چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ
شفقت رضا منہاس ایڈووکیٹ
ہمارے ہاں کورٹ میرج کا ایک عام تصور پھیلا ہوا ہے، حالانکہ اس کا نہ قانونی وجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیاد۔ (البتہ ایک رائے کے مطابق non-believers یعنی غیر اہل ایمان کا چونکہ کوئی خاندانی نظام دویعت شدہ نہیں ہوتا، ان کے لیے بعض نظائر کی بنیاد پر کورٹ میرج کا تصور موجود ہے۔ یہ واضح رہے کہ غیر اہل ایمان میں مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی اور عیسائی شامل نہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایسے غیر اہل ایمان کی تعداد چوونکہ برائے نام بھی نہیں، لہٰذا اگر اس رائے کے مطابق ایسا کو تصور ہو بھی تو اس کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔) اس کے باوجود یہ تصور عام سطح سے لے کر اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی موجود ہے۔ پچھلے دنوں میرے ایک نہایت مہربان اور عزیز دوست نے مجھے فون پر یاد کیا۔ فرمانے لگے کہ ’’میری بیٹی نے ملک کی ایک بین ا لاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں ایل ایل ایم کی کلاس میں داخلہ لیا ہے۔ اس کے لیے مقالے کا عنوان ہے: Court marriage and its effects upon family in Pakistan.۔ آپ اس عنوان کو خاکہ تحقیق بنانے میں مدد کریں۔‘‘ میں حیران ہوا کہ ایل ایل ایم کی طالبہ کے استاد، اتنی بڑی یونیورسٹی میں کم از پی ایچ ڈی تو ہوں گے۔ پی ایچ ڈی بھی کسی گھوسٹ یونیورسٹی سے نہیں، بلکہ مسلمہ یونیورسٹی سے ہوں گے، مگر وہ پاکستان کے قوانین کے بارے میں عام سطح کے شخص کی طرح اس واہمے میں مبتلا ہیں کہ کورٹ میرج کا کوئی باقاعدہ عدالتی ادارہ موجود ہے۔
میں نے اس عزیزہ پر واضح کیا کہ مذکورہ عنوان نہیں بنتا اور وجہ یہ ہے پاکستان میں کورٹ میرج کا کوئی تصور ہی نہیں۔ مجھے بچی نے بتایا کہ ہمیں استاد صاحب نے کہا ہے کہ مختلف عدالتوں کو وزٹ کر کے کورٹ میرجز کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جائے۔ میں نے واضح کیا کہ طالب علم کے طور پر عدالت اسے اس طرح کے استفسار پر رعایت دے سکتی ہے، ورنہ عدالت کو نکاح رجسٹرار یا نکاح خواں کی سطح پر لانا عدالت کے وقار کی نفی ہو گی۔ کوئی جج اسے سنجیدہ لے سکتا ہے اور توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر استفسار کے دوران، یونیورسٹی پروفیسر صاحب کا حوالہ آیا تو ایسا نہ ہو کہ اس سے پروفیسر صاحبان کی ڈگریوں کی پڑتال کا سلسلہ چل پڑے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر کاروبار اور کاروباری مفادات کے تحفظ کی صورت کا اندازہ کرنا ہو تو بورڈ آف گورنرز کے خلاف طلبہ اور اساتذہ کی ایجی ٹیشن کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ کالجوں میں تعلیم، نام کی حد تک رہ گئی ہے۔ پروفیسر صاحبان کی ایک تعداد تدریس کے بجائے صرف تنخواہ وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
کورٹ میرج کے تصور کے بے بنیاد ہونے کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ قانون کی رو سے نکاح ایک معاہدہ ہے۔ عدالت کسی بھی معاہدے کی تشکیل میں حصہ دار نہیں ہوتی۔ کسی عدالت کو اس کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ البتہ معاہدہ تکمیل پا جائے تو معاہدے کی شرائط کو نافذ کرنے کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔ اس کے لیے مختلف قسم کی دادرسی فراہم کی جا سکتی ہے۔ معاہدہ کی تشکیل بدوں کسی عدالتی مداخلت یا سہولت کے، فریقین کا اپنا کام ہے۔ وہ اس میں مکمل طور پر آزاد ہیں، مگر عدالت معاہدے کی تشکیل کے مرحلہ میں کوئی کردار ادا کرنے کی کسی طرح مجاز نہیں۔
البتہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کورٹ میرج کے بارے میں جو واہمہ لوگوں میں پایا جاتا ہے، اس کی بنیاد کیا ہے۔ عام طور پر جس وقت کوئی لڑکی اور لڑکا اپنے خاندان سے بغاوت کر کے شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ میرے جیسے کسی وکیل سے رجوع کرتے ہیں۔ میرے دوست بھاری فیسیں وصول کر کے کورٹ میرج کے نام پر ایک ڈرامہ ترتیب دیتے ہیں۔ بالعموم اس ڈرامے کی صورت اس طرح ہوتی ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 107/151 کے تحت نقص امن کے اندیشے یا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506 کے تحت مجرمانہ تخویف کا استغاثہ مرتب کر کے عدالت میں دائر کیا جاتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ نمبر 200 کی رو سے استغاثہ دائر کرنے پر مجسٹریٹ فوری طور پر مستغیث کا بیان قلم بند کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ استغاثہ چونکہ لڑکی کی جانب سے ہوتا ہے، اس لیے اس کا بیان عدالتی ریکارڈ پر آ جاتا ہے۔ استغاثے اور بیان کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ہر دو بالغ ہیں، (بلوغت کا کوئی دستاویزی ثبوت استغاثے کے ساتھ شامل کر کے فائل کا پیٹ بھرا جاتا ہے)، وہ بالغ ہونے کی وجہ سے شادی کرنے کے مجاز ہیں، لہٰذا انہوں نے اپنا یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے آزاد مرضی سے باہم شادی کی ہوئی ہے اور بطور میاں بیوی اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ان کے والدین یا دیگر قریبی رشتہ دار اس شادی کے خلاف ہیں، چنانچہ وہ طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ بیان میں کہا جاتا ہے کہ وہ مستغیثہ کی شادی کسی اور سے کرنا چاہتے ہیں، بلکہ بعض اوقات یہاں تک الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اسے فروخت کرناچاہتے ہیں۔ بلا شبہ اس کا استثنائی صورتوں میں امکان ہو سکتا ہے۔ یہ کہاجاتا ہے کہ والدین اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں یا جھوٹے مقدمے میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ استتغاثے میں استدعا کی جاتی ہے کہ والدین یا مذکورہ رشتہ داروں کو طلب کر کے سزا دی جائے یا نقض امن کے اندیشے کے تحت حفظ امن کی کارروائی کی جائے۔ اس طرح کا بیان ریکارڈ کرانے کے بعد دائر کیس کی پیروی نہیں کی جاتی۔ استغاثے اور بیان کی مصدقہ نقول حاصل کر لی جاتی ہیں۔ یہ عدالتی نقول ان کے خلاف بعد میں پولیس کے ذریعے اغوا وغیرہ کی ممکنہ کارروائی میں موثر دفاع بن سکتی ہیں۔ اس اہتمام سے ہمارے دوست وکلا کہہ دیتے ہیں کہ عدالت میں ان کی شادی کی توثیق یا تصدیق ہو گئی ہے۔
وکلا بھائیوں کی جانب سے اس طرح کی نام نہاد کورٹ میرج کی ایک دوسری صورت دعویٰ اعادۂ حقوق زن و شوئی کی ہوتی ہے۔ لڑکے کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کا خاوند ہے، اس کا باقاعدہ نکاح ہوا ہے اور نکاح میں لڑکے اور لڑکی کی آزاد مرضی شامل تھی۔ دونوں بالغ ہیں، دونوں میاں بیوی کے طور پر رہنے کے خواہش مند ہیں، مگر لڑکی حقوق زوجیت ادا کرنے سے گریزاں ہے اور لڑکی کے والدین اور دیگر رشتہ داروں کا دباؤ اس گریز کا باعث ہے۔ لہٰذا لڑکے کے حق میں اور لڑکی اور رکاوٹ ڈالنے والے رشتہ داروں کے خلاف اعادۂ حقوق و زن و شوئی کی ڈگری جاری کی جائے۔ یہ دعویٰ دائر کر کے تاریخ پیشی مقرر کروائی جاتی ہے۔ پھر اگلے روز ہی لڑکی کی جانب سے مثل طلب کرا کے دعویٰ کے تمام مندرجات تسلیم کرا ئے جاتے ہیں اور کیس ڈگری کرا لیاجاتا ہے۔
