مطالعہ سنن ابی داود (۳)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: بڑی عمر کے آدمی کے لیے رضاعت کے مسئلے میں اختلاف رہا ہے۔ (کتاب النکاح، باب فی من حرم بہ، حدیث نمبر ۲۰۶۱) ایسے لگتا ہے کہ بہت کم فقہاء اس کے قائل ہیں کہ بڑی عمر میں بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ اکثریت کی رائے تو یہ نہیں تھی، لیکن امام ابن حزم اس کے قائل تھے۔

عمار ناصر: صحابہ میں سے ام المومنین حضرت عائشہ کا ہی ذکر ملتا ہے جو اس کی قائل تھیں۔ بعد میں شاید کچھ تابعین بھی قائل ہوں۔ جمہور کا موقف تو دو سال کی عمر تک رضاعت ثابت ہونے کا ہے، اس کے بعد نہیں۔

مطیع سید: اپنی بیوی کا اگر کوئی دودھ پی لیتا ہے تو کیا اس سے رضاعت کا کوئی تعلق بنتا ہے؟

عمار ناصر: حرمت تو نہیں ثابت ہوتی، لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔

مطیع سید: ابن حزم کے نقطہ نظر سے درست نہیں یا ویسے ہی درست نہیں؟

عمار ناصر: فقہا کہتے ہیں کہ بیوی کا دودھ پینا درست نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائےتو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

مطیع سید: جب اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی تو پھر کس حوالےسے فقہا منع کر تے ہیں؟

عمار ناصر: دودھ اصل میں تو غذا ہے اور اس کی اگر چہ قانونی تحدید کر دی گئی ہے کہ اس مدت کے اندر عورت کا دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے، لیکن بہر حال اس عمل سے حرمت کے رشتے کی ایک مناسبت تو ہے۔ اس پہلو سے فقہاء اس کو خلاف احتیاط قرار دیتے ہیں۔

مطیع سید: گویا اس کے پینے سے حرمت بھی نہیں اور گنا ہ بھی نہیں۔

عمار ناصر: کچھ گنا ہ تو ہوگا، لیکن اس کے نکاح پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔

مطیع سید: کچھ قیدی آئے جن میں کچھ حاملہ عورتیں بھی تھیں تو آپﷺ نے ان کے مالکوں کو ان کے ساتھ مباشرت سے منع فرمایا۔ (کتاب النکاح، باب فی وطئ السبایا، حدیث نمبر ۲۱۵۵) اس ممانعت کی کیا وجہ تھی؟ عورت جب حاملہ ہو جاتی ہے تو پھر اس کے بچے کے نسب کا مسئلہ تو باقی نہیں رہتا۔ حمل تو ٹھہر چکا ہوتا ہے۔

عمار ناصر: نہیں، اس میں یہ پہلو نہیں ہے۔ یہاں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ جب تک کسی کا بچہ عورت کے پیٹ میں ہے، اس وقت تک وہ عورت گویا اسی کی ملکیت میں ہے۔ اس لیے قیدی خواتین کا استبراء رحم کیے بغیر ان سے ہم بستری کو نبی ﷺ نے ممنوع قرار دیا۔ اس میں نسب کے اشتباہ کا مسئلہ بنیادی نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی بیوی حاملہ ہے اور وہ اسے طلاق دے دے تو عورت بچے کو جنم دینے کے بعد ہی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

مطیع سید: ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’غلاق’ کی حالت میں طلاق کا اعتبار نہیں۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی غلط، حدیث نمبر ۲۱۹۳) یہاں غلاق کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: محدثین اس کی دو طرح سے تشریح کرتے ہیں۔ بعض اس سے مراد غصے کی ایک ایسی کیفیت لیتے ہیں جس میں آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جائے۔ بعض دیگر حضرات اس کو جبر واکراہ کے معنی میں لیتے ہیں۔

مطیع سید: کیا زبر دستی لی جانے والی طلاق احناف کے نزدیک واقع ہو جاتی ہے؟

عمار ناصر: زیادہ تر احناف تو اسی کے قائل ہیں۔

مطیع سید: جو قائل ہیں، وہ کس بنیاد پر قائل ہیں؟

عمار ناصر: وہ کہتے ہیں کہ اس نے ہوش وحواس میں طلاق دی ہے، اس لیے نافذ ہونی چاہیے۔

