والدین کا اپنی اولاد کسی دوسرے کی گود بھرنے کے لیے اس کے سپرد کر دینا بچے کے بنیادی حقوق کے خلاف مجرمانہ اور سنگدلانہ اقدام ہے۔ انھیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ بچے کو اپنی ممتا اور شفقتِ پدری سے محروم کر دیں۔ بچہ اوّل و آخر اُنھیں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو دنیا میں لانے کا فیصلہ انھیں اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ اس کی ذمہ داری کو خود نبھانے کا ارادہ اور استطاعت رکھتے ہوں۔بچے کو کسی دوسرے کے حوالے سوائے اس مجبوری کے نہیں کیا جا سکتا کہ والدین دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، یا وہ بچےکو پالنے کے قابل نہیں رہے۔
اس کے باوجود بچے سے اس کے حقیقی والدین کی شناخت چھینی نہیں جا سکتی۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اس سے اس کا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ یہی دین کا حکم ہے۔
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (القرآن، 33: 4-5)
اور (خدانے) نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنادیا ہے۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے تو تم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
والدین، بچے کی شخصیت اور پرداخت میں صرف اتنا ہی تصرُّف کر سکتے ہیں جو بچے کے حق میں ہو، اس کے خلاف کسی تصرُّف کا انھیں کوئی حق نہیں۔ جس طرح وہ بچےکو قتل نہیں کر سکتے، اسے بیچ نہیں سکتے، اسی طرح وہ اسے اپنی ممتا اور شفقت سے محروم کر کے کسی دوسرے کے حوالے بھی نہیں کر سکتے۔
یہ کوئی ایثار نہیں کہ اپنے کسی عزیز کی خالی گود بھرنے کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا اسکے حوالے کر دیا جائے۔ ایثار اپنی ذات کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اپنا حق چھوڑا جاتا ہے، کسی دوسرے کا حق تلف کرکے کسی کا بھلا نہیں کیا جاتا۔
لے پالک بچے کو جب یہ علم ہوتا ہے کہ جن کو وہ اپنے حقیقی والدین سمجھتا رہا ہے وہ اس کے حقیقی والدین نہیں، اس کے حقیقی والدین کوئی اور ہیں، تو اس کی دنیا اُتھل پُتھل ہو جاتی ہے۔ پھر جب وہ یہ باور کرتا ہے کہ اسے گویا ایک "زائد شے" سمجھ کر کسی کا دل بہلانے یا اس کی تنہائی دور کرنے کے لیے اس کے سپرد کر دیا گیا تھا، تو اسے اپنی توہین کا احساس ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔
یہاں مریم علیھا السلام کی والدہ کا مریم علیھا السلام کی پیدایش سے پہلے انھیں خدا کے نام پروقف کردینے کے واقعے1 سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر کے انتخاب اور انھیں کسی دوسرے کے سپرد کر دینے کا حق حاصل ہے۔ درحقیقت، یہ مادرِ مریم کی طرف سے اپنی خواہش کا اظہار تھا کہ وہ انھیں دین کی خدمت اور خداکے نام پر وقف کرنا چاہتی تھیں۔ مگر مریم علیھا السلام پر لازم نہ تھا کہ شعور کی عمر کو پہنچ کر وہ اس کی پابند رہتیں، ایسے ہی جیسے بچپن کے نکاح کی پابندی شعور اور بلوغت کے بعد واجب نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے کہ مریم علیھا السلام کی اپنی طبیعت بھی اسی طرف مائل رہی اور والدہ کی خواہش پوری ہوئی۔
پھر یوں نہیں ہوا کہ ان کے پیدا ہوتے ہی انھیں دین کے خدّام کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ یقیناًیہ اقدام ان کی شعوری عمر کے بعد ہی کیا گیا ہوگا۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، مگر اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خدا کے لیے ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نے اس پر، بلا کسی تاویل کے، عمل کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راے لی تھی، اور بیٹے کی رضامندی کے بعد ہی اقدام کیا تھا۔
اللہ تعالی نے اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر مریم علیھا السلام کی والدہ کی اس خواہش کو قبول کیا، مگر یہ کوئی قاعدہ نہ تھا جس کا التزام ضروری تھا۔ چنانچہ اس واقعہ سے کوئی عمومی اصول وضع نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر یا انھیں دوسروں کے حوالے کردینے کا اختیار ہے۔ تاہم، بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایسا کوئی فیصلہ اگر کرنا ہی پڑے تو یہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب بچے باشعور ہوں اور ان کی رضامندی اس میں شامل ہو۔