اس طرح کے مقدمے کی ایک اور صورت استقرار حق کی ہوتی ہے۔ اسے فنی طور پر jactitation of marriage کہتے ہیں۔ اس دعوے میں یہ کہانی پیش کی جاتی ہے کہ فریقین کے مابین باقاعدہ نکاح ہوا ہے اور لڑکا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ لڑکی کا باقاعدہ خاوند ہے، مگر لڑکی خاندانی دباؤ کی وجہ سے شادی کو تسلیم نہیں کرتی۔ دعویٰ دائر ہونے کے بعد تاریخ مقرر ہونے کے ایک دو روز بعد ہی مثل طلب کروا کے لڑکی کو پیش کیا جاتا ہے اور دعوے کے مندرجات کو تسلیم کراتے ہوئے کیس ڈگری کروا لیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تسلیمی ڈگری کے لیے لڑکی کی جانب سے ایک علیحدہ وکیل پیش کیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لڑکے کا وکیل لڑکی کی جانب سے پیش نہیں ہو سکتا۔ ایسی صور ت میں لڑکے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل چونکہ پورا ڈرامہ ترتیب دیتے ہیں، اس کے لیے ان کو بھاری فیس وصول ہوتی ہے، البتہ لڑکی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کو سازشی طور پر تیار کر کے پیش کیاجاتاہے، اس لیے ان کو برائے نام فیس ادا ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں، میں اپنا ایک تجربہ بیان کر دینا بر محل خیال کرتا ہوں۔ میرے ایک دوست اپنے محکمے سے رخصت لے کر وکالت کے شوق میں میرے ساتھ آ شامل ہوئے۔ ان کے ایک قریبی رشتہ دار مجسٹریٹ تھے۔ انہوں نے اسی طرح کا ایک کیس بک کیا اور ہم دونوں نے کیس تیار کیا اور مذکورہ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کر دیا۔ اب ہم مستغیثہ کے بیان کے لیے عدالت میں گئے تو اس پر پیشی ڈال دی گئی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ایسا نہ ہو۔ قانون کے لازمی تقاضے پر زور بھی دیا مگر مجسٹریٹ چونکہ اس طرح کی پریکٹس کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے وہ بیان قلم بند کرنے پر رضامند نہ ہوئے۔ انہوں نے قانون کی پابندی کے بجائے اپنے ضمیر کا لحاظ رکھا۔ ہم دونوں کی مولویت شرمندہ ہوتی رہی، مگر ہم چند ٹکوں کے لیے قانونی تقاضے پر زور دیتے رہے۔
اس طرح کے واقعات ایک مدت مدید سے چلے آرہے ہیں۔ وکلا ذہین لوگوں کا پیشہ ہے۔ وہ اس طرح کی کورٹ میرج کی اور بھی صورتیں تراش سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ان کا اپنی چالیس سالہ پریکٹس کے باوجود تصور نہ کر سکوں۔ اس لیے اس تحریر میں، میں ایسی تمام صورتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ بہرحال کورٹ میرج کا تصور ایسے مقدمات کی وجہ سے پھیلا ہے۔ کوئی پی ایچ ڈی پروفیسر اگر پس منظر کی اس صورت حال سے شناسا نہ ہوں تو میں انہیں زیادہ قصور وار نہیں ٹھہرا سکتا، البتہ انہیں صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے۔
اس صورت حال کی بنیاد اور پس منظر میں لڑکے اور لڑکی کی جانب سے اپنے اپنے خاندانوں سے بغاوت کا وجود لازمی عنصر ہے۔ خاندان سے بغاوت کے بعض کیسوں کے پس منظر میں خاندانی جبر کی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ان میں ونی کی رسم اور قرآن کے ساتھ شادی، والدین کی جانب سے لڑکی کو فروخت کرنے کی صورتیں بھی ممکن ہیں۔ یہ صورتیں خاندان سے بغاوت کا اخلاقی یا قانونی جواز بن سکتی ہیں یا نہیں، ایک ایسا سوال ہے جو اہل فقہ سے متعلق ہے۔ ہمارے حلقے کے بہت سے اہل علم جہاد بالسیف کے لیے ریاستی آشیر باد کو شرطِ لازم قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت یاخروج کو بڑی سخت شرائط میں جکڑتے ہیں۔ خاندانی نظام کو اس طرح کا تحفظ دینے میں نکاح کے لیے لڑکی کی جانب سے ولی کی تقرری کے بارے میں اہل اجتہاد کیا موقف اختیار کریں گے، اس بارے میں ان کے درمیان کھلا مباحثہ ہونا چاہیے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس حفیظ اللہ چیمہ نے مشرف کے دور میں ایک فیصلہ دیا تھا جس کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی جانب سے ولی کا تقرر لازمی قرار دیاگیا۔ ان کا فیصلہ قیاس پر مبنی نہیں تھا بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشاد (لا نکاح الا بولی) پر مبنی تھا۔ لیکن بعد میں مملکت اسلامی جمہوریہ میں، روشن خیالی کی لہر تیز اور طاقت ور ہوگئی، لہٰذا اس کے برعکس نقطہ نظر غالب آ گیامگر جسٹس حفیظ اللہ والے فیصلے کا کیا بنا، یہ معلوم نہیں۔ اسے اگر منسوخ کیا گیا ہوتو اسے میڈیا میں جگہ نہیں مل سکی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے خلاف اپیل کی باقاعدہ اور حتمی سماعت نہ ہوئی ہو۔ ہمارے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ حاکم خان کیس میں متنازعہ نکات پر حبیب وہاب الخیری کی رٹ پیٹیشن کے ساتھ ہائیکورٹ میں یہی کچھ ہوا تھا۔ اس درخواست کو جسٹس شیخ خضر حیات نے تعطیلات میں، سائل کو دس روز سن تک کر سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔ بعد میں اس کی کبھی سماعت نہیں ہوئی۔
جناب عمار خان ناصر کی تازہ تحریر ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں موجودہے۔ اس میں ان کی مجتہدانہ بصیرت بڑی توانا نظر آتی ہے، مگر ولی کے تقرر کے بارے میں انہوں نے اختصارکے پیش نظر صرفِ نظر سے کام لیا ہے یا شاید میں ان کے مضمون کو زیادہ غور سے پڑھ نہیں سکا۔ ان کو اس پہلو پر بھر پور اظہار کرنا چاہیے۔ بہرحال خاندان سے بغاوت کی حدود اور شرائط کا تعین باقی ہے۔ اس مسئلے میں خودکچھ نہیں کہنا چاہتا، البتہ یہ بات بہت واضح ہے کہ خاندان ہماری سوسائٹی کی ایک نہایت اہم قدر ہی نہیں، اثاثہ بھی ہے۔ اسے آسانی سے تج دینا ممکن ہے اور نہ ہی جائز۔ جو لڑکی بھی اس تحفظ اور سہارے سے محروم ہو کر باہر آئے گی، اس کا سامنا سوسائٹی میں موجود بھیڑیوں سے ہوگا۔ ایسی صورتوں کی پیش بندی یا مداوا ہمارے سوشل سائنسدانوں کی ذمہ داری ہے۔ اختصار کی خاطر ایک ٹی وی شو کا ذکر برمحل خیال کرتا ہوں۔ وجہ یہ ہے اس شو میں ہماری اقدار کے تحفظ میں جتنا موثر انداز اختیار کیا گیا، وہ لاکھ تقریروں، تحریروں اور درسوں پر بھاری ہے۔
اے ٹی وی پر ہفتے کے پہلے پانچ روز ایک شو ہوتاہے جس کا نام ’’مارننگ ود فرح حسین‘‘ Morning with Farah Husain ہے۔ میں کبھی کبھار یہ شو جزوی طور پر دیکھ لیتا ہوں۔ فرح حسین کو اپنے شو میں ہر طرح کے روپ میں آنا پڑتا ہے۔ اکثر و بیشتر ان کے روپ مجھے پسند نہیں آتے۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ اس سے زیادہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ ہماری معاشرتی اخلاقیات کے فروغ و تحفظ کے بارے میں ان سے میرے اندازے کے مطابق کبھی لغزش نہیں ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ چند سال پہلے ایک پروگرام میں انہوں نے لاہور کی ایک خاتون کو پیش کیا تھا۔ یہ خاتون کئی شہروں میں بیوٹی پارلرز جیسے کاروبار کے وسیع سلسلے کی مالک اور آسودہ حال خاتون تھی۔ راولپنڈی کے ایک شخص نے کسی نہ کسی طرح اس خاتون سے شادی کر لی۔ دو تین بچے ہوئے۔ راضی خوشی گزر اوقات کے ایک عرصہ بعد فریقین کے ما بین نا چاقی ہوئی اور طلاق ہو گئی۔ اس سب کچھ کے باوجود مرد نے خاتون کاپیچھا نہ چھوڑا۔ بچے خاتون کے پاس رہے۔ وہ اسے بچوں کے حوالے سے بلیک میل کر کے ایک مدت تک دولت بٹورتا رہا۔ بلیک میلنگ کی آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ جب یہ تمام حدیں پار ہوگئیں تو ایک رات وہ بچوں سے ملنے کے بہانے لاہور آیا۔ خاتون کے گھر بچوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر بھی اس نے بلیک میلنگ کی کوشش کی، مگر جب کچھ حاصل نہ ہوا توجاتے ہوئے خاتون کے چہرے پرتیزاب پھینک کر فرار ہو گیا۔ اس کے لیے وہ پہلے سے تیاری کر کے آیاہوا تھا۔ اس کی داستان ستم فرح حسین نے خود تفصیل سے بیان کر دی۔ پھر فرح حسین نے، اس خاتون کو ٹی وی اسکرین پر پیش کیا۔ خاتون نے چہرے سے برقعے کا نقاب ہٹایا اور اپنا مسخ شدہ چہرہ ناظرین کے سامنے پیش کیا اور روروکر التجا کی کہ لو میرج کے خبط میں گمراہ ہوکر بھائیوں، والدین یعنی خاندان کے تحفظ سے آزادی کا آپشن استعمال نہ کرنا۔ سوسائٹی کے بھیڑیوں سے بچنے کی واحد صورت خاندان کا ادارہ ہے۔ اس سے باہر نکلنا مکمل بربادی کو دعوت دینا ہے۔
کاش فرح حسین کے اس شو کی سی ڈی سوسائٹی میں عام ہو۔ ہمارے ہاں منصب و ارشاد والے توبین الاقوامی سطح پر سیمیناروں میں ابھی یہ طے نہیں کر سکے کہ جدیدذرائع ابلاغ (ٹی وی، سینما، انٹرنیٹ) کا مثبت استعمال جائزہے یا نہیں، (دیکھیے: ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں روئیداد سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار فقہائے اسلام، منعقدہ لکھنو اور ماہنامہ الشریعہ نومبر ۲۰۰۵ میں اس سیمینار کے حوالے تفصیلی تبصرہ منجانب مرتب) مگر میں تکرار کے ساتھ یہ کہے بغیرنہیں رہ سکتاکہ فرح کا شو اپنے گہرے تاثر کے لحاظ سے لاکھ تقریروں اور درسوں پر بھاری ہے۔ ہمارے اہل اجتہاداپنے گھروں یا اداروں میں ٹی وی رکھنے سے خائف ہیں، مگر ادھر ادھر خوددیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح کے خوف زدہ مجتہد سوسائٹی میں رسمی کردار سے زیادہ کتنا کچھ حصہ ڈال سکتے ہیں! جب ہم مارکیٹوں میں وڈیو اور آڈیو کیسٹس اور سی ڈیزکے سیلاب کو دیکھیں تو ان میں ایک طرف فحش، عریاں فلموں اور گانوں کا سیلاب ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ تقریروں کا طومار ہے۔ کچھ علمی حلقے واقعی اور عملی مسائل سے دور رہ کر لغت ہائے حجازی کے حلقے سجائے ہوئے ہیں۔ سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور دکھ درد کا ادراک اور مثبت، موثر نوعیت کی چیزوں کا مکمل فقدان ہے۔
نکاح اور شادی کے قوانین، خاندان کے یونٹ کو مضبوط کرنے کے لیے ہیں۔ یہ مقصد اسلام کے قانونِ نکاح ہی میں نہیں بلکہ ہر دیگر قوانین اور تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔ خاندان کا تقدس اور اس کا احترام اور اس کی مضبوطی کی خواہش ہر تہذیب میں موجود ہے۔ مغربی تہذیب جس کے بارے میں مسلمانوں میں آزادہ روی کا بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے، وہ ایسا ہی ہے جیسے مغرب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نعوذ باللہ کردار کشی پر مبنی لٹریچر ہے۔ اگر مغربی تہذیبوں کا بلا تعصب مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہر تہذیب کی طرح مغربی تہذیب بھی خاندان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس بارے میں امریکی تہذیب بہت زیادہ آزاد رو سمجھی جاتی ہے، مگر امریکی لٹریچر میں خاندان کی اہمیت کے شواہد بڑے مضبوط صورت میں موجود ہیں۔ مغربی تہذیب میں ہمیشہ سے خاتون کو گھر کی رونق ہی خیال کیا جاتا تھا۔ اندرون خانہ خاندان کے استحکام، بچوں کی تربیت، خاوند کی آسودگی کی ذمہ داریاں مسلمہ طور پر عورت پر ہی عائد ہوتی تھیں۔ عورت کا ناگزیر صورت حال کے سوا گھر سے نکلنا مغربی تہذیب میں بھی اتنا ہی معیوب تھا جتنا کہ اسلامی تہذیب میں تھا اور ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس صورت حال میں تبدیلی کی شروعات ہوئیں۔ جنگ کی وجہ سے مردوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سالہا سال تک گھر سے دور جنگوں میں مصروف رہے۔ اس سے مغربی ممالک کی اقتصادی نظام میں زبردست خلا پیدا ہوا۔ دفتروں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مردوں کی قلت کو دور کرنے کے لئے عورتوں کو گھر سے نکلنا پڑا۔ اس طرح تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔
تبدیلی کے اس عمل میں مغربی سوسائٹی کی پست اخلاقی اقدار نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمان مبصرین توازن ہاتھ سے کھو دیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ مغربی سوسائٹی میں اس پستی کے خلاف رد عمل کا حوالہ نہیں دیتے۔ اس بارے میں مثال کی ضرورت ہو تو سید مودودی کی مغربی تہذیب پر تنقید کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ سید کی زبردست تصنیف ’’پردہ ‘‘ ہے۔ (فیملی لاز پر سید مودودی ایک کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ کورٹ میرج کے حوالے سے تو خالی ہے، مگر اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک معرکہ آرا کتاب ہے۔ اردو زبان میں میرے مطالعے میں اس سے زیادہ دقیق اور کوئی کتاب نہیں۔ یہ کتاب مولانا کی گنتی کی چند تصانیف میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب ہمیشہ اپڈیٹ رہے گی۔) اس میں انہوں نے پردہ کے بارے میں اسلامی احکامات کاشاندار طریقے سے دفاع کیا ہے۔ مولانا مودودی کا انداز بیان اتنا پر زور اور موثر ہے کہ پڑھنے والے کو ذہنی طور پر قائل ہونا پڑتا ہے، یہاں تک کے جدید تعلیم یافتہ، مغربی تہذیب کے اثرات کے تحت آنے والے بھی مولانا کے زور بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی کتاب میں مولانا نے مغربی تہذیب کی عریانی کے بخیے تار تارکر کے رکھ دیے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو مغربی حوالوں سے update کیا جائے۔ مغرب نے اپنے ہاں تہذیبی صورت میں تبدیلی کا جائزہ لیا ہے۔ ہمیں اس جائزے کو کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مغرب میں اخلاقی اقدار خاص طور پر خاندان کے یونٹ کے بارے میں مثبت لٹریچر کو ہر صورت اہمیت دینا چاہیے۔
مجھے امریکی لٹریچر کے بارے میں وسیع رسائی تو حاصل نہیں لیکن اتفاق سے، ایک کتاب میرے پاس موجود ہے۔ اس میں دیے گئے مواد نے مجھے توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔ اس موقعہ پر میں چند حوالے دے کر قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کا نام Making Americaہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۷ میں واشنگٹن سے سرکاری اطلاعاتی ایجنسی نے شائع کی ہے۔ کتاب کی ترتیب Luther S. Luedtke نے کی ہے۔ کتاب کا تیسرا حصہ اوپر ذکر کردہ پہلو سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں اعداد و شمار کے ساتھ خاندانی یونٹ کے زوال کا بہت مکمل جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ امر تو یقینی ہے کہ خاندان سے بغاوت کا نتیجہ معاشرتی تباہی کے سوا کچھ ممکن ہی نہیں۔ یہ نتیجہ مغرب اور مشرق میں ایک جیسا ہے۔ بغاوت کا ثمر امریکہ اور پاکستان میں ایک ہی پیدا ہوگا۔ امریکہ میں اعداد و شمار کی مدد سے جائزہ لیا گیا ہے، جب کہ پاکستان میں اعداد و شمار اور جائزے کا عمل ناپید ہے۔ اگر اعداد و شمار کسی طرح مہیاہو جائیں تو ان کے حوالے سے بات ہو سکتی ہے۔ یہاں سروے مکمل اعداد وشمار کے بجائے نمائندہ یا منتخب افراد یا حلقوں کی بنیادپر مرتب کیے جاتے ہیں اور ان پر نتائج کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بہر صورت ہم امریکی جائزہ سے اقتباسات پیش کر کے پاکستان میں قیاس پرنتائج مرتب کر سکتے ہیں۔ البتہ ایک فرق ضرور رہے گاکہ ہمارے ہاں خاندان کے حوالے سے اخلاقی اقدار بے حد مضبوط ہیں۔ ان کے زوال کی رفتار میرے خیال میں بہت سست ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا میڈیا مغربی اقدار کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ کررہا ہے، بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ اس کی ایک مثال پی ٹی وی ہوم پر حال ہی میں دکھائے جانے والے ایک ڈرامے ’’زنداں‘‘ کی ہو سکتی ہے۔ اس میں ایک نفسیاتی مریضہ کو split personality (دوہری شخصیت) کے طور پر پیش کیا گیا۔ عارضہ کی وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ مریضہ اپنے جائز بیٹے اور شادی کو وہم کے اعتبار سے ناجائز خیال کرنے لگی۔ علاج میں، اس کے شوہر کو یہ تدبیر بتائی گئی کہ وہ شادی اور اولاد کو ناجائز تسلیم کر کے معافی مانگے اور بار بار کی معافی کے بعد، نفسیاتی طور پر اپنی بیمار بیوی کو دوبارہ شادی کے لیے اسے راضی کرے۔ اس طرح مریضہ کے بارے میں دکھایا گیا کہ وہ ذہنی عارضے سے صحت یاب ہو گئی۔ یہاں ڈرامہ نگار کی مہارت کی داد تو دینا پڑتی ہے مگر پس منظر میں فکری پراگندگی جھلکتی ہے۔
ہمارے ہاں کوئی خود کتنا ہی بد کردار ہو، مگر اپنے خاندان اور بیٹیوں کو بد کردار بنانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ فرق یہ پڑتا ہے کہ نیکی اور برائی کی مقدار میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ اپنے بسیرے بدلتی ہے۔ اچھی یا بری اقدار پر کسی کا اجارہ نہیں۔ آج فرض کیجیے میں شرافت کا امین ہوں تو کل کو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قدر میرے گھر سے رخصت ہو کر کسی برے شخص کے ہاں ہدایت کا ذریعہ بن کر بسیرا کر لے۔
لیجیے امریکی سوسائٹی میں خاندان کے زوال کی کہانی امریکیوں کی زبانی سن لیں۔
As late as the 1950s, more than 70 percent of all American families comprised a father who worked, a mother who stayed at home to take care of the children. By 1980, that description applied to only 15 percent of all families. In the same year, birth rates declined precipitously. At the height of the baby boom, the average family had more than three children. By 1980, that figure had fallen to less than 1.6 children, the reproduction level required for zero population growth. (p. 265)
The divorce rate climbed more than 100 percent in the twenty years after 1960 and by 1980 more than two out of five marriages were expected to end in divorce. (p. 265, 266)
By the 1970s, these trends in behavior and attitude had begun to reinforce each other. College educated women--those most affected by the rise in feminist conscienceness--increasingly declared that a career was just as important a priority as marriage. (p. 264)
Women must boldly announce that no job is more exacting, more necessary , or more rewarding than that of housewife and mother. (p. 262)
As soon as the war ended, business leaders, politicians and social commentators insisted that women must recapture their traditional role as housemakers. (p. 261)
During the war years, the female labor force increased by 57 percent, and the proportion of women who were employed leaped from 25 percent to 36 percent. When the war began, it was expected that virtually all the new workers would return to home as soon as the war was over. Four years later, more than 80 per cent told the government pollsters that they wanted to stay on the job. (p. 261)
