مطالعہ سنن ابی داود (۴)

سوالات: ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: ایک موقع پر ایک بدوی آپﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نے اسے دین کی تعلیم دیتے ہوئے صرف ارکان دین یعنی عبادات کے متعلق بتایا۔ (کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ، حدیث نمبر ۳۹۱) معاملات کی بات نہیں فرمائی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: ایسے موقع پر سائل کے مقصد کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے۔ سائل کا مقصد سمجھ کر کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے، اس کے لحاظ سے جواب دے دیا جاتا ہے۔ باقی چیزوں کی نفی مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں سائل دین کی کوئی ایسی وضاحت طلب ہی نہیں کر رہا جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہو۔ بنیادی انسانی اخلاقیات کی جو باتیں معروف ہیں، وہ ان سے واقف ہے، اور وہ چاہ رہاہے کہ دین مجھ پر اس کے علاوہ کیا ذمہ داری عائدکر تا ہے جسے اداکرنے کے بعد میں سرخروہوجاؤں گا۔ ظاہرہے، اس کے جواب میں آپ ﷺ کو پورے دین کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔

مطیع سید: عورتیں جو بالوں کی مینڈھیاں بناتی تھیں، آپﷺنے انہیں غسل کے لیے کھولنے کا حکم نہیں فرمایا۔ (کتاب الطہارۃ، باب فی المراۃ ہل تنقض شعرہا عند الغسل، حدیث نمبر ۲۵۱) تو کیا اس سے نیل پالش کا جواز نکال سکتے ہیں کہ وضو یا غسل کے لیے اسے اتارنے کی ضرورت نہیں؟

عمار ناصر: مینڈھیوں پر قیاس نہ کیا جائے تو بھی میری رائے میں تو ایسا کرنا درست ہے۔

مطیع سید: یعنی جب وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو یا پھر اس کے لیے وضو کی شرط بھی نہیں؟

عمار ناصر: غامدی صاحب نے اس کو موزوں کے مسح پر قیاس کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ اگر وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو تو پھر اس کے اوپر سے پانی بہا دینا کافی ہے۔ میرے خیال میں تو وضو کر کے لگانا ضروری نہیں۔ اگر ویسے بھی لگا لی ہو تو اس کے ساتھ ہی وضو کیا جا سکتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جائے گا کہ جب تک نیل پالش لگی ہوئی ہے، وہ چمڑے کا یا ناخن کا حصہ ہی ہے۔ میرے نزدیک جو لوگ رنگ روغن کا کام کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پر پینٹ لگ جاتا ہے جسے کافی کوشش سے ہی اتارا جا سکتا ہے، ان کا حکم بھی یہی ہے۔ جب تک وہ پینٹ جسم پر لگا ہوا ہے، وہ جسم کی جلد کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ میرے خیال میں شریعت کے اصول تیسیر کا تقاضا ہے۔

مطیع سید: صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے کچھ غلام مسلمان ہو کر آگئے تو آپﷺ نے انھیں واپس بھیجنے سے انکار فرما دیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی عبید المشرکین یلحقون بالمسلمین فیسلمون، حدیث نمبر ۲۷۰۰) کیا یہ صلح حدیبیہ کے بعد کا واقعہ ہے؟ اس معاہدے میں تو طے کیا گیا تھاکہ مشرکین میں سے جو مسلمانوں کے پاس جائے گا، اسے واپس بھیج دیا جائے گا۔

عمار ناصر: نہیں، روایت میں تصریح ہے کہ یہ معاہدہ طے پانے سے پہلے کا واقعہ تھا۔ ابھی چونکہ معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں واپس نہیں بھیجا۔