مطیع سید: یہاں اضطرار کا اصول لاگو نہیں ہوتا کہ اس نے کسی نقصان سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہے ہیں؟

عمار ناصر: اصولاً‌ لاگو ہونا چاہیے، لیکن بعض دفعہ احناف بھی ذرا ظاہر پرست ہو جاتے ہیں۔

مطیع سید: اگر آپ سے کوئی پوچھے تو آپ کیا فرمائیں گے؟

عمار ناصر: میری رائے میں ایسی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے۔

مطیع سید: ہنسی مزاح میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی الہزل، حدیث نمبر ۲۱۹۴) آپ نے کئی دفعہ فرمایا کہ فقہا بعض چیزوں کو قانونی پیراڈائم میں لےجاتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ اس تناظر میں بات نہیں فر ما رہے ہوتے۔ بس احتیاط کا ایک پہلو ملحوظ ہوتا ہے۔ تو کیا اس روایت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے؟

عمار ناصر: اس مسئلے میں ایک رجحان تو یہی بنتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں، ہنسی مزاح میں نکاح و طلاق وغیرہ کو قانونی طور پر نافذ نہیں ماننا چاہیے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شریعت اصل میں رشتہ نکا ح کے معاملے میں ذرا مختلف جگہ سے بات کرتی ہے۔ وہ اس معاملے میں لوگوں کو Sensitive رکھنا چاہتی ہے۔ دیکھیں، ظہار سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ظہار میں آدمی نے بیوی سے یہ کہہ دیا کہ تم میری ماں کی طرح ہو تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اب دومہینے کے روزے رکھ کر اس کی سزا بھگتو۔ اس سے لگتا ہے کہ شریعت اس معاملے میں انسان کو Sensitive کرنا چاہتی ہے۔ نکاح کا رشتہ قائم کرنا یا توڑنا ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ اسے ہنسی مزاح کا موضوع بنا لیں۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی گئی کہ مزاح میں بھی اگر کسی نے ایسا کہا تو اس کے نتائج قانونی صورت میں اس پر لازم ہوں گے۔ لیکن بہر حال چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ کہاں اس کا اطلاق کریں اور کہاں نہ کریں۔

مطیع سید: عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ تین طلاقیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ حضرت ابو بکر کے دور میں بھی یہی رہا اورپھر حضرت عمر نے آکر انہیں تین ہی شمار کرنے کا حکم جاری کیا۔ (کتاب الطلاق، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، حدیث نمبر ۲۲۰۰) لیکن جو ابو رکانہ کی روایت آتی ہے، اس میں ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا تین سے کیا ارادہ تھا؟ اگر تین کو ہر حال میں ایک ہی مانا جاتا تھا تو نبی ﷺ نے اس سے ایسا کیوں پوچھا؟ اس سے تو لگتا ہے کہ اگر وہ کہتے کہ میری نیت تین ہی کی تھی تو آپ تین ہی شمار فرماتے۔

عمار ناصر: ابن عباس کی روایت اور ابو رکانہ کی روایت، دونوں میں کافی بحث ہے۔ دونوں کے مختلف طرق ہیں جن میں صورت حال کی تفصیلات مختلف بیان ہوئی ہیں۔ ابن عباس کی روایت کے معروف طریق میں تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کی بات مطلقاً‌ بیان ہوئی ہے، کوئی قید نہیں ہے۔ لیکن ابوداود نے جو طریق نقل کیا ہے، اس کے مطابق ابن عباس نے یہ بات اس عورت سے متعلق کہی جس کو رخصتی یعنی ہم بستری سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔ اسی طرح ابو رکانہ کی روایت کے بھی مختلف طرق ہیں۔ بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے ان کی نیت پوچھی، اور بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے کہا کہ بیوی سے رجوع کر لیں۔ اس پر جب ابورکانہ نے کہا کہ میں نے تو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن پھر بھی تم رجوع کر لو۔ یوں مجتہدین کے لیے کافی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ان میں سے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دے سکیں۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم جو ابن عباس کی اس روایت کو درست سمجھتے ہیں کہ عہد نبوی میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، وہ ابو رکانہ کی روایت کو مضطرب قرار دیتے ہیں اور اس سے استدلال نہیں کرتے۔

