’’برصغیر میں مطالعہ قرآن‘‘ (بعض علماء کی تفسیری کاوشوں کا جائزہ)
ہندوستان کے معروف علمی وتحقیقی جریدے ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کے نائب مدیر ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا تعارف اور ان کی فاضلانہ تصنیف ’’نقد فراہی‘‘ پر تبصرہ قارئین چند ماہ قبل انھی صفحات میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ قرآنی علوم ومعارف مصنف کے مطالعہ وتحقیق کا خاص موضوع ہیں اور وہ ایک عرصے سے اپنی تحقیق کے حاصلات علمی مقالات کی صورت میں پیش کرتے آ رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی مصنف کے علمی مقالات کا مجموعہ ہے جس میں بیسویں صدی میں برصغیر کے بعض معروف اہل علم کی تفسیری کاوشوں کے مختلف پہلووں کا تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
پہلے مقالے کا عنوان ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ ہے۔ مصنف نے سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات ومعجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) یہ رائے مصنف کے خالص علمی ذوق اور مذہبی واختلافات وتعصبات سے بالاتر ہو کر متوازن تجزیہ وتنقید کے رجحان کی غمازی کرتی ہے۔
’’بیسویں صدی عیسوی میں علماے ہند کی تفسیری خدمات میں‘‘ کے زیر عنوان دوسرے مقالے میں عربی زبان میں تصنیف کردہ علمی کاوشوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا انور شاہ کشمیری کے نام نمایاں ہیں۔ اس مقالے میں زمانہ قدیم کے اہل علم کی بعض تصانیف کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کی طباعت واشاعت بیسویں صدی میں ہوئی۔ بظاہر ان تصانیف کا ذکر مقالے کے دائرے سے متجاوز دکھائی دیتا ہے، تاہم بیسیویں صدی کے اہل علم نے ترجمہ، تحقیق اور تحشیہ کی صورت میں ان تصنیفات پر جو کام کیا، اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک حد تک انھیں اس مقالے میں شامل کرنے کا جواز نکل آتا ہے۔
تیسرا مقالہ ’’بیسویں صدی میں حروف مقطعات کے مباحث‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس مقالے کا حاصل یہ ہے کہ حروف مقطعات کے معنی ومفہوم کی تعیین کے ضمن میں امام طبری نے اپنی تفسیر میں جو اقوال نقل کیے ہیں، بعد کے اہل علم اپنی تحقیقات سے ان میں کوئی معتد بہ اضافہ نہیں کر سکے اور یہی صورت حال بیسویں صدی کے مفسریں کے ہاں بھی برقرار ہے۔ اس ضمن میں ایک منفرد رائے مولانا فراہی نے ظاہر کی تھی جس کی رو سے عربی زبان کے حروف چونکہ عبرانی لیے گئے ہیں جو آواز کے ساتھ ساتھ معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ بعض قرآنی سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں، وہ اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے مابین کسی مناسبت کے لحاظ سے آئے ہوں۔ تاہم اس رجحان کے حوالے سے خود مولانا فراہی کا تبصرہ یہ تھا کہ ’’جب تک تمام حروف کے معنی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہو جائے، اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔‘‘ (ص ۶۳) ہمارے علم کی حد تک ابھی تک اس باب میں مولانا فراہی کی ذکر کردہ مثالوں پر کوئی اضافہ سامنے نہیں آیا۔
