(۱)
محترم جناب مدیر الشریعہ، گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے موقر مجلے کے تازہ شمارے میں ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب (صدر اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کے ایک خط کے جواب میں عبد الفتاح محمد صاحب کا عربی مکتوب پڑھا۔ مکتوب نگار نے پاکستان کے اہل تشیع کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور اسلام آباد میں شیعہ مدارس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’اسلام آباد میں سات شیعہ جامعات قائم ہیں جن میں سے سب سے چھوٹے جامعہ کا حجم بھی اہل سنت کی سب سے بڑی یونی ورسٹی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دارالحکومت کے وسط میں جامعۃ الکوثر قائم ہے جو اردو میں الکوثر ہی کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی چلا رہا ہے۔‘‘
میں اس خط کے ان مندرجات کے حوالے سے گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق ہم سے ہے۔ اپنے علاوہ دوسروں کے اعمال کی وضاحت یا دفاع سے ہمیں غرض نہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ خلاف حقیقت ہیں:
۱۔ میں اسلام آباد میں قائم دو مدارس کا مہتمم ہوں۔ ان میں سے جامعہ اہل بیت کا قیام ۱۹۷۵ء میں جبکہ جامعہ کوثر کا قیام ۱۹۹۲ء میں عمل میں آیا تھا۔ ان دونوں مدرسوں اور دو ٹی وی چینلوں ’’ہادی‘‘ اور ’’کوثر‘‘ کا سیاسی یا مالی یا انتظامی، کسی بھی لحاظ سے کسی غیر ملکی قوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جامعہ الکوثر کی تعمیر کے لیے فنڈ دینے والے اصحاب خیر کے نام جامعہ کی دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔
۲۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ایرانی قیادت، شیعہ مرجعیت کو ایران میں محدود کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس نے نجف اشرف سمیت تمام ممالک میں شیعہ مراجع کی مذہبی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی دینی مرجع کی حیثیت کو ختم کرنا کسی کے اختیار میں ہی نہیں، کیونکہ اہل تشیع کے ہاں دینی مراجع کسی سیاسی طاقت کے تحت نہیں ہوتے۔ شیعہ کے سب سے اونچے رتبہ کے دینی مرجع آج بھی عراق میں نجف اشرف میں ہیں۔
۳۔ ہماری اگر بیرون ملک کہیں نسبت ہے تو وہ عراق کے مرجع کے ساتھ ہے اور ہم عراق کے مرجع کی اجازت سے عوام سے شرعی اموال جمع کر کے ان سے دینی مدارس کا انتظام وانصرام چلاتے ہیں۔ یہ ایسی ہی نسبت ہے جیسے دیوبندی مدارس دینی علوم میں اعلیٰ مقام اور پختگی کے حوالے سے اپنی نسبت دار العلوم دیوبند کی کرتے ہیں اور وہاں کے علماء سے راہ نمائی لیتے ہیں۔
۴۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان کے شیعہ دراصل پاکستان کے نہیں، بلکہ ایران کے وفادار ہیں‘‘۔ میں اس پر اس کے سوا کیا تبصرہ کروں کہ انا للہ وانا الیہ راجعون! بخدا، ہم اپنے وطن عزیز پاکستان سے محبت رکھتے ہیں جو سب سے پیارا وطن ہے اور نواصب کو چھوڑ کر ہم یہاں کے رہنے والوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ا س کی مخالف قوتوں کے درمیان جنگیں چھڑنے پر ہماری پیش کردہ قربانیاں کسی طرح بھی دیگر باشندگان وطن سے کم نہیں اور اس وطن کی تعمیر میں بھی ہمارا حصہ بہت وافر ہے۔