مطیع سید: آپ ﷺنے نجد کی جانب ابان ابن سعید کو سردار بنا کر بھیجا۔ ان کی واپسی پر خیبر فتح ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں حصہ نہیں دیا، لیکن ابو موسی اشعری اور جعفر بن ابی طالب کو حصہ عطا فرمایا۔ (کتاب الجہاد، باب فی من جاء بعد الغنیمۃ لا سہم لہ، حدیث نمبر ۲۷۲۳، ۲۷۲۵) آپﷺ نے یہ فرق کیوں رکھا؟

عمار ناصر: مال غنیمت کی تقسیم میں حکمران کی صوابدید کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔ بعض دوسرے مواقع پر بھی آپ نے اپنا یہ صواب دیدی اختیار استعمال فرمایا اور سیاسی یا انفرادی مصلحت کے تحت فیصلہ کیا کہ کس کو کتنا حصہ دینا چاہیے اور کس کو نہیں۔

مطیع سید: مال غنیمت کی تقسیم موجود دور میں بھی اسی طرح ہوگی؟

عمار ناصر: نہیں، اب تو صورتحا ل بہت ہی مختلف ہو گئی ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں مجاہدین ذاتی حیثیت میں ہتھیار اور سواری وغیرہ کا بندوبست کر کے جنگ میں شریک ہوتے تھے۔ بعد کے دور میں باقاعدہ تنخواہ دار فوجیں منظم کر لی گئیں تو مال غنیمت براہ راست فوجیوں میں تقسیم کر دینا ممکن نہیں رہا۔ اگر یہی طریقہ جاری رکھا جاتا تو سرکاری خزانے سے فوجوں کے اخراجات کی رقم کہاں سے لائی جاتی؟ آج کل کے بین الاقوامی معاہداتی نظام میں تو مال غنیمت پر فاتحین کے حق کو بھی کافی محدود کر دیا گیا ہے۔ غالباً‌ دشمن کے جنگی سازوسامان پر قبضہ کر لینا تو فاتح کا حق مانا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ عام لوگوں کے اموال پر قبضہ درست نہیں مانا جاتا۔ مال غنیمت کا قدیم تصور اس سے مختلف تھا۔

مطیع سید: حدیبیہ کے معاہدے کے بعد ایک صحابی ابو بصیر مکے سے بھاگ کر مدینہ آ گئے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ راستے میں انھوں نے گرفتار کر کے لے جانے والے مشرکوں کو قتل کر دیا اور پھر اپنی طرح مکے سے بھاگ کر نکلنے والے بہت سے افراد کا ایک جتھہ بنا کر مشرکین پر حملے کرنے لگے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۵) کیا ابو بصیر کا یہ اقدام غیر شرعی تھا؟

عمار ناصر: نہیں، اس میں کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی تو انھوں نے نہیں کی تھی۔ معاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا تھا اور آپ نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ مکے کے مسلمان جنھیں جبراً‌ مکے والوں نے قید بنا کر رکھا ہوا تھا، وہ تو اس معاہدے کا فریق ہی نہیں تھے۔ ان کو پورا حق حاصل تھا کہ وہاں سے آزادی حاصل کریں اور اگر مجتمع ہو کر ظالموں کے خلاف لڑ سکتے ہوں تو لڑیں۔ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں نے یہی کیا۔

مطیع سید: آپﷺ نے ابو بصیر کو کوئی پیغام کیوں نہیں بھجوایا کہ یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے؟

عمار ناصر: نہیں، اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے کام میں کوئی شرعی خرابی تو تھی نہیں تو کیوں آپ ﷺ پیغام بھیجتے؟ ہاں، یہ آپ نے ضرور واضح کر دیا تھا کہ آپ ان کو مدینہ میں پناہ نہیں دے سکتے، کیونکہ اس سے قریش کے ساتھ جنگ کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔ مدینہ کے علاوہ وہ اپنے طور پر جہاں بھی جاتے اور جو بھی کرتے، ا س کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں آتی تھی۔

مطیع سید: آپ ﷺ خود قریش سے نہیں لڑ رہے تھے اور جو لڑائی چھیڑ رہا تھا، اسے منع بھی نہیں کررہے تھے؟

