انیسویں صدی کے ڈنمارک کے فلسفی سورن کیرکیگارڈ نے مسیحی علم کلام کی تنقید کرتے ہوئے ایمان کی درست نوعیت کو واضح کرنے کے لیے "یقین کی جست (leap of faith) " کی تعبیر اختیار کی تھی۔ کیرکیگارڈ نے کہا کہ ایمان محض عقلی استدلال کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں انسان کی پوری شخصیت شامل ہوتی ہے اور انسان کے جذبات، فکرمندی اور اضطرابات کے مجموعے سے وہ کیفیت وجود میں آتی ہے جب انسان میسر شواہد کی روشنی میں ایمان کی جست لینے پر تیار ہو جاتا ہے۔
Kierkegaard affirms a leap, not because the would-be believer doesn’t have sufficient evidence to leap, but simply because faith cannot be reduced to an intellectual test one passes via assent. No, faith is rooted in passion, in one’s cares and concerns. In entrusting one’s life to God, faith’s movement forward requires a decision each individual must make for him or herself.
انسان کے کسی بھی بڑے اور غیر معمولی فیصلے میں یہ جست شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو اس کو میسر معلومات یہ ثابت کرنے کے لیے کبھی کافی نہیں ہوتیں کہ نتائج یقینی طور پر حسب منشا ہوں گے۔ سو قدم اٹھانے کے لیے ایک یقین خود میں پیدا کرنا پڑتا ہے جس کی حیثیت ایک جست کی ہوتی ہے۔
ابراہیمی مذاہب کے علم کلام میں قابل فہم طور پر ایمان کے عقلی پہلو زیادہ نمایاں کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر وجود باری اور توحید پر ایمان کو تقریباً ایک بدیہی قضیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا ہے۔ یقیناً انفس، آفاق اور تاریخ میں ایسے غیر معمولی شواہد موجود ہیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو سلیم الفطرت انسانوں کے لیے ایک معقول اور قابل قبول انتخاب بناتے ہیں، لیکن آخری تجزیے میں یقین کی جست کے بغیر انسان ایمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ دراصل یہ جست ہی ہے جس کی خدا کی نظر میں قدر ہے۔ ایمان بالغیب کی ساری قدروقیمت اسی میں مضمر ہے۔
ابراہیمی مذاہب کے ذریعے سے غیر معمولی تاریخی معاونات نے ایمان کو وہ حیثیت دیے رکھی ہے جو علم کلام میں بیان کی جاتی ہے۔ کلامی روایت کا یہ اعتماد دراصل اس تاریخی صورت حال کا عکاس ہے جس میں یہ روایت پروان چڑھی۔ تاہم قرب قیامت کے دور میں ایمان کے مددگار عوامل واسباب کا محدود اور کمزور ہوتے چلے جانا آزمائش کی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔ صورت حال کا تدریجاً وہاں پہنچنا لازم ہے جب ایمان کے ظاہری اور محسوس مویدات کالمعدوم ہو جائیں اور صرف چند لوگ رہ جائیں جو قرآن کی اس آیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق بننے کے اہل ہوں:
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعنَا مُنَادِیًا یُّنَادِی لِلاِیمَانِ اَن اٰمِنُوا بِرَبِّکُم فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغفِر لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّر عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الاَبرَارِ (آل عمران، آیت ۱۹۳)
"اے پروردگار ہم نے ایک پکار کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔ سو اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھائیو۔"