بے سہارا بچوں کا معاملہ الگ ہے، انھیں گود لینا ایک نیکی کا کام ہے، مگر اس میں بھی انسانی نفسیات اور جذبات کے مذکورہ بالا پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے، خداوندِ عالم نے یہ لازم قرار دیا ہے کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے، ان کی اصل شناخت ہی سے پکارا جائے۔ باپ اگر نامعلوم ہو، تو انھیں دینی بھائی قرار دیا گیا ہے، لیکن ان کی ولدیت کسی صورت تبدیل نہیں کی جا سکتی2، یہ ایک جھوٹ ہے، جسے گورار نہیں کیا جا سکتا۔
بچے کی جینیاتی شناخت کی حفاظت اور بچے کی نگہداشت میں والدین کی مکمل توجہ میں خلل اندازی سے بچانے کے لیے شریعت میں زنا کو حرام ٹھہرایا گیا ہے، تاکہ والدین کی توجہ اپنے گھرانے باہر نہ بھٹکے۔
جنسی تعلق کی حرمت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس سے میاں اور بیوی کا حق تلف ہوتا ہے، بلکہ اصلاً اس لیے ہے کہ اس سے بچوں کا حق تلف ہوتا ہے: ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو جائز تعلق سے وجود میں آئے اور ان کا باپ یا ماں یا دونوں اپنی جنسی آزاد روی کی وجہ سے گھرپر توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے، اور ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو زنا کے تعلق سے وجود میں آئے اور انھیں والدین کی مکمل اور مستقل توجہ اور احساس ذمہ داری میسر نہیں، کیونکہ اس ماں اور باپ کے درمیان مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا معاہدہ (نکاح) نہیں ہے۔
اسی بنا پر مستقل رفاقت کے ارادے کی شق کے بغیر کوئی نکاح، درحقیقت نکاح ہی نہیں، کیونکہ اس میں ممکنہ طورپر وجود پذیر ہونے والے بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی باہمی پرورش میسر نہیں ہوتی۔ نکاحِ متعہ کی حرمت کی حقیقت یہی ہے۔
تاہم، بچوں کی پیدائش کے امکان کو اگر معدوم کر لیا گیا ہو تو بھی ایسا نکاح جائز نہیں، اس لیے کہ اِنھیں مرد و و عورت نے کبھی نہ کبھی کسی مستقل رفاقت کے ارادے سے نکاح کرنا اور اولاد پیدا کرنی ہے۔اس لیے اس سے پہلے اس آزاد روی کی اجازت نہیں دی جاسکتی جسے بعد میں بدلنا مشکل ہو جائے یا میاں اور بیوی کے خالص تعلق پر وہ کسی بھی پہلو سے اثر انداز ہو سکے۔
خاندان اور اولاد کی فطری ضرورت اور خواہش سے لوگ عام طور پر عاری نہیں ہوسکتے۔ مستثنیات، جو عیال داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، زیرِ بحث نہیں۔ عمومی قوانین مستنثیات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائے جاتے، مگر ان پر بھی عمومی قوانین کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی طے نہیں کہ ایک شخص جو اس وقت بچوں کی خواہش نہیں رکھتا، جانے کب اپنا ارادہ تبدیل کر لے۔
اسی لیے شادی کے بعد جو جنسی تعلق مستقل رفاقت کے ارادے سے اپنائے گئے شریک حیات سے ماورا ممنوع ہے، وہ شادی سے پہلے بھی ممنوع رہناضروری ہے۔
اسی اصول پر مادہ تولید کا عطیہ یا سپردگی (سپرم اور ایگ ڈونیشن) کا مسئلہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نکاح کا مطلب محض جنسی تعلق کو جواز فراہم کرنا نہیں ہے، یہ عقدِ نکاح اس تعلق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے بچوں کی پرورش اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی تعلق کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے باندھا جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اگر مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا رشتہءِ نکاح نہیں ہے، تو ان کے مادہ تولید کے امتزاج سے بچہ حاصل کر کے ان میں سے کسی ایک یا کسی تیسرےکے حوالے کرنا، بچے کو اس کے حقیقی والد یا والدہ یا دونوں سے محروم کرنا ہے۔
یہی صورتحال زنا میں پیش آتی ہے کہ اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو باپ یا ماں اور باپ دونوں کی مستقل اور مکمل توجہ اور ذمہ داری میسر نہیں آسکتی۔ اس سے بچے کی حق تلفی ہوتی ہے، جس کا اختیار کسی کو نہیں۔ ایسے بچوں کی ادارہ جاتی یا سرکاری سرپرستی والدین کی پرورش کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس سبب سے زنا حرام ہے، مادہ تولید کی سپردگی بھی حرام قرارپاتی ہے۔
