مصنف: ڈاکٹر سید سجاد حسین
ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، 35ڈی، بلاک 5فیڈرل بی ایریا کراچی، 75950
صفحات 352، قیمت درج نہیں
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے‘ ٹھٹھرتی طویل راتیں سال بھر کی خوش گوار اور تلخ یادوں کو تازہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان خوش گوار راتوں‘ چمکتے سنہرے دنوں اور ماضی کی خوش گوار یادوں میں 16دسمبر اپنی ناخوشگوار اور تلخ یادوں کی وجہ سے اداس کرنے والا بھی ہوتا ہے، جب ایک نظریہ اور ملت کی بنیاد پر وجود میں آئی، نظریاتی مملکت دولخت ہوئی، اور اغیار نے یہ طعنہ دیا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ سنہری ریشوں کی سرزمین کا تاحد نظر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لہلہاتا بے داغ سبزہ اور اس کی سب بہاریں لسانی فتنہ کی نذر ہو گئیں۔ مہربان راتیں بے مہر ہو گئی تھیں۔ انھی بے مہر بے درد لمحوں کی روداد کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد نے اپنی تصنیف کردہ کتاب The wastes of Time میں بیان کیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’شکست آرزو‘‘ سقوط ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔
ڈاکٹر سید سجاد حسین بنگال کے ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا‘ بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی، نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ’’پاکستان‘‘ جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور ’’کامریڈ‘‘ میں بھی مضامین لکھتے رہے۔
زیر نظر کتاب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ دو قومی نظریے کے بارے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے 24سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ ہی برطانوی راج سے مسلمانوں کی آزادی دو قومی نظریے اور اس کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی سرگزشت‘ مسلم لیگ کے قیام 1906سے 1947 تک شرح و بسط کے ساتھ بیان کی ہے۔
بنگالی زبان میں مسلمانوں کی ادب کے محاذ پر کمزوری، دینی اور تاریخی لٹریچر نہ ہونے کی وجہ سے بنگالی قوم پرستوں اور ہندوؤں نے تمام صورت حال کو دو قومی نظریے کے خلاف جس طرح استعمال کیا اس کی مکمل تفصیل دی اور ساتھ ہی تاریخی حوالوں اور منطقی دلائل سے ان کی تردید بھی پیش کی گئی ہے۔ انھوں نے بنگلہ قوم پرستی اور لسانی تعصبات کے حوالے سے قوم پرستوں کے بے بنیاد دلائل کے رد میں نہایت بیش قیمت علمی لوازمہ مہیا کیا ہے۔
یہ یادداشتیں انھوں نے 1973میں دوران قید قلم بند کیں، جب بقول آسکروائلڈ جیل کی زندگی انسان کے جذبات کو سخت کر کے پتھر بنا دیتی ہے۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد‘ جیل میں گزرے ایام، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، لوٹ مار کی تفصیلات اور وہاں موجود اہل کاروں کے رویے بیان کیے ہیں۔ ڈھاکہ جیل میں اتنی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ پہلے کبھی قیدی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان قیدیوں میں اکثر لوگ پی ایچ ڈی‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ، علمائے کرام، یونی ورسٹی اور کالجز کے طلبا شامل تھے۔ غیر بنگالی افراد کو وقتاً فوقتاً تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، اس دوران بعض تو دم توڑ گئے۔ چھاپہ مار راہ نماؤں کے سامنے غیر بنگالیوں کی شناختی پریڈ ہوا کرتی تھی اور وہ جس کو چاہتے لے جاتے اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ یہ سلسلہ 1972کے موسم گرما تک چلا۔ (ص نمبر71-70)