إن سيداً بنى داراً واتخذ مأدبة وبعث داعياً، فمن أجاب الداعي دخل الدار وأكل من المأدبة ورضي عنه السيد، ألا وإن السيد الله، والدار الإِسلام، والمأدبة الجنة، والداعي محمد صلى الله عليه وسلم
"ایک بادشاہ نے محل بنایا اور اس میں ضیافت کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے لوگوں کو بلانے کے لیے ایک پکارنے والے کو بھیجا ہے۔ تو جو اس پکارنے والے کی بات سنے گا، وہ محل میں جائے گا اور ضیافت سے لطف اندوز ہوگا اور بادشاہ بھی اس سے خوش ہوگا۔ (اور جو نہیں سنے گا، وہ ضیافت سے بھی محروم رہے گا اور بادشاہ کی ناراضی بھی مول لے گا)۔ سنو، اس تمثیل میں بادشاہ اللہ ہے، محل اسلام ہے، ضیافت جنت ہے اور لوگوں کو پکارنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔"
پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفی اور ناول نگار البرٹ کیمیو نے اپنے ناول کے بنیادی کردار کی زبانی وجودیت کے فلسفے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیمیو نے اور ایک پادری کے مابین ایک فرضی مکالمہ قلم بند کیا ہے اور اسے اس طرح سے مرتب کیا ہے کہ زندگی کی معنویت یا مقصد سے متعلق کی عدم دلچسپی اور اس دلچسپی پر پادری کی ’’جھنجھلاہٹ’’ کو نمایاں کیا جائے۔ بہرحال یہ مکالمہ اس کی تفہیم میں مددگار ہے کہ وجودی نقطہ نظر، مذہبی انداز فکر کو کیسے دیکھتا ہے۔ البتہ اس مکالمے سے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ وجودیت پسند، جن اسباب سے بھی خدا کے وجود یا زندگی کی معنویت میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں، یہ کیونکر فرض کر سکتے ہیں کہ یہ سوال فی نفسہ بھی بے معنی ہے یا سارے انسانوں کے لیے وجودیت پسند ہونا ہی واحد عقلی انتخاب ہے؟
مثلاً کوئی شخص یا گروہ اگر کچھ اسباب سے شادی میں دلچسپی کھو بیٹھے تو یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کے وہ کچھ فلسفیانہ یا عقلی دلائل بھی دے سکتا ہے اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی اس کیفیت کو سمجھنا ممکن ہے، اور اسی طرح کا ایک مکالمہ کسی میرج بیورو کے نمائندے اور تجرد پسند کے مابین بھی سپرد قلم کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا ان کی اس کیفیت کو بنیاد بنا کر یہ فرض کرنے کا بھی جواز ہے کہ شادی سے دلچسپی ہی بے مقصد بات ہے اور سارے انسان ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر ’’مجھے فلاں سوال میں دلچسپی نہیں’’ کے بیان کو ’’یہ سوال ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا’’ کے مساوی کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
منطق کی اصطلاح میں یہ طرز استدلال مصادرہ علی المطلوب (begging the question ) کی مثال ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو نکتہ اصل میں محل نزاع ہے، اسی کو دلیل بنا کر پیش کر دیا جائے۔ وجودی پوزیشن میں معنویت کے سوال سے دلچسپی نہ ہونا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ وجود ہے ہی بے معنی، اس لیے معنویت میں دلچسپی کیسی؟ لیکن مکالمے میں اصل مقدمے پر بات کیے بغیر اس پر مبنی وجودی پوزیشن کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے کہ جب ایک وجودیت پسند کو خدا سے دلچسپی ہی نہیں تو اس سے خدا کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟
کارل شمت نے تو جدید سیاسی تصورات کے متعلق نشان دہی کی ہے کہ وہ روایتی مذہبی تصورات ہی کی ایک سیکولر تشکیل ہیں۔ مطلب یہ کہ جدیدیت میں انسانی شعور کی اس تاریخی تشکیل سے جس میں مذہب کا کردار بہت گہرا رہا ہے، ابھی خلاصی حاصل نہیں کی جا سکی۔ نیٹشے یہی بات اخلاقیات کے باب میں کہتا ہے۔ تاہم یہ بات سب سے زیادہ جس سوال سے متعلق درست ہے، وہ زندگی کی معنویت اور اس کی غیر مادی نسبتوں کا سوال ہے۔ الحاد یا اس سے ملتی جلتی پوزیشنوں میں یہ قضیہ بنا لینا تو آسان ہے کہ زندگی بس اپنے مادی ظہور اور اختتام تک محدود ہے اور اس سے ماورا کوئی حقیقت نہیں رکھتی، لیکن انسانی شعور سے اس احساس اور اس خواہش کو کھرچنا ممکن نہیں کہ زندگی کو دوام ہونا چاہیے، انسان کو اس زندگی سے بہتر زندگی ملنی چاہیے اور اس زندگی کا انسان کی ultimate کامیابی اور فلاح سے تعلق ہونا چاہیے۔ چنانچہ کسی پسندیدہ انسان کے مرنے پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ اچھا ہے، ایک بے مقصد زندگی کے کرب سے اسے نجات ملی۔ آخرت اور حیات بعد الموت کے مذہبی عقیدوں کی نفی کرنے یا ان کے متعلق تشکیک رکھنے والے یا ان سوالات کو غیر اہم سمجھنے والے، سب کسی نہ کسی انداز میں اس کے لیے ایک بہتر زندگی کی تمنا یا دعا کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مشہور شخصیات کے مرنے کے بعد ان کو جنت یا دوزخ میں بھیجنے کی بحثوں کا زیادہ اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے۔ اور دوسروں کے انجام کے فیصلے کرنے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے انجام سے غافل نہ ہوں، بلکہ ملی ہوئی مہلت میں اسے اچھا بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں۔ حدیث میں کیا ہی اعلی دعا آئی ہے۔
اللھم اجعل الحیاة زيادة لنا فى كل خير واجعل الموت راحة لنا من كل شر. آمین
’’اے اللہ، زندگی کو ہمارے لیے ہر خیر میں اضافے کا اور موت کو ہمارے لیے ہر دکھ سے راحت پا لینے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘
انسانوں کے مابین مطلق مساوات کا عقیدہ ایک تہذیبی شعار کے طور پر اگرچہ قبول عام حاصل کر چکا ہے، لیکن یہ قبولیت شعور عامہ کی سطح پر بعض بنیادی فلسفیانہ سوالات سے نظریں چرانے کی قیمت پر ہے۔
ایک بنیادی سوال تو اس قدر کے ماخذ سے متعلق ہے۔ اگر قدر کا ماورائے انسان کوئی ماخذ نہیں اور یہ محض انسانی تشکیل کا نتیجہ ہوتی ہے تو ہر قدر کی طرح مساوات کی قدر بھی کوئی ٹھوس اور پائیدار فلسفیانہ بنیاد نہیں رکھتی۔ کم سے کم علم حیاتیات تو اس کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی نفی کرتا ہے۔ اسرائیلی تاریخ دان یووال حراری کی کتاب "سیپئنز" میں بھی یہ سوال بڑی وضاحت اور صاف گوئی سے اٹھایا گیا ہے۔
حیاتیاتی عدم مساوات کی صورت حال کے جو نفسیاتی اثرات انسانی ذہن پر پڑتے ہیں، ان کا علاج یہ سوچا جا رہا ہے کہ مثلاً جسمانی معذوری وغیرہ کے معاملات کو سرے سے "غیر معمولی صورت حال" کے طور پر دیکھنا ہی چھوڑ دیا جائے اور معذوری کو ایسے ہی ایک معمول کا فرق اور امتیاز سمجھا جائے جیسے مختلف نارمل انسانوں میں ہوتا ہے۔ اسی قسم کا زاویہ نظر اپنا کر خواتین کو درپیش حیاتیاتی عدم مساوات (مثلا ماہواری اور حمل وغیرہ) کے نفسیاتی اثرات کا ازالہ کرنے (اور درحقیقت اس سے نظریں چرانے) کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جسمانی یا ذہنی معذوری وغیرہ سرے سے کوئی غیر معیاری صورت حال ہی نہیں تو پھر جینیٹکس کے علم اور دیگر طبی وسائل سے ان معذوریوں کو قبل از پیدائش روکنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا بھی کوئی جواز اور ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اسی وقت با معنی بنتی ہیں جب یہ قبول کیا جائے کہ معذوروں کو ’معیاری’ انسانی زندگی حاصل نہیں۔ معلوم نہیں کہ مذکورہ طرز فکر کے علمبردار اس الجھن سے کیسے نمٹتے ہیں اور انسانی زندگی کی بہتری کے لیے جاری طبی تحقیقات کے متعلق ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟
نیٹشے اس مفہوم میں بیسویں صدی کا پہلا عظیم فلسفی تھا کہ اس نے بالکل درست طور پر پیش بینی کی کہ مغربی تہذیب میں "خدا مر چکا ہے" اور پھر اس اہم ترین سوال پر توجہ مرکوز کی کہ خدا کے بعد، اب "اقدار" کیا ہوں گی اور کس بنیاد پر طے ہوں گی؟روشن خیالی کے عہد میں جہاں مغرب کی فلسفیانہ روایت عمومی طور پر، مذہب کو نظر انداز کر کے، اخلاقیات کو ایسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے سارے انسانوں کے لیے ایک مشترک اور آفاقی اخلاقیات تشکیل دی جا سکے، نیٹشے نے "آفاقی" اخلاقیات کے تصور پر ہی سوال اٹھا دیا اور کہا کہ تاریخی طور پر (جس کا آغاز وہ مغرب میں یونانی اور رومی عہد سے کرتا ہے) اخلاقیات کی ابتدا طاقتور طبقات اور کمزور ومحکوم طبقات کی باہمی تقسیم سے ہوئی تھی، اور طاقتور جو طرز عمل اختیار کرتے تھے، وہ ان کی اس حیثیت کی وجہ سے بطور امر واقعہ اعلی اور برتر، جبکہ محکوموں کا طرز عمل پست اور ادنی سمجھا جاتا تھا۔
نیٹشے کی رائے میں یہی فطری اخلاقیات ہے اور طاقتور ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے ہم سروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے بھی اور طاقت کی پوزیشن سے کمزوروں اور کم تروں کے ساتھ برتاو کرنے کے اصول بھی طے کرے۔ انسانی ہمدردی اور رحم دلی وغیرہ کو اخلاقیات کی بنیاد بنانا اس کے خیال میں کمزور طبقات کا ایک ہتھیار ہے جو انھوں نے طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور عملاً ان پر فتح حاصل کر لی۔ نطشے یہودی اور مسیحی اخلاقیات کو اسی وجہ سے "غلامانہ اخلاقیات" قرار دیتا ہے جس نے پوری مغربی تہذیب کو "آلودہ" کر کے جدید دور میں جمہوری تصورات، مساوات اور آفاقی اخلاقیات جیسے فلسفوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اخلاقی اقدار کا انسان سے ماورا کوئی ماخذ نہیں تو پھر انصاف سے محروم اس کائنات میں انصاف کو قدر بنانے کی کوشش سے کہیں زیادہ معقول پوزیشن نیٹشے کی ہے جو نیٹشے انسان کا اخلاقی جوہر ہمدردی اور رحم کے بجائے قوت کو قرار دیتا ہے۔ کائنات میں جاری وساری قدر صرف طاقت ہے۔ انصاف بھی وہم ہے اور انصاف کی محنت بھی محض خود فریبی ہے۔ اگر انصاف کی قدر انسان کی خود ساختہ ہے تو وہ بے بنیاد ہے۔ کائنات کی مادی تفہیم میں فلسفیانہ طور پر یہی بات درست ہے۔ رحم اور انصاف ویسے ہی دکھ درد کے روبرو انسان کی ایک ذہنی اختراع ہے جیسے، تنویری موقف کے مطابق، انسان نے مذہبی عقیدے گھڑ لیے ہیں۔
اقدار اور اخلاقیات کو انسان کی تخلیق ماننے ہی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان عالم طبیعی کی جتنی تسخیر کرتا جا رہا ہے، اتنا ہی اس کے تکبر، سنگ دلی اور حرص میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت اور اس پر مبنی اقتدار کے احساس میں مسلسل اضافے کو ’’ترقی’’ کا عنوان دے دیا گیا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کو مذہبی ایمان سے آزاد کر دینے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ انسان کو humbleness کا درس دیتا ہے جو لامحدود طاقت کے حریص انسان کو پسند نہیں۔ جدید مغربی تہذیب اگر مسیحی اقدار پر قائم رہ کر مادی ترقی کرتی تو اس کا امکان بہت کم تھا کہ انسان اپنے وسائل اور محنت کو افلاس زدہ انسانیت سے چشم پوشی کر کے WMD جیسا سامان تباہی ایجاد کرنے پر صرف کرتا۔ سرمایہ دارانہ تہذیب میں انسان دوستی، مساوات اور انسانی حقوق جیسے اخلاقی آئیڈیلز اور لامحدود طاقت اور حرص کی جبلتیں مسلسل باہم برسرپیکار ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اخلاق اور رحم دلی جیسے نازک احساسات کب تک طاقت اور حرص جیسی درشت جبلتوں کی مزاحمت کر سکیں گے۔ طاقتور انسان، کمزور انسان سے اخلاقیات کا درس نہیں لیتا۔ اخلاقیات کے لیے انسان کو دوبارہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے۔
دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
اللہ اگر رحمن و رحیم، قادر مطلق اور علیم کل ہے تو پھر شر (evil) کا وجود کیوں ہے؟ یہ الٰہیات کے مشکل سوالات میں سے ہے جن کا ہمیشہ سے مذہبی فکر کو سامنا ہے۔ جدید دور میں خدا کے مذہبی تصور پر بے اطمینانی یا اس سے تنفر کے اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ سوال بھی ہے۔ بہرحال، مذہبی علم کی رو سے انسان کو وجود اور احوال وجود کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اس دنیا میں دی گئی ہے، وہ اس سوال کا کوئی ایسا تشفی بخش جواب دینے پر جو ہر الجھن کو دور کر دے، قادر نہیں۔ فرشتوں کے سوال پر اللہ تعالٰی نے انسان کے ہاتھوں شر کے ظہور کا امکان پیدا کرنے کی ایک جزوی حکمت بتانے کے بعد آخری بات یہی کہی ہے کہ انی اعلم ما لا تعلمون، یعنی جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ ممکن ہے، کسی اور جہان میں انسان کو ادراک حقیقت کی اس سے بہتر صلاحیت مل جائے جس سے وہ اس کو سمجھ سکے۔
صوفیہ کی اصطلاح میں اس سے جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ "حیرت" یعنی bewilderment ہے جو ایمان کے منافی نہیں، بلکہ احوال وجود کی پیچیدگی کے سامنے انسانی ادراک کے عجز وقصور کا اعتراف ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہی متوازن اور مطلوب پوزیشن ہے۔ اگر انسانی ادراک کی کم مایگی کے شعور کے بجائے انسان پر ادراکی صلاحیت کے کامل ہونے کا زعم طاری ہو جائے تو یہی حیرت الحاد میں بدل جاتی ہے۔
بعض لوگ اس پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر انسان کو عقل واقعی خدا نے دی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس نے عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھ دیا ہو یا یہ کہ عقل میں سوال رکھنے کے بعد عقل سے اس سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر دیا جائے؟ تاہم یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ مذہبی فکر میں سوال سے دستبردار ہونے یا اس کو بے معنی سمجھنے کی بات نہیں کہی جا تی، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے موجودہ علمی وسائل کے ساتھ انسانی عقل اس سوال کی تمام جہات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ جہاں تک عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھے جانے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی عقلی مانع نہیں۔ عقل میں سوال رکھے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے صحیح جواب تک ازخود پہنچنے کی صلاحیت بھی عقل میں رکھی گئی ہو۔
