عزیزم ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے قادیانیوں سے متعلق اپنے موقف میں دو باتیں عام ماحول سے مختلف کہی ہیں۔
ایک یہ کہ قادیانیوں کے خلاف بات کرتے ہوئے اس حد تک سخت اور تلخ لہجہ نہ اختیار کیا جائے جسے بد اخلاقی وبدزبانی سے تعبیر کیا جا سکے۔ یہ بات میں بھی عرصہ سے قدرے دھیمے لہجے میں مسلسل کہتا آ رہا ہوں، بلکہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اور فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ کی ڈانٹ بھی پڑ چکی ہے۔ ان دونوں بزرگوں کی تلقین ہوتی تھی کہ مناسب اور مہذب انداز میں تنقید کی جائے اور بداخلاقی سے گریز کیا جائے۔
دوسری بات یہ کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد وہ ملک کی دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ برابر حقوق اور رویہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس میں مجھے تردد ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ امت مسلمہ اور دستور کا فیصلہ تسلیم کر کے اس کے مطابق چلیں تو انھیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق اور رویہ کا پورا حق حاصل ہے، لیکن وہ اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے بلکہ دنیا بھر میں اس قومی اور دینی فیصلے کے خلاف مورچہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں ان کا برابر کے حقوق اور رویہ کا تقاضا محل نظر ہے، کیونکہ اس طرح ان کی حیثیت دوسری غیر مسلم اقلیتوں سے مختلف ہو جاتی ہے جو الگ موقف کی متقاضی ہے، جبکہ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کی بات بھی میرے نزدیک اسی دائرے سے تعلق رکھتی ہے اور میں اس کے حق میں ہوں۔