جیل میں موجود اپنے ’’باغی‘‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات‘ سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری سپیکر فضل القادر چوہدری، عبدا لصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اختر فاروق قابل ذکر ہیں۔ ان ساتھیوں میں ایک ایس بی زمان تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن بعد میں شیخ مجیب الرحمن کے انتہا پسندانہ اقدامات کے خلاف بغاوت کر گئے تھے اور پاکستان کے متحد رہنے پر زور دیتے تھے۔ (ص نمبر67) اسی طرح فضل القادر چوہدری جو ہمیشہ پاکستان کے خیر خواہ اور نظریہ پاکستان کے وفادار رہے اور جب ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا تو وہ اس قدر بدحواس ہوئے کہ مجیب الرحمن کے اعلان آزادی کی حمایت کر دی اور اس کے برعکس سابق گورنر عبدالمالک نظریہ پاکستان کے مزید قائل ہو گئے اور وہ سمجھتے تھے کہ ’’پاکستانیوں‘‘ نے نظریہ پاکستان سے انحراف کر کے بڑی غلطی یہ کی ہے۔ فاضل مصنف نے 4ابواب ان موضوعات پر لکھے اور ہر شخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔
خواجہ ناظم الدین کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی زعیم خواجہ خیر الدین جو طویل عرصہ تک ڈھاکہ کے وائس چیئرمین رہے‘ ڈھاکہ میں مجیب الرحمن مخالف حلقوں میں اہم کردار کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنے اوپر عدالت میں لگائے گئے غداری کے الزام کا پوری جرات سے دفاع کرتے ہوئے پاکستان اور اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے عزم اور بے باکی کے ساتھ بیان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے حالانکہ ان کے دوستوں نے ان سے عدالتی بیان میں ذرا نرمی سے کام لینے کے لیے کہاتھا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔
مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبہ کے علاوہ بنگال کے عام دیہاتی افراد کو زبان کے معاملہ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ ہندوؤں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا، دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوں‘ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز کیا، جس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار یعنی خواجہ ناظم الدین، اور حسن شہید سہروردی کو بنگلہ زبان سے معمولی واقفیت تھی۔
کتاب کے اہم ترین ابواب وہ ہیں جن میں مصنف نے لسانی مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی اور واضح کیا کہ برصغیر میں وحدت اور یکجہتی ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر ہی قائم رہی ہے۔ اگر نظریات اور مذہب کے بجائے لسانیت کی کوئی اہمیت ہوتی تو 1946 کے الیکشن میں ی رجحانات واضح ہو گئے تھے کہ اس موقع پر بنگال پر راج کرنے والے اہم ترین سیاست دان اے کے فضل الحق سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر صاف ہو گئے۔ لوگوں نے شخصیات کو چھوڑ کر ایک نظریہ کی خاطر مسلم لیگ کو ووٹ دیے۔ سہلٹ کے ریفرنڈم نے تو اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا حالانکہ یہاں مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا بہت اثر تھا وہ محض عالم دین ہی نہیں بلکہ نجی زندگی میں بھی لوگوں کے لیے انتہائی قابل احترام نمونہ تھے۔ اپنی کوشش کے باوجود بھی وہ لوگوں کو دو قومی نظریہ کے خلاف ووٹ دینے پر آمادہ نہ کر سکے۔ (ص217) مصنف نے اس بات کو دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے والی بنیاد ہمیشہ مذہب ہی رہا ہے خواہ وہ اسلام ہو یا ہندو مت۔ ریاستوں کی تشکیل میں اگر زبان اہم ہوتی تو پھر برصغیر میں جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی ریاستیں ہونی چاہیے تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب حسین شہید سہروردی نے بنگال کو تقسیم کر کے پاکستان کا حصہ بنانے کے بجائے خود مختار متحدہ بنگال کی تجویز پیش کی تو کانگریس نے اس نقطہ نظر کو رد کر دیا تھا۔ انھیں اندازہ تھاکہ اگر لسانی بنیادوں پر تقسیم کو قبول کر لیا گیا تو پھر ہندوستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ (ص 213) مصنف کے خیال کے مطابق یہ حسین شہید سہروردی کے خیالات کا ٹیڑھا پن اور دو قومی نظریہ پر کمزور یقین کی علامت تھی کہ وہ خود مختار بنگال کو پاکستان کا متبادل سمجھنے لگے تھے، ان کا یہ موقف درحقیقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ قومیت کے تصور کو قبول کرنے کا اعلان تھا۔ ان کے خیال میں پاکستان کو ٹکڑے کرنے کا بیج اس تصور نے رکھ دیا تھا۔ (ص نمبر 214,213) بنگال کے علاقوں کی ثقافت، زبان اور ادب کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں۔
لسانی مسئلہ کے حوالے سے انھوں نے مسلم بنگالیوں کی اہم ترین کمزوری کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو تین نسلوں کی ثقافتی لحاظ سے عربی اور فارسی سے عدم واقفیت ایسی کمزور تھی جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجہ میں بنگال کے مسلمان دوسرے مسلمانوں سے کٹ کر رہ گئے تھے اور نادیدہ طور پر وہ غیر محسوس رشتہ ختم ہو گیا تھا جو انھیں روحانی طور پر امت مسلمہ سے جوڑے ہوئے تھا۔ عربی، فارسی سے نابلد مسلمان آہستہ آہستہ یہ احساس کھو دیتا ہے کہ وہ کسی بڑے وجود کا حصہ ہے۔ وہ تاریخ سے بے گانہ ہو جاتا ہے اور اپنے ملک سے باہر کے مسلمانوں کے کارناموں سے اس کے اندر کوئی احساس فخر پیدا نہیں ہوتا، جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اپنے ماضی کے کارناموں پرمشترکہ احساس فخر سے پیدا ہونے والا تعلق ہی مضبوط رشتہ کا باعث ہوتا ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں عربی، فارسی کا رجحان ختم ہونے سے مشترکہ احساس تفاخر ختم ہو گیا‘ یہ رجحانات پورے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں پروان چڑھے مگر بنگال میں اردو نہ ہونے کی وجہ سے یہ اثر زیادہ گہرا تھا، باقی ہندوستان میں اردو نے عربی فارسی کی اس کمی کو پورا کیے رکھا کیوں کہ مسلمانوں کی تاریخ اور اہم ترین دینی لٹریچر اردو میں منتقل ہو گیا تھا البتہ بنگالی زبان اس دینی لٹریچر اور تاریخی ورثہ سے محروم تھی۔ بنگالی زبان میں مسلمانوں کے لکھنے والوں کا وجود بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ (ص223,24,25)
ہندوؤں نے 1905 میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور پھر بعدازاں1947 میں مسلم لیگ کو زچ کرنے اور مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کے لیے بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا، اگر بنگال کی تقسیم 1905میں غلط تھی تو 1947میں درست کیسے ہو گئی، بنگلہ زبان کے ان پچاریوں نے بھارت سے کیوں مطالبہ نہ کیا وہ مغربی بنگال کو بھی آزاد کر دے تاکہ بنگلہ زبان اور کلچر کا تحفظ ایک بنگالی ریاست خود کرے ۔ اس ضمن میں انھوں نے اشتراکی عناصر کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی یہ ایجنڈا طے کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے کے لیے لسانی اور معاشی صورت حال کو ہوا دی جائے گی اور ہماری حکومتیں چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہونے کی وجہ سے اشتراکی عناصر کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی رہیں اور بائیں بازو کے لوگ مضبوط ہوتے چلے گئے جو کہ نظریہ پاکستان کے مخالف تھے (ص86) کمیونسٹ پارٹی کی اس سازش کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بنگالی راہ نما ابوالہاشم کے بیٹے بدرالدین عمر کی کتاب کا حوالہ دیا ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس ہوا تھا جہاں پاکستان کے بارے حکمت عملی طے کی گئی تھی اس میٹنگ میں شیخ مجیب الرحمن بھی ایک طالب علم کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اس کا اظہار وہ ہمیشہ کرتے رہے کہ 1947کے بعد آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔
اگر یہ طے شدہ منصوبہ نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کوئی کھڑا ہو اور قائد اعظم کی تقریر میں ہنگامہ کرنے کی جسارت کرے۔ اس طرح عبدالرزاق جو مصنف کے قریبی ساتھی اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے استاد اور تحریک پاکستان میں ان کے ساتھی تھے۔ 3سال بعد ہی مایوسی کی باتیں کرنے لگے تھے، مصنف نے ان کو پاکستان کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ 200سال کے انگریزی اقتدار اور ہندو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ظلم سے نجات کے لیے ہی ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا کہ اب صرف چند سال بعد ہی ہم 200سال کی تلخیوں کو بھلا کر کیسے علیحدگی کی راہ پر چل پڑیں۔ (ص 57,52) دہلی یونی ورسٹی نے 1973میں انھی عبدالرزاق کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔
کمزور مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے قائد اعظم کے ساتھ طلبا کی اس جسارت کا نوٹس لینے کے بجائے اس واقعہ کو نظر انداز کیا بلکہ ان میں سے دو افراد تو بعد میں وفاقی حکومت کے سیکرٹری کے منصب تک بھی پہنچے۔ احساس محرومی ختم کرنے کے نام پر اسی طرح کے سازشی طلبا کو دھڑا دھڑ CSP آفیسرز کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ مصنف کے خیال کے مطابق اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزی کو بطور دفتری زبان کی حیثیت سے برقرار رکھا جاتا تو زیادہ بہتر اور عملی قدم ہوتا کیوں کہ آج بھی تینوں ملکوں میں عملی حیثیت تو انگریزی کو ہی حاصل ہے اردو زبان پر اصرار بلاجواز تھا، اگر بعد میں اس کو دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے بتدریج پروان چڑھایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس صورت حال نے ان کے حوصلے بڑھائے اور وہ کھل کر علیحدگی کی باتیں کرنے لگے ورنہ 200 سال سے ہندو سرمایہ کار کے زیر تسلط سادہ لوح مسلمان کے لیے یہ کسی صورت ممکن نہ تھا کہ وہ ایک سال بعد ہی پاکستان سے مایوسی کا اظہار شروع کر دیتے۔ حقیقت میں تو یہ کمیونسٹ پارٹی کا ایجنڈا تھا جس کو ہندوؤں نے پروان چڑھایا، پاکستان کے نادان دوستوں اور ارباب بست و کشاد نے اپنے رویوں سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور 1949میں ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ جب 1949 میں کرژن ہال لٹریری کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شہید اللہ نے صدارتی تقریر میں بنگالی قوم پرستی کا تصور پیش کیا، اس کانفرنس میں کلکتہ سے بھی مندوب آئے تھے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالودود بہت اہم تھے جو پاکستان کے قیام اور نظریہ کے مخالف تھے اور ڈھاکہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔
مصنف نے ایوب خان دور کے دو اہم ترین بیوروکریٹس الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کے منفی کردار اور ان کی جانب سے بائیں بازو کی حمایت کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ (ص 237-38) رائٹرز گلڈ کے بارے‘ جس کے مصنف ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تھے اور شہاب کے ایسے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے جو لسانی مسئلہ کو ابھارنے کے لیے بنیاد بنتے دکھائی دیتے تھے۔ مثلاً شہاب صاحب کا خیال تھا کہ گلڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی میں ہر زبان کے لوگوں کو نمائندگی دی جائے عملاً یہ مغربی پاکستان کی بالادستی کا منصوبہ تھا جو کثیر لسانی خطہ ہے اور بعد میں قوم پرستوں کے ہاتھوں یہی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔ مصنف نے اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے اختلاف کیا جو بالآخر شہاب کو ناگوار گزرا لیکن ان کے اصرار پر بالآخر انھیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑے لیکن اس اختلاف کی جسارت کی بنا پر شہاب نے 3سال بعد رکنیت ختم کروا کے ہی دم لیا۔ (ص241)