مطیع سید: ایک بادشاہ کے علاقے سے گزرتے ہوئے حضرت ابرہیم ؑ کو اپنی بیوی سارہ کے متعلق کہنا پڑا کہ یہ میری بہن ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الرجل یقول لامراتہ یا اختی، حدیث نمبر ۲۲۱۲) اس کی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: دیگر تفصیلی روایات میں یہ آیا ہے کہ وہ بادشاہ اپنے علاقے سے گزرنے والی ہر خوب صورت عورت کو چھین لیتا تھا اور اس کے شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم نے اس کے پوچھنے پر توریہ سے کام لیا اور کہا کہ میرے ساتھ میری بہن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے ساتھ اس کی بیوی ہوتی تو وہ آدمی کو مروا دیتا تھا اور عورت پر قبضہ کر لیتا تھا، کیونکہ اگر شوہر ہے تو بیوی چھینے جانے پر اس میں نفرت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوں گے۔ لیکن اگر بہن ہوتی تو پھر وہ آدمی کو قتل نہیں کرواتا تھا۔

مطیع سید: جب حضرت ابراہیم نے سارہ کو اپنی بہن بتایا تو پھر تو وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ اس کانکاح میرے ساتھ کر دو۔ حضرت ابراہیم کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا؟

عمار ناصر: نہیں، یہ نکاح کی بات نہیں تھی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نکاح کے لیےنہیں، بلکہ ویسے ہی عورتوں کو چھین لیتا تھا اور شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ تو حضرت ابراہیم نے فوری طور پر جو تدبیر سوچی، وہ یہ تھی کہ قتل سے بچنے کے لیے سارہ کو بہن کہہ دیا جائے اور بیوی کو بادشاہ کی دست درازی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ چنانچہ روایت میں یہی ہے کہ جب بادشاہ نے دست درازی کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی وجہ سے وہ وقتی طور پر مفلوج ہو گیا اور اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور بادشاہ نے خوف زدہ ہو کر دونوں کو جانے کی اجازت دے دی۔

مطیع سید: حضرت زینب اور ابو العاص کو کئی سال کے وقفے کے بعد دوبارہ اکٹھا کر دیا گیا۔ (کتاب الطلاق، باب الی متی ترد علیہ امراتہ اذا اسلم بعدہا، حدیث نمبر ۲۲۴۰) کیا اس سارے عرصے میں ان کا نکاح ختم نہیں ہو گیا تھا؟

عمار ناصر: اس میں دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کو سابقہ نکاح کے ساتھ ہی جمع کر دیا گیا اور دوسری میں ہے کہ نیا نکاح کروایا گیا تھا۔ احناف نئے نکاح والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔

مطیع سید: والدین میں سے ایک مسلمان ہو گیا تو حضورﷺ کے سامنے ان کا مسئلہ آیا کہ بچی کس کے پاس رہے گی۔ آپﷺ نے بچی کو درمیان میں بٹھا دیا اور فرمایا کہ جس طرف بچی مائل ہو گی، اسی کو دے دی جائے گی۔ بچی ماں کی طرف مائل ہونے لگی تھی تو آپ ﷺنےدعا فرمائی کہ وہ باپ کی طرف مائل ہو۔ (کتاب الطلاق، باب اذا اسلم احد الابوین مع من یکون الولد، حدیث نمبر ۲۲۴۴) وہ تو نبی ﷺتھے، ان کی دعا قبول ہوگئی۔ ہمارے لیے ایسی صورت میں کیا قانون ہے؟

عمار ناصر: وہ تو آپ ﷺنے بتا دیا کہ قانون یہ ہے کہ اس موقع پر بچے کا اختیار ہے۔

مطیع سید: لیکن یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ آپﷺنے اپنا اختیار بھی استعمال فر مایا۔

عمار ناصر: نہیں، آپ نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ آپﷺنے دعا کی تو اللہ نے بچی کے دل میں بات ڈال دی۔

مطیع سید: لعان کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی یا دی جائے گی؟

عمار ناصر: یہ استنباطی بحث ہے۔ احناف غالباً‌ اس کے قائل ہیں کہ باقاعدہ طلاق دلوائی جائےگی۔

مطیع سید: آپﷺ سے اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ آپ نے جدائی کروائی یا نہیں؟

عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں میں تفریق کروانا ثابت ہے۔ عویمر عجلانی کے واقعے میں ایک روایت یہ ہےکہ انھوں نے لعان کے بعد فوراً‌ خود ہی بیوی کو طلاق دے دی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔

مطیع سید: ہلال ابن امیہ کے واقعے میں میاں بیوی کے مابین لعان کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر بچے کی شباہت اس آدمی جیسی ہوئی جس پر شوہر نے الزام لگایا ہے تو پھر شوہر اپنے الزام میں سچا ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی اللعان، حدیث نمبر ۲۲۵۶) یعنی آپ نے بچے کی شکل و صورت سے الزام کی تحقیق میں مدد لی۔ کیا آج ہم اس کی بجائے ڈی این اے وغیرہ سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں، آپ نے یہ نہیں کہا کہ اگر بچے کی شباہت ایسی ہوئی تو اس کا نسب اس سے ثابت ہوگا۔ لعان کے بعد بچے کا نسب تو کسی سے ثابت نہیں ہوتا، صرف ماں کی طرف اسے منسوب کیا جاتا ہے۔ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ بچے کی شباہت سے یہ پتہ چل جائے گا کہ شوہر نے جو الزام لگایا، وہ ٹھیک تھا یا نہیں۔ اس کا بچے کے نسب پر کوئی قانونی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اگر اس حوالے سے کوئی قابل وثوق مدد دے سکتا ہو تو لعان کی صورت مین اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر بیوی الزام قبول نہ کرنے کی صورت میں لعان کے بجائے یہ مطالبہ کرے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ بچہ کس کا ہے تو میری رائے میں بیوی کو یہ حق ملنا چاہیے۔ مقاصد شریعت کی رو سے خود کو بدکاری کے الزام سے بری ثابت کرنا بیوی کا بھی حق ہے اور اگر نسب کی تحقیق ممکن ہو تو پیدا ہونے والے بچے کا بھی یہ حق ہے۔ ہاں، اگر طبی ذرائع سے تحقیق ممکن نہ ہو تو پھر لعان کا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بچے کی ولدیت ثابت کرنے کے لیے تین آدمیوں کے درمیان قرعہ ڈلوایا۔ (کتاب الطلاق، باب من قال بالقرعۃ اذا تنازعوا فی الولد، حدیث نمبر ۲۲۶۹) حضرت علی قیافہ شناس کو بھی بلا سکتےتھے یا اور کوئی ذریعہ استعمال کر سکتے تھے مگر انہوں نے قرعہ پر فیصلہ کیا جو بالکل تخمینی طریقہ ہے۔

عما رناصر: معروضی حالات جیسے ہوتے ہیں، اسی کے لحاظ سے آپ نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس دور میں آج کے دور کی طرح تحقیق نسب کے زیادہ قابل وثوق ذرائع دستیاب نہیں تھے۔ حضرت علی کو بچے کی ولدیت کا جھگڑا نمٹانا تھا تاکہ قانونی ذمہ داریوں کا تعین کیا جا سکے تو اس مقدمے میں انھیں یہی ممکن نظر آیا کہ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ کر دیا جائے۔

مطیع سید: ہو سکتاہے کہ قیافہ شناس بھی اس وقت میسر نہ ہو۔

عمار ناصر: جی، ممکن ہے وہ بھی میسر نہ ہو یا قیافہ پر ان کا اتنا اعتماد نہ ہو۔ ایسے میں معاملے کو نمٹانا ہوتا ہے، جیسے بھی نمٹایا جا سکے۔

مطیع سید: روایت میں یہ بھی وضاحت نہیں کہ جو دوسرے دو آدمی تھے، کیا انھوں نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی تھی؟ ان کو آپ نے پکڑا یا نہیں؟

عمار ناصر: دیگر روایات میں اس کی تفصیل موجود ہےکہ انھوں نے غلط اجتہاد کرتے ہوئے ایک ہی طہر میں اس باندی سے مجامعت کو جائز سمجھتے ہوئے مجامعت کی تھی جس کی وجہ سے ان پر حد جاری نہیں کی گئی۔

