مغرب نے جب سے معاشرتی معاملات سے مذہب اور آسمانی تعلیمات کو بے دخل اور لاتعلق کیا ہے، خاندانی نظام مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اور خود مغرب کے میخائل گورباچوف، جان میجر اور ہیلری کلنٹن جیسے سرکردہ دانشور اور سیاستدان شکوہ کناں ہیں کہ خاندانی نظام بکھر رہا ہے اور خاندانی رشتوں اور روایات کا معاملہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب معاشرتی قوانین کو آسمانی تعلیمات کی پابندی سے آزاد کر کے خود سوسائٹی کی سوچ اور خواہش کو ان کی بنیاد بنایا جائے گا تو وہ ہر دم بدلتی ہوئی سوچ اور خواہشات کے سمندر میں ہی ہچکولے کھاتے رہیں گے اور انہیں کہیں قرار اور استحکام نہیں ہو پائے گا۔ جبکہ مغربی دانشور اس صورتحال کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی ؎
خود تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
کے مصداق باقی دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کو بھی اسی دلدل میں اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اور اس مغربی تہذیب و فلسفہ کو دنیا بھر سے منوانے کے لیے مغربی قوتیں تحریص، ترغیب اور تخویف کے تمام حربے استعمال کرتے جا رہے ہیں جس سے عالمی سطح پر تہذیبی خلفشار اور فکری دھماچوکڑی کا عجیب سا منظر دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری طرف عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے کم و بیش سبھی طبقات اپنے معاشرتی اور خاندانی قوانین میں آسمانی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے پابند رہنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم امہ کا خاندانی نظام آج بھی بحمد اللہ تعالیٰ مضبوط نظر آ رہا ہے۔ البتہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے متاثر دانشور اور حکمران اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی احکام و قوانین اور مسلمانوں کی خاندانی و معاشرتی روایات و اقدار کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر مغربی فکر و فلسفہ کے سانچے میں فٹ کر دیا جائے، جس کے لیے خاندانی قوانین میں مسلسل ترامیم اور عدالتی فیصلوں کا ایک طویل سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ دینی حلقوں میں ان دنوں زیربحث ہے جس کا ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے بھی نوٹس لیا ہے اور اس کی رپورٹ مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کے قلم سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے:
’’ملی مجلسِ شرعی نے، جو مختلف مکاتب فکر کا مشترکہ علمی پلیٹ فارم ہے، عائلی قانون میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ زیربحث مقدمہ میں لڑکی کا نکاح ۱۸ سال سے کم عمر میں ہوا ہے لہٰذا نکاح قابلِ فسخ ہے اور زنا بالرضا کے مصداق ہے۔ ان کے اس خلافِ شریعت فیصلے نے دینی حلقوں میں اضطراب پیدا کیا، چنانچہ ملی مجلسِ شرعی کے صدر مولانا زاہد الراشدی نے تین رکنی علماء کمیٹی بنانے کی ہدایت کی جو اس موضوع پر غور کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ انہوں نے سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈووکیٹ (لاہور ہائیکورٹ) سے بھی مذکورہ کمیٹی سے تعاون کی درخواست کی۔
مذکورہ کمیٹی، مشتمل بر مولانا مفتی شاہد عبید (جامعہ اشرفیہ)، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (جامعہ رحمانیہ)، مولانا محمد عمران رضا طحاوی اور سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈوکیٹ کا اجلاس ۱۴ مارچ ۲۰۲۲ء کو راقم کے دفتر میں ہوا۔ تفصیلی بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل موقف پر (تلخیصاً) اتفاق ہوا:
(۱) جسٹس بابر ستار صاحب کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل لاء کے حوالے تو دیئے ہیں لیکن قرآن و سنت، فقہاء اور یہاں تک کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں سے بھی استفادہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ لڑکی کی عمر ۱۴ سال دو ماہ ہے، وہ بہت صحت مند نہیں، ایک شادی شدہ بال بچے دار مرد نے جھوٹ بول کر اسے بہلایا پھسلایا اور اس نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر اس سے نکاح کر لیا۔ ماں کی شکایت پر جسٹس صاحب نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔
(۲) شرعِ اسلامی کی رو سے جسٹس صاحب کے پاس کئی حل تھے۔ مثلاً وہ رخصتی کو مؤخر کر سکتے تھے، مرد کو طلاق کا حکم دے سکتے تھے اور تحکیم کے لیے کمیٹی قائم کر سکتے تھے۔
(۳) اس طرح کا فیصلہ ہر کیس کی بنیاد پر الگ ہونا چاہیے۔ ایک عمومی فیصلہ کر دینا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کی بچی کا نکاح جائز نہیں ہوتا، غلط اور خلافِ شریعت فیصلہ ہے۔
(۴) اس طرح کے معاملے میں کورٹ میرج کا استعمال اور ولی کی غیر موجودگی بہت سے مفاسد کو جنم دیتی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔
(۵) ملک بھر خصوصاً اسلام آباد کے دینی حلقوں کو چاہیے کہ سنگل بنچ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف ڈویژن بنچ میں ریویو پٹیشن (نظرثانی کی درخواست) دائر کریں اور ایسے وکیل عدالت میں پیش ہوں جو صحیح اسلامی نقطۂ نظر کو موثر طریقے سے عدالت میں پیش کر سکیں۔
ملی مجلس شرعی کے جن زعماء نے اس نقطۂ نظر کی حمایت کی ان میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا ملک عبد الرؤف، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی شاہد عبید، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، قاری جمیل الرحمن اختر، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حافظ محمد عمران طحاوی، حاجی عبد اللطیف چیمہ، حافظ محمد نعمان حامد، مولانا محمد اسلم نقشبندی، مولانا فاروق قادری، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، حافظ ڈاکٹر محمد سلیم اور دیگر علماء شامل ہیں۔‘‘