی۔
- جبکہ دوسری بات جس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں وہ رفاہی اور سماجی خدمت کا میدان ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسجد کا یہ کردار بھی تھا کہ اپنے ماحول میں ضرورت مندوں، معذوروں اور محتاجوں کی ضروریات کا مسجد میں خودبخود اہتمام ہو جایا کرتا تھا۔ یہ بھی مسجد کے امام اور کمیٹی کی توجہ کا کام ہے، اگر وہ اس میں سنجیدہ ہو جائیں تو ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا ماحول ریاستی سطح پر نہ سہی مگر پرائیویٹ سطح پر کسی نہ کسی حد تک ضرور بنایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک فقہی اختلافات اور ائمہ مساجد کے رویہ کا معاملہ ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ زیادہ تر اختلافات فقہی دائرہ کے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ فقہی اختلاف اسلام اور کفر یا حق و باطل کے دائرہ کا نہیں ہوتا بلکہ اس کا دائرہ خطا اور صواب کا ہوتا ہے۔ فقہی مسائل میں اگر ہم ایک امام کے قول پر عمل کرتے ہیں تو ’’صواب یحتمل الخطاء‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ اور کسی امام کے قول پر عمل نہیں کرتے تو ’’خطاء یحتمل الصواب‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ فقہی اختلاف حق و باطل کا نہیں بلکہ صواب و خطا کا اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہم اس اصول کو سمجھ لیں اور اس کی پاسداری کا اہتمام کر لیں تو بہت سے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں دینی تعلیمات سے بے خبری اور مغربی میڈیا کی فکری یلغار کی وجہ سے جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان کی طرف سنجیدہ توجہ دینا امام و خطیب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اپنے ماحول کے نوجوانوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو محبت و پیار اور دلیل اور استدلال کے ساتھ صاف کرنے کی ضرورت ہے اور مساجد کے ائمہ و خطباء کو اس کی تیاری اور اہتمام کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