عمار ناصر: آپﷺ تو اس لیے لڑائی نہیں کر رہے تھے کہ ان سے معاہدہ کر چکےتھے اور معاہدے کے پابند تھے۔ ابوبصیر کو کیوں منع کرتے؟ ان کا تو کوئی معاہدہ نہیں تھا اور وہ قریش کے مظلوم بھی تھے۔

مطیع سید: حضورﷺ نے ایک معاہدہ کیا اور ابو بصیر آپﷺ کے ایک ماننے والا تھے۔ کیااس معاہدے کی پابندی ان پر لاگو نہیں ہوتی تھی؟

عمار ناصر: بالکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ معاہدہ آپ نے اس حیثیت سے نہیں کیا تھا کہ میں پیغمبر ہوں اور میرے سب ماننے والے اس کے پابند ہوں گے۔ وہ اس حیثیت سے تھا کہ مدینے میں جو ہماری حکومت قائم ہے اور مدینے میں جو لوگ آپﷺ کی حکومت کے تحت رہ رہے ہیں، وہ اس کے پابند ہیں۔ مکے کے مسلمان تو نہ اس معاہدے میں شریک ہوئے تھے اور نہ اس کے پابند تھے۔ یہ مدینے کی حکومت اور مکے کے سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔

مطیع سید: آج جو فاٹا کے لوگ ہیں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ریاستِ پاکستان کی عمل داری میں نہیں آتے، ہم تو الگ ہیں، اس لیے ہم ریاست پاکستان کی پالیسیوں کے پابند نہیں؟

عمار ناصر: ا گر ان کی یہ بات درست ہے کہ ان پر ریاست پاکستان کی پالیسیوں کی پابندی لازم نہیں تو ان کا نتیجہ بھی ٹھیک ہے۔ ریاست پاکستان کی ان علاقوں کے ساتھ معاہدے کی کیا نوعیت ہے، یہ دیکھنا پڑے گا۔ اگر تو اس معاہدے کے مطابق وہ پاکستان کی سیاسی پالیسی کے اور پاکستانی آئین کے پابند ہیں توان کی بات ٹھیک نہیں ہے۔ اگر وہ ریاست کا حصہ ہیں تو ریاست کی رٹ وہاں پر قائم ہوگی۔ ریاست کا حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی خارجہ پالیسی ریاست سے الگ نہیں بنا سکتے۔ ان کے لیے قانونی نظام کے لحاظ سے اگر کوئی الگ بندوبست کیا گیا ہے تو وہ بھی آئین کی کسی Provision کے تحت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل میں توریاست پاکستان کا حصہ ہیں۔ میرے علم کی حد تک وہاں وہ عسکریت پسند گروہ تھے، ان کی مرکزی قیادت نے بھی ایسی کوئی دلیل نہیں دی۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس لیے ریاست پاکستان کے پابند نہیں ہیں کہ یہ جمہوریت پر قائم ہے جس کو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ گویا آئینی طور پر اور معاہدے کے مطابق ریاست کا حصہ ہونے کے بعد وہ نظریاتی بنیادوں پر اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے۔ یہ تو بغاوت ہوتی ہے۔

مطیع سید: آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جلد تم اہل روم کے ساتھ صلح کروگے اور ان کے ساتھ مل کر ایک دوسرے دشمن کے ساتھ جنگ کرو گے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۷)ایسا کب ہوا؟یا ابھی یہ واقعہ ہوگا؟

عمار ناصر: بظاہر جس طرح سے یہ بات بیان ہوئی ہے، تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے آگے چل کر کبھی ایسا ہو۔ لیکن بظاہر روایت کے انداز سے لگتا ہے کہ آپﷺ فوراً‌ مابعد کے جو حالات ہیں، اس کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ پیشین گوئیوں سے متعلق بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں بعض دفعہ بڑی نمایاں ہوکرواقعات کی صورت میں آجاتی ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کسی چھوٹی سطح پر ہواہواور تاریخ میں اتنا نمایاں نہ ہوا ہو۔