’’مولانا سید سلیمان ندوی اور مفردات قرآنی کی لغوی تحقیق‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں قرآنی الفاظ، اعلام اور اصطلاحات کی لغوی وتاریخی تحقیق کے ضمن میں سید سلیمان ندوی کے منہج کی وضاحت مثالوں کی مدد سے کی گئی ہے اور اس تحقیق میں سید صاحب کے علمی مآخذ کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ مضمون علمی لحاظ سے دلچسپ اور اہم لیکن کافی مختصر ہے۔
’’تفسیر تدبر قرآن میں کلام عرب سے استشہاد‘‘ کے زیر عنوان مقالہ علمی اعتبار سے خاصے کی چیز ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ’’تفسیر قرآن میں کلام عرب ایک اہم ماخذ ہے۔ تمام قدیم مفسرین نے اس سے استفادہ کیا ہے، لیکن متاخرین کے یہاں اس سے استشہاد میں کمی آ گئی تھی۔ مولانا فراہی اور ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کی اہمیت واضح کی اور اپنی تفسیروں میں اس سے بھرپور استفادہ کیا۔‘‘ (ص ۱۱۴) مقالے میں مصنف نے تدبر قرآن میں کلام عرب سے استشہاد کی نوعیت کے مختلف پہلو اور اس ضمن کی بعض اہم اور نمائندہ مثالیں بھی توضیح کے لیے نقل کر دی ہیں۔ صرف ایک مثال ملاحظہ ہو۔ ’ولقد یسرنا القرآن للذکر‘ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’لفظ ’تیسیر‘ عربی میں کسی چیز کو کیل کانٹے سے لیس کرنے، پیش نظر مقصد کے لیے اس کو اچھی طرح موزوں بنانے اور جملہ لوازم سے آراستہ وپیراستہ کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ مثلاً یسر الفرس للرکوب کے معنی ہوں گے، گھوڑے کو تربیت دے کر، اس کو کھلا پلا کر، زین لگام رکاب سے آراستہ کر کے سواری کے لیے بالکل ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ یہیں سے یہ لفظ کسی شخص کو کسی مہم کے لیے تیار اور جملہ لوازم سے مسلح کر کے اس کو اس کا اہل بنا دینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک جاہلی شاعر کہتا ہے:
ونعین فاعلنا اذا ما نابہ
حتی نیسرہ لفعل السید
’’اور جب ہمارے سربراہ کار کو کوئی مہم پیش آتی ہے تو ہم اس کی مدد کرتے ہیں، یہاں تک کہ سرداروں کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی راہ اس کے لیے ہموار کر دیتے ہیں۔‘‘ (ص ۹۳)
مصنف نے ناقدانہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ تدبر قرآن میں اشعار کی تخریج نہیں کی گئی، نیز بعض مقامات پر موزوں اشعار سے استشہاد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ بعض جگہ مولانا نے کسی قرآنی کلمہ کا مفہوم واضح کرنے کے لیے کلام عرب سے نظائر پیش کیے ہیں، حالانکہ اس مفہوم کے نظائر خود قرآن میں موجود ہیں جن کی طرف مولانا کی نگاہ نہیں گئی۔
اس مقالے کے آخر میں فاضل مصنف نے تفسیر کے مآخذ کے ضمن میں مولانا کی تقسیم سے اختلاف کیا ہے۔ مولانا نے عربی زبان اور کلام عرب کو تفسیر کے قطعی مآخذ میں جبکہ احادیث اور آثار صحابہ کو ظنی مآخذ میں شمار کیا ہے۔ مصنف کی تنقیدیہ ہے کہ ’’دیگر اصولوں کے ساتھ مل کر کلام عرب سے استدلال کے اصول کو کیوں قطعیت مل جائے گی اور احادیث اور آثار صحابہ کو انھی اصولوں کے ساتھ مل کر ویسی قطعیت کیوں نہیں مل سکتی؟ ..... تفسیر قرآن میں احادیث اور آثار صحابہ کو کلام عرب سے کم تر حیثیت دینا صحیح نہیں۔‘‘ (ص ۱۱۳) تفسیر کے ماخذ کی تقسیم اگر قطعیت اور ظنیت کے عنوان سے کی جائے تو اس پر یہ اعتراض ایک حد تک بجا ہے، لیکن اگر اس سے ذرا ہٹ کر غور کیا جائے تو مولانا کے بنیادی زاویہ نگاہ میں بے حد وزن دکھائی دیتا ہے۔ مولانا نے تفسیری وسائل کی یہ تقسیم اصلاً متکلم کے مدعا ومنشا تک رسائی کے لحاظ سے کی ہے۔ کلام کا مفہوم سمجھنے کے لیے جن وسائل سے مدد لی جاتی ہے، ان میں سے کچھ خود کلام کا حصہ ہوتے ہیں اور کچھ اس سے الگ، خارج میں پڑے ہوتے ہیں۔ زبان او رمحاورات کا علم، سیاق وسباق پر غور اور نظائر کا تتبع فہم کلام کے داخلی، جبکہ احادیث وآثار خارجی وسائل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے جو تفسیری روایات منقول ہیں، ظاہر ہے کہ وہ بذات خود فہم کلام کے داخلی وسائل کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہیں، کیونکہ اگر متکلم نے اپنے مدعا کے ابلاغ کے لیے کلا م کو ذریعہ بنایا ہے تو پھر کلام ہی اس باب میں اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے جب متکلم کے مدعا تک رسائی میں مدد دینے والے علمی وسائل کی درجہ بندی کی جائے گی تو فطری طور پر کلام کے داخلی وسائل ترتیب میں پہلے نمبر پر اور خارجی وسائل دوسرے نمبر پر آئیں گے۔ اس لحاظ سے زیادہ درست اور سادہ تقسیم یہ بنتی ہے کہ تفسیر کے مآخذ کو داخلی اور خارجی میں تقسیم کر کے قطعی اور ظنی کو ان دونوں کی ذیلی تقسیمات کے طور پر بیان کیا جائے۔
’’مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ؒ کی قرآن فہمی‘‘ کے زیرعنوان مقالے میں مصنف بتاتے ہیں کہ اگرچہ مولانا علی میاں کی عام پہچان ایک مورخ اور سوانح نگار کی ہے، لیکن ان قرآن فہمی کا ذوق بھی بہت بلند پایہ ہے اور ان کی تقریروں اور تحریروں، سب کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ اس مقالے میں مولانا کے قرآنی افادات کا تعارف پیش کیا گیا اور قرآن مجید پر غور وفکر سے متعلق ان کے منہج اور اسلوب کی بعض خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے ’فساد فی الارض‘ کی تشریح میں مولانا کی ایک راے نقل کر کے، جس کی رو سے یہ تعبیر صرف اخلاقی بگاڑ تک محدود ہو جاتی ہے اس پر بجا طور پر تنقید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ مفسرین نے اس کی وسعت وجامعیت میں کفر وشرک اور تمام معاصی کو شامل کیا ہے۔ (ص ۱۴۲) اسی باب کے اگلے دو مقالوں میں مولانا صدر الدین اصلاحی کی تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ (نامکمل وغیر مطبوع) اور ’’تلخیص تفہیم القرآن‘‘ کے اہم خصائص اور علمی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان دونوں تفسیری کاوشوں میں ایک مشترک نکتہ یہ ہے کہ ان میں قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے غیر مسلم ذہن کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ فاضل مصنف کا تاثر یہ ہے کہ تفسیر تیسیر القرآن ’’اپنے اندروں میں بہت سے جواہر پارے سمیٹے ہوئے ہے، اس لیے اپنی موجودہ ناتمام صورت میں بھی اس کی اشاعت ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔‘‘ (ص ۱۷۳)
چوتھا باب ’’قرآنی موضوعات پر چند تصانیف کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں متعلقہ موضوع پر ۳۲ تصانیف کا تعارف اور ان پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے ’’برصغیر میں مطالعہ قرآن‘‘ (فکر ونظر اسلام آباد کی خصوصی اشاعت)، ’‘تدبر قرآن پر ایک نظر‘‘ از مولانا جلیل احسن ندویؒ ، ’’ذبیح کون؟ اسحاق یا اسماعیل؟