معاشی مسائل پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ وسطی ہند کی دیگر ریاستوں کی طرح بنگال کے لوگ کبھی بھی معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں رہے۔ خوش حالی کا تصور یہاں بس اتنا ہی رہا ہے کہ جو دو وقت کی روٹی اور ناشتہ کر لے وہی خوش حال ہے کیوں کہ بنگال کا خطہ ہمیشہ قحط اور سیلابوں کی زد میں رہا اور یہاں دولت کا تصور عام ہندوستانی علاقوں کے برعکس ہی رہا ہے۔ مٹی اور گھاس پھوس کے مکان، اردگرد پھلوں کے چند درخت۔ اعلیٰ معیار کی زندگی یہاں ہمیشہ چند لوگوں کو ہی میسر رہی ہے حتیٰ کہ میزبانی کا تصور بھی یہ تھا کہ مہمان کو دال چاول دیے جاتے وہ خود ہی پکا کر کھا لیتے۔ لیکن یہ باتیں اس شدت سے پھیلائی گئی تھیں کہ ہر خاص و عام نے ان کو قبول کر لیا اگر مشرقی بنگال میں بدحالی اور استحصال تھا تو اس کا ذمہ دار بھی یہی متعصب ہندو طبقہ تھا جو بنگال پر مسلط تھا جس کے لیے مسلمانوں نے تقسیم بنگال کروائی تھی اور پھر اسی طبقہ نے 1911میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کے لیے دباؤ ڈالا اور اس کو منسوخ کروا کے ہی دم لیا اس بنا پر تمام تر صنعت کلکتہ کے نواح میں لگی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی یہیں قائم کیے گئے۔ تعلیم کی صورت حال تو یہ تھی کہ 1930میں جب خواجہ ناظم الدین نے The Star of India کے نام سے ایک اخبار نکالا تو انھیں اخبار کے لیے مسلمان عملہ ہی دستیاب نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں ایک عیسائی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ 1911میں تنسیخ بنگال کے وقت مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی قائم کی جائے گی۔ ہندوؤں سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ انھوں نے انگریزوں پر زور ڈالا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی کے قیام سے کلکتہ کی یونی ورسٹی متاثر ہو گی اس لیے اس فیصلہ کو بدل دیا جائے۔ بالآخر10 سال بعد 1921میں ڈھاکہ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور یہاں بھی مسلمان سٹاف نہ ہونے کے برابر تھا اگر کوئی کلرک بھی بھرتی ہو جاتا تو یہ بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی، چند مسلمان اساتذہ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے یہاں موجود تھے۔ اس تعصب کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب تقسیم کے وقت آزاد اور کامریڈ اخبار کے مالک مولانا اکرم خان نے کلکتہ سے شفٹ ہونے کے لیے حالات درست ہونے کا انتظار کیا، وہ اپنا اخباری سیٹ اپ ڈھاکہ لے جانا چاہتے تھے، مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بدھان رائے ان کے ذاتی دوست تھے، اور ان کا خیال تھا کہ انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اور وہ آسانی سے شفٹ کر جائیں گے، لیکن وزیر اعلیٰ نے کسی بھی اخباری پلانٹ کو کلکتہ سے باہر منتقل کرنے پر پابندی لگا دی اور مولانا کو تمام اثاثے چھوڑ کر ڈھاکہ آنا پڑا۔
مصنف نے دو قومی نظریہ کی اہم ترین بنیاد جداگانہ انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلم قیادت کی موقع پرستی اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے حالانکہ جداگانہ انتخاب مسلم لیگ کی بنیاد تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ اور کمزور یقین والے مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اس طرح عملاً دو قومی نظریے کو غلط ثابت کر دیا‘ حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہوئے اور پاکستان میں مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔
19ابواب پر مشتمل کتاب میں 12مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قرارداد لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہائے میل بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