مطیع سید: یا ممکن ہے کہ رومیوں کے کسی گروہ سے صلح ہوئی ہو؟

عمار ناصر: ہاں جی، پیشین گوئیوں کا مصداق متعین کرنے میں بہت زیادہ احتمالات اور امکانات ہوتے ہیں۔

مطیع سید: ذی الخلصہ ایک بت خانہ تھا۔ آپ ﷺنے حضرت جریر سے فرمایا کہ کیا تم مجھے اس سے راحت کیوں نہیں دلا دیتے؟تو انھوں نے جا کر اس کو جلادیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی بعثۃ البشراء، حدیث نمبر ۲۷۷۲)اس کو کیوں جلوایا گیا اوریہ کس دور کا واقعہ ہے؟

عمار ناصر: بت خانے منہدم کروانے کے جتنے واقعات ہیں، وہ عام طورپر فتح مکہ کے بعد کے ہیں۔ اسی موقع پر آپﷺ نے مہمیں بھیجیں۔ ذو الخلصہ کو گرانے کے لیے آپ نے جریربن عبد اللہ کو مبعوث کیا۔ سرزمین عرب کو شرک اور بت پرستی سے پاک کرنے کی جو ذمہ داری آپ کو دی گئی تھی، یہ اسی کا حصہ تھا۔

مطیع سید: اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے (کتاب الضحایا، باب فی ذبائح اہل الکتاب، حدیث نمبر ۲۸۱۷) تو کیا وہ بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں گے تب جائز ہوگا یا اپنے طریقے سے بھی ذبح کر لیں تو وہ حلال ہے؟

عمار ناصر: نہیں، جس طریقے سے بھی انہوں نے اللہ کا نام لے لیا، اپنے مذہب کے مطابق جو بھی ان کے ہاں کلمات ہیں، وہ پڑھ لیے تو جانور حلال ہوگا۔

مطیع سید: جانور ذبح کیا اور اس کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آیا تو حدیث میں واضح طورپر آیا ہے کہ اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، حدیث نمبر ۲۸۲۷) لیکن احناف کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ نکلا ہو تو اس کو ذبح کیا جائے گا، ورنہ وہ مردار سمجھا جائے گا۔

عمار ناصر: ظاہری قیاس کے لحاظ سے احناف کی بات میں وزن ہے۔ پیٹ میں جو بچہ ہے، وہ ایک الگ وجود ہے، اس لیے اس کو الگ سے ذبح ہونا چاہیے۔ اس کی ماں کا ذبح کیا جانا اس کے لیے کافی نہیں۔

مطیع سید: لیکن احناف کے پاس دلیل کیا ہے؟

عمار ناصر: یہی کہ اس کا الگ وجود ہے۔

مطیع سید: اسی لیے محدثین اور احناف کی آپس میں بڑی لگتی رہی ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طورپہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جب نبیﷺ کی بات سامنے آگئی تو پھر قیاس کو کیوں اہمیت دی جا رہی ہے؟

عمار ناصر: اصل میں ائمہ احنا ف بھی اگر حدیث یا روایت کی صحت پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو وہ بھی ایسے سوال نہیں اٹھاتے۔ ان کے سامنے یا تو اس وقت تک بہت سی روایتیں پہنچی نہیں تھیں یا پہنچی تھیں تو اتنے مخدوش طریقے سے کہ اس پر انہیں اطمینا ن نہیں ہوا۔ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ قیاس چونکہ ایک بالکل مختلف بات بتا رہا ہے تو روایت کے ظاہری مفہوم میں تاویل کر لینی چاہیے۔ تو وہ اس حدیث کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں کا ذبح کیا جانا بچے کے لیے بھی کافی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے ماں کو ذبح کیا گیا، اسی طرح بچے کو بھی ذبح کیا جائے۔