‘‘ از عبد الستار غوری، ’’قاموس الفاظ واصطلاحات قرآن‘‘ (افادات: مولانا امین احسن اصلاحی)، ’’قرآن کریم میں نظم ومناسبت‘‘ از ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی اور شش ماہی علوم القرآن علی گڑھ کا مولانا امین احسن اصلاحی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مولانا جلیل احسن ندوی کی تالیف ’’تدبر قرآن پر ایک نظر‘‘ میں مولانا اصلاحی کی بعض تفسیری آرا پر نقد وتبصرہ کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے المورد، لاہور میں منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشستوں میں اس کتاب کے مباحث کا اجتماعی مطالعہ کیا گیا تھا۔ اگر ان نشستوں کی ریکارڈنگ محفوظ ہو اور انھیں مرتب ومدون کر کے منظر عام پر لایا جا سکے تو قرآنیات کے طلبہ کے لیے وہ ایک مفید چیز ہوگی۔ کتاب کا یہ باب غالباً مختلف رسائل وجرائد میں لکھے جانے والے تبصروں کا مجموعہ ہے، تاہم اختصار کے باوجود یہ تبصرے علمی طور پر مفید اور معلومات افزا ہیں۔
فاضل مصنف کی دوسری نگارشات کی طرح زیر نظر مجموعے میں شامل تحریریں بھی بلند پایہ علمی مواد سے بھرپور ہیں اور قرآنی علوم وتحقیقات کے ساتھ مصنف کی گہری ذوقی مناسبت کا پتہ دیتی ہیں۔
کتاب میں شامل مقالات اور خاص طور پر آخری باب میں تبصرے کے لیے منتخب کردہ کتب پر ایک نظر ڈالنے یہ دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے جس کی طرف دینی علوم کے طلبہ کو متوجہ کرنا یہاں برمحل دکھائی دیتا ہے۔ وہ یہ کہ بیسویں صدی میں برصغیر میں ترجمہ وتفسیر کے انداز میں قرآن مجید کی خدمت تو اپنے اپنے انداز میں یقیناًسبھی مکاتب فکر نے کی ہے، لیکن قرآنی علوم اور تحقیقات کے دائرے میں علمی روایت کی تجدید اور اس دائرے میں نئے نئے پہلووں اور مباحث کے اضافے کا کام بنیادی طور پر ان علمی حلقوں کی طرف سے انجام پایا ہے جن کے لیے بعض اہل علم نے مجموعی طور پر ’’دبستان شبلی‘‘ کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اس ضمن میں ماضی قریب کے بڑے ناموں میں مولانا فراہی، مولانا آزاد، سید سلیمان ندوی، عبد الماجد دریابادی، مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کا ذکر کیا جا سکتا ہے جبکہ حالیہ تحقیقات میں بھی ندوۃ العلماء اور مدرسۃ الاصلاح وغیرہ کے فیض یافتگان ہی کا نام نمایاں ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دنیوی علوم وفنون کی طرح دینی علوم ومعارف کی نعمت بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح تقسیم کی ہے کہ کوئی بھی حلقہ فکر دوسرے حلقہ ہاے فکر کی علمی وفکری کاوشوں سے مستغنی نہیں ہو سکتا اور تمام حلقہ ہاے فکر کی مساعی کو امت کی مجموعی علمی میراث کا حصہ سمجھتے ہوئے سب کی قدر دانی اور اعتراف اور کسی تعصب کے بغیر سب سے اخذ واستفادہ ہی صحیح علمی رویہ ہے۔
کتاب کی کتابت وطباعت، کاغذ اور پیش کش کا معیار عمدہ اور کتاب کی علمی سطح کے شایان شان ہے۔ البتہ ٹائٹل کے آخری صفحے پر ناشر کی طرف سے ’’ہماری چند خوب صورت اور معیاری مطبوعات‘‘ کا عنوان دے کر ان مقالات کی ایک فہرست دے دی گئی ہے جو زیر نظر کتاب میں شامل ہیں۔ یوں بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ تمام عنوانات مستقل تصانیف کے ہیں۔ اسی طرح کتابت کی بعض غلطیاں بھی ذوق سلیم کو ناگوار گزرتی ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کر لی جائے گی۔
اس مجموعے کو اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۱۶۰ روپے (ہندوستانی) درج ہے۔ پاکستان میں غالباً یہ سجاد الٰہی صاحب کے پاس دستیاب ہوگی جو ہندوستان سے رسائل وجرائد مطبوعات منگوا کر اہل علم کو فراہم کرنے کا خا ص ذوق رکھتے ہیں۔ (رابطہ: 0300-4682752)
(تبصرہ: محمد عمار خان ناصر)