نطفے اور بیضے کا عطیہ اعضا کے عطیے جیسا نہیں۔ نطفہ اور بیضہ انسانی وجود کے تشکیلی عناصر ہیں۔ ان سے پورا انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک انسان کو عطیہ کرنے کا معاملہ ہے، جس نے باشعور ہونا ہے۔ ایک انسان کو عطیہ کرنے کا اختیار کسی دوسرے انسان کو نہیں ہے، خواہ وہ اس کا والد یاوالدہ ہی ہو۔
اسی بنا پر اسقاطِ حمل کا مطلق اور مکمل اختیار بھی والدین کو ہے، نہ حاملہ کو کہ وہ جب چاہے حمل ختم کر سکے۔ حمل نے اگر انسانی وجود اختیار کر لیا ہے تو اب بلا کسی معقول عذر3 کے اس کا خاتمہ، انسان کا قتل ہے۔ اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہےکہ جنین میں انسانی شخصیت کے ظہور کا مرحلہ مذکور ہوا ہے جو جنین کی نشوونما کے دوران میں کچھ وقت کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (القرآن، 23: 12-15)
ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا تھا۔ پھر اُس کو (آگے کے لیے) ہم نے پانی کی ایک (ٹپکی ہوئی) بوند بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھ دیا۔ پھر پانی کی اُس بوند کو ہم نے ایک لوتھڑے کی صورت دی اور لوتھڑے کو گوشت کی ایک بندھی ہوئی بوٹی بنایا اور اُس بوٹی کی ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اُس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ پھر یہ کہ قیامت کے دن تم لازماً اٹھائے بھی جاؤ گے۔
"أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ" سے یہی مرحلہ مراد ہے جب جنین کا حیوانی وجود انسانی شخصیت حاصل کرتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ یہ مرحلہ رحم مادر میں نطفے کے تقرر سے 120 دن کے بعد آتا ہے4۔
اس حیوانی وجود کا اسقاط بھی کسی عذر کی بنا ہی پر جائز ہو سکتا ہے، مگر انسانی شخصیت اختیار کر لینے کے بعد اس کی حرمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسقاطِ حمل کا فیصلہ والدین کو پوری دیانت داری، خدا خوفی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ کرنا چاہیے۔
میاں اور بیوی کے مادہ تولید سے زائی گوٹ بنا کر، ادھار کی کوکھ (سروگیسی) میں رکھ کر بچہ حاصل کرنا، جسے اس کے حقیقی ماں باپ کا نام اور گود ملے گی، اسے رضاعت پر قیاس کرتے ہوئے درست قرار دیا جا سکتا ہے: جس طرح رضاعی ماں کے دودھ سے بچے کی پرورش ہوتی ہے، اس معاملے میں یہ پرورش اس کے خون سے ہوتی ہے۔ رضاعی ماں ہی کی طرح سروگیٹ ماں اور اس کے خونی رشتے، بچے کے لیے رضاعی محرم ہو جائیں گے۔ رہا معاملہ سروگیٹ ماں کے بچے کے ساتھ جذباتی تعلق کا، تو وہ تعلق رضاعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل انسان کو نکالنا ہے۔ اسی پر مزید قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ رضاعت کی اجرت کی طرح سروگیسی کی اجرت لینا بھی درست ہے۔
تاہم یہ کرنا چاہیے یا نہیں، اس کا فیصلہ فرد اور سماج کو کرنا ہے۔
حواشی
(1) إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا (القرآن، 3: 35-36)
اِنھیں یاددلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو میں نے ہرذمہ داری سے آزاد کرکے تیری نذر کردیا ہے۔سوتو میری طرف سے اِس کو قبول فرما، بے شک توہی سمیع و علیم ہے۔ پھر جب اُس نے اُس کو جنا تو بولی کہ پروردگار، یہ تو میں نے لڑکی جن دی ہے ـــــ اور جو کچھ اُس نے جنا تھا، اللہ کو اُس کا خوب پتا تھا ـــــــــــــــــ اور (بولی کہ ) وہ لڑکا اِس لڑکی کی طرح نہ [814] ہوتا۔ (خیر اب یہی ہے ) اور میں نے اِس کا نام مریم رکھ دیا ہے اوراِس کو اور اِس کی اولاد کو میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (اُس کے احساسات یہی تھے)، تاہم اُس کے پروردگارنے اُس لڑکی کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا کو اُس کا سرپرست بنادیا۔
(2)
القرآن، 33: 4-5
(3) مثلا حاملہ کی جان کو اس سے شدید خطرہ لاحق ہو۔
(4) عَنْ عَبْدِ الله، قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً ۲مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ (صحیح بخاری،رقم :6133)
عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا ــــــ اور آپ صادق بھی تھے اور مصدوق بھی ــــــ آپ نے فرمایا:یہ حقیقت ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کی خِلقت اُس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتی ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں لہو کی پھٹکی ہو جاتی ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور وہ اُس میں روح پھونکتا ہے۔