عقل کے ہر سوال کے حتمی جواب تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کا دعویٰ تو جدید تنویری فکر بھی نہیں کر سکتی یا اگر کرتی ہے تو اس کا عقلی جواز نہیں بتا سکتی۔ ہاں، خود کو اس کا پابند بنا سکتی ہے کہ عقل سے ماورا کسی جواب کو قبول نہیں کرے گی، چاہے خود عقل درست جواب تک کبھی نہ پہنچ سکے۔ یہیں سے تنویری فکر اور مذہبی ایمان میں بنیادی اختلاف واقع ہوتا ہے۔ تنویری فکر اپنے مخصوص تصور انسان کے تحت ماورائے عقل کسی جواب کو قابل توجہ نہ سمجھنے کی پابندی خود پر عائد کر لیتی ہے، جبکہ مذہبی ایمان وحی کے ذریعے سے انسان کو میسر کی جانے والی راہنمائی کو قابل قدر مانتا اور اس سے اطمینان حاصل کر لیتا ہے۔
اسلام میں انسانوں کی آزمائش اور جزا وسزا کے حوالے سے جو الہی ضابطے بیان کیے گئے ہیں، یک نگر انسان پرستی (Exclusive Humanism) کا ان پر معترض ہونا قابل فہم ہے۔ انسان پرستی کے مذہب کا بنیادی مسئلہ جزا وسزا کا کسی اصول اور ضابطے پر مبنی ہونا یا نہ ہونا نہیں، بلکہ انسان کو انسان سے بالاتر کسی ہستی کے سامنے جواب دہ ماننا ہے۔ وہ الوہیت کا مرتبہ بطور نوع انسان ہی کو دیتا ہے جو خود تو اپنا محاسبہ کر سکتی ہے، لیکن اپنے اوپر کسی خدا کو حاکم نہیں مانتی۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بحث کہ جنت کن کے لیے ہے اور جہنم کن کے لیے، اور کن اصولوں پر کسی کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا، اصول کو چھوڑ کر فروع کا تصفیہ کرنے کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ ہیومن ازم کے ساتھ یہ گفتگو غیر منطقی ہے۔
اسی طرح ہیومنسٹک موقف کی طرف سے مذہبی عقیدے پر کیے جانے والے اعتراضات بھی خود کلامی کی نوعیت کے ہیں، مذہبی موقف کے ساتھ کسی مشترک بنیاد پر مجادلہ نہیں ہیں۔ مثلاً یہ کیسا خدا ہے جو انتقام لیتا ہے؟ یہ کیسا خدا ہے جس کا چہیتا ایک خاص گروہ ہے اور باقی سب کو وہ جہنم میں پھینک دے گا؟ یہ کیسا خدا ہے جس کے نزدیک انسانوں کے اچھے عملوں کی کوئی قدر نہیں اور وہ ایک خاص عقیدہ نہ رکھنے پر انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس اسلوب کے سارے اعتراضات محض rhetoric ہیں، ان کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے اور خاص طور پر مذہبی آدمی کے لیے وہ اپنے اندر کوئی استدلالی قوت نہیں رکھتے۔
اگر یہ خدا ہے جو انسان سمیت پوری کائنات کا حاکم ہے اور اس کا صحیح تعارف وہ ہے جو وحی میں انسان کو دیا گیا ہے تو پھر وہ جیسا ہے، ویسا ہی ہے۔ اس کے نزدیک ایمان کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر ہے۔ وہ رحیم ہونے کے ساتھ اپنی نافرمانی پر انتقام بھی لیتا ہے تو پھر لیتا ہے۔ اس کو اگر اس کی کوئی پروا نہیں کہ منکر اور نافرمان انسانوں سے جہنم کو بھر دے تو پھر نہیں ہے۔ انسان سرکش ہو کر اور جواب دہی سے اپنے تئیں جان چھڑانے کے لیے خدا کے فیصلوں کو اپنے احساسات اور اغراض کے تابع بنانا چاہے تو اس ہوا پرستی کی خدا کی نظر میں یا مذہبی آدمی کی نظر میں کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ اور کل اس کے سامنے حاضر ہونے پر یہ فلسفے کتنا بار پا سکیں گے؟