مطیع سید: حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حاملہ عورت چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے۔ (کتاب الصوم، باب من قال ہی مثبتۃ للشیخ والحبلی، حدیث نمبر ۲۳۱۷) کیا اس کے لیے روزوں کی قضا ضروری نہیں؟

عمار ناصر: یہ قابل بحث مسئلہ ہے۔ عام طور پر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بعد میں روزے رکھ سکتی ہے، اس لیے قضا کرے۔ لیکن ابن عباس کی اور متعدد تابعین کی رائے یہ ہے کہ چونکہ وہ اس وقت روزے نہیں رکھ پارہی اور اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں تو اس کے لیے فدیہ دے دینے کی گنجائش موجود ہے۔ بظاہر ذوالوجہین مسئلہ ہے اور اجتہادی ہے۔ پہلے قیاس کو دیکھیں تو یہ بات درست لگتی ہے کہ بعد میں اس کو روزے قضا کرنے چاہییں۔ دوسرے قیاس کو دیکھیں تو فدیے کی گنجائش نکلتی ہے۔

مطیع سید: کیا اس مسئلے کو Case to Case دیکھا جا سکتا ہے؟

عمار ناصر: بالکل، یہ بھی ہو سکتاہے کہ ایسے ہر معاملے کو صورت حال کے لحاظ سے الگ الگ دیکھا جائے۔ قرآن سے تو ترجیح یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان تصوموا خير الكم۔ روزے کی جگہ روزہ ہی رکھا جائےتو بہترہے۔

مطیع سید: عاشورا کا روزہ کیا پہلے فرض تھا؟

عمار ناصر: روایات میں ایسے ہی منقول ہے کہ وہ لازم تھا۔ پھر رمضان کے روزے فرض ہو جانے کے بعد اس کو اختیاری قرار دے دیا گیا۔

مطیع سید: تو کیا یہ اسی نسبت سے رکھوایا جا تا تھا جس نسبت سے یہود رکھتےتھے یا مسلمانوں کے رکھنے کی کوئی اور وجہ تھی؟

عمار ناصر: اس کی ابتدا سے متعلق روایات مختلف ہیں۔ بعض میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش یہ روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس وقت سے یہ معمول تھا۔ بعض میں ہے کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو فرعون سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات کے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ ممکن ہے، دونوں باتیں درست ہوں۔ اس کا رواج قریش میں بھی ہو اور نبی ﷺ نے دیکھتے ہوئے کہ کوئی نہ کوئی روزہ تو رکھنا چاہیے، مسلمانوں پر بھی اس کو لازم کر دیا ہو۔ مدینہ میں آنے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے میں اور بھی کئی مصلحتیں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی نسبت ہوگئی، اور یہودیوں کے ساتھ بھی کچھ موافقت اور ان کی تالیف قلب ہوگئی جس کی آپ ﷺ نے ابتدائی دور میں کافی کوشش بھی کی تھی۔

مطیع سید: شام کے علاقے کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بیان ہوئی ہیں، (کتاب الجہاد، باب فی سکنی الشام، حدیث نمبر ۲۴۸۳) ان کا تعلق کس زمانے سے ہے؟ آپ ﷺ نے عرب قوم کے دور اقتدار کے اختتام کی باتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور قیامت کے قریب رونما ہونے والے واقعات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ شام کے حوالےسے پیشین گوئیاں کس صورت حال سے متعلق ہیں؟

عمار ناصر: اس کو کافی تحقیق سے دیکھنا پڑے گا۔ پیشن گوئیوں سے متعلق روایتوں میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور راویوں نے ایک دور سے متعلق واقعات کو دوسرے دور سے متعلق کافی گڈمڈ بھی کر دیا ہے۔

مطیع سید: ایک صحابی نے نبی ﷺ سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے۔ (کتاب الجہاد، باب فی النہی عن السیاحۃ، حدیث نمبر ۲۴۸۶) اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: اردو میں جس کو سیر وسیاحت کہتے ہیں، یہاں وہ مفہوم مراد نہیں ہے۔ عہد نبوی کی عربی میں سیاحت ایک مذہبی اصطلاح کے طور پر مستعمل تھی۔ سیاحت ترکِ دنیا کا ایک خاص طریقہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آدمی گھر بار چھوڑ دے اور ساری زندگی مسافروں اور خانہ بدوشوں کی طرح خدا کی زمین میں پھر تا رہے۔ اسی مفہوم میں اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں عبادت کے طور پر گھربار چھوڑنے اور خدا کی زمین میں گھومتے رہنے کی کوئی شکل اگر ہے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آدمی جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑا ہو۔ محض گھر سے نکل جانا اور سیر وتفریح کے لیے دنیا میں گھومتے رہنا، یہ یہاں مراد نہیں ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو ایسا گھوڑا پسند نہیں تھا جس کا ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں سفیدی ہو۔ (کتاب الجہاد، باب ما یکرہ من الخیل، حدیث نمبر ۲۵۴۷) یہ کیا نبی ﷺ کا کوئی ذاتی ذوق تھا یاکوئی اور وجہ تھی؟

عمار ناصر: بظاہر تو یہ ذوقی بات ہی لگتی ہے۔

مطیع سید: آپ نے اسی طرح کی ایک روایت کے حوالےسے فرمایاتھا کہ نبی ﷺ کے ذوق کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ تو اس روایت میں ہم کیسے اس ذوق کی پیروی کریں؟

عمار ناصر: ذوق کاتعلق اگر کسی عباداتی یا تعبدی پہلو سے ہے تو اس کے متعلق یہ عرض کیا تھا۔ یہ کسی جانور کی پسند یا ناپسند کا معاملہ تو مختلف ہے۔ یہ بالکل طبعی سا ذوق ہے جس کا کسی دینی پہلو بظاہر نہیں ہے۔ اس میں بھی آپ اگر پیروی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے۔

مطیع سید: یہ جو جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنے یا سفر میں قافلے کے ساتھ کتا رکھنے کی ممانعت آئی ہے، (کتاب الجہاد، باب فی تعلیق الاجراس، حدیث نمبر ۲۵۵۵) کیا یہ بھی شخصی ذوق ہی تھا؟

عمار ناصر: اس میں ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ بعض چیزوں کی مناسبتیں عالمِ غیب سے ہیں تو نبی ﷺ کے سامنے وہ بھی ہوتی ہیں۔ ان کے لحاظ سے یہ فرمایا۔ مثلاً‌ گھنٹی سے فرشتوں کو مناسبت نہیں ہے، شیاطین و جنات کو اس سے مناسبت ہے۔ اسی طرح کتا ہےکہ کتے کے ساتھ جنات و شیاطین کو مناسبت ہے۔ اس وجہ سے آپ کو بھی ان کو ساتھ رکھنا پسند نہیں تھا۔

مطیع سید: کسی اور چیز میں مقابلہ کرنا جائز نہیں، سوائے اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ اور تیز اندازی کے مقابلے کے۔ (کتاب الجہاد، باب فی السبق، حدیث نمبر ۲۵۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اور بلامقصد جانوروں میں جو مقابلے کروائے جاتے ہیں، وہ نہیں کروانے چاہییں۔ خاص طور پر ایسے مقابلے جن میں کوئی غیر اخلاقی پہلو بھی ہو، مثلاً‌ جانور ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہوں۔ مقابلے ایسے ہونے چاہییں جن سے انسان کسی ہنر میں مہارت پیدا کرے اور اس کا اظہار کرے، جیسے گھڑ سواری یا تیز اندازی کے مقابلے۔

مطیع سید: آج کے دور میں کھیل میں جو شرطیں لگا ئی جاتی ہیں، کیا وہ درست ہیں؟

عمار ناصر: اس میں فقہا تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اگر کوئی تیسرا فریق کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام مقرر کر تا ہے اور لوگ کھیل کر انعام جیتتے ہیں تو یہ درست ہے۔ لیکن اگر کھیلنے والے آپس میں ہی ایسی شرط طے کریں تو اس میں جوے کی شکل بن جاتی ہے جو درست نہیں۔

مطیع سید: یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی مقابلے میں شریک سب کھلاڑیوں سے رقم جمع کی جاتی ہے۔ اس رقم سے انعام خریدا جاتا ہے اور جو جیتے، اس کو انعام دے دیا جاتا ہے۔

عمار ناصر: اس میں اس طرح سے صریح جوئے کی صورت تو نہیں ہے لیکن ایک مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے عام طورپر فقہا اس سے منع کرتے ہیں۔

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(مارچ ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter