(اہل تشیع کی اہم کتبِ رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے فرد ا فردا تجزیہ جاری ہے، پچھلی قسط میں چند کتب کا ذکر آگیا تھا، اس قسط میں یہی سلسلہ آگے بڑھایاگیا ہے۔ )
4۔ منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد بن علی الاسترابادی (1028ھ) کی تصنیف ہے، یہ معروف اخباری عالم میرزا محمد امین الاسترابادی کے استاذ ہیں اور حاوی الاقوال کے مصنف شیخ عبد النبی الجزائری کے ہم عصر ہیں، محقق استرابادی کی یہ کتاب شیعہ حلقوں میں الرجال الکبیر کے نام سے معروف ہے، شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کو رجالی موسوعات کی پہلی کوشش قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
"وھو عہد التالیف الموسوعی فی الرجال الشیعی الذی لم یعہد ھذہ الموسوعیۃ من قبل"1
کہ محقق استرابادی کی یہ کتاب رجال شیعہ کے اس موسوعاتی دور سے ہے، کہ اس قسم کا موسوعاتی مواد اس سے پہلے معروف نہ تھا۔
کتاب کے مقدمہ میں مصنف کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
حاولت فیہ ذکر ما وصل الی من کلام علماءنا المتقدمین والمتاخرین وما وقفت علیہ من المقال فی شان بعض اصحابنا من علماءنا المخالفین2
یعنی اس کتاب میں، میں نے اپنے متقدمین و متاخرین علماء کے کلام کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا ہے، اور اس کے ساتھ ہمارے مخالفین کی کتب میں ہمارے بعض اصحاب کے بارے میں جن باتوں پر میں مطلع ہوا ہوں، ان کو بھی ذکر کرنے کا ارادہ ہے۔
اس کے بعد مصنف نے شیعہ رجالی تراث میں سے بارہ مصادر اور اہل سنت کے دو مصادر (حافظ بن حجر کی تقریب اور امام ذہبی کا ایک اختصار ) کا نام لیا ہے، اس طرح شیعہ کتب رجال کے ساتھ ساتھ اہل سنت کتب سے بھی شیعہ رجال کے بارے میں معلومات ڈھونڈنے کی کو شش کی ہے، یوں کتاب کے مقدمے سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ مصنف نے متقدمین و متاخرین کا پورا علم رجال جمع کرنے کی تگ و دو کی ہے، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ کتاب کی ضخامت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"ان الکتاب یعد موسوعۃ رجالیۃ کبیرۃ بل من اوسع ما کتب فی الرجال الشیعی حتی عصرہ۔
یعنی یہ کتاب ایک وسیع رجالی موسوعۃ شمار ہوتی ہے ، بلکہ اپنے زمانے تک رجال شیعہ کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ کتاب کی طوالت و وسعت کے بارے میں شیخ حیدر حب اللہ کے ان کلمات کے بعد اور خود مصنف کے اس اقرار کے بعد، کہ اس میں متقدمین و متاخرین کا علم رجال سمویا گیا ہے اورمصنف نے مقدمے میں ایک درجن متقدمین کی رجالی کتب کی فہرست بھی دی ہے، جن کے رواۃ کا اس میں استقصاء کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان سب کے بعد کتاب میں کل 4026 رواۃ کا ذکر ہے، جو رجال ِ شیعہ کی کل تعداد (تقریبا تیس ہزار رواۃ ) کا بمشکل تیرہ فیصد بنتا ہے، جو ظاہر ہے کہ نہایت قلیل تعداد ہے، مصنف نے اتنے تگ و دو کے بعد اپنے پیش رو شیخ عبد النبی الجزائری کی کتاب حاوی الاقوال پر مزید دو ہزار رواۃ کا اضافہ کیا ہے، یہ کتاب بھی حاوی الااقوال کی طرح متقدمین کے کی کتب سے محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، چنانچہ کتاب سے ایک ترجمہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ کتاب کا اسلوب کچھ واضح ہوسکے:
ابراہیم بن عبد الحمید الاسدی مولا ھم البزاز الکوفی ق، ثم ظم: ابن عبد الحمید لہ کتاب وفیہ ایضا ابن عبد الحمید واقفی، ثم ضا، ابن عبد الحمید من اصحاب ابی عبد اللہ علیہ السلام۔ ۔ ۔ و فی ست: ابن عبد الحمید، ثقۃ لہ اصل۔ ۔ ۔ وفی جش: ابن عبد الحمید الاسدی مولاھم کوفی، وفی صہ: ابن عبد الحمید وثقۃ الشیخ فی الفہرست۔ ۔ ۔ وفی کش ابراہیم بن عبد الحمید الصنعانی۔ 3
اس ترجمے سے کتاب کا اسلوب بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مصنف مختلف رجالی کتب کے لئے ق، ظم، ضا، ست، کش وغیرہ کے رموز لگا (ان رموز کی وضاحت مصنف نے مقدمہ میں کی ہے ) کر ان کی عبارات بغیر کسی تبصرے، تنقیح و تہذیب کے، بعینہ نقل کرتے جاتے ہیں، یوں اگر جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کتاب اس حوالے سے بے فائدہ ہے، کیونکہ اس میں نہ تو علامہ حلی کی طرح ہر راوی کے بارے میں اقوال جرح و تعدیل جمع کرنے کی مرتب کوشش کی گئی ہے نہ شیخ عبد النبی الجزائری کی طرح رواۃ کو ضعف وثقاہت کے اعتبار سے تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کتاب کو منہج کے اعتبار سے ایک مبہم کتاب قرار دیتے ہیں، چنانچہ کتاب کے منہج و اسلوب سے متعلق لکھتے ہیں:
" مع ھذا کانت مقدمۃ الکتاب مقتضبۃ جدا، فلم یبین المیرزا منہجہ و طریقتہ فی الکتاب و الغایۃ من تالیفہ کما ھو داب المولفین قبلہ"4
یعنی اس ضخامت کے باوجود کتاب کا مقدمہ نہایت مختصر ہے، اس میں مصنف نے کتاب کا منہج، اسلوب اور کتاب کی تالیف کی غرض و غایت بیان نہیں کی، جیسا کہ اس سے پہلے مصنفین کا وطیرہ تھا۔
بغیر کسی خاص ترتیب جدید ، تدوین اور اسلوب کے محض متقدمین کے رجالی تراث کو بعینہ نقل کرنا جمع و ترتیب تو کہلائی جاسکتی ہے، اسے باقاعدہ رجالی کتاب کہنا مشکل ہے، ضخامت کی وجہ سے اس کا ذکر یہاں کیا گیا، ورنہ متقدمین کی کتب کے محض مجموعات کو ذکر کرنا تطویل لا طائل ہے، کیونکہ جن رجالی کتب کو اس کتاب میں جمع کیا گیا ہے، ان پر رواۃ کی جرح وتعدیل کے اعتبار سے فردا فردا پچھلے صفحات میں بحث ہوچکی ہے۔
5۔ نقد الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم سید مصطفی بن حسین التفرشی کی ہے، جنہیں مختصرا لتفرشی کہہ دیا جاتا ہے، سید تفرشی مرزا محمد الاسترابادی کے ہم عصر ہیں۔ اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
"ولما نظرت في كتب الرجال رأيت بعضها لم يرتب ترتيبا يسهل منه فهم المراد ومع هذا لا يخلو من تكرار وسهو، وبعضها وان كان حسن الترتيب الا ان فيه أغلاطا كثيرة، مع أن كل واحد منها لا يشتمل على جميع أسماء الرجال أردت أن اكتب كتابا يشتمل على جميع الرجال من الممدوحين والمذمومين والمهملين، يخلو من تكرار وغلط، ينطوي على حسن الترتيب ويحتوي على جميع أقوال القوم قدس الله أرواحهم من المدح والذم"5
جب میں نے کتب رجال کو دیکھاتو بعض کتب ایسی ہیں جو ایسی ترتیب کی حامل نہیں ہیں ، جو تسہیل فہم میں معاون ہو، اس کے ساتھ ان کتب میں تکرار و تسامحات بھی ہیں، جبکہ بعض کتب باعتبارِ ترتیب بہترین کتب ہیں، لیکن ان میں کثرت سے غلطیاں موجود ہیں، نیز ہر دو قسم کی کتب تمام رجال کے تذکرے پر مشتمل نہیں ہیں، تو میں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تیار کروں، جو جمیع ممدوحین، مذمومین اور مھمل رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہو اور تکرار و اغلاط سے بھی پاک ہو، حسنِ ترتیب کی حامل ہو اور رواۃ کے بارے میں قوم(اہل علم ) کے مدح و ذم کے تمام اقوال کا احاطہ کرے۔
اس کے بعد مصنف نے درجہ ذیل نو کتب کو مصادر قرار دیتے ہوئے ان کے رموز بیان کئے:
رجال کشی، رجال نجاشی، رجال طوسی، فہرس الطوسی، رجال ابن الغضائری، رجال ابن شہر آشوب، علامہ حلی کی خلاصۃ الاقوال اور ایضاح الاشتباہ اور رجال ابن داود الحلی،
اس کے ساتھ مصنف نے تصریح کی ہے کہ میری کوشش ہوگی کہ ان مصادر کی عبارت بعینہ نقل کروں، البتہ کبھی کبھا ر ضرورتا تبدیلی کروں گا۔
یہ کتاب موسسۃ آل البیت سے پانچ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب میں شیخ حیدرحب اللہ کے بقول 6604 رواۃ 6 کا ذکر ہے، یوں یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال سے دو ہزار زیادہ رواۃ پر مشتمل ہے، یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ شیخ عبد النبی جزائری کی رجال الجزائری میں دو ہزار رواۃ، مرزا محمد استرابادی کی منہج المقال میں چار ہزار رواۃ اور تفرشی کی نقد الرجال میں چھ ہزار رواۃ ہیں، حالانکہ تینوں کے مصادر تقریبا یکساں ہیں، جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم ان کتب کے تذکرے میں نقل کرچکے ہیں، یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے، کہ ان تینوں مصنفین نے متقدمین کے رجالی تراث کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے کتاب لکھی تھی اور تینوں کے مصادر بالکل یکساں تھے، تو رواۃ کی تعداد میں اتنا عظیم فرق کیونکر پیدا ہوا ؟پھر خاص طور پر علامہ محمد استرابادی نے مجمع الرجال میں بارہ شیعہ مصادر کو سمونے کے بعدچار ہزار رواۃ پر مشتمل مجموعہ تیار کیا اور اسے حیدر حب اللہ نے اپنے دور کی سب سے وسیع کتاب قرار دیا، جبکہ سید تفرشی نے ان بارہ مصادر میں سے نو کو نقد الرجال میں جمع کرنے کی کوشش کی، تو چھ ہزار رواۃ کا مجموعہ تیار کیا، شیعہ کتب رجال کا جب زمانی اعتبار سے جائزہ لیاجائے تو ایک خاص ترتیب کے ساتھ رواۃ و رجال کا ہر آنے والی کتب میں اضافہ نظر آتا ہے، بالخصوص یہ اضافہ ان کتب میں زیادہ حیرت کا باعث ہے، جو متقدمین کے ایک جیسے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، لیکن رواۃ کی تعداد میں پھر بھی ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے، جیسا کہ منہج المقال اور اس کتاب نقد الرجال میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں، اسے تکرار کا نتیجہ کہیں یا آنے والے زمانوں میں رواۃ و رجال کی دریافت کا نتیجہ ؟رواۃ کی تعداد میں یہ اضافہ ہر زمانہ کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ امام خوئی کی کتاب معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے اور شیخ علی نمازی کی مستدرکات علم الرجال میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔
رواۃ کی تعداد میں اس حیران کن ارتقائی اضافہ سے قطع نظرسید تفرشی نے اپنی اس کتاب میں مذکورہ ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے نہایت قلیل تعداد کے بارے میں جرح و تعدیل کا تذکرہ کیا ہے، مقالہ نگار نے موسسہ آل البیت سے طبع شدہ نقد الرجال کی پانچ جلدوں میں سے پہلی دو جلدوں کو صفحہ بہ صفحہ دیکھا، کہ کتنے رواۃ کے بارے میں مصنف نے جرح یا تعدیل کا ذکر کیا ہے، تو یہ اعداد و شمار سامنے آئے:
- نقد الرجال کی پہلی جلد میں 1219 (بارہ سو انیس )رواۃ کا ذکر ہے، جس میں سے کل 155 رواۃ کے بارے میں تعدیل (ثقہ، ثقہ ثقہ وغیرہ کے الفاظ ) مذکور ہیں، جبکہ 36 رواۃ کی تضعیف(کذاب، مجہول، ضعیف، فی روایتہ ضعف وغیرہ کے الفاظ ) نقل کی ہے۔
- نقد الرجال کی دوسری جلد میں ( چودہ سو اکہتر )1471 رواۃ کاذکر کیا گیا ہے، جس میں سے 205 رواۃ کی تعدیل اور 43 رواۃ کی تضعیف نقل کی گئی ہے۔
- یوں دونوں جلدوں میں مذکورہ 2690 رواۃ میں سے 360 رواۃ کی تعدیل اور 79 رواۃ کی تضعیف نقل کی گئی ہے، اس طرح کل ملا کے 439 رواۃ کی تقویم مذکور ہے، اگر ہم اس تعداد میں مقالہ نگار کی گنتی میں غلطی کے احتمال کے پیش نظر 100 مزید رواۃ احتیاطا شامل کریں، تو کل 540 کے قریب رواۃ بنتے ہیں، جو دونوں جلدوں کے کل رواۃ 2690 کا محض بیس فیصد بنتا ہے۔ اس تعداد سے بقیہ تین جلدوں کے رواۃ کی تقویم کا سرسری اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یوں یہ کتاب باوجود اپنی ضخامت کے، رواۃ کی تقویم اور توثیق و تضعیف کے بارے میں یکسر ناکافی ہے، حالانکہ نقد الرجال کے نام سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کتاب میں موجود ہر راوی کی تقویم پر بحث کی گئی ہوگی۔
6۔ الوجیزۃ فی علم الرجال
یہ کتاب بارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد باقر مجلسی کی ہے، جنہیں شیعہ حلقوں میں علامہ مجلسی کے نام سےذکر کیا جاتا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے اہم ترین ستون سمجھے جاتے ہیں، الکافی کی مفصل شرح مراۃ العقول کے نام سے لکھی ہے، جو الکافی کی سب سے متداول شرح ہے، اس کے علاوہ ایک سو دس جلدوں پر محیط شیعہ روایات کا ایک انسائیکلوپیڈیا بحار الانوار کے نام سے ترتیب دیا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے مرکزی اہل علم میں جانے جاتے ہیں، علامہ مجلسی نے علم الرجال پر ایک جلد پر مشتمل کتاب "الوجیزۃ فی علم الرجال " لکھی ہے، کتاب کے مقدمہ میں شیخ مجلسی لکھتے ہیں:
“التمس منّي جماعة من طالبي علوم أئمّة الدين (صلوات اللّه عليهم أجمعين)، أن أكتب لهم في تحقيق أحوال رجال أسانيد الأخبار، رسالة وجيزة أقتصر فيها على بيان ما اتضح لي من أحوالهم، و اشتهر عند أصحابنا- رضي اللّه عنهم- من أقوالهم، من غير تعرض لخصوص الأقوال و قائليها، و ترك المجاهيل لعدم الفائدة للتعرّض لها، على غاية الإيجاز و الاختصار، ليسهل على الطالبين تحصيلها”7
یعنی مجھ سے طلبہ کی ایک جماعت نے درخواست کی کہ میں حدیث کے رواۃ کی تحقیق کے بارے میں ایک ایسا رسالہ ترتیب دوں، جس میں صرف ان رجال کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہو، جن کے احوال میرے سامنے واضح ہوچکے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے اصحاب علم کے اقوال معروف و مشہور ہیں ، نیز اس میں قائلین اور ان کے اقوال کا تفصیلی ذکر نہ کیا گیا ہو، اور اس کے ساتھ مجاہیل رواۃ کا ذکر بھی چھوڑ دیا گیا ہو، کیونکہ ان کےذکر کیا کوئی فائدہ نہیں اور اس رسالہ میں نہایت اختصار سے کام لیا گیا ہو تاکہ طلبہ علم کے لئے اس سے استفادہ آسان ہو۔
اس کے بعد مصنف نے رواۃ کو پانچ اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کتاب میں ثقہ غیر امامی کے لئے (ق)، ثقہ امام کے لئے (ثقہ )ممدوح کے لئے (م)ضعیف کے لئے (ض) اور مجہول کے لئے (م) کا رمز استعمال کریں گے۔ اس کتاب میں مصنف صر ف راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور اس کے آگے اوپر ذکر کردہ رموزِ خمسہ میں سے کوئی رمز (ق، م، ض وغیرہ) ذکر کر دیتے ہیں، بطوِ نمونہ چند تراجم ملاحظہ ہوں:
- آدم بن إسحاق، ثقة
- آدم بن الحسين النخاس، ثقة
- آدم بن المتوكّل، ثقة
- آدم بن محمد القلانسي، ض، و غيرهم، م8
اس کتاب کو ہم اہل سنت کتب میں سے تقریب التہذیب سے تشبیہ دے سکتے ہیں، لیکن تقریب التہذیب کے منابع تو تہذیب التہذیب، تہذیب الکمال ، الکمال فی اسماء الرجال وغیرہ جیسی مبسوط کتب ہیں اور تقریب ان سب کا ایک جامع اختصار ہے، اس لئے تقریب کے رموز کو ان مفصل کتب سے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، لیکن الوجیزہ کے منابع و مصاد رمتعین و معلوم ہی نہیں ہیں، اور نہ علامہ مجلسی نے مقدمہ میں کسی خاص مصدر کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ کن کتب سے علامہ مجلسی نے رواۃ کے بارے میں یہ اقوال نقل کئے ہیں، لیکن علامہ مجلسی چونکہ ایک منجھے ہوئے محدث ہیں، اس لئے قوی امید ہے کہ علامہ مجلسی نے معتبر مصادر سے رواۃ کی توثیق و تضعیف نقل کی ہوگی، یہ کتاب مصنف کے علم حدیث میں ایک نمایاں مقام ہونےکی بنا پر یقینا شیعہ علم رجال کی تقویم کے حوالے سے ایک بلند پایہ کتاب ہے، لیکن متقدمین کی کتب کی طرح اس کتاب کی بھی اساسی خامی رواۃ و رجال کا عدم استقصاء ہے، اس کتاب میں مکررات سمیت محض 2345 رواۃ کا ذکر ہے، جو کل شیعہ رواۃ کا بمشکل دس فیصد بنتا ہے، یوں ابن داود حلی سے لیکر علامہ حلی تک اور علامہ حلی سے لیکر شیخ مجلسی تک جس جس نے بھی شیعہ رواۃ و رجال کو تقویم یعنی توثیق و تضعیف کے اعتبار سے جمع کرنے کی کوشش کی، تو وہ دو ڈھائی ہزار سے آگے نہ بڑھ سکے، کیونکہ شیعہ کے قدیم رجالی تراث میں رواۃ کی جرح و تعدیل نہ ہونےکے برابر ہے، جیسا کہ ما قبل میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ آچکی ہے، شیعہ تاریخ کے پہلے بارہ سو سال میں علامہ مجلسی سے زیادہ وسعتِ نظر کا حامل محدث نہیں گزرا، جب شیخ مجلسی اپنے وسیع نظر کے باوجودمحض ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کی تقویم جمع کرسکے، تو اس سے شیعہ کتب رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے تہی دامن ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
7۔ منتہی المقال فی احوال الرجال
یہ کتاب تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث محمد بن اسماعیل مازندرانی کی ہے، جو ابو علی الحائری کے نام سے معروف ہے، اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانے تک تمام موجود رجالی تراث کو سمونے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ حیدرحب اللہ نے بائیس رجالی کتب کا ذکر کیا ہے، جن کا مواد حائری نے اپنی کتاب میں جمع کیا ہے اور ہر کتاب کے لئے خاص رمز استعمال کیا ہے، ان رموز کی تفصیل کتاب کے محققین ( محققین موسسۃ آل البیت ) نے کتاب کی پہلی جلد میں دی ہے، 9 چونکہ یہ کتاب متقدمین کی کتب کےمواد کا محض مجموعہ ہے، اس لئے اس کا الگ سے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی، لیکن مفصل ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال کے ہو بہو مشابہ ہے، بلکہ دقت نظر سے اسی کا چربہ اور نقل معلوم ہوتی ہے، استرابادی کی کتاب کا ذکر ما قبل میں آچکا ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