مکتوب نگار کا یہ کہنا کہ ’’اگر خدانخواستہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو جائے تو وہ (پاکستان کے شیعہ) ایران کی طرف سے جنگ میں شامل ہوں گے‘‘ محض ان کے تخیل کی اپج اور بد گمانی کا کرشمہ ہے۔ یہ ایک بالکل بازاری سطح کی بات ہے جہاں نہ تو امانت داری کا کوئی لحاظ ہوتا ہے اور نہ خدا کا خوف۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جو نہ کبھی پہلے رونما ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اہل تشیع قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن اہل ایمان کے مابین جنگ چھڑنے پر دونوں گروہوں میں صلح کرانے یا زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلے میں کھڑے ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے۔ البتہ کسی مخصوص صورت حال کے تجزیے میں غلطی یا خطا کا ہو جانا ممکن ہے۔
۵۔ ہمیں پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی عسکری تنظیم کا علم نہیں جو شام میں جا کر لڑ رہی ہو۔ اگر ایسی کوئی مفروضہ تنظیمیں ہوتیں تو وہ پاکستان میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا دفاع کرتیں اور خود کش حملہ آوروں کے خلاف لڑتیں جو بے گناہ عورتوں اور بچوں کا خو،ن بہاتے رہتے ہیں اور مسلمانوں ، خاص طور پر اہل تشیع کی مسجدوں اور گھروں کی حرمت کو پامال کرتے رہتے ہیں۔
۵۔ مکتوب نگار نے دہشت گردی اور تکفیر کی نسبت بھی اہل تشیع کی طرف کی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے عالم تصور میں چیزوں کو بالکل الٹا دیکھتے ہیں۔
فاضل مکتوب نگار کے لیے مناسب تھا کہ وہ آداب تنقید کو ملحوظ رکھتے اور گفتگو کا مہذب لہجہ اختیار کرتے۔ ان کے قلم کے ناخنوں سے تو گویا خون کی بو آتی ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقائق کو جاننے کی توفیق دے اور حقائق کو مسخ کرنے کی جسارت سے ہمیں دور رکھے۔ اے اللہ! ہمیں افترا پردازی اور خواہشات کی پیروی سے محفوظ رکھ اور کینہ اور بغض کی بیماری میں مبتلا نہ فرما۔ بے شک تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔
محسن علی نجفی
مہتمم جامعۃ الکوثر، اسلام آباد
(۲)
واجب الاحترام برادر مکرم حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب، دام مجدہم جانشین حضرت امام اہل سنتؒ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے پہلے بھی ایک مضمون میں تحریر فرمایا تھا اور حالیہ ایک مضمون میں بھی اسی کو دہرایا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عید سے پہلے تقریر کو اور تراویح کے بعد دعاء کو بدعت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ عید سے پہلے تقریر کو بدعت نہیں بلکہ غیر اولیٰ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کسی بھی تقریر یا تحریر میں اس کو بدعت نہیں کہا۔ بدعت کے معاملہ میں تو وہ بڑے متشدد تھے جبکہ عید سے پہلے تقریر کے معاملہ میں وہ اپنے قریبی احباب کو بھی سختی سے منع نہیں فرماتے تھے جس کا اظہار آپ نے خود بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح تراویح کے بعد دعاء کو علی الاطلاق بدعت نہیں فرماتے تھے بلکہ فرض نمازوں کے بعد کی جانے والی دعاء کی طرح التزام کو بدعت کہتے تھے۔ میں نے بفضلہ تعالیٰ چار دفعہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ میں تراویح میں قرآن کریم سنایا۔ میں کبھی کبھی دعاء کیا کرتا تھا، کبھی انہوں نے نہیں روکا۔ بلکہ ایک دفعہ محترم جناب حاجی اللہ دتہ بٹ صاحب مرحوم بیمار تھے تو جب میں تراویح سے فارغ ہوا تو حضرت نے خود فرمایا کہ بٹ صاحب کے لیے دعاء کریں۔ اور ختم قرآن کریم کے موقع پر تو ہر دفعہ دعاء ہوتی تھی آخر وہ بھی تو تراویح کے بعد ہوتی تھی۔ حضرت نے اس بارہ میں فتاویٰ رشیدیہ کے حوالہ سے تحریر فرمایا بعد ختم قرآن کے دعاء مانگنا مستحب ہے خواہ تراویح میں ختم ہوا ہو خواہ نوافل میں۔ خواہ خارج نماز پڑھا ہو کہ بعد عبادت کے نماز ہو یا ذکر ہو اجابت کی توقع ہے۔ پھر اس کے بعد آگے لکھا بعد سنن و نوافل کے خاص التزام کے ساتھ دعاء مانگنا اس کا ثبوت حدیث شریف اور فقہ کی کسی کتاب میں نہیں بلکہ اس کا التزام بدعت ہے اس کا ترک ضروری ہے۔ (خزائن السنن ج ۲ ص ۱۳۸، ۱۳۹) اس لیے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جانب یہ نسبت کرنا کہ وہ تراویح کے بعد دعاء کو علی الاطلاق بدعت کہتے تھے تو یہ درست نہیں ہے۔
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوائی جہاز میں نماز کو ناجائز کہتے تھے تو یہ بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ میں نے خود کوئٹہ سے واپسی پر حضرت کے ساتھ باجماعت عصر کی نماز جہاز میں پڑھی اور بخاری شریف پڑھاتے ہوئے حضرت نے اپنے ایک سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہوائی جہاز میں باجماعت نماز ادا کی۔ بخاری شریف کی کیسٹوں میں اس کو سنا جا سکتا ہے۔
برادر مکرم! آپ حضرت والا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہیں، اس لیے حضرت کے نظریہ کی صحیح ترجمانی آپ کا فریضہ ہے۔ اس میں بے توجہی کا نتیجہ خلفشار پیدا کرتا ہے۔ اس لیے احقر نے ان مسائل کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھا۔
مخالفین کے بارے میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل کو پیش کر کے عزیزم عمارخان ناصر کے بے اعتدالی کی راہ پر چل کر اختیار کردہ نظریات کو تحفظ فراہم کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ حضرت نے کبھی آزاد خیال نظریات کے حامل لوگوں کی تائید نہیں فرمائی بلکہ حتی الوسع تردید ہی فرمائی۔ مودودی صاحب اور ان جیسے حضرات کی کھلم کھلا تردید اس کا بیّن ثبوت ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب عزیزم عمار خان ناصر نے چند فقہی مسائل میں اپنے آزاد نظریہ کا اظہار ایک رسالہ میں کیا تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اس کی تردید لکھنے کا حکم فرمایا۔ میں نے ایک مضمون تیار کر کے ان ہی دنوں عزیزم عمار کو بھیجا، مگر حیرانگی کی بات ہے کہ عزیزم عمار موافق و مخالف ہر طرح کے مضامین شائع کر دیتے ہیں، مگر میرا وہ مضمون ایسے انداز سے ردی کی ٹوکری میں پھینکا کہ اپنے کسی قریبی کو بھی اس کی خبر نہ ہونے دی۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے چند دن قبل جب آخری ملاقات ہوئی تو مجھ سے پہلے حضرت کے پاس کچھ حضرات حاضر ہوئے، انہوں نے عزیزم عمار کے بارہ میں کچھ باتیں کیں۔ جب میں حاضر ہوا تو حضرت پریشان تھے اور فرمانے لگے: ’’ایہہ ناصر کیہڑے پاسے ٹر پیا اے؟ تسی اینوں روکدے کیوں نئیں؟ توں تے اوہدا استاد وی ایں، اونوں سختی نال روکو۔‘‘ (یہ ناصر کس طرف چل نکلا ہے؟ تم اسے روکتے کیوں نہیں؟ تم تو اس کے استاد بھی ہو، اس کو سختی سے روکو)۔ عزیزم عمار سے جب بھی ملاقات ہوئی، اس کو اس راہ سے واپس لوٹنے کی تلقین کی، مگر سختی سے روکنا میرے بس کی بات نہیں۔ عزیزم عمار نے پہلے چند فقہی مسائل میں اپنے آزاد نظریہ کا اظہار کیا۔ پھر آگے بڑھ کر امت کی متفقہ آراء کے برخلاف نظریات پیش کیے۔ بے اعتدالی کی راہ پر اس کے قدم دن بدن آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ کہیں وہ مسلمہ اصول و عقائد پر بھی پنجہ نہ مار دے۔ اس صورت حال میں حکمت و مصلحت کو ملحوظ رکھ کر اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی ضرورت ہے جس کی اولین ذمہ داری حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور عزیزم عمار کے والد محترم اور مسلکی ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے آپ پر عائد ہوتی ہے۔ آپ کسی حد تک اس ذمہ داری کو نباہ بھی رہے ہیں، معلوم ہوتا رہتا ہے کہ آپ وقتاً فوقتاً مناسب انداز میں اس کو سمجھاتے رہتے ہیں اور اس کے مضامین پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی فرماتے ہیں۔ کاش آپ صرف تحفظات کہہ دینے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ تحفظات کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اپنے نظریہ کی وضاحت فرما دیتے تو بہت حد تک مسئلہ حل ہو جاتا اور چہ می گوئیوں کا سدّباب ہو جاتا اور بدخواہوں کے منہ بند ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھے اور عزیزم عمار کو جلد سے جلد بے اعتدالی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو صحیح راہ پر صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔
اگر میری یہ تحریر طبیعت پر ناگوار گزرے تو معذرت خواہ ہوں، مناسب سمجھیں تو شائع فرما دیں ورنہ مجھے مطلع فرما دیں۔
حافظ عبد القدوس قارن
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
یکم جون ۲۰۱۳ء‘‘
(۳)
استاذ محترم وعم مکرم جناب حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
والد گرامی کے نام آپ کا حالیہ خط مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک بات کی وضاحت مجھ سے متعلق ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ وہ آپ کی خدمت میں عرض کر دوں۔ وہ یہ کہ آپ نے چند فقہی مسائل کے ضمن میں میرے ایک مضمون پر اپنی تنقیدی تحریر کا ذکر ایسے انداز میں فرمایا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ میں نے آپ کی اس تنقید کو چھپانے کی کوشش کی، حالانکہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ میرا یہ مضمون’’فقہ اسلامی میں غیر منصوص مسائل کا حل ‘‘ کے زیر عنوان ’الشریعہ‘ کے اگست ۲۰۰۱ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس پر آپ نے ایک خط کی صورت میں، جو میرے نام لکھا گیا تھا اور آپ ہی کی طرف سے اس کی نقل دوسرے ذمہ دار حضرات کو بھی بھجوائی گئی تھی، اس بات کی نشان دہی فرمائی کہ بعض مسائل کے ضمن میں جس فقہی رائے کو ترجیح دی گئی ہے، وہ دیوبندی اکابر کی معروف آرا کے خلاف ہے۔ یہی مضمون انھی دنوں میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی نظر سے بھی گزرا تھا جو اس وقت ماشاء اللہ بقید صحت تھے۔ چنانچہ انھوں نے مجھے طلب کر کے فقہ اور اجتہاد کے ضمن میں اکابر دیوبند کی آراکی پابندی کے حوالے سے اپنا اصولی موقف سمجھایا اور میری طرف سے نظر ثانی پر آمادگی ظاہر کرنے پر ہدایت فرمائی کہ میں آئندہ شمارے میں ان چند امور کی وضاحت کر دوں اور بہ تاکید فرمایا کہ وضاحتی تحریر میں خود اپنے قلم سے تحریر کروں۔ یہ کم وبیش وہی مسائل تھے جن کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا تھا۔ حضرت رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں، میں نے ایک تحریر لکھی جو ’الشریعہ‘ کے اگلے شمارے (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں ’’چند علمی مسائل کی وضاحت‘‘ کے عنوان سے شائع ہو گئی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس واقعاتی پس منظر میں میرے حوالے سے آپ کی تنقید کو چھپانے اور ’’کسی قریبی کو بھی اس کی ہوا نہ لگنے‘‘ دینے کی شکایت درست ہو سکتی ہے، جبکہ خود آپ ہی کی طرف سے اس کی نقل متعدد حضرات کو بھجوا دی گئی تھی اور میں نے انھی مسائل کی وضاحت حضرت شیخ الحدیث کے حوالے سے آئندہ شمارے میں کر دی تھی۔ البتہ اگر آپ کا شکوہ یہ ہے کہ یہ وضاحت صرف حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حوالے سے کیوں کی گئی اور اس میں آپ کا ذکر کیوں نہیں آیا تو یہ شکوہ یقیناًبجا ہے اور اس کے لیے میں دلی معذرت پیش کرتا ہوں۔
امید ہے، نیک دعاؤں میں یاد فرماتے رہیں گے۔
محمد عمار خان ناصر
(۴)
جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
راقم کو حال ہی میں الشریعہ، مارچ ۲۰۱۲ء کا شمارہ، جو کہ جہاد کے موضوع پر ہے، تفصیل سے مطالعہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس میں مندرجہ ذیل سوالات میں حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی رائے معلوم کرنا مقصود ہے۔ بے شک جوابات اختصار کے ساتھ فرما دیے جائیں:
۱۔ قتال کی علت کیا ہے؟ (کفر، شوکت کفر، یا محاربہ اور فساد؟)
۲۔ کیا قتال اقدامی زمان ومکان کے حوالے سے محدود ہے یا نہیں؟ (یعنی جہاد اقدامی عہد رسالت وصحابہ اور جزیرۃ العرب کے ساتھ محدود ہے یا نہیں؟)
۳۔ علت قتال کے حوالے سے جزیرۂ عرب کے اندر اور باہر میں فرق ہے یا نہیں؟ (جزیرۃ العرب کے اندر علت ’’کفر‘‘ اور باہر ’’شوکت کفر یا محاربہ‘‘)
۴۔ شوکت کفر کے خاتمے کے لیے کافر کا ذمی بن کر جزیہ ادا کرنا ہی ضروری ہے یا امن معاہدہ بھی کافی ہے؟
۵۔ کافر حکومت کی طرف سے صلح کی پیش کش پر مسلمان حکومت کے لیے جہاد اقدامی کی استعداد رکھتے ہوئے کفار سے صلح کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری نہیں تو استعداد اور مصلحت نہ ہونے کی صورت میں بھی صلح کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
۶۔ اگر صلح کی جا سکتی ہے تو دائمی یا عارضی؟ مشروط یا مطلق؟
۷۔ جزیہ کفر کی سزا ہے یا ذی کے جان ومال کی حفاظت کا معاوضہ؟
۸۔ قتال اور جزیہ میں اصل کیا ہے؟
۹۔ کیا اتمام حجت ہو چکا ہے یا نہیں؟ (کیونکہ تبلیغی جماعت کے احباب کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا، جبکہ مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا)۔
۱۰۔ کیا رسول اللہ اور صحابہ کرام کے جہاد اقدامی کے اہداف محدود تھے یا نہیں؟
۱۱۔ کیا عہد رسالت وصحابہ میں غلبہ دین اور اس کی تکمیل ہو چکی ہے یا قرب قیامت میں مہدی اور عیسیٰ علیہما السلام کے ہاتھوں ہوگی؟ نیز غلبہ دین کا وعدہ کسی مخصوص خطے کے لیے تھا یا ہے یا پورے کرۂ ارض کے لیے ہے؟
۱۲۔ کیا جبر واکراہ کی مخالفت اور جہاد اقدامی کے احکام باہم معارض نہیں، اگر جہاد اقدامی قیامت تک کے لیے اور پورے کرۂ ارض کے لیے مشروع ہو تو؟
(نوٹ) الشریعہ میں ’’مکاتیب‘‘ کے عنوان کے تحت شائع فرما دیجیے گا۔
محمود الحسن عفی عنہ
جامعہ اشرفیہ ، القباء
جوہر ٹاؤن، لاہور