دستوری اور قانونی پس منظر
1974ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے دستورِ پاکستان میں مسلمان کی تعریف شامل کی گئی جس کی رو سے قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔ تاہم ان کی جانب سے اس کے بعد بھی خود کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے بعض اوقات امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوتے گئے۔ اس پس منظر میں 1984ء میں ایک خصوصی امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کے ذریعے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دفعات 298-بی اور 298-سی کا اضافہ کیا گیا اور ان کے ایسے تمام افعال پر پابندی لگا کر ان کو قابلِ سزا جرم بنا دیا گیا۔ اس قانون کو اکثر اس بنیاد پر اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس نے قادیانیوں اور لاہوریوں کی مذہبی آزادی ختم کردی ہے۔
اس موضوع پر اعلی عدلیہ کی جانب سے کئی فیصلے آئے ہیں لیکن دو کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ایک 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے (مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت، پی ایل ڈی 1985 وفاقی شرعی عدالت 8)؛ اور دوسرا 1993ء میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ ہے (ظہیر الدین بنام ریاست، 1993 ایس سی ایم آر 1718)۔ پہلے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ یہ قانون اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہے اور دوسرے میں یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے بھی متصادم نہیں ہے۔ ان فیصلوں کی بنیاد دو بنیادی امور ہیں: ایک یہ کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو دھوکا دے اور اسی لیے کسی غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر دوسروں کو پیش کرے؛ اور دوسرا یہ کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے ایسے افعال سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جس کی روک تھام کےلیے حکومت قانون کے ذریعے حقوق پر مناسب قیود عائد کرسکتی ہے۔
پہلے فیصلے کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کرلے، تو اس کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے، یعنی جب وفاقی شرعی عدالت نے کسی امر کے متعلق یہ قرار دیا کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم ہے یا نہیں ہے، تو سپریم کورٹ اس کے برعکس فیصلہ نہیں دے سکتی۔ یہ وفاقی شرعی عدالت کا ایک بہت اہم اختیار ہے جس کا ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو ادراک ہے۔ دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے دیا ہے جس میں پانچ ججز شامل تھے اور اس بنچ نے یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے دیا ہے۔ چنانچہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار صرف اس بنچ کو حاصل ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد ججز ہوں اور ان میں کم از کم پانچ ججز اس کے خلاف فیصلہ دیں، اور یہ امر بظاہر – کم از کم تا حال – ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے یہ امر طے شدہ ہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298-بی اور 298-سی نہ تو اسلامی احکام سے اور نہ ہی دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں ۔
یہاں تک تو بات طے شدہ ہے لیکن ہمارے ہاں کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قادیانیوں کی مخصوص عبادت گاہوں میں قرآن مجید کے نسخے کی موجودگی یا کلمۂ طیبہ لکھے جانے کو، یا اس طرح کے بعض دیگر افعال کو، بھی نہ صرف دفعات 298-بی اور 298-سی کی خلاف ورزی سمجھا گیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھیں توہینِ قرآن (دفعہ 295-بی) اور توہینِ رسالت (دفعہ 295-سی) بھی قرار دیا گیا۔ یہ مسئلہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے سامنے ایک مقدمے میں سامنے آیا جس پر سپریم کورٹ نے 24 مارچ کو فیصلہ سنایا ہے:
Crl.P.916.L/2021، طاہر نقاش بنام ریاست۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/crl.p._916_l_2021.pdf
کئی پہلوؤں سے یہ فیصلہ نہایت اہم ہے اور اس وجہ سے اس بحث بہت ضروری ہے۔ اس لیے یہاں اس فیصلے کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
مقدمے کے حقائق اور فریقین کے دلائل
اس مقدمے کے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ درخواست گزاروں (اور ایک اور شخص) کے خلاف 3 مئی 2020ء کو اس الزام پر ایف آئی آر کٹوائی گئیں کہ انھوں نے قادیانی ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طرز پر بنایا ہے اور اس کے اندر دیواروں پر شعائرِ اسلام (کلمۂ طیبہ، بسم اللہ الرحمان الرحیم، یا حیّ یا قیّوم) لکھے ہوئے ہیں اور قرآن مجید کے نسخے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ نیز بجلی کے بل میں بھی اس عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں دفعات 298-بی اور 298-سی ہی درج کی گئیں جو قادیانیوں سے متعلق ہیں۔ان دفعات کے تحت ان الزامات پر ان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں مقدمہ شروع ہوا۔ تاہم اس کے بعد شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی شامل کرنے کےلیے درخواست دی جو ٹرائل کورٹ نے منظور کرلی۔ ملزمان نے اس کے خلاف پہلے ایڈیشنل سیشنز جج کی عدالت میں اور پھر ہائی کورٹ میں درخواستیں دیں لیکن دونوں عدالتوں سے وہ درخواستیں خارج ہوگئیں، اور نتیجتاً ان کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی ایف آئی آر میں شامل رہیں۔ اس وجہ سے ملزمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انھیں اس کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دی جائے۔ (ایک ہی فیصلے کے خلاف دو درخواستیں مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، لیکن سپریم کورٹ کو درخواست کی جاسکتی تھی کہ چونکہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے تو سپریم کورٹ اپیل دائر کرنے کی اجازت دے۔ پھر سپریم کورٹ مناسب سمجھے تو اجازت دے سکتی ہے یا ہائی کورٹ کے فیصلے میں غلطی نہ ہو تو وہ معاملہ نمٹا دیتی ہے۔)
جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اور فیصلہ جسٹس شاہ نے لکھا جس سے جسٹس خان نے اتفاق کیا۔
درخواست گزاروں کا (جو اصل مقدمے میں ملزمان تھے) موقف یہ تھا کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کی بنا پر دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کا مقدمہ بنتا ہے، نہ کہ دفعات 295-بی (توہینِ قرآن) یا 295-سی (توہینِ رسالت) کا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نجی عبادت گاہ میں شعائرِ اسلام کی موجودگی یا قرآن کے نسخے کی موجودگی سے توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا مسئلہ نہیں بنتا کیونکہ وہ قرآن کو کلام الٰہی اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور اس وجہ سے وہ توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
دوسری جانب سرکاری استغاثہ کی جانب سے بھی اور ان ملزمان کے خلاف شکایت کنندہ نے بھی بنیادی طور پر یہ دلیل دی کہ ان کی مذکورہ عبادت گاہ نجی مکان نہیں بلکہ عوامی مقام ہے اور یہ کہ قادیانیوں کی جانب سے کلمۂ طیبہ پڑھنے یا قرآن پڑھنے سے ہی توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن ثابت ہوتی ہیں۔
عدالت کے سامنے اس مقدمے میں تنقیح طلب امر یہی تھا کہ کیا ان افعال سے توہینِ رسالت یا توہینِ قرآن کے جرائم ثابت ہوتے ہیں؟
قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق
جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ان دو اہم نظائر پر بات کی ہے جو اس موضوع پر سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور جن کی پابندی خود اس دو رکنی بنچ پر لازم تھی: ایک مجیب الرحمان کیس میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ، اور دوسرا ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ۔ جسٹس شاہ نے واضح کیا ہے کہ ظہیر الدین کیس میں اگرچہ دفعات 298-بی اور 298-سی کے متعلق قرار دیا گیا تھا کہ یہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہیں لیکن اسی فیصلے میں یہ بھی تصریح کی گئی تھی کہ قادیانیوں پر پابندی صرف عوامی سطح پر اظہار تک ہی محدود ہے اور نجی سطح پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح مجیب الرحمان کیس میں شریعت کورٹ نے تصریح کی تھی کہ اس پابندی کا اطلاق قادیانیوں کے مرزا صاحب پر ایمان پر نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی بنا پر انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے، یا اپنی عبادت گاہوں میں اپنے طریقے سےعبادت کرنے سے روکا جاسکتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت نے مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔
اس بنیاد پر بات آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس شاہ نے پاکستان کے دستور کی ان دفعات کا جائزہ پیش کیا ہے جن کی رو سے تمام شہریوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مذہبی آزادی کا حق بھی حاصل ہے اور بہ حیثیتِ انسان تکریم اور عزت کا بھی۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دفعہ 14 (انسانی تکریم کا حق) کا حوالہ دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنے، یا اپنی عبادت گاہ کی حدود میں عبادت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے سے دستور کی جمہوری اقدار کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کی اسلامی روح بھی پامال ہوتی ہے۔
اسی طرح انھوں نے دفعہ 20 کا حوالہ دیا ہے جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو، قانون کی حدود کے اندر، اپنے مذہب پر عمل اور اس کی ترویج کی اجازت دیتی ہے اور اسی طرح انھیں اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کا حق بھی دیتی ہے۔ جسٹس شاہ نے اس پر بحث نہیں کی کہ کیا اس دفعہ کے تحت قادیانیوں یا کسی دوسری غیر مسلم اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف بلائیں، لیکن ان کی پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب نفی میں ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں (اور یہ قرار دینے کے سوا کوئی راستہ تھا بھی نہیں کیونکہ ان سے قبل وفاقی شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے یہی قرار دیا تھا) قادیانیوں کو عوامی سطح پر ان افعال کی اجازت نہیں جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ اس کے بعد انھوں نے دفعہ 22 کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے مذہب کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی عبادت یا رسم میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات سیکھنا اس پر لازم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس دفعہ کے تحت ہر مذہبی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مخصوص اداروں میں شاگردوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے دفعہ 25 کا حوالہ دیا ہے جس نے تمام شہریوں قانون کا یکساں تحفظ دیا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے واضح کیا ہے کہ دفعہ 260 کی ذیلی دفعہ 3 کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ملک کے شہری نہیں رہے یا انھیں وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں رہے جو ملک کے تمام شہریوں کو دستور کی رو سے حاصل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دستور کی دفعہ 4 کا حوالہ دیا ہے جس میں تصریح کی گئی ہے کہ اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کا یہ ناقابلِ تنسیخ حق ہے کہ انھیں قانون کا یکساں تحفظ حاصل رہے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو۔
توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے قانون کا اطلاق؟
ان دستوری اصولوں کی توضیح کے بعد جسٹس شاہ نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا جائزہ لیا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ اس مقدمے کے مخصوص حقائق میں ان دفعات کا اطلاق ملزمان پر ہوتا ہے یا نہیں؟
دفعہ 295-بی میں قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کی بالارادہ توہین پر عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، جبکہ دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں صراحتاً یا اشارتاً یا کنایتاً گستاخی پر موت کی سزا اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ (1986ء میں جب پارلیمان نے دفعہ 295-سی وضع کی تو اس میں موت کی سزا یا عمر قید کی سزا کے درمیان عدالت کو اختیار دیا تھا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اسماعیل قریشی کیس میں قرار دیا تھا کہ "یا عمر قید" کے الفاظ اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ چنانچہ اس فیصلے کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے یہ الفاظ غیر مؤثر ہوگئے ہیں اور اب عدالت اس جرم پر سزاے موت ہی دے سکتی ہے، اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی، لیکن عمر قید کی سزا نہیں دے سکتی۔)
جسٹس شاہ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دفعہ 295-بی میں جرم کےلیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کو بالارادہ خراب کیا گیا ہو، نقصان پہنچایا گیا ہو یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہو، اور اسی طرح دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا ذکر ہے، جبکہ موجودہ مقدمے میں ملزمان پر ایسا کوئی الزام نہیں عائد کیا گیا، بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت گاہ میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور کلمۂ طیبہ لکھا ہوا تھا۔ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں نے قرار دیا تھا کہ قادیانیوں کی جانب سے صرف کلمۂ طیبہ پڑھنا یا قرآن پڑھنا ہی توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کے جرم کےلیے کافی ہے، لیکن جسٹس شاہ نے قرار دیا ہے کہ یہ قانون کی غلط تعبیر ہے۔ اس غلطی کو واضح کرنے کےلیے انھوں نے تعبیرِ قانون کا بنیادی اصول ذکر کیا ہے کہ سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم تک ہی محدود رکھا جائے گا اور اس پر کسی مفہوم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ان دفعات میں جن امور کو جرم قرار دیا گیا ہے، صرف انھی پر سزا دی جاسکتی ہے اور ان پر قیاس کے ذریعے کسی اور چیز کا اضافہ کرکے اس پر بھی یہ سزائیں نہیں جاسکتیں۔ اسی طرح انھوں نے مقننہ کے ارادے کا اصول بھی ذکر کیا ہے کہ قانون وضع کرنے والوں کا مقصد بھی یہ نہیں تھا، اگرچہ اس کے ساتھ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ مقننہ کے ارادے یا مقصد کی بنیاد پر بھی سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم سے آگے کسی اور امر کی طرف توسیع نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس شاہ نے یہ بھی واضح کیا کہ محض اس گمان پر سزا نہیں دی جاسکتی کہ ان کے دل میں توہین کا خیال ہوگا، جب تک وہ خیال عمل کی صورت میں آشکارا نہ ہو۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
ان امور کی بنا پر جسٹس شاہ نے قرار دیا کہ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں سے قانون کے فہم میں غلطی ہوئی تھی اور یہ کہ ان درخواست گزاروں پر اصل مقدمے میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان پر توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ درخواست گزاروں کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھوں نے اسے اپیل میں تبدیل کیا اور اپیل منظور کرنے کے نتیجے میں حکم دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے الزامات ختم کرکے صرف دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے۔
یہ فیصلہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اس سے پاکستان کے دستوری بندوبست میں قادیانیوں کی حیثیت اور ان کے حقوق اور ان حقوق پر عائد قیود کی درست تعبیر نافذ کرنے میں مدد ملے گی۔ یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کے مسئلے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس فیصلے نے پھر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے چکنے کے بعد بہ حیثیت ِ غیر مسلم ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، خواہ قادیانی اپنے لیے غیر مسلم کی حیثیت قبول کریں یا نہ کریں۔