تاہم اس باب میں اسلامی عقیدے کی درست تفہیم بھی ضروری ہے، کیونکہ اس باب میں غیر محتاط "عوامی تعبیرات" میں بات کی نوعیت بہت بدل جاتی ہے۔ قرآن نے جو بات بہت واضح انداز میں کہی ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت کا اجر کسی بھی گروہ کے لیے خاص نہیں ہے۔ اسلامی عقیدہ نجات کو کسی "گروہ" کی نسبت سے بیان نہیں کرتا، بلکہ نجات کی شرائط کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ نے کسی "مذہبی گروہ" کے ساتھ یہ عہد وپیمان نہیں کیا کہ جنت خاص اسی کو دے گا۔ پچھلے گروہوں میں سے جن میں یہ زعم پیدا ہو گیا تھا، قرآن نے ان کی گوشمالی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہودی ہوں یا مسیحی، صابی ہوں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے، سب کی نجات ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے۔ (البقرۃ)
سورہ بقرہ کی آیت 112 میں بھی یہود اور نصاری کے اس دعوے کے جواب میں کہ جنت میں صرف یہودی یا مسیحی جائیں گے، فرمایا گیا ہے کہ
بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۱۱۲)
"ہاں کیوں نہیں؟ جس نے بھی اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہو تو اس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے"
جن حالات میں ایمان باللہ اور عمل صالح کے جو تقاضے تھے، اگر ان میں سے کسی گروہ نے بھی وہ پورے کیے ہیں تو وہ جنت کا حق دار ہے۔ خدا کے سامنے چہرہ جھکا دینے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کے نبیوں کی دعوت سے واقف ہونے پر اس سے بے توجہی نہ برتے، بلکہ اس پر لبیک کہے۔ اگر کوئی انسان بات سامنے آنے کے باوجود غفلت یا تعصب میں پڑا رہتا ہے تو وہ مجرم ہے۔ محمد رسول اللہ کی بعثت کے بعد اگر آپ پر ایمان لانے اور اس کے عملی تقاضے پورے کرنے والے جنت کے مستحق ہیں تو اس معیار پر پورا اترنے کی وجہ سے ہیں نہ کہ ایک خاص گروہ میں شامل ہو جانے کی وجہ سے۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے تعصب کی وجہ سے آپ کی دعوت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اس کا انکار کیا ہے تو وہ بھی اس "جرم" کی وجہ سے جہنم کا سزاوار ہوگا، نہ کہ کسی خاص گروہ سے باہر ہونے کی وجہ سے۔ مشرک بھی اگر دائرہ نجات سے باہر ہیں تو ایک ٹھہرائے گئے معیار کی وجہ سے باہر ہیں۔
جن انسانوں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس انداز سے نہیں پہنچی کہ ان کے لیے قابل توجہ بن سکے، ان کے متعلق پوری توقع ہے کہ اللہ کے ہاں ان کا عذر مسموع ہوگا۔ تاہم اس کی صحیح حقیقت خدا ہی کے علم میں ہے اور ہم انسان یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ کون دنیا سے کیا انجام لے کر گیا ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری اتنی ہے کہ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر کی وساطت سے جو "الحق" یعنی واضح اور حتمی ہدایت موجود ہے، وہ خود بھی اسی یقین کے ساتھ اس پر کاربند رہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اس سے روشناس کرواتے رہیں۔
اتنی اصولی اور اجمالی بات قانون خداوندی کے مبنی بر عدل وانصاف ہونے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور علم کلام میں بھی اتنی ہی کہی جاتی ہے۔ عوامی سطح پر عام یہ تعبیر کہ صرف مسلمان جنت میں جائیں گے اور باقی سب جہنم میں، غیر محتاط بات ہے۔ بظاہر اس کا محرک لوگوں کے دلوں میں اسلام کی قدروقیمت بٹھانا ہوتا ہے، لیکن یہ ایک طرف بدعملی اور تساہل کو جنم دیتی ہے اور دوسری طرف خدا کے عدل وانصاف اور حکمت پر بھی سنگین عقلی واخلاقی سوالات پیدا کرتی ہے۔ اسلامی عقیدے کی درست تعبیر وہی ہے جو عرض کی گئی ہے اور اسے ہمیشہ اسی طرح بیان کرنا چاہیے۔