مطیع سید: کیا اس بات کا بھی امکان ہے کہ احناف کے ہاں یہ رائے پہلے قیاس کی بنیاد پر قائم کر لی گئی ہو، اور بعد میں جب انہیں حدیث ملی تو انہوں نے حدیث کی تاویل کرلی؟

عمار ناصر: جی، یہ ممکن ہے۔ بہت سی مثالوں میں ایسے ہی ہواہے کہ روایت ائمہ کے سامنے نہیں آئی، انہوں نے ایک رائے قائم کرلی۔ بعد کے آنے والوں نے رائے نہیں بدلی اور حدیث میں تاویل کا طریقہ اختیار کر لیا۔ امام طحاوی نے تو کئی جگہ امام ابوحنیفہ کی آرا کی یہی توجیہ کی ہے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی تھی۔

مطیع سید: حدیث میں جب ہم الفاظ کی بحث کررہے ہوتے ہیں تو کئی دفعہ الفاظ پر بڑا انحصار کررہے ہوتےہیں۔ ہمیں کیسے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ الفاظ بعینہ حضورﷺ کے ہی ہیں؟

عمار ناصر: زیادہ سے زیادہ آپ ظنِ غالب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس روایت کے کئی طرق ہوں اور کچھ الفا ظ سب طرق میں مشترک آرہے ہیں تو اس سے آپ انداز ہ کر سکتے ہیں کہ یہ الفاظ آپﷺ کے ہیں۔ ورنہ عموماً‌ احادیث کی روایت بالمعنیٰ ہی ہوتی ہے۔

مطیع سید: مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۰) لیکن حضرت معاذ کے پاس ایک معاملہ لایا گیا جس میں ایک یہودی کا وارث ایک مسلمان بن رہا تھا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دے کر اسے وارث بنادیا کہ الاسلام یزید ولا ینقص، اسلام بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۳)

عمار ناصر: انہوں نے حدیث کی مراد کے متعلق گویا یہ اجتہادی سوال اٹھایا کہ مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے، کیا اس کا تعلق اہل کتاب سے بھی ہے یا یہ مشرکین کے بارے میں ہے؟ یہ بات کہی تو آپﷺ نے مشرکین کے تناظر میں ہی تھی۔ جس موقع پر آپﷺ نے یہ بات کہی، وہاں مکے کے مشرکین سے مسلمانوں کو وراثت ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ زیر بحث تھا۔ تو اس سے ایک گنجائش نکل آتی ہے کہ اہل کتاب کے احکام مختلف ہیں۔ تو اس سے بعض صحابہ اور تابعین نے یہ قیاس کیا کہ جیسے ہم ان کی عورتوں سے نکاح کر سکتےہیں، لیکن وہ ہماری خواتین سے نکاح نہیں کر سکتے، اسی طریقے سے ان کا مال تو مسلمانوں کو بطور وراثت مل جائے گا، لیکن مسلمان کی وراثت غیر مسلم کو نہیں ملے گی۔ حضرت معاذ کے یہاں الاسلام یزید ولا ینقص کی حدیث کا حوالہ دینے کا یہی مطلب ہے۔

مطیع سید: غزوہ ہند کی جو روایات ہیں، ان کو کیسے سمجھیں؟ کیا یہ روایات درست بھی ہیں یا نہیں؟

عمار ناصر: دو تین طرح کی روایتیں ہیں۔ محدثین ان پر بحث بھی کرتے ہیں۔ بعض کی سند پر جرح بھی ہے، لیکن کچھ صحیح بھی مانی گئی ہیں۔

مطیع سید: محمد بن قاسم جو ہندوستان میں وارد ہوا، یہ اس سے متعلق سمجھی جائیں یا مستقبل کے کسی واقعہ سے متعلق؟

