بانجھ مزرعۃ الآخرہ سے مولانا سنبھلی کی رحلت

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ہزار سالہ تہذیب اسلامی کے بوجھ تلے دبی، سسکتی اور نالہ کناں دلی نے 23 جنوری2022 کوایک اور تناور اور شجر سایہ دار اپنی خمیدہ کمر سے اتار کر حوالہ مرقد کردیا۔ نہ ہوئے اپنے ملا واحدی کہ زوجات ثلاثہ کے شوہر نامدار ہو کر بھی عاشق صادق جیسی تہمت حسنہ کے سزاوار ہوئے بھی تو اس عروس البلاد دلی کے جو بقیۃ السلف کو لپڑ  لپڑ کھا رہی ہے کہ اس کی جوع البقر ہل من مزید کے وظیفے پڑھے جا رہی ہے۔ اب  کھانے کو  رہ ہی کیا گیا ہے؟ ادب آداب سے کچھ استثناء مانگ کر ورنہ اپنے قبلہ گاہی ملا واحدی سے میں ضرور پوچھتا کہ اپ خود تو یہاں کراچی میں ایک دو نہیں، نو ادبی جرائد کی جولان گاہ آباد کر کے ٹھسے سے بیٹھ گئے ہو اور ہم واہگہ سے ادھر کے بھولے بھالے ناشناسان دلی کو زندگی بھر سیر بھی کرائی آپ نے تو سبز باغوں کی۔ دوسرے بھلے مانس اشرف صبوحی لاہور میں دم سادھے بیٹھ گئے. عاشق صادق  تو وہ بھی مرتے دم تک اسی عروس البلاد ہی کے رہے، پر انہوں نے ملا واحدی جیسا غل نہیں مچایا۔ رہے تیسرے امیدوار دلی خواجہ حسن نظامی ! تو تقسیم ہند سے پیدا شدہ وامق و عذرا کی اس عاشقی معشوقی کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی وہ 1955 میں چرخ نیلی فام کے ادھر کہیں  محمل نشیں ہو کر رہ گئے۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بھی گئے، نور اللہ مرقدہٗ۔ میری نہ تو ان سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی, نہ مجھے ان سے خط و کتابت کا اعزاز ملا۔ بس ان کی تحریروں کی اسیری کا اعزازی طوق گلے میں لٹکائے یوں پھر رہا ہوں کہ رازداران اساطیری ادب کہتے ہیں کہ زنگ آلود لوہا سنگ پارس سے مس ہو جائے تو  سونا بن جاتا ہے۔  پس لکھوں تو کیا؟ لیکن میلان سہل پسند  ہو اور ہو بھی بصورت شکرخورہ ہو تو شکر ادھر ادھر کہیں سے مل ہی جاتی ہے۔ عرب کہتے ہیں، تعرف الاشیاء باضدادہا، "چیزیں اپنی شناخت اپنی ضد سے کراتی ہیں۔" چیزوں کو علی الاطلاق لوگے تو ان میں مولانا محترم جیسے انفس متبرکہ بھی آ جاتے ہیں۔ اتنا کہے دیتا ہوں کہ لگ بھگ اڑھائی  عشرے تک مولانا محترم اور میرے چچا مرحوم، ملک خداداد ہم جلیس، ہم نوالہ و ہم پیالہ و ہم دوش رہے۔ 25 سالہ باہمی برطانوی قربت کے بعد اگلے تیس سال چچا نے تو پاکستان میں گزارے۔مولانا البتہ اس آخری حصے میں برطانیہ میں تو رہے لیکن سال میں تین چار ماہ کے لیے ہندوستان آتے جاتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں یہ سلسلہ موقوف کرکے وہ مستقلاً ہندوستان ہی میں رہے۔ یوں یہ دونوں اللہ والے پچاس پچپن سال تک یک جان و دو قالب رہے پچھتر سال سے صبح شام باہم خوخیاتے ان کے دو متحارب ملکوں --- ہندوستان ، پاکستان--- کی ایٹمی توانائی بھی اس تعلق خاطر میں ہلکا سا ضعف نہ پیدا کر سکی۔ تو عرصہ رفاقت کتنا رہا؟ دو چار برس کی بات نہیں، یہ نصف صدی سے بھی متجاوز ہے, ہاں جی ! مجھے تو ہمیشہ  کچھ یوں لگتا رہا کہ میرا ایک اور چچا، یا شاید تایا،ادھر کہیں دلی لکھنؤ میں بھی موجود ہے۔

یادش بخیر ! مدت مدید کی رفاقت کے بعد ایک دن رواروی میں اپنے یہاں کے مولانا زاہدالراشدی محترم کو بتا بیٹھا: "حضور ! آپ سے ایک تعارف اور بھی نکلتا پڑتا ہے"۔مستفسرانہ سکوت مولانا موصوف کا بجائے خود ایک تعارف ہے۔عرض کیا: "آپ سے گاہے ماہے  ملک خداداد صاحب کا ذکر اذکار سنتا رہتا ہوں اور ایسا ہی کچھ ان سے آپ کی بابت بھی ملتا رہتا ہے۔" مولانا مسکرائے، پھر بولے: "تو پھر؟ آگے چلو!" عرض کیا: " ملک صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔" مولانا راشدی ذرا دیر صامت رہے، پھر بولے بھی تو یوں : "تو گویا اب مجھے آپ سے بھی ڈرنا پڑا کرے گا۔ صاحب ! آپ کے چچا تو بڑے خوفناک شخص ہیں. بابا ! ہم تو ان سے بہت ڈرتے ہیں." قارئین کرام !  منجملہ دیگر اضداد کے، مولانا مرحوم کی اسی ایک ضد الموسوم بہ، ملک خداداد ہی سے اندازہ کر لیجئے کہ وہ لگ بھگ اڑھائی عشرے ہمدم دیرینہ رہے بھی تو کیسے خوفناک شخص کے۔  کیوں؟ وجہ؟

وجہ کا ذکر تو آگے چل کر ہوگا۔ لیکن بروایت عبدالسلام اتنا ضرور بتائے دیتا ہوں کہ مولانا مرحوم خود بھی کچھ کم "خوفناک" نہیں تھے. نوے کی دہائی میں دونوں کے ایک اور ہمدم دیرینہ کے ساتھ چچا کی کچھ شکر رنجی سی ہوئی۔معاملے کو سلجھانے کے لیے چچا نے اس دوست کو خط لکھ کر عبدالسلام کے حوالے کیا کہ جاؤ مولانا کو دے آؤ تا کہ وہ اسے پہنچا دیں۔ خط کھلا ہوا تھا کہ دینے سے پہلے مولانا خود پڑھ لیں۔ تحریر کی شدت چچا کی افتاد طبع کی شاہکار تھی، پڑھتے ہی مولانا برافروختہ ہو گئے۔ ہاتھ نچا کر ان الفاظ کے ساتھ خط واپس عبدالسلام کے حوالے کردیا۔ " ابا سے کہہ دو، میں تمہارا ڈاکیا نہیں ہوں". عبدالسلام ہی سے مروی ہے کہ  مولانا کے اس عادلانہ جواب کے باعث ڈیڈی خفا ہونے کی بجائے ان کا زیادہ احترام کرنے لگ گئے۔

 کسی بزرگ نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ مسجد کے باہر لنگڑے فقیر کے پاس بیٹھے کوے کو دیکھ کر میرا استعجاب دو چند ہو گیا۔ ٹوہ لگانے کو قریب جانے کی کوشش کی تو بزرگوارم پر واضح ہوا کہ کوے کی ایک ہی ٹانگ تھی اور یہی لنگڑے فقیر اور ایک ٹانگ والے کوے کا اشتراک زیست تھا۔

مولانا فاضل دیوبند اور ایک از قسم منارہ نور علمی خانوادے میں سے تھے۔ ادھر چچا خدا داد راولپنڈی کی چٹیل اور سنگلاخ زمین میں رہ کر کچھ کر سکے تو ایک مشہور زمانہ شعر کے مصرعے کے مصداق بس بی اے ہی کیا۔ (بد) گمان غالب ہے کہ پھر کہیں سے اکبر الہ آبادی کا وہ والا شعر پورا سنا پڑھا ہوگا۔ چنانچہ خفا ہو کر، تہیہ کر کے نہ تو نوکر ہوئے، نہ پینشن پائی:

ہم کیا کہیں، احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے

قرآن وسنت کی الہامی راہنمائی کو عام کرنے کی خاطر ادھر کا وہ فاضل دیوبند فقیر اور ادھر کا یہ محض گریجویٹ کوا، دونوں مسجد کے باہر بیٹھے ہیجان کا شکار رہتے تھے۔  اضداد کو تو رکھئے ایک طرف ،یہی دونوں کا نقطہ اتصال تھا، یہی ان کی قدر مشترک تھی۔مولانا مرحوم 1967 میں برطانیہ پہنچے تو چچا کو وہاں لگ بھگ سات سال ہو چکے تھے، چچا نے برطانیہ میں اور کچھ کیا یا نہیں ، اپنے گھر کو انہوں نے پاک و ہند کا ایک ننھا سا مرکز اسلامی ضرور بنا ڈالا۔ وہیں مولانا محترم اور مرحوم چچا طویل عرصہ تک دعوت اسلامی کے نت نئے منصوبے بناتے رہے تھے۔ الحمدللہ،  آج برطانیہ کے طول و عرض میں قائم مساجد اور مراکز اسلامی گننے میں ختم نہیں ہوتے لیکن ساٹھ کی دہائی میں کسی چھوٹے سے مصلے کے لیے مؤذن تک نہیں ملتا تھا۔ اس عالم میں بھی چچا نے میرے عم زاد عبدالسلام کو قرآن حفظ کرایا۔

اب یہ سمجھنا میرے لیے خاصا مشکل ہے کہ وہ کثیر العیال شخص برطانیہ کے ناپے تولے محدود سے وقت میں یہ سب کچھ کیسے کرتا رہا۔ ابھی پار سال 2020 میں ان کی رحلت سے ذرا قبل ملاقات ہوئی تو کمر پکڑے اذیت گزیدگی کی حالت میں بھی حسب معمول وہ کمپیوٹر پر بیٹھے معاون کو ہدایات دے رہے تھے کہ یہ اسلامی خط و کتابت کورس ان خطوط پر شروع کرو، اسے یوں لکھو، یہ کتاب فلاں کو بھیجو۔ میرے پاس ثبوت تو نہیں، پر گمان یہی ہے کہ محض گریجویٹ چچا کی اس اسلامی بیٹری کو انگیخت کرنے میں مولانا محترم کا بھی بڑا حصہ رہا ہو گا۔ میرے لیے یہ جاننا خوشی اور سعادت کا باعث ہے کہ برطانیہ سے چچا کے پاکستان آ جانے پر عبدالسلام اور ان کی نصف بہتر، میری سب سے چھوٹی بہن دونوں کا مولانا محترم سے تعلق، مولانا زاہد الراشدی والے "خوفناک" تعلق سے دھندلا کر نیاز مندانہ پیرائے میں ڈھل گیا۔ یہ تعلق مولانا کے تادمِ رحلت، پہلے سے بہتر خطوط پر قائم رہا۔

مرحوم مولانا محترم کے مالی اثاثہ جات کا تو مجھے کچھ علم نہیں، لیکن ان کے علمی اثاثہ جات لپیٹ کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی امید مستحکم ہے کہ چھ مجلدات کی محفل قرآن ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہے۔ باقی رہیں دیگر تحریریں اور الفرقان وغیرہ، تو ممکن ہے، یہ کچھ انہیں وہاں، ادھر جنت میں، محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب دلانے میں معاون ثابت ہو، آپ یقیناً اتفاق کریں گے؟ پرسوں پرلے سال علی گڑھ سے برادر بزرگ ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی، ہائے ہائے ! اب مرحوم، ادھر پاکستان آئے تو میں نے انہیں برصغیر کی چھ آٹھ معروف تفاسیر اور مفسرین کے نام سنا کر استفسار کیا: "ڈاکٹر صاحب پاک و ہند میں ان کے بعد اردو میں کیا کوئی نئی تفسیر لکھی جا رہی ہے؟ اگر ہاں تو کون کون لوگ لکھ رہے ہیں اور ان کی جہت کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب ڈبڈباتی آنکھوں سے مجھے تھوڑی دیر تکتے رہے, پھر بات کا رخ بدل دیا۔ صاحبو ! مولانا محترم ہمارے حصے کا فرض کفایہ ادا کر کے رخصت ہوگئے۔ وہ تاریخ انسانی کے اس زوال ناک عہد میں رخصت ہوئے کہ جب ہماری یہ مزرعۃ الآخرہ بانجھ ہو چکی ہے ( الدنیا مزرعۃ الآخرۃ، حدیث ہے جس کا ترجمہ ہے، دنیا آخرت کی کھیتی ہے)۔

 تفسیر، حدیث، ادب، افسانہ، ڈراما، اصول تاریخ، موسیقی، ریاضی، فلسفہ، کسی شعبے میں کوئی جدت، کوئی تخلیق، کوئی ندرت، کوئی صدائے حرف کاف و نون، بدر کامل نہ سہی ادھورا سا ماہ نخشب ہی سہی، یا کوئی ظہور برج طالع ولادت دیکھنے، سننے، پڑھنے کو ملتا تو میں آخرت کی اس بانجھ کھیتی کو نخلستان و گلستان کہہ گزرتا۔ مولانا محترم تو اس حیات ناپائیدار میں ہمیں اتنا کچھ دے کر، اور خود وتنا کچھ سمیٹ کر رخصت ہوئے کہ جنت کے کسی مفروضہ یا موہومہ جاڑے میں در بند ہو کر بھی اصحاب کہف کے مثل، لیکن کھلی آنکھوں، مدت گزار سکتے ہیں۔ رنجیدگی، حزن ، ملال، تاسف، افسوس، آزردگی اور دیگر مماثل جذبے خالق کائنات نے انسان کی نیو میں ڈال رکھے ہیں۔ ان سے برات نہ تو مولانا کے اپنے اہل خانہ کو مل سکتی ہے اور نہ ہم جیسے دیگر متعلقین ان سے پنڈ چھڑا سکتے ہیں۔ میرے اپنے لئے تو یہ حزن یوں دو چند ہے کہ اتنی فکری ہم آہنگی کے باوجود ان سے کوئی ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ رہی مولانا کی رحلت تو پیغمبروں سے زیادہ اللہ میاں کا کوئی چہیتا نہیں ہوتا۔ چنانچہ آئیے !مولانا کی رحلت کو ہم سب مل کر بزبان امیر مینائی یوں بیان کرتے ہیں:

فنا کیسی، بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آ نکلے، کبھی اس گھر میں جا ٹھہرے

قید حلقہ ہائے زنجیر صبح و شام سے نجات پانے والا وہ ہم سب کا چہیتا, وہ ہمارا مولانا محترم, جب وہ اس اسیری سے اپنا بند قبا چھڑا کر اور ارضی زندان سے نکل کر اپنے آشنا کے بے ثغور و بےکراں آسمانی چوبارے میں جا بیٹھا تو صاحب ! مجھے تو حزن کے پہلو بہ پہلو کچھ رشک سا بھی ہو رہا ہے۔خدا لگتی کہیے ! کسی جدت, کسی تخلیق, کسی ندرت, کسی صدائے حرف کاف و نون سے خالی یہ مزرعۃ الاخرہ کیا ہمارے  آپ کے رہنے کے لائق رہ گئی ہے؟ بہر زمین کہ رسیدم آسمان پیدا است۔ اتنی صحرا نوردی کے بعد وسیع تاکستان نہ سہی، کہیں ننھا سا تمرھندی ہی نظر آ جاتا۔ ان معنوں میں تو مولانا واقعی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ الا ! اس بانجھ مزرعۃ الآخرہ  سے خالق کائنات اپنے تمام چہیتے احسن تقویم تیزی سے سمیٹ رہا ہے۔ و اخرجت الارض اثقالہا، صاحبو ! مجھ میں تو مالہا کہنے کا بھی یارا نہیں ہے۔

(مارچ ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter