بندہ تقریباً چار پانچ سال سے پاکستان نہیں جا سکا تھا۔ وجہ پاکستان کے دھماکہ خیز حالات، بدامنی، دہشت گردی، علاقائی ولسانی جھگڑے۔ ان چیزوں نے ملک کو کسی علمی، دینی، اصلاحی کام کے لیے ناساز گار بنا دیا ہے۔ دوسرے، بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی وبے اعتمادی۔ دونوں طرف ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو نہایت طاقتور ہے اور وہ حالات کو بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور بڑی عالمی طاقتوں کا مفاد بھی دنیا بھر کے ممالک و قوموں کے لڑانے میں ہے۔
بندہ نے ۲۰۱۱ء کے اواخر میں اس خیال سے ویزا لے لیاتھا کہ رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرسکا تو چلا جاؤں گا۔ بھارت میں تقریباً سارے ہی احباب کایہی کہناتھا کہ آپ ہرگز نہ جائیں، اس لیے بندہ سفر کے متعلق شش وپنج میں تھا، کوئی فیصلہ نہیں کرپارہاتھا۔ اسی کشمکش کے عالم میں ۱۹ ؍ نومبر کو دہلی سے بذریعہ پی آئی اے لاہور روانہ ہوگیا۔ جہاز تقریباً دوگھنٹہ لیٹ چلا۔ رات تقریباً ۹بجے لاہور ائیر پورٹ پر حسب معمول جامعہ مدنیہ جدید سے مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کی گاڑی موجود تھی جو وہاں ہمیشہ میرے میزبان رہے ہیں۔ ۱۰ بجے رات جامعہ مدنیہ پہنچ کر مولانا کے دولت کدہ پر آرام کیا۔ صبح میرے شیخ حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے خادم خاص جناب رضوان نفیس اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ میر ے ذہن میں کوئی مرتب پروگرام نہیں تھا۔ صرف احباب،دوستوں،اکابرین سے ملاقات اور کتابوں کی تلاش کا سوچاتھا۔ من جانب اللہ خود بخود اس طرح پروگرام بنتا گیا کہ شایدہم خود نہیں بناسکتے تھے۔ احباب کے اصرار پر سفر کے مختصرحالات نہایت اختصار سے پیش خدمت ہیں۔
یہ ہمارے دور کی بدنصیبی رہی ہے کہ کسی بڑی شخصیت کے بعد ان کا کام اور روحانی سلسلہ اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضرت (شاہ نفیس رقم ؒ ) کے بعد یہی صورتحال پیش آئی۔ حضرت کی خانقاہ ومزار پر حاضری پہلی خواہش تھی۔ وہاں حضرت کے جانشین وپوتے جناب زید نفیس صاحب کے علاوہ دونوں گروپوں کے ذمہ دار رضوان صاحب اور جناب اشعر صاحب موجود تھے۔ بندہ نے تفصیل سے عرض معروض کی اور زور دیا کہ خانقاہ سید احمد شہیدؒ کوذکر وفکر اور تعلیم و تعلّم سے آباد کرنے کی طرف خاص توجہ دیں۔ یہ خانقاہ حضرتؒ کی امیدوں کا مرکز اور زندگی بھر کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حضرت کے آخری برسوں میں بے شمار لوگ یہاں سے مستفید ہوئے۔ آپ دونوں حضرات براہ راست ایک دوسرے سے ملیں اور خانقاہ کو علم وذکر سے آباد کرنے کے لیے منصوبہ بنائیں۔ ہر جگہ درمیانی واسطے ہی فساد اور خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ دونوں کو ایک دوسرے سے جوبھی شکایتیں ہوں، براہ راست گفتگو کریں۔ الحمد للہ دونوں حضرات اس پر آمادہ نظر آئے۔ اللہ کرے دونوں احباب شیر وشکر ہوکر خانقاہ ومدرسہ کی آباد کاری کرسکیں اور یہاں سے حضرت کا فیض جاری وساری رہے۔ پورے ملک میں ہر جگہ حضرت ؒ کے وابستگان نے بندہ کے ساتھ جس طرح شفقت ومحبت،اکرام واعزاز کا معاملہ فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ بندہ اس کا ہرگز مستحق نہیں ہے۔ بندہ ہر جگہ عرض کرتارہا کہ بھائی میں پیر نہیں ہوں، مجھے پیر نہ بنائیں۔ میں دین و ملّت کے کچھ اور ہی شعبوں میں کوشاں ہوں، ا س لیے خدارا مجھ سے پیر جیسا معاملہ نہ کریں۔ حضرت ؒ کے روحانی جانشین اور پوتے جناب زید نفیس صاحب ابھی کم عمر ہیں، مگر لگتاہے حضرتؒ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے صفات قبولیت سے نوازدیاہے۔ بندہ نے ان کو تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ پر گہرے مطالعے کا مشورہ دیا اور رفیق محترم جناب مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کو مکلف کیا کہ ان کے لیے ایک جامع نصاب تیار کریں۔
لاہور میں جہاں میر اقیام تھا، اس سے چند کلومیڑ کے فاصلے پر رائے ونڈ کا سالانہ عظیم الشان اجتماع ہورہاتھا۔ آج کل مجمع کی کثرت کی وجہ سے یہ اجتماع تقریباً پورے عشرے کا ہوتا ہے۔ پہلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو ملک کے آدھے حصہ کا جوڑ، درمیان میں چار پانچ دن مذاکرے اور مشورے، پھر اگلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو باقی آدھے حصے کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ حج کے بعد شاید دنیا میں سب سے عظیم الشان دینی ودعوتی اجتماع ہے۔ بندہ نے ازدحام سے بچنے کے لیے درمیانی دن میں حاضری دی۔ تمام بزرگوں اور دہلی، رائے ونڈاور دنیابھر کے احباب سے اطمینان سے مل سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ تقریباً ایک صدی سے تبلیغی جماعت کی بدولت بر صغیر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، عوام کا دینی واسلامی ذہن بنا، اسلامی تمدن ومعاشرت، مکاتب ومدارس خانقاہوں کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ حضرت مولانا الیاس کی شروع کردہ محنت کے سبب دین کے تمام شعبوں کو پانی پہنچا اور ا یہ ن کی تقویت وسرسبزی کا ذریعہ بنی، مگر آج کل یہ دیکھ کرافسوس ہوتاہے کہ کچھ عرصہ سے ایک خاص قسم کے مفاد پرست تنگ ذہن لوگ جنہیں بندہ اپنی اصطلاح میں ’’بنیا ذہن‘‘ کہتا ہے، ہر جگہ غلبہ پاتے جا رہے ہیں اور بہت سی جگہوں پر یہ لوگ دین کے دیگر شعبوں کے حریف بنتے جارہے ہیں۔ بندہ کو مولانا سعد صاحب سے بڑی توقعات تھیں، مگر کچھ عرصہ سے جو احوال سامنے آرہے ہیں، یہ توقع بھی ختم ہو گئی ہے۔ خداکرے، تبلیغ کاکام دوبارہ حضرت جی مولاناالیاسؒ اور حضرت مولانامحمد یوسف ؒ کے نہج اور طرز پرآجائے۔ بہرحال، ایک دن رائے ونڈ میں ملاقاتوں کے لیے رکھا تھا۔ صبح مولانا محمود میاں دامت برکاتہم نے گاڑی اور رہبرکاانتظام کردیا۔ رائے ونڈحاضر ی پر دنیابھرسے آئے ہوئے احباب سے اور خاص طور پر بھارت سے آئے ہوئے پندرہ بیس احباب اور انگلینڈکے دوستوں سے ملنا ہوا۔ بھائی عبدالوہاب صاحب (جوپاکستان میں تبلیغ کے روح رواں ہیں) کے ذہن وفکرپر ہمیشہ سے دعوت کا غلبہ رہاہے۔ اب وہ اس حالت میں ہیں کہ ان کی بات بھی بمشکل سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی انتہائی نقاہت وکمزوری دیکھ کرصدمہ ہوا، مگر جوش اب بھی جوانوں کا ساہے مگر اب ان کی باتوں میں تبلیغ کے متعلق غلوصاف نظر آنے لگاہے۔ فرمایا، علمائے کرام کام (تبلیغ) کی طرف توجہ نہیں فرمارہے ہیں۔ بندہ نے عرض کیا، علما کو اپنا کام کرنے دیں۔ وہ آپ ہی کا کام کررہے ہیں۔ سب علماء کویہاں بلا کر کیا کرنا ہے؟ آپ کے پاس ایسے لوگ کتنے ہیں جو علماء کو سنبھال سکیں؟