"ویظہر الحائری فی ھذا الکتاب متاثرا باستاذہ الوحیدالبھبانی ، بل یذہب المحدث النوری الی ان الکتاب احتوی اتمام تعلیقہ استاذہ، وھذہ احدی اھم اسباب شہرۃھذا الکتاب، ھذا ھو التاثر الاول لہ، کما تاثر ایضابالاسترابادی صاحب منہج المقال، وسیظہر ھذا واضحا فی معالم الکتاب10
یعنی بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کتاب میں شیخ حائری اپنے استاذ وحید بھبانی سے متاثر ہے، ( وحید بھبانی نے منہج المقال پہ ہی تعلیق لکھی ہے، جسے عموما تعلیقہ الوحید البھبھانی کہا جاتا ہے ۔ )بلکہ محدث نوری تو اس طرف گئے ہیں، کہ یہ کتاب استاذ کی تعلیق کا ہی اتمام ہے، یہ وجہ اس کتاب کی شہرت کے اسباب میں سے اہم سبب ہے، اس تاثر کے ساتھ مصنف استربادی منہج المقال کے مصنف سے بھی متاثر ہیں، جیسا کہ کتاب کی خصوصیات کے بیان میں یہ بات عنقریب واضح ہوجائے گی۔
اس کتاب میں شیخ حیدر حب اللہ کے بقول چار ہزار چار سو انانوے (4479) رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ استرابادی کی کتاب میں چار ہزار چھبیس (4026) رواۃ تھے، کما مر۔ اسی طرح یہ کتاب شیخ استرابادی کی کتاب کی طرح رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے کسی خاص تقسیم کے بغیر محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، اس لئے جرح و تعدیل کے اعتبار سے چنداں مفید نہیں ہے، رجالی تراث میں جس جس راوی کے بارے میں کوئی قول جرح یا تعدیل منقول ہے، تو مصنف نے بھی اسے نقل کیا ہے، ورنہ صرفِ نظر کیا ہے، مقالہ نگار نے اس کی پہلی جلد کا جرح و تعدیل کے اعتبار سے صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ پہلی جلد میں کل 282 راوی ذکر ہیں، جن میں 140 کے قریب رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف کا قول نقل کیا گیا ہے، اس سے باقی جلدوں کے رواۃ کی تقویم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلدوں میں رواۃ کا تذکرہ رجالی تراث سے جمع کرنے میں زیادہ بسط سے کام لیا گیا ہے، لیکن جوں جوں کتاب آگے بڑھتی ہے، رواۃ کے احوال اختصار میں تبدیل ہوتے گئے، یہاں تک کہ کتاب صرف فہرست میں تبدیل ہوئی ہے، چنانچہ پہلی جلد میں محض 282 رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ آخری ساتویں جلد میں بارہ سو بیاسی (1282) رواۃ کا ذکر ہے، حالانکہ آخری جلد کے سو صفحات خاتمہ پر بھی مشتمل ہیں، جس میں بعض رجالی قواعدو مباحث ذکر کئے گئے ہیں۔
حواشی
- دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال، ص 272
- منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، استرابادی، ج1، ص179
- منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، ج1ص304، رقم الترجمہ: 106
- دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 272
- نقد الرجال، سید تفرشی، ج1، ص 34
- دروس فی تاریخ علم الرجال، ص288
- الوجیزہ فی علم الرجال، محمد باقر مجلسی، ص 140
- الوجیزۃ: ص141
- منتہی المقال، ابو علی الحائری، ص19 تا 33، ج1
- دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 245-246
(جاری)