Women who, a few years before, had been told it was a mortal sin to leave the home and take a job were now urged as a matter of patriotic necessity to help win the war by replacing a soldier gone to the front. Between 1941 and 1945 over six million women took jobs for the first time, the majority of them married and over thirty. (p. 261)
In effect, a married middle-class white women who wished to work was an anomaly, acting in violation of both her social status and the attitude of dominant culture. As the anthropologist Martraret Mead observed in 1935, a young woman contemplating a career had two choices. Either she proclaimed herself ''a woman'' and therefore less an achieving individual, or therefore less a woman. She could not do both, and if she chose to follow the second option, she took the risk of losing for ever the chance to be a ''loved object, the kind of girl whom men will woo and boast of, toast and marry.'' (p. 260-261)
By the end of 1930s state, local and national authorities all endorsed discriminatory treatment against married women seeking employment. As one congressional representative declared, a woman's proper place was in the home, not taking job away from a male breadwinner. (p. 260)
Adlai Stevenson's injunction to Smith College class of 1957 that women's primary role as citizens should be to influence men through their positions as ''house wives and mothers'' as a latter day manifestation of the same cultural world view that guided colonial America. (p. 259)
In the word of one matron quoted in an eighteenth century news paper, ''I an married, and I have no other concern but to please the man I love; he is the end of every care I have; If I dress, it is for him, if I read a poem or a play, it is to qualify myself for a conversation agreeable to his taste.''
آخر پر یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتاہوں کہ میں باغی ہوں۔ اپنے گرد و پیش سے بغاوت میری سرشت ہے۔ میں اپنے آس پاس کی فسوں کاری کو توڑ دینا چاہتا ہوں ۔ میں سوسائٹی میں ہر طرح کے جبر، ظلم، بد دیانتی، کرپشن، مفاد پرستی، گروہ بندی، سازش، جماعتی وغیر جماعتی تعصب کے خلاف بغاوت پر ہمہ تن اور ہمہ وقت آمادہ ہوں، مگر میں کبھی اقدار کا باغی نہیں ہوا۔ خاندان سے کبھی بغاوت نہیں کی۔ ذاتی طور پر خاندانی جبرکو بھی قبول کیا، بہت نقصان بھی اٹھایا مگر بڑوں کے احترام میں کوتاہی نہیں کی۔ خاندان کی سطح پر سوسائٹی میں پائے جانے والے ظلم کے خلاف نوجوان اور ناپختہ ذہنوں کو بغاوت کی راہ دکھلانا میرے نزدیک کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ البتہ سوسائٹی کے لیے ہر طرح کے ظلم، جبر اور بے انصافی کے خلاف بغاوت لازم ہے۔ اس میں خاندان کا جبر پہلی ترجیح کے طور پر ہے ۔ اس بغاوت کی سربراہی اورقیادت پختہ ذہن، تجربہ کار، راسخ العقیدہ اور صاحب کردار لوگوں کو کرنا چاہیے۔ ایسی بغاوت ہر صورت خیر ہی خیر ہوگی۔ البتہ بغاوت میں سودا بازی اور مصلحت کی گنجائش کسی اجتہاد سے نکالی جا سکتی ہو تو پھر منفی قوتوں کے لیے راہ چھوڑ کر اپنا وقار بچا لینا بہتر ہو گا۔