حضرت جی مولانا یوسفؒ کو ایک بار ٹرین کے سفر میں کانپور اسٹیشن پر حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ نظر آئے۔ فوراً آدمی دوڑا کر بلایا اور دو تین مسئلے جو اسی سفر میں پیش آئے تھے، دریافت کیے۔ پھر حسب عادت تبلیغ کے لیے وقت مانگا۔ مفتی صاحب ؒ نے فرمایا، اچھا، اب اپناکام نکلنے کے بعد تشکیل کرتے ہو! کچھ مولویوں کوچھوڑدیناچاہیے تاکہ بوقت ضرورت آپ کو مسئلہ بتاسکیں۔ جہاں تک تبلیغ کاکام ہے وہ ہم اپنے حصے کا پہلے ہی کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح کہ طالب علمی کے زمانے میںآپ کی ساری توجہ مطالعہ و تحقیق، تصنیف وتالیف کی طرف تھی اور تبلیغ کے کام سے آپ گریزاں تھے۔ اس لیے حضرت مولانا الیاسؒ آپ کے بارے میں بہت فکرمند رہاکرتے تھے، چنانچہ حضرت مولانا الیاس ؒ نے یہ ڈیوٹی ہماری لگائی تھی کہ ہم کوشش کرکے آپ کو تبلیغ میں لگائیں۔ ہم نے محنت و کو شش کر کے حضرت مولاناالیاسؒ کا دیاہواکام پوراکردیا یعنی آپ کو تبلیغ میں لگادیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کی تبلیغ! ہمیں حضرت مولانا الیاس ؒ نے جوکام سونپاتھا، وہ ہم پوراکرچکے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ علمائے کرام عام طورپر صرف ان اہل علم سے متاثرہوتے ہیں جنہیں تقویٰ وتعلق مع اللہ کے ساتھ رسوخ فی العلم بھی حاصل ہو نہ کہ کارگزاریوں کے نام پرکارناموں کی لا طائل داستانو ں سے۔ رفیق محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب ہر سال رائے ونڈ کے سا لانہ اجتماع کے موقع پر ایک دن کے لیے رائے ونڈ ضرور پہنچتے ہیں۔ کہنے لگے، گزشتہ رات گھنٹہ بھر بھائی عبد الوہاب صاحب کا بیان پوری توجہ سے سننے کی کوشش کے باوجود ایک لفظ سمجھ میں نہیں آسکا۔ بد قسمتی سے ہمارے تقریباً تمام ہی دینی شعبوں اور تنظیموں سے ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر ہی نہیں۔ جو جس جگہ گدی نشین ہوگیا، اب موت ہی اس کو ہٹاسکتی ہے، اس لیے سیکنڈ لائن (صف ثانی) کہیں تیار نہیں ہو رہی ہے او ر ہر حضرت کے بعد زبردست خلا اور قحط الرجال کا واویلا اور رونا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’شرح ثمیری علی القدوری‘‘ کے مصنف مولاناثمیرالدین قاسمی (مقیم یوکے) نے بتایا کہ بھارت کے سفر میں ایک بہت بڑے مدرسے میں، جس کا شمار اُمّ الدارس میں ہوتاہے، ایک بزرگ استاذ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ وہ عالمِ دین عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ نہ بول پاتے ہیں نہ ان کی پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔ ترمذی کادرس تھا۔ ایسی متعدد جگہوں پر جہاں طلبہ کو سمجھانے کی ضرورت تھی، طلبہ لفظی ترجمہ کرتے ہو ئے گزررہے تھے۔ کبھی کبھار حضرت ایک آدھا فتحہ فرمادیتے جو مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک عالم دین کی زندگی بھر کی علمی خدمت کی قدر دانی کے طورپر آخری عمر میں انہیں پڑھانے کی ذمہ داری سونپے بغیر اعزاز کے ساتھ تنخواہ دیں؟ اگر انہیں پڑھانے کا بہت ہی ذوق و شوق ہوتو چند باصلاحیت علماء ان سے استفادہ کریں۔ طلبہ کا حق کیوں مارا جائے اور ایک عالم دین کو روزی روٹی کے لیے کیوں اخیر وقت تک گھسٹ گھسٹ کر کام کرنا پڑے؟ اخیر عمر میں دنیاوی تعلیم گاہوں میں اعزاز کے ساتھ یکمشت رقم اور تاحیات پنشن دی جاتی ہے۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اپنی بھر پور قوت کے زمانہ میں رخصت ہوگئے۔ انہیں اس سلسلے میں اسوۃ حسنہ قائم کرنے کاموقع نہ مل سکاتو آج کے اکابرین بعد والوں کے لیے نمونہ قائم کر دیں۔
تبلیغی جماعت میں میر ے عزیر دوست مولانا فاروق صاحب (کراچی)مقیم سعودی عرب بڑی صفات کے مالک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضر ت مولانا سعید احمد خان ؒ کے بعد عربوں کو اگر کو ئی شخص متاثر کر سکااور عرب علماء وعوام جھنڈ کے جھنڈ کسی کے گر د جمع ہوئے تو وہ صرف مولانا فاروق صاحب ہیں۔ انہیں جیسے ہی بندہ کے پاکستان آنے کی اطلاع ہوئی، دیوانہ وار قیام گاہ(جامعہ مدنیہ جدید) پہنچے۔ میں لیٹ گیاتھا۔ کسی نے کہہ دیا کہ سوگیاہے۔ وہ واپس ہوگئے۔ دوسری رات ۱۲ بجے کے قریب دوبارہ پہنچے۔ دل کھول کربات چیت ہوئی۔ ان کی دعوتی دیوانگی کی وجہ سے فون پر رابطہ نہیں ہوپاتا۔ اللہ کرے، پاکستان کے اہل تبلیغ اب بھی ان کی صحیح قدردانی کرلیں۔ مولاناطا رق جمیل صاحب کے ساتھ اہل رائے ونڈ کا روّیہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقریباً ان سے گھنٹہ بھر ملاقات اور گفتگو رہی ۔ وہ بھی حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے مجاز ہیں۔ گویا اس نسبت سے بندہ کے پیر بھائی ہوئے اور حضرت کی خانقاہ کے نظام تعلیم کے ذمّہ دار بھی۔ اس سفر میں فیصل آباد میں ان کے مدرسہ میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں کی تعلیم میں دعوتی ذہن کے ساتھ عربی زبان پر قدرت امتیازی چیز ہے۔
لاہور کا سب سے بڑا مدرسہ جامعہ اشرفیہ ہے۔ حضرت مولانافضل الرحیم صاحب دامت برکاتہم لندن میں دعوت دے کر آئے تھے۔ حضرت نے بنفس نفیس جامعہ کا تفصیلی معائنہ کروایا۔ وہاں کا نظام تعلیم اور کام دیکھ کر بڑی مسر ت ہوئی۔ جامعہ اشرفیہ پنجاب کی سب بڑی اسلامی یونیورسٹی ہے۔ یہاں دینی شعبوں کی اعلیٰ تعلیم(اختصاص) کے ساتھ ساتھ عصری ضرورتوں پر بھی کماحقہ توجہ دی جارہی ہے۔ کمپیوٹر، انگریزی بحیثیت زبان، عصری موضوعات پر افراد کی تیاری وغیرہ۔ مولانا فضل الرحیم صاحب کی جدیدطرز کی خانقاہ دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔ بندہ نے عرض کیا کہ آج ایسی ہی خانقاہوں کی ضرورت ہے۔ بندہ بھی کوشش کرے گا کہ انگلینڈسے ذکر فکر اور ترتیب کے لیے علماء و طلبہ کو بھیجا جائے۔ دوپہر کا کھانا جامعہ اشرفیہ کے ایک استاذ کے گھر تھا، نہایت پر تکلف۔ خاص بات یہ ہوئی کہ حضر ت مولانا عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم مہتمم جامعہ بنوری ٹاون اور چند دیگراہم علماء کرام بھی کھانے میں ساتھ تھے ۔
حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب مد ظلہ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان اور ناظم وفاق المدارس نے اپنے لاہور کے سنٹر غالباً الخیر فاؤنڈیشن میں استقبالیہ دیا۔ یہ سنٹر نہایت خوشنما، جدید ضروریات سے آراستہ، عصری سہولیات اورتقاضوں کے اعتبار سے تیار کیا جا رہا ہے جہاں عصری موضوعات پر علماء کرام کو تیاری کرائی جائے گی۔ عصری چیلنجزسے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹریننگ دی جائے گی۔ مولانا جالندھری دامت برکاتہم نہایت فعال، زیرک اور عصری شعور رکھنے والی شخصیت ہیں۔ بعض قدامت پسند بزرگوں کی وجہ سے سنبھل کر اور آہستہ آہستہ کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے مستقبل کے منصوبے نہایت وسیع ہمہ گیر ہیں۔ فرمانے لگے کہ ہمارا رخ بھی اسی طرف ہے جس طرف آپ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ اللہ کرے، مولانا کی کاوشیں بار آور ہوں۔
جامعہ مدنیہ قدیم کریم پارک کے مہتمم حضرت مولانا رشید میاں دامت برکاتہم نے بندہ کو لاہور اور اطراف کے اکابر علماء ومشائخ سے ملانے کے لیے تقریباً پچاس ساٹھ اہم شخصیات کو کھانے پر مدعو کیاوہاں انگلینڈ۔ کے بندہ کے کرم فرماحضرت مولانا جسٹس خالد محمود بھی تھے۔ بندہ نے دل کھول کر گفتگو کی۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے بہت سے اکابر اور بزرگ حالات کی سنگینی،دینی شعبوں کی در ماندگی اور ان کے دن بدن غیر موثرہونے سے فکر مند اورپریشان ہیں۔ متعدد اکابر علماء اور بزرگوں نے اپنی پریشانی اور خدشات کا اظہار کیا۔ بندہ نے عرض کیا کہ دو باتیں نہایت تشویشناک ہیں: (۱) عوام علماء کرام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ (۲)ہمارا فکری دائرہ سکڑتاجارہاہے یعنی پوری انسانیت اور پوری ملت کے بجائے ہماری سوچ وفکر کی حدوداپنا ملک،علاقہ، طبقہ بلکہ اپنے ا پنے ادارہ و تنظیم تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ کچھ علماء تو ایسے ہوں جو پوری ملت اسلامیہ کواپنا جامعہ و ادارہ اور ملت کے مختلف طبقات( علماء کرام، جدید تعلیم یافتہ طبقہ، تاجر، کاشتکار، مزدور، طلبہوغیرہ)کو اپنی کلاسیں سمجھ کر ان سب کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ ہمارے اکابرین نے انگریز سے لڑکر ہمیں سیاسی آزادی دلوائی تھی، مگر ہم دوبارہ مغرب کے ہمہ جہت(سیاسی، عسکری، معاشی ،تہذیبی ،عملی فکری) غلام بن چکے ہیں۔ اب ایک اور جنگ آزادی لڑنی ہوگی، ورنہ دن بدن ہم بے بس ہوکر حالات کے سامنے سپر اندازہوتے جائیں گے۔
تنظیم اسلامی کے ڈائریکٹرو امیر جناب مولاناعاطف صاحب نے (جو مشہور مفسر قرآن جناب ڈاکٹر اسرار احمدصاحب کے صاحبزادے اور جانشین ہیں) اپنے سنٹر میں اپنے مخصوص رفقا کے ساتھ استقبالیہ دیا۔ بندہ کے ساتھ جناب رضوان صاحب اور جناب ڈاکٹر عبدالماجد صاحب (شعبہ عربی، پنجاب یونیورسٹی) اور چند احباب تھے۔ تقریباً دو گھنٹہ باہمی گفتگو وتبادلہ خیالات رہا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے بعد آپ کا مشن جاری وساری ہے۔ یہ معلوم کرکے بھی مسرت ہوئی کہ جناب عاطف صاحب نے اہل حق کے ایک سلسلہ میں بیعت بھی کرلی ہے۔ دعاہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب ؒ کے قرآن سمجھانے او رپھیلانے کا مشن اسی طرح ترقی کرتارہے۔ بندہ نے دیکھا کہ لاہور میں متعدد نوجوان علماء جدید شعبوں میں قابل قدر کام کررہے ہیں۔ ان میں ایک جناب رضا علی صاحب انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ادارہ نافع برائے اسلامیات و اقتصادیات گلبرگ لاہور کے ذریعے تاجروں کی دینی رہنمائی کے لیے اہم کام کررہے ہیں۔ اسی طرح جناب ڈاکٹر عبد الماجد صاحب و غیرہ بھی دینی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کالج و یونیورسٹیوں کے طلبہ بڑی تعداد میں دین کی طرف راغب ومتوجہ ہو رہے ہیں۔ اقبال نے کہاتھا:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے استحصالی حربے، مسلمانوں کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں، افغانستان، عراق، بوسنیا میں مظالم، اب شام میں اہل سنت کے متعلق مغرب کی منافقت نے نئی نسل کے سامنے مغرب کی اسلام دشمنی الم نشرح کردی ہے اور مغرب کی انسانیت دوستی،انسانی حقوق،مساوات و انصاف کی حقیقت کھول دی ہے اور نئی نسل کو اللہ ورسول کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کردیاہے۔ کاش علماء کرام اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاکر ان کی صحیح ومثبت رہنمائی کرسکیں اور انہیں ردّعمل کے طور پر انتہاپسندی کی طرف جانے سے روک سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب علما اور اخوان نے جس طرح دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف علمی وفکری کام کیاہے، وہ برصغیر میں نہیں ہوسکا۔ عرب ممالک کے حالیہ انقلابات میں وہاں کے تمام طبقات،تاجر، کاشتکار، ملازم پیشہ، جدید تعلیم یافتہ، مزدور حتٰی کہ اقلیتیں تک ان کے ساتھ میدان میں نکل آئیں جبکہ پاکستان میں افغانستان پر امریکی یلغار کے وقت جب دینی جماعتیں باہر نکلیں تو ان کے ساتھ صرف مدرسوں کے طلبہ اور کچھ دینی کارکن نظرآئے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں عرب ممالک کی دینی جماعتوں (علماء و اخوان) وغیرہ نے کبھی عوام سے پیسہ اور چندہ نہیں مانگا بلکہ اپنی آمدنی کا پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں حصہ حسب توفیق غریبو ں اور خدمت خلق کے کاموں میں خرچ کیا۔ ان کے رہنما ہمیشہ غریبوں میں رہے۔ ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ پیر ومشائخ ہوں یا مہتمم صاحبان یا تبلیغی امرا و اکابر، سب اہل ثروت میں گھرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، غریب آدمی سے ملنے اور ان سے بات کرنے کے لیے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آج ہندو پنڈتوں کی طرح دان دکھشنا(زکوٰۃ ،صدقات، ہدایا) پر راضی ومطمئن اور قانع ہوچکے ہیں۔ ملک کانظام اجتماعی تمام شعبے یہودونصاریٰ (مغرب) کی تیار کردہ قوتوں کے حوالے کردیے ہیں۔ ہمیں بس دان دکھشنا دیتے جاؤ، باقی ملک کو جس طرح چلاؤ ہمیں سروکارنہیں۔ اس ذہن کے ساتھ نہ ملک میں ترقی وتبدیلی لائی جاسکتی ہے نہ د ین کا غلبہ ہوسکتاہے۔
لاہور میں مشہور نقشبندی بزرگ جناب مقبول احمد نقشبندی دامت برکاتہم ملنے کے لیے تشریف لائے۔ کئی گھنٹے نشست رہی۔ آپ سلوک واحسان کی راہ سے بڑا کام کررہے ہیں۔ آپ کی جدوجہد مشرق بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) تک وسیع ہے۔ بندہ ان کی سادگی و انکساری، شفقت ومحبت اور دینی تمام شعبوں کی قدردانی سے بہت متاثر ہوا، جبکہ سال گزشتہ بھارت میں ایک پاکستانی نقشبندی بزرگ برکۃ العصر و قطب الاقطاب بن کر نازل ہوئے اور پروپیگنڈے کی بھرمارسے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا۔
بندہ کے سفر پاکستان کا ایک بنیادی مقصد کتب کی تلاش تھا، خاص طور پر ایسی کتب جن سے معلوم ہو کہ آج عالمی دجّالی قوتیں پوری انسانیت بالخصوص ملت اسلامیہ کو کنٹرول اور بے بس کرنے کے لیے کیا کیا منصوبے (علمی، فکری، تبذیبی، عسکری، سیاسی) بنا رہی ہیں۔ دنیا میں قومیں ر یسرچ وتحقیق کی بدولت ترقی کرتی ہیں۔ آج مغربی اقوام اپنی قومی آمدنی ((GDPکا چار سے چھ فیصد ریسرچ وتحقیق پر خرچ کرکے پوری دنیا کو غلام بناچکی ہیں۔ ایک اسکالر پندرہ بیس سال جان توڑ محنت کرکے کسی موضوع پر ریسرچ کرتاہے، پھر کوئی تصنیف وجود میں آتی ہے۔ عرب علماء کی ذہنی بیداری کے سبب ایسی تحقیقی کتب جلدی عربی میں ترجمہ ہو جاتی ہیں جبکہ اردو میں بہت ہی کم کتب کا طویل عرصہ کے بعد تر جمہ ہوپاتاہے، وہ بھی جدید تعلیم یافتہ کچھ باذوق افراد کرتے ہیں۔
بندہ اپنے کرم فرمامولانا مسعود میاں صاحب کے ہمراہ انار کلی کے اردو بازار میں خاک چھانتارہا۔ ہمارے دینی مکتبے فضائل ومسائل، درسی کتب کی شروحات، مواعظ وملفوطات، سوانح، عقائد وقصص کی کتب سے بھرے پڑے ہیں، ریسرچ وتحقیق برصغیر سے تقریباً رخصت ہوچکی ہے۔ خاص طور پر عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش مسائل و چیلنجز کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا۔ یہ سارے میدان کا فروں کے لیے مختص ہیں۔ بقول ایک ایرانی شاعر:
اے فرنگی ما مسلمانیم،جنت مالِ ماست
درقناعت حور و غلمان نازونعمت مالِ ماست
اے فرنگی اتفاق وعلم وصنعت مالِ تو
عدل و قانون ومساوات وعدالت مالِ تو
شغل عالم گیری وجنگ وجلالت مالِ تو
اس سفر میں ایک دن کے لیے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کی بستی ڈُھڈیاں ضلع سرگودھامیں بھی حاضری کا موقع ملا جہاں حضرت رائے پوری ؒ آرام فرماہیں اور آپ کے خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ ڈھڈیاں نہایت ہی پرسکون، پرفضا بارونق، بر لبِ نہر ایک نہایت چھوٹی بستی ہے۔ دل چاہا کہ چند دن دنیا کے جھمیلوں سے ہٹ کر یہیں رہ پڑیں۔ حضرت کے موجودہ جانشین اور مدرسہ کے ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ بندہ کے ساتھ نہایت ہی محبت شفقت اعزازواکرام کا معاملہ فرمایا۔ حضرت رائے پوری ؒ کے مزار پر دیر تک سوچتا رہا کہ حضرت نہ مقرر تھے نہ مصنف، لیکن برصغیرکے دور آخرکے اکابرثلاثہ میں شمار ہے۔ تعلق مع اللہ، ملت کا درد وغم، وسعت ظرفی کی بدولت کیاکچھ کرگئے۔ جو درِ دولت پر پہنچ گیا، اس کے دل کی دنیاآباد ہوگئی۔ آج سب کچھ ہے، بڑے بڑے شاندار جامعات، ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات، شعلہ بیان مقررین، تک مگردلوں کی بستی ویران۔
ایک دن کے لیے رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب دامت برکاتہم کے ہاں گوجرانوالہ جانا ہوا۔ بندہ کے ساتھ کرم فرما رضوان نفیس صاحب، جناب عبدالماجدصاحب بھی تھے۔ مولانا نے الشریعہ اکیڈمی میں اجلاس رکھا تھا۔ تھوڑے وقت میں شہر واطراف کے چیدہ چیدہ لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ بندہ نے عصر حاضر کے مسائل پر گفتگو کی۔ معلومات کی حد تک برصغیر کے علماء میں مولانا زاہدالراشدی ایسی شخصیت ہیں جن کی تحریریں نئی نسل کے لیے شعور وآگہی اور راہِ عمل فراہم کرتی ہیں۔ مولانا راشدی صاحب کی سادگی، انکساری، تواضع لوگوں کے لیے حجاب بن گئی۔ آج کے عصری مسائل و چیلنجز پر مرتب ومرصع تحریروتقریر مولانا کا امتیاز ہے۔ قوتیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو اپنے صحیح لوگوں اور اپنے محسنوں کی ناقدری کرتی ہیں۔ برصغیر میں مولانا راشدی کی صفات والا شخص دُوردُور تک نظر نہیں آتا۔ اس بار عزیزی عمار ناصر صاحب میں کافی تبدیلی نظر آئی۔ ان میں پختگی کے ساتھ سنجیدگی ومتانت نظر آئی۔ ان کی تحریریں علم وتحقیق کا مرقع ہوتی ہیں۔ موضوع پر گرفت کے اعتبار سے برصغیر میں ان کے ہم عصروں میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا۔ بندہ نے عمار صاحب سے ایک بار کہا کہ آج ضرورت دین کی نئی تعبیروتشریح کی نہیں، بلکہ تجدیدایمان کی ہے۔ ہر دور میں تجدید ایمان (ایمان میں اتنی قوت پیدا کر دی جائے کہ ہر حالت میں احکامات پر چل سکے) سے نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے جیسے آخری دور میں سید احمد شہیدؒ ، مولانا الیاسؒ اور شیخ حسن البناء وغیرہ نے کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر جمادے ۔
ایک دن کے لیے فیصل آبا د جانے کا موقع ملا۔ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑاشہر ہے۔ یہ صنعتی شہر پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ وہاں کے دینی جامعات میں جانا ہوا۔ خاص طور پر حضرت مفتی زین العابدین،ؒ مولاناطارق جمیل صاحب اور میرے شیخ حضرت شاہ نفیسؒ کے متعلقین کے مدارس میں۔ میں ظہر کی نماز کے بعد فیصل آباد کے معروف جامعہ امدادیہ میں اساتذہ کرام اور طلبہ سے تفصیلی خطاب کا موقع ملا۔ جامعہ امدادیہ کا نظم ونسق، نظام تعلیم، طلبہ کے اخلاق و آداب، علم سے وابستگی دیکھ کرمسرت ہوئی۔ خاص طور پر مفتی محمد زاہد صاحب سے مل کر خوشی ہوئی جن کے مضامین عرصہ سے ’الشریعہ‘ میں پڑھ رہا تھا۔ صاحب مطالعہ اور محقق ہیں اور قلم پر اچھی دست رس ہے۔
لاہور میں اپنی قیام گاہ جامعہ مدنیہ جدید میں ایک دن صبح بھارت کے مظاہر العلوم کے مولاناشاہد صاحب مع رفقا کے تشریف لائے۔ ان سے وہاں ملاقات نعمت غیر مترقّبہ معلوم ہوئی۔ جامعہ کے مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم سے بندہ کی مناسبت اور دلی تعلق ہے۔ مولانا بندہ کی راحت رسانی اور ہر طرح کے انتظامات پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ جامعہ مدنیہ میں طلباء کرام سے ایک دن تفصیلی گفتگو کی۔ جامعہ کے متعدد اساتذہ کرام ملنے آتے رہے، خاص طور پر مولانا مفتی محمد حسن صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں خاص طور پر مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کو شایانِ شان جزائے خیر عطافرمائے اور ان کے فیوض وبرکات کو عام فرمائے، آمین۔ اسلام آباد کے لیے احباب اور کرم فرمادوستوں کا شدیداصرار رہا۔ مولانا فیض الرحمن صاحب میرے خاص کرم فرماہیں۔ باربار دعوت دی۔ خود مولانا راشدی صاحب چاہتے تھے کہ اسلام آباد کا سفر ضرور ہو، مگر وقت کی قلت کے سبب آئندہ کسی اور وقت کے لیے ملتوی کرنا پڑا، اس لیے کہ وہاں کے لیے کم ازکم تین یا چار دن چاہییں۔ اتناوقت بندہ کے پاس نہیں بچاتھا۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ؒ کے ہاں تعزیت کرنی تھی، ان کے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب سے بعض موضوعات پر گفتگو کرنی تھی، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اور دعوہ اکیڈمی کی مطبوعات خاص طور پر بیسویں صدی کے عظیم اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ(پیرس) کی مطبوعات خریدنی تھیں، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح لاہور میں مجلس احرار کے مرکزی دفتر میں میر ے عزیز دوست اور احراری رہنماومجلس احرار کے سیکرٹری جنرل جناب عبدالطیف چیمہ صاحب نے دوستوں سے ملاقات اور باہمی تبادلہ خیالات کے لیے ایک شام نشست کا پروگرام ترتیب دیا۔ گفتگو کاموضوع تھا ’’ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘۔ بندہ نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ اتفاق سے اسی مجلس میں شبیر احمد میواتی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے قائد اعظم کی زندگی اور سیاسی سوچ پر ایک ضخیم تنقیدی کتاب ’’توصاحب منزل ہے کہ بھٹکاہوا راہی‘‘ (مصنف: نور محمد قریشی ایڈووکیٹ) پیش کی جو ان سے دوستی کا ذریعہ بن گئی۔ ملتان سے حضرت امیر شریعت ؒ کے نواسے اور میرے کرم فرما مولانا سید کفیل شاہ بخاری صاحب دامت برکاتہم اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ بندہ کو دو نہایت علمی تحفے عنایت کیے: (۱) ماہنامہ ’’احرار‘‘ کا حضرت مدنی ؒ نمبر (۲)ماہنامہ احرار ہی کا ’’امیرشریعت ؒ نمبر‘‘۔ تعجب ہے، احرار کا مشن غلامی کے دور میں نہایت ہمہ گیر ووسیع تھا۔ احرار مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعی مسائل میں کوشاں رہی۔ (دیکھیے ’’تاریخ احرار‘‘ از جانباز مرزا) لیکن آزادی کے بعد احرار عقیدۂ ختم نبوت تک سکڑ کر رہ گئی، بجائے اس کے کہ مسلمانانِ پاکستان کے اجتماعی مسائل میں رہنمائی کرتی۔ آج کل برصغیر میں ہم لوگوں نے ملک وملت کے تمام سیاسی، معاشی، تعلیمی، تہذیبی مسائل مغرب کی دجاّلی طاقتوں کے ایجنٹوں کے سپرد کر دیے ہیں۔ تاریخ تلاوت کے لیے نہیں ہوتی، ماضی کے واقعات وطرز عمل سے سبق سیکھنے کے لیے اور مستقبل کے لیے راہِ عمل کی درستی کے لیے ہوتی ہے۔ ہم بڑی آسانی سے حضراتِ صحابہؓ سے اجتہادی غلطیوں کے صدور اور ائمہ اربعہ سے بے شمار فقہی مسائل میں خطاوغلطی کا احتمال تو تسلیم کرتے ہیں، مگرماضی قریب (بیسویں صدی) کے اکابرین سے کسی سیاسی یااجتماعی مسئلہ میں اجتہادی خطا کے احتمال کے تصور تک کو کفروگمراہی سے کم نہیں سمجھتے۔ پھر ماضی کی کسی غلطی کی درستی کی کیاصورت ہو؟
واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں جنگ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں علماء حق نے دیں جس کے طفیل آزادی نصیب ہوئی، مگر انگریزکے نکلتے ہی یہ عجیب فیصلہ ہو اکہ ہم ملک کو آزاد کرکے اپنا کام کرچکے ہیں، اب ہم اپنے دینی شعبوں میں واپس جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انگریز کے نکل جانے سے سارے مسائل خود بخود حل ہو گئے؟ انگریز سو سالہ نظام تعلیم سے جو کالے انگریز پیدا کرکے انہیں اپنا جانشین بناکرنکلا، کیا ان کا رخ اسلام کی طرف ہوگا؟ حقیقی مسائل تو اب آزادی کے بعد پیداہوئے تھے کہ ملک کی تعمیر وترقی کس نہج پر ہو، کس قوم وطبقہ کی کیاپوزیشن ہو، مستقبل میں ملک کا رخ کیا ہو! علماء حق جنہوں نے ڈیڑھ سوسالہ جنگ آزادی میں زبردست قربانیاں دیں، اسی طرح تحریک پاکستان میں جب تک اسلام کا نام استعمال نہیں ہوا اور علماء کی حمایت حاصل نہ ہوئی، لیگ کی د و سیٹوں کی بھی حیثیت نہیں تھی۔ آزادی کے بعد ملک کی صحیح تعمیر وترقی اور درست رخ پر رکھنے کے لیے علما ودینی قوتوں کا میدان میں رہناضرور ی تھایا میدان چھوڑجانا اور ملک کوپوری طرح لارڈ میکالے کی معنوی اولاد کے حوالے کردینا؟ انگریز کے نظام تعلیم نے ایسی پوری نسل تیار کر دی تھی جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی، لیکن فکر وسوچ تہذیب ومعاشرت کے اعتبار سے انگریز تھی۔ اسلام وکفرکا معرکہ تاقیامت ہے۔ ٹھیک ہے، پاکستان کے مسئلے پر علماء لیگ سے ہار گئے تھے، لیکن کسی محاذ پر شکست کے بعد جنرل کو چاہیے کہ وہ میدان ہی چھوڑجائے یا اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے ازسر نوتیاری کرے؟ کیا ملک اور تمام مسائل کو کالے انگریز کے حوالے کردیناسادہ لوحی نہیں تھی؟ حالات اور نتائج دن بدن روز روشن کی طرح ثابت کرتے جارہے ہیں کہ میدان چھوڑدینے کافیصلہ نادرست تھا۔ ہم اس فیصلہ کو اجتہادی غلطی سے تعبیر کرسکتے ہیں جس میں مجتہد کو ایک اجر بہرحال ملتاہے، لیکن بعد والوں کے لیے ضروری ہے جو درست پہلوسامنے آجائے، اُسے اختیار کریں۔ جب سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں لڑائی کے مقام کے تعین اور قیدیوں کے بارے میں اپنی رائے کے بجائے بعض اصحاب کی رائے پر صاد کیا تو اب یہ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کسی بڑی شخصیت کی رائے پرہی تاقیامت اصرار کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تن آسانی، راحت وآرام طلبی، عافیت کی خاطربعض ایسے بڑوں کے وقتی فیصلوں کوآڑ وبہانہ بنالیاہے جن کی پوری زندگی مجاہدہ ومیدان عمل میں گزری تھی تاکہ ہماری عافیت پسندی اور عیش وراحت میں خلل نہ آئے۔ انگریزکے دور میں وڈیرہ زمین دار جاگیردار بننے کے لیے اپنے ملک وقوم اور ملت سے غداری کر کے انگریز کے لیے کام کرنا پڑتاتھا۔ آج وڈیرہ وہ بھی اسلامی وڈیرہ بننے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ کسی سلسلے کی خلافت یادینی جامعہ کا اہتمام مل جائے۔ عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت اخوان المسلمین کے سارے ادارے اور وسائل واثاثے جماعت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً چلانے والے، منتظمین، ٹرسٹی، پرنسپل سب ہی بدلتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تمام دینی ادارے، جامعات، تنظیمیں نسلاً بعد نسل خاندانی وراثت بن کررہ گئی ہیں جن پر خاص خاندانوں کی اجارہ داری وتسلط قائم ہے۔ کسی جگہ باصلاحیت افراد کی گنجائش نہیں، صرف خوشامدی ٹٹوؤں کا بول بالاہے۔ کیا کسی قوم وملت کے پنپنے کا یہی طریقہ ہے؟ جس اسلام نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پراصرار نہیں کیا کہ وہی اقتدار پر فائز رہے تو بزرگوں کی اولاد ہی سب کچھ کیوں؟ یہ بنی اسرائیل کی امت نہیں کہ باپ کے بعد بیٹاہی ہو بلکہ امتِ محمدیہ ہے۔ یہاں کبھی عرب سے، کبھی عجم سے، کبھی مشرق سے، کبھی مغرب سے، کبھی کسی علاقے سے اور کبھی کسی خاندان وقبیلہ سے اٹھ اٹھ کر لوگ اسلام کا بول بالاکرتے رہیں گے۔
لاہورسے دوستوں اوراحباب کو الوداع کہہ کر بذریعہ پی آئی اے کراچی روانہ ہوا۔ حضرت مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم حسب معمول باوجود علالت طبع کے بنفس نفیس رخصت فرمانے ائیر پورٹ تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے احسانات کاشایانِ شان صلہ عطا فرمائے۔ کراچی ائیرپورٹ پر جامعۃ الرشید کے مولاناصادق صاحب منتظر تھے۔ ان کے ہمراہ بیس منٹ میں جامعۃ الرشید پہنچ گئے۔ جامعۃالرشید ایئر پورٹ اور شہر کے درمیان واقع ہے۔ جامعۃ الرشید کے متعلق متعدد احباب خاص طور سے مولانازاہدالراشدی سے بہت کچھ سن رکھاتھا کہ یہاں دینی و عصری تعلیم کی یکجائی کا منفرد تجربہ ہورہاہے۔ ایسے افراد تیار کیے جا رہے ہیں جو اعلیٰ دینی تعلیم اور ضروری عصری تعلیم کے حامل ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ ۱۲۰۰ سال تک ہماری اصل روایت یہی رہی ہے۔ دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر برصغیر پر انگریزی اقتدار تک ہماری درس گاہیں دینی وعصری تعلیم کے امتزاج کا مثالی نمونہ ہوتی تھیں۔ یہاں ایسے افراد تیار ہوتے تھے جو ملت اسلامیہ کی دینی ودنیوی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔ پوری بارہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی دنیوی ضرورت کے لیے آج کی طرح کسی دوسرے ملک اور قوم کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔ ہماری یہی درس گاہیں بہترین علما وفقہا،خطبا بھی پیدا کرتی تھیں اور دنیا کے بہترین طبیب، انجینئر، مورخین، جغرافیہ دان، سائنسدان، عسکری وانتظامی ماہرین بھی پیداکرتی تھیں۔ انگریز کے تسلط کے بعد جب اس نے برصغیر میں سیکولرنظام تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کواسلام و قرآن سے بیگانہ کرکے عیسائی بنانے کی جدوجہد شروع کی تو اللہ ہمارے اکابرین کی قبروں کو نور سے بھر دے، انہوں نے بروقت دین و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے مدارس کے ذریعے دینی نظام تعلیم کی بنیاد رکھی۔ یہ بڑامبارک اور صحیح فیصلہ تھا جس کی بدولت برصغیر دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا، مگر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ حالات کے جبر کے تحت دفاعی اور وقتی فیصلہ تھا۔ ان بزرگوں نے ساتھ ہی اسلام کے غلبہ اور انگریزکو نکال کر دوبارہ برصغیر کو اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد بھی شروع کی جس میں وہ بوجوہ کا میاب نہ ہوسکے۔ اس وقتی پالیسی و فیصلہ کو بدقسمتی سے دائمی پالیسی اور ہمیشہ کے لیے طرزِعمل قرار دے دیا گیا اور ہم نے دائمی طور پردینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کو قبول کرلی۔ ہمیں خوب سمجھنا چاہیے کہ یہ دینی وعصری تعلیم کی تفریق انگریز کی لعنت و نحوست کی باقیات ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مذہبی طبقہ کبھی دنیا میں خلافت ارضی پر متمکن نہیں ہو سکتا۔ آج علوم میں دین ودنیاکی تفریق ہماری تباہی و ذلت کا اصل بنیادی سبب ہے اور جب تک ہم اس لعنت کو ختم نہیں کرتے، ہمیں محتاج، محتاج اور محتاج ہی رہناہے، نہ صرف مغرب اور کفریہ طاقتوں کا بلکہ اپنے ملکوں میں بھی انہی دجالی قوتوں کے ایجنٹوں کا۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینے سے خطرات ٹل نہیں جائیں گے بلکہ مردانہ وار اس چیلنج کا مقابلہ کرکے نظام تعلیم کواصل نہج پر لانا ہوگا جو دور نبوت سے کے لر انگریز کی آمد تک تھا۔
غرض تشریعی وتکوینی علوم کی یکجائی آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور جامعہ الرشید اس یکجائی کا بہترین نمونہ نظرآیا۔ جامعۃ الرشید کے مختلف شعبے مثلاً کلیۃ الشریعہ اور ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبے دیکھے۔ یہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ’’برصغیرکو انگریز نے کس طرح لوٹا‘‘ پر ایک نہایت موثر ومعلوماتی ڈاکومنٹری دیکھی۔ اسے ہر عالم بلکہ ہر مسلمان کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ کسی دینی درسگاہ نے پہلی بار ذرائع ابلاغ کی عصری تکنیک پر ایسی زبردست اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جامعۃ الرشید اپنی نظافت، حسن تعمیر، طلبہ کی تربیت وشائستگی، نظام تعلیم ہر اعتبار سے ممتاز نظر آیا۔ شاید بندہ کے ذوق کو سامنے رکھ کرہی مولانا راشدی نے میر ایہاں قیام تجویز کیاتھا۔ جامعۃ الرشید نے گزشتہ چند سالوں میں جس طرح برق رفتاری سے ترقی کی، یہ دینی مدارس کے لیے نیک فال ہے۔ یہاں بندہ کو متعدد بار گفتگو کا موقع ملا۔ جامعہ کی عظیم الشان مسجد میں تفصیلی خطاب کے علاوہ اساتذہ کرام، کلیۃالشریعہ کے طلبہ، فقہ المعاملات (اسلامک اکنامکس) کے طلبہ سے مفصل بات کی۔ اذان چینل نے تفصیلی انٹر ویو کیا۔ انورغازی صاحب روزنامہ جنگ اور روزنامہ اوصاف کے کالم نگار و صحافی ہیں اور ان کے کالم نہایت اثر انگیز ومعلوماتی ہوتے ہیں۔ بندہ سے ملنے کے لیے کئی بار تشریف لائے۔ اپنی متعد دتازہ تصانیف عنایت کیں اور بندہ کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ کراچی قیام کے دوران رات کا قیام جامعۃ الرشیدہی میں رہا۔ یہیں سے ہر جگہ آنا جانا رہا۔ روزانہ رات گئے تک محفل سجتی جس میں متعدد طلبہ واساتذہ کرام تشریف لاتے۔ جامعۃ الرشید کے صدر مفتی مولانا محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد ثاقب صاحب ہر وقت بندہ کے ساتھ رہے۔
کراچی پورا ایک ملک ہے۔ کوشش کی کہ کم سے کم وقت میں اہم اداروں اور شخصیات سے ملاقات ہو جائے۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے وقت لے کر ملنے کے لیے ان دونوں حضرات (مفتی محمدصاحب اورمولانا سفیر احمد ثا قب صاحب) کے ساتھ دارالعلوم کورنگی پہنچا۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی محسوس ہوا گویا کسی عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی میں پہنچ گئے ہوں۔ حضرت مولانا کچھ علیل تھے، دولت کدہ پر ہی حاضری دی۔ اور بھی چند مخصوص حضرات موجود تھے۔ تقریباً بیس پچیس منٹ ملاقات و استفادہ رہا۔ بلاشبہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم برصغیر کی منفرد شخصیت اور برصغیر کے علما کی آبرو وسرتاج ہیں۔ ملاقات کے بعد دارلعلوم کی وسیع و خوبصورت مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ حسن اتفاق سے بندہ کی پچھلی صف میں مولانا زبیراشرف صاحب (مفتی اعظم پاکستا ن حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم کے اکلوتے صاحبزادے وجانشین اور دارالعلوم کے استاذِحدیث) تھے۔ نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ کی ملاقات خلاف توقع نعمت غیر مترقبہ ہے۔ زور دیا کہ آپ یہیں قیام کریں، یہاں ہر قسم کی سہولت وراحت میسر ہوگی اور نہایت اصرار سے اسی وقت کھانے کی دعوت دی۔ بندہ نے عذر کیا کہ ابھی حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات طے ہے۔ فرمایا کہ کل دوپہر کی دعوت قبول کرنی ہی ہوگی۔ بندہ نے عرض کیا کہ شام تک بتادوں گا۔ دوسرے روز مفتی محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد صاحب کے ہمراہ پرتکلف دعوت کا لطف اٹھایا۔ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم سفر میں تھے۔ فون پر بات کروائی گئی۔ حضر ت نے بندہ کی آمد پر نہایت مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اس سیاہ کارکے متعلق اس قدر بلند کلمات فرمائے جسے بندہ اپنے لیے ذخیرہ آخرت سمجھتاہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے کرم سے حضرت مفتی اعظم دامت برکاتہم کے حسن ظن کے مطابق بندہ کو ایسا بنادے، آمین۔ سہ پہر تین بجے کے قریب حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے دولت کدے پر انہی دونوں رفقا کے ساتھ حاضری دی۔ حضر ت مولانا کی صحت کئی دنوں سے علیل چل رہی تھی۔ تین دنوں سے اسباق بھی بند تھے۔ حضرت مولانا نمونہ اسلاف اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ حضرت کی عیادت کے بعد بندہ گفتگو کرتارہا جس کا موضوع علماء کرام کو جدید چیلنجز وتقاضوں سے واقفیت کی ضرورت، اسلام کی تعلیم ودعوت کے لیے جدید ترین ذرائع کے استعمال، دینی وعصری تعلیم کے فاصلوں کو کم کرنا وغیرہ وغیرہ تھے۔ تقریباً پچیس منٹ کے بعد دعائیں لے کر وا پسی ہوئی۔ حضرت دامت برکاتہم کی صحت انتہائی نحیف و کمزور نظر آئی۔ حضرت سے ملاقات پر اللہ کا شکرادا کیا۔ بعد میں پتہ نہیں وہاں آنا ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے سایہ کو تادیر امت کے سروں پر باقی رکھے، آمین۔
واپسی پر مفتی محمد صاحب نے فرمایا کہ آج تو معجزہ ہو گیا۔ بندہ نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا، میں حضر ت کا شاگرد ہوں۔ جامعہ فاروقیہ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ جن موضوعات پر گفتگوکررہے تھے، حضرت ایک جملہ بھی نہیں سن سکتے۔ فوراً برا فروختہ ہوجاتے ہیں، مگر آج حضر ت نے نہایت بشاشت سے آپ کی پوری بات سنی اور آخر تک مسکراہٹ حضرت کے لبوں پر تھی اور آپ کو دعاؤں سے نوازا۔ بندہ نے عرض کیا کہ یہ بندہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے۔ اس دور کے تقریباً سارے ہی اکابرین سے بندہ کوایسا ہی دلی تعلق و محبت ہے۔
زوّار اکیڈمی کے ڈاکٹر عزیزالرحمن صاحب سے ملنے زوّار اکیڈمی پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب سے مولاناراشدی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی نسبت سے غائبانہ تعارف تھا۔ خاص طور سے ششماہی رسالہ ’’السیرۃ‘‘ کی وجہ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ نہایت محبت وشفقت سے پیش آئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو رہی۔ زوّاراکیڈمی پورے برصغیر کاایک منفرد ادارہ ہے جہاں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گرانقدر علمی وتحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ہرچھ ماہ بعد تقریباً چار پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم علمی وتحقیقی مجلّہ نکل جاتاہے۔ اب تک تیس کے قریب شمارے آچکے ہیں۔ گویا یہ اکیڈمی پورے برصغیر کے علماء کی طرف سے فرض کفایہ اداکررہی ہے۔ آج پیر پرستی اور گانا بجانے کے انداز کے مقررین کا دور ہے۔ ان حالات میں خالص علمی وتحقیقی ادارے خون جگر سے چلائے جاتے ہیں۔ اس سطحیت اور زوال علم کے دور میں علمی و تحقیقی کام پِتہ مارنے اور جانکاہی کا کا م ہے۔ اللہ تعالیٰ زوّار اکیڈمی کے منتظمین کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب سے بڑی مناسبت اور دلی تعلق پیداہوا۔ لندن پہنچ کر بھی برابر فون پر رابطہ ہے۔ بندہ کو اکیڈمی کی تمام تصانیف عنایت کیں۔
کراچی کا اسی طرح کا ایک قابل ذکر اور قابل قدر علمی ادارہ ’’مجلس علمی‘‘ بھی ہے جو حضرت بنوری ؒ کے داماد اور مشہور محقق و مصنف مولانا محمد طاسین صاحبؒ کی یادگارہے۔ اب آپ کے صاحبزادے علم وتحقیق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ بندہ کے ساتھ بڑی محبت و اکرام کا معاملہ فرمایا۔ مجلس علمی کا کتب خانہ قابل دید اورقابل استفادہ ہے۔ یہاں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو علمی کام اور پی ایچ ڈی وغیرہ میں مطالعہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے خالص علمی و تحقیقی اداروں کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ پاکستان شریعت کونسل کے صدر، بندہ کے محسن وکرم فرما حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی دامت برکاتہم کے جامعہ میں بھی حاضری دی اور اساتذہ کرام اور منتہی طلبہ سے گفتگو کی۔ اسی طرح جامعہ بنوری ٹاؤن، دفتر روزنامہ اسلام، بلڈبینک، دار الافتاء وغیرہ میں تھوڑی تھوڑی دیر حاضر ہوکر معائنہ و استفادہ ہوا۔ بہت سی جگہوں پرباوجود شدید اصرار اور خواہش کے نہیں جا سکا جس میں خاص طور پر مولاناجمیل فاروقی صاحب کا ادارہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور صدیقی ٹرسٹ شامل ہیں۔