عمار ناصر: فطری طور پر تو جو پہلا غزوہ تاریخ میں ہوا، اس پر اس کو منطبق کرنا چاہیے۔ شارحین کے ہاں یہ رجحان ہے کہ وہ کسی ایک خاص حملے کو متعین کرنے کے بجائے مختلف نمایاں واقعات کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ مثلاً‌ ابن کثیر نے محمد بن قاسم اور اس کے بعد محمود غزنوی وغیرہ کےحملوں کو بھی اس کا مصداق کہا ہے۔ لیکن شارحین اس کے متعلق واضح ہیں کہ اس کا مصداق تاریخ میں رونما ہو چکا ہے، یعنی یہ کوئی ایسی پیشین گوئی نہیں ہے جس کے ظہور کا ابھی انتظار ہے۔

مطیع سید: حضرت صفیہ بنت حیی کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور خیبر سے واپسی پر راستے میں ہی صحبت بھی فرمائی۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۱) اس سے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کوئی عدت نہیں گذاری۔ لیکن اگلی روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺنے انہیں ام سلیم کے گھر عدت کے لیے بھیج دیا۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۷)

عمار ناصر: عدت گذارے بغیر تو ظاہر ہے، زن وشو کا تعلق ممکن نہیں۔ البتہ جو عورتیں جنگ میں قیدی بن کر آتی ہیں، ان کی عدت تین ماہواریوں والی عدت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے ایک ماہواری کافی ہوتی ہے جس سے پتہ چل جائے کہ پیٹ میں کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلیم بھی خیبر میں ساتھ تھیں اور سیدہ صفیہ کو عدت مکمل ہونے تک ان کے پاس ہی رکھا گیا۔ پھر راستے میں جب ان کی عدت مکمل ہو گئی تو رخصتی بھی کر دی گئی۔

مطیع سید: بنو ثقیف کے لوگ فتح مکہ کے موقع پر زکوۃ اور جہاد سے استثنا کی شرط رکھتے ہیں اور آپﷺ قبول فرما لیتے ہیں۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی خبر الطائف، حدیث نمبر ۳۰۲۵) تو حضرت ابو بکر صدیق نے اس پر قیاس کر تے ہوئے کیوں مانعین زکوۃ کو رخصت نہیں دی؟

عمار ناصر: دونوں جگہ اصول مختلف ہیں۔ بنو ثقیف زکوٰۃ اور جہاد سے استثنا چاہتے تھے اور آپ نےاس کو اس مصلحت کے تحت عارضی طور پر قبول فرمایا کہ یہ لوگ اسلام کی طرف آجائیں تو بعد میں خود بخود یہ پابندیاں بھی قبول کر لیں گے۔ جبکہ جو مانعین زکوٰۃ تھے، وہ پہلے اسلام قبول کر چکے تھے جس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط شامل تھی اور اب انکار کر کے اس پابندی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ یعنی وہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے اور ان کی صورت حال مختلف تھی۔

مطیع سید: مجوس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی محرم خواتین کے ساتھ نکاح کر تے تھے اور حضرت عمر کے حکم پر ان کے ایسے نکاح ختم کر دیے گئے۔ (کتاب الخراج، باب فی اخذ الجزیۃ من المجوس، حدیث نمبر ۳۰۴۳) ان کے درمیان کیوں تفریق کی گئی حالانکہ اسلام دیگر مذاہب کو مذہبی آزادی دیتا ہے کہ ان کے مذہب کے مطابق جو درست ہو، اس پر عمل کریں؟

عمار ناصر: حضرت عمر کے بارے میں یہ روایت تو موجود ہے کہ انہوں نے ایسے نکاح ختم کروانے کا حکم دیا، لیکن یہ ایک شاذ روایت ہے۔ اس پر اسلامی تاریخ میں عمومًا‌ عمل نہیں ہوا۔ تابعین یہی بتا تے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے ہی چلا آرہا ہے کہ مجوس اپنی محارم سے نکاح کرتے ہیں اور ہمارے علما نے کبھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ حضرت عمر نے ممکن ہے کسی موقع پر شان ِجلالی میں ایسی کوئی بات کہہ دی ہو۔ عام طورپر اس پر عمل نہیں ملتا۔ فقہا کے ہاں بھی ایسے ہی ہے کہ وہ اس سے نہیں روکتے بلکہ ایسے نکاحوں کو قانونی طور پر جائز نکاح مانتے ہیں۔

مطیع سید: ایک جگہ میں پڑھ رہا تھا کہ ہندوستا ن کی جو زمین ہے، یہ ِ زمینداری کے خاتمے کے بعد عشری نہیں رہی اور یہاں پر عشر واجب نہیں رہا، لیکن تبر ک کے طور پر زمین کی پیداوار میں سے کچھ صدقہ کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ کیا ہندوستان اور پاکستان کی ساری زمینوں پر یہ حکم لگتا ہے؟

عمار ناصر: یہ بحث اٹھتی رہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور دوسرے لوگ اس کو اٹھاتے رہے ہیں کہ ہندوستان کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی۔ عشر تو اصل میں زکٰوۃ ہے جو مسلمانوں سے لی جاتی ہے۔ غیر مسلموں کی زمینیں فتح کی گئیں تو ان سے ظاہر ہے زکوۃ نہیں لی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ مسلمانوں کی اپنی خاص عبادت ہے۔ اس کی جگہ ان سے خراج لیا گیا۔ یعنی خراجی زمینیں دراصل مفتوحہ زمینیں ہوتی تھیں جو غیر مسلموں کے تصرف میں ہوں۔ اب اس میں کئی فقہی بحثیں پیدا ہوگئیں کہ عشری زمین کون سی ہوتی ہے اور خراجی زمین کون سی ہوتی ہے۔ کیا خراجی زمین عشری میں بدل سکتی ہے یا نہیں۔ یہ ساری اس تناظرمیں پیداہونے والی بحثیں ہیں۔ ہندوستا ن میں مسلمان جب یہاں آئے تو کسی نے ہو بہو ان احکام کی پابندی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خلفا اور بادشاہ اپنے طریقے پر محصولات عائد کرتے رہے۔ عشری اور خراجی کے علاوہ بھی زمینوں کی مختلف کیٹیگریز بن سکتی ہیں۔ اس سے آپ کوئی کلیہ اخذ کریں کہ اگر کوئی عشری زمین نہیں ہے تو لازماً‌ وہ خراجی ہوگی اور لازما ً‌ ریاست ہی کی ملکیت میں ہو گی، یہ ضروری نہیں۔ خراج وغیرہ سے متعلق اسلامی فتوحات کے دور میں جو قوانین بنائے گئے، وہ اجتہادی ہیں اور اس دور کے عرف سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ان سے اگر آپ کلی قانون اخذ کریں اور دنیا کے سارے علاقوں پر ان کو لاگو کریں تو یہ عجیب سی بات ہوگی۔

مطیع سید: تو پھر کیا حل نکلا کہ ہم آج کی زمینوں کو عشری کہیں گے یا خراجی؟

عمار ناصر: خراج کی تو آج کل بحث ہی نہیں ہے، کیونکہ آج کی جو قومی ریاستیں ہیں، ان کی زمینیں مفتوحہ زمینیں نہیں ہیں۔ اب جن مسلمانوں کے پاس زمینیں ہیں، وہ ان کی ملکیت ہیں اور وہ فصل اگاتے ہیں تو ان سے عشر وصول کیا جائے گا، اس طرح ان کو آپ عشری کہہ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی اراضی، چاہے وہ غیر مسلموں کی ملکیت ہوں یا سرکاری اراضی ہوں، ان کا سارا معاملہ اجتہادی ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس بہت سی زمینیں ہیں اور وہ انہیں کاشت نہیں کررہے، حکومت ان کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو کسی دور میں زمینیں الاٹ کی گئی تھیں تو حکومت ان سے واپس بھی لے سکتی ہے جیساکہ حضرت عمر نے نبی ﷺ کی الاٹ کی ہوئی زمینیں واپس لے لیں کہ لوگ انھیں کاشت نہیں کر رہے تھے۔ یا حکومت ان کو پابند کر سکتی ہے کہ ان زمینوں کو کاشت کرو۔ یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ملکیت انھی کی رہے، مگر ان کا انتظام حکومت سنبھال لےکہ ٹھیک ہے کہ تمہاری ملکیت میں ہی رہے گی، لیکن ان پر کاشت کاری کا عمل ہم اپنی نگرانی میں کروائیں گے۔ اصل چیز ہے کہ عمومی مصلحت کیا کہتی ہے۔ حکومت اس کو سامنے رکھ کر ان زمینوں کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

مطیع سید: آ ج کے دور میں حکومت اس میں کچھ دخل نہیں دے رہی۔

عمار ناصر: جی نہیں دے رہی، جبکہ اسے دخل دینا چاہیے۔

مطیع سید: تو کیا اگر یہ اجتہادی چیز ہے تو لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ وہ عشر دے دیتے ہیں تو ٹھیک، نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں؟

عمار ناصر: نہیں، اگر مسلمان کے پاس زمین ہے اور فصل اس مقدار کو پہنچتی ہے جس پر عشر واجب ہوتا ہے تو پھر زکوٰۃ دینی پڑے گی۔

مطیع سید: امام ابو داؤد نے ایک باب باندھا ہے کہ امام مشرکین کے ہدایا قبو ل کر سکتا ہے۔ اس میں ایک روایت کے مطابق آپ نے فدک کے سردار کا بھیجا ہوا تحفہ قبول فرمایا، لیکن دوسری روایت میں ہے کہ عیاض بن حمار کہتے ہیں کہ میں ایک اوٹنی تحفتا ً‌لے کر آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اسلام قبول کر چکے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں تو فرمایا کہ مجھے مشرکین سے تحفہ لینے کی ممانعت ہے۔ (کتاب الخراج، باب فی الامام یقبل ہدایا المشرکین، حدیث نمبر ۳۰۵۵، ۳۰۵۷)

عمار ناصر: اس کا تعلق حکمت اور مصلحت سے ہے۔ کلی طور پر نہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنے کی ممانعت ہے اور نہ قبول کرنا لازم ہے۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس طرح کے مشرکوں سے اور کس طر ح کی صورت حال میں ہدیہ قبول کیا جا سکتا ہے اور کب نہیں کیا جا سکتا۔ عیاض بن حمار کے واقعے میں شارحین لکھتے ہیں کہ غالباً‌ اس کا مقصد انھیں اسلام کی طرف راغب کرنا تھا۔ آپ نے محسوس کیا کہ ان کو محبت تو ہے، لیکن کسی تساہل کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر رہے تو مناسب سمجھا کہ ان کو ذرا متنبہ کر دیں تاکہ وہ اسلام قبول کر لیں۔

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(اپریل ۲۰۲۲ء)

اپریل ۲۰۲۲ء

جلد ۳۳ ۔ شمارہ ۴

مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین سے متعلق ہمارا موقف
محمد عمار خان ناصر

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

مطالعہ سنن ابی داود (۴)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۹)
مولانا سمیع اللہ سعدی

کم عمری کا نکاح: اسلام آباد ہائیکورٹ کا متنازعہ فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قادیانیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں فرق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق اور توہینِ قرآن و توہینِ رسالت کے الزامات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مسلم وزرائے خارجہ سے توقعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق
خطیب احمد

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)
ڈاکٹر شیر علی ترین

الشریعہ اکادمی کا سالانہ نقشبندی اجتماع
مولانا محمد اسامہ قاسم

ولی کامل نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒکی رحلت
مولانا ڈاکٹر غازی عبد الرحمن قاسمی

تلاش

Flag Counter