(۱)
مکرم و محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب محمد ظفر اقبال صاحب کی تصنیفات کو اللہ تعالیٰ نے کافی پذیرائی عطا فرمائی ہے۔ خصوصاً ان کی تازہ تصنیف ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘بہت زیادہ قابل توجہ بنی ۔ گذشتہ سال ایکسپو سینٹر میں ’’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘ کے اسٹال پر رکھے گئے تمام نسخے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے ۔ مختلف جرائد اور اخبارات نے اپنے اپنے انداز میں اس پر جاندار تبصرے شائع کیے جو مذکورہ تصنیف کی اہمیت کا ثبوت ہیں۔
گذشتہ قریبا ایک صدی سے مسلم مفکرین کا مغرب کے ساتھ تعامل اس اصول کی بنیاد پر رہا ہے کہ ’’مغرب کی اچھی چیزوں کو لے کر بری چیزوں کو چھوڑ دیا جائے ‘‘مگر اچھے برے کی تمیز کے لیے عموماً اسلامی علمی روایت کے بجائے مغربی معیارات ہی کو اختیار کیا گیا اور چیزوں کو ان کے اپنے پس منظر میں سمجھنے کے بجائے محض جزوی مشابہت کی بنا پر اسلامیایا گیا ۔ اگرچہ بعض بہت اچھی تنقیدات بھی سامنے آئیں، مگر مجموعی طور پر مغربی اصطلاحات کی اسلامی تعبیر ہی پیش کی گئیں۔ آزادی، مساوات، ترقی، انسانی حقوق، رواداری، قومی ریاست، جمہوریت غرض کون سی چیز تھی جسے جزوی مشابہت کی وجہ سے مشرف بہ اسلام نہ ٹھہرایاگیا ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں غیر اسلامی اقدا ر (مغربی اقدار) سے جو نفرت تھی/ ہونی چاہیے تھی ، وہ رفتہ رفتہ کم ہو کر بالآخر ختم ہو رہی ہے اور اس طرح مسلمان مغربی تہذیب میں تحلیل اور ضم ہوتے چلے جارہے ہیں۔آج ’’ہولی‘‘، ’’دیوالی‘‘ اور ’’کرسمس‘‘منانا رواداری کی علامات ٹھہرائی جارہی ہیں جو روایتی اسلامی علمیات میں کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل سمجھی جاتی تھیں ، یہاں تک کہ اب ہمارے وزیر اعظم کو بھی عوام کی فلاح و بہبود لبرلزم میں نظر آنے لگی (یعنی اسلام انسانوں کے درمیان امتیاز کا معیار ہونے سے نکالا جارہا ہے)۔ ایسے میں’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘میں مذکورہ بالا مغربی اصطلاحات سمیت فطرت بطورماخذ دین ، عقل کی نقل پر بالادستی اور سائنس کو غیر اقداری اور حتمی سمجھنے جیسے تصورات پر نئے انداز سے جاندار تنقید کی گئی ہے ۔
جولائی کے الشریعہ میں ایک مضمون پڑھا جو آنجناب نے مذکورہ کتاب کے لیے بطورِ مقدمہ تحریر فرمایا ہے ۔ کسی کتاب کا مقدمہ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد علیٰ وجہ البصیرہ کتاب پڑھی جاسکے ۔ مگر حیرت ہے کہ آٹھ صفحے کی تحریر میں صرف چھ سطور میں مصنف اور کتاب کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد ہے ’’اگرچہ میرے خیال میں یہ مباحث اب پرانے ہوچکے ہیں‘‘۔ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی یہ مقدمہ پڑھ کر ان ’’پرانے مباحث‘‘ کے لیے اس مصروف ترین دور میں (کہ فیس بک اور یوٹیوب پر ہر آن نیا آنے والا مواد دستیاب ہے اور مقدمہ نگار خود ’’سرسری ورق گردانی‘‘پر مجبور ہیں) ساڑھے پانچ سو صفحے کی ضخیم کتاب پر مغز ماری کرے گا؟ اور وہ بھی فلسفیانہ مباحث، اس پر مستزاد روحِ عصر سے لڑانے والی تنقید)۔۔۔
لیکن اس کے بر خلاف لندن سے فلسفے میں پی ایچ ڈی، پاکستانی فلسفیوں کے کانگریس کے سابق صدر، معمر ڈاکٹر ابصار احمد صاحب کو اعتراف ہے کہ ’’چند حوالے میرے لیے بھی نئے ہیں‘‘۔
کتاب اور مقدمہ میں شدید تناقض پایا جاتا ہے۔ جن امور کو مولف نے رد کیا ہے ، مقدمہ میں ان ہی کو ’’مفید ‘‘قرار دیا گیا ہے جس سے قاری فکری الجھا ؤکا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ محترم مقدمہ نگار کی اپنی ترجیحات اور تصورات ہیں یا کتاب کی ’’سر سری ورق گردانی‘‘۔۔۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ محترم مقدمہ نگار نے کتاب پر آٹھ صفحات کا طویل مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ اتنا طویل مقدمہ اس بات کا غماز تھا کہ کتاب بہت اہم ہے، لیکن اس مقدمے میں متذکرہ تمام امور مفقود ہیں۔
آنجناب نے متعدد بار مقدمہ میں کسی مغربی پروفیسر کے امام ابو منصور ماتریدی پر ’’پی ایچ ڈی‘‘کی رو سے لکھا ہے کہ مغرب وحی سے رہنمائی لینے کی طرف لوٹ رہا ہے، جبکہ ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘میں مغرب کی چوٹی کے مفکرین اور فلسفیوں کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ مغربی اقدار کو حتمی نہ سمجھنے والا اور ان سے اختلاف کرنے والا موذی جراثیم ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے ۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ جدید انسان کا مسئلہ دین کا ’’عصری اسلوب‘‘ اور ’’نفسیاتی ضروریات‘‘سے عدم موافقت نہیں بلکہ ’’جدید انسان‘‘پیٹ اور نفس کا بندہ بن چکا ہے جسے اس سے نکالنے کے لیے ’’روایتی اسلامی علمیات‘‘(منہجِ اہل سنت) پر لانا ہے ۔
’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے مباحث اب پرانے ہوچکے ہیں ، لیکن جناب والا سمیت علما جو کچھ لکھ رہے ہیں اس میں نیا کیا ہے ؟ الشریعہ میں جن مباحث پر خامہ پرسائی کی جارہی ہے، ان میں کیا نیا ہے؟ اس لیے تمام علماء کرام سے درخواست ہے کہ مذکورہ کتاب کے مندرجات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ، اور مسلمانوں کی درست رہنمائی فرمائیں اور اگر کہیں غلطی ہے تو اس کی نشاندہی فرمائیں ۔
آنجناب سے ایک مودبانہ گذارش یہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب کو مذکورہ تحریر کتاب کے مقدمہ کے طور پر شامل کرنے سے روکیں کیونکہ یہ اس کتاب کا مقدمہ نہیں بن سکتا ۔اللہ ہمارے بڑوں کی مصروفیات کم کردے تا کہ عصر جدید کے مسائل میں ہماری درست رہنمائی فرماسکیں ۔
آخر میں گزارش ہے کہ اگر یہ خط ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کردیا جائے تو خوشی ہوگی۔
راقم حروف کا نام معراج محمد ہے ۔ گذشتہ مئی میں جامعہ دار العلوم کورنگی سے درسِ نظامی مکمل کرلیا ہے اور اس سال قرآن اکیڈمی یٰسین آباد سے وابستہ ہے ۔آبائی تعلق ضلع دیر پائین سے ہے ۔