مفتی محمد صاحب اور مولاناسفیراحمد صاحب کے ہمراہ ایک یاد گار سفر حیدرآباد کا ہوا جہاں بندہ کے ایک خاص کرم فرما مشہور صحافی و مصنف ومفکرجناب مولانا موسیٰ بھٹو صاحب بڑا کام کر رہے ہیں۔ آپ ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’بیداری‘‘ تقریباً پچیس تیس سال سے سندھی زبان میں اور گزشتہ کئی سال سے اردو میں نکال رہے ہیں۔ آپ کی کئی درجن ضخیم علمی و تحقیقی وفکری تصانیف ہیں۔ خاص طور پر بیسوی صدی کے علماء،مفکرین ،مشائخ پرمنفرد کام ہے۔ شروع جوانی میں جماعت اسلامی سے سے متاثر ووابستہ رہے، پھر ایسا ردّعمل ہواکہ غلو کی حد تک تصوف کی طرف جھکاؤ ہو گیا۔ کئی سال سے آپ کی تحریریں گویا تصوف کی دعوت تھیں۔ بندہ کوشاں رہا کہ اعتدال پر لایاجائے۔ اب کافی اعتدال پیدا ہو رہا ہے۔ مولانا موسیٰ بھٹو کی زندگی مسلسل ایک مشن ہے۔ شب وروزعملی، فکری دعوتی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ کوئی معاون ومددگا ربھی نہیں۔ سوچنا، لکھنا، کمپوزکرنا، چھاپنا، لو گوں تک پہنچانا، ایک مشین کی طرح رات دن مصروف عمل۔ آپ کی ہستی پورے سندھ میں باطل افکار اور نظریات کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ کمیونسٹ، ترقی پسند، جی ایم سید کے حامی، قوم پرست، سوشلسٹ اوراپنوں میں جو مولانا عبیداللہ سندھی کی فکرکی غلط تشریح کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء ؑ کی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد مترفین (حکمران، اہل ثروت، استحصالی طبقہ) کو پست کرکے مستضعفین (کمزور طبقات اور غریبوں) کو ان کی جگہ اختیارات واقتدار سونپنا تھا وغیرہ۔ غرض موسیٰ بھٹو صاحب کی تقریباً نصف صدی سے تمام باطل نظریات و افکار کے خلاف چومکھی لڑائی جاری ہے۔
موسیٰ بھٹو صاحب نے پر تکلف ضیافت کی۔ دل کھول کرباتیں ہوئیں۔ سال بھر کے رسالوں کے علاوہ درجنوں تصانیف میرے دونوں رفقا کوبھی ہدیہ دیں۔ بندہ نے اپنے دونوں ہم سفروں سے کہا کہ اس آدمی کی قدر کریں، ان کے بعد ان کا کوئی نعم البدل پورے سندھ میں نہیں ملے گا۔ بندہ کے نزدیک اس وقت سب سے اہم کرنے کے کام تین ہیں: (۱) دعوت یعنی غیروں کو ایمان و اسلام پہنچانا۔ یہی سارے انبیاء ؑ کا اصل مشن تھا۔ (۲)تذکیر یعنی حضرت مولاناالیاسؒ نے جو کام کیا، مسلمانوں میں آخرت کی فکر پیداکرنا، زندگیوں کو خواہشات سے احکامات کی طرف لانا اور ان کا اللہ سے رشتہ جوڑنا۔ (۳)خدمت خلق جو سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے سے تقریباََ پندرہ سال پہلے شروع فرمایا تھا، حتی کہ پورے عرب میں آپ کا عام تعارف وپہچان خدمت خلق کا بن گیا تھا۔ ان تین کاموں کے بعد ہی دین کے سارے شعبے ہیں اور دین کے دیگر شعبوں والوں کو بھی اپنے اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ یہ تینوں کا م کرنے پڑیں گے، تب دین کے ان شعبوں میں روح اور صحیح تاثیر پیدا ہوگی۔
جامعۃ الرشید حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کی یاد گار ہے۔ بندہ کی بہت پہلے لندن میں حضرت سے ملاقات ہوئی تھی۔ بندہ نے مزاج میں کچھ سختی وشدت محسوس کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اتنا عظیم وہمہ جہت کام لیا کہ عقل حیران ہے۔ عصر حاضر میں حضرت کے اخلاص کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔ آپ نے اپنے تمام کاموں، شعبوں، اثاثوں کو اپنی اولاد کے بجائے (جو ماشاء اللہ نہایت لائق، صالح اور عصری تعلیم میں ممتاز ہے) اپنے ہونہار اور باصلاحیت شاگردوں کے سپردکیا۔ ان میں سب سے بڑھ کر مفتی عبد الرحیم صاحب ہیں جن سے ملاقات کا اشتیاق رہ گیا کہ مفتی صاحب حجاز مقدّس میں تھے۔ احباب نے فون پر کئی بار بات کروائی۔ مفتی صاحب نے ہر بار یہی فرمایا کہ آپ تشریف لائے اور میں یہاں اتنی دُور ہوں۔ کتنے عرصے سے آپ سے ملاقات کا متمنی تھا۔ بندہ عرض کرتارہا کہ آپ قبولیت دعا کے مقامات پر ہیں، اس سیہ کار کے لیے دعا کردیجیے۔ لندن پہنچ کر فون پر بات ہوئی تو فرمایا کہ جامعۃ الرشید واپس پہنچ کر ہر طرف آپ کی خوشبو اور آپ کی باتوں کے چرچے ہیں۔ اللہ کرے مفتی صاحب سے جلدی ملاقات کی کوئی تقریب پیداہو۔
بندہ اس سفر میں نوجوان فاضل مولانا عدنان کاکاخیل کی صلاحیتوں اور قوّتِ عمل سے کافی متاثر ہوا۔ آپ اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیرگل ؒ کے بھائی کے، جو خود بھی بڑے عالم اور فاضل دیوبند تھے، پوتے ہیں۔ حضرت مولانا عزیر گل ؒ حضرت شیخ الہندؒ کے خادمِ خاص، جید عالم دین اور مشہور مجاہد آزادی تھے۔ چند سال قبل جب عدنان کاکاخیل صاحب نے پاکستان کے ڈکٹیٹر وصدر جنرل مشرف کو بالمشافہہ اپنی تقریر میں للکاراتھا، وہ منظر بندہ نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے بچائے اور ان کی زبردست صلاحیتوں سے ملت اسلامیہ پاکستان کو فائدہ پہنچائے۔ آپ ہر ماہ تقریباََ تین ہفتے جامعہ فریدیہ اسلام آباد اور ایک ہفتہ جامعۃ الرشید (کراچی) کے مختلف شعبوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ملاقات پر کہنے لگے کہ طویل عرصہ سے آپ سے ملنے کا متمنی تھا۔ جب آپ کا پہلا مضمون پڑھاتھا تو مولانا راشدی صاحب سے آپ کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ شروع زندگی کا بڑا حصہ تبلیغی جماعت میں گزرا، مگر ’’جراثیم‘‘ ہمارے والے ہیں۔ کہنے لگے کہ آج ہی اسلام آباد واپسی کا دن ہے، مگر کچھ دن آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ غرض چار پانچ دن مزید بندہ کے ساتھ ٹھہرے رہے۔ لندن پہنچ کر بھی عدنان صاحب سے برابر رابطہ ہے۔ اسلام آباد میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں دینی تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں کہنے لگے کہ آج کل ایک ایسا فورم تشکیل دینے میں لگاہوا ہوں جہاں ملت کا درد اور فکررکھنے والے مختلف طبقات، مختلف مسالک کے اہل علم و اہل فکر سر جوڑکر بیٹھیں، غور و خوض کریں اور جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کریں اور دنیاکواسلام کا مثبت پیغام پہنچائیں۔ دعاہے اللہ تعالیٰ عدنان صاحب کی کا وشوں کو بار آور فرمائے اور ان کو بہترین رفقائے کار فراہم کرے ۔ آمین یا رب العالمین۔