Islamism and Democracy in India
The Transformation of Jamaat -e-Islami
(ہندوستان میں اسلام پسندی اور جمہوریت: جماعت اسلامی کی قلب ماہیت)
مصنف :عرفان احمد۔ صفحات :306۔ قیمت:695
ناشر: Permanent Black,'Himalayana,Mall road, Rani
Khet Cantt. Rani Khet' (India) 263645
اسلام کا سیاست مرکزی تصور اسلامی نظام کے قیام کواسلامی عقیدے اور عمل کا بنیادی پہلو قرار دیتا ہے اوراس کے مقابلے میں جمہوریت اور سیکولرزم کے تصورات کومسترد کردیتا ہے۔ پچھلی تقریبا نصف صدی سے علمی و سیاسی حلقوں میں اس پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔نائن الیون کے بعد اس پر بحث میں تیزی آئی اور یہ اور اس سے متعلق موضوعات پر مختلف زبانوں میں اتنی کتابیں لکھی گئیں جو شاید گزشتہ کئی دہائیوں میں نہ لکھی گئی ہوں ۔ عالم اسلام کے علماو اہل دانش اورعوام کی اکثریت نے اس نظریے کو کبھی قبول نہیں کیا،وہ ہمیشہ اس کے خلاف رہی۔اس لیے یہ نظریہ اسلامی فکر کے بنیادی دھارے میں شامل نہیں ہوسکا۔تاہم اس وقت اسلام کو سیاسی tool کے طور پر استعمال کرنے والے اسلام پسند تمام اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ بہت سی انقلابی اسلامی تحریکات اپنے مقصد اور فکری اساس کے اعتبار سے یہی تصور رکھتی ہیں۔عرفان احمدکی زیرتبصرہ کتاب اسی موضوع کے ایک اہم پہلو پر لکھی گئی ہے۔ اسلام پسندی کے نظریے کی بانی سمجھی جانے والی جماعت اسلامی ،ہندکے حوالے سے وہ اس نکتے سے بحث کرتی ہے کہ ہندوستان میں جمہوری عمل کے ساتھ اس کے تعلق اور کش مکش کی کیا شکل و نوعیت رہی ہے اور اس کے کیا اثرات اس کے فکری منہج اورعملی طریقہ کار پر مرتب ہوئے ہیں!
کئی سال کے مسلسل مطالعے اور پرمشقت فیلڈ ورک پر مشتمل یہ کتاب کئی حیثیتوں سے انفرادیت رکھتی ہے۔ اس کے مندرجات نہایت چشم کشا ہیں۔ اس کتاب میں پہلی مرتبہ تفصیل کے ساتھ اس بات کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عالم اسلام کی اس نوع کی دوسری جماعتوں سے قطع نظر،پچھلی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے جماعت خود کوجمہوریانے کے عمل میں پوری طرح کوشاں رہی ہے۔مصنف کے مطابق ،جماعت کی بنیادی فکر میں تبدیلی کی شروعات ۱۹۶۰ سے ہوئی جب علما وعوام کی اکثریت کی طرف سے ،جس میں علماے دیوبند پیش پیش تھے ،پوری طرح جماعت کے اس نظریے کو مسترد کردئے جانے پر جماعت نے دو الیکشن کے مکمل بائکاٹ کے بعد تیسرے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ (ص:۲۱۸) یہ دل چسپ بات ہے کہ ۱۹۵۱۔۵۲ کے الیکشن میں امیر جماعت نے الیکشن میں مسلمانوں کے حصہ نہ لینے کے لیے باضابطہ مہم چلائی ۔لیکن ۱۹۸۰ میں خود اپنے ارکان کو اس کی اجازت دینی پڑی (ص:۱۹۷) جب کہ۲۰۰۲ کے الیکشن میں اس نے سیکولرپارٹی کی جیت کے لیے باضابطہ انتخابی مہم چلائی۔(ص:۲۲۰)
اس کے بعدنصف صدی کے عرصے میں حکومت الہیہ کو اپنا اولین ہدف قرار دینے والی اورسیکولر جمہوریت کو ’’طاغوت‘‘ اور’’ جاہلیت ‘‘اور’’خنزیر کی طرح حرام‘‘ تصور کرنے والی جماعت اسی سے اپنا رشتہ استوار کرتی رہی ہے۔ مولانا مودودی نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سمیت تمام جمہوری عصری اداروں کو ’’قتل گاہ ‘‘ قرار دیا تھا لیکن اب انہی قتل گاہوں میں جماعت اسلامی زندگی کی تلاش میں ہے۔ مصنف نے کتاب کے ساتویں اور آخری باب (ص: ۱۸۸۔۲۱۶) میں جماعت کے اس قلب ماہیت کا مدلل ومفصل تجزیہ پیش کیا ہے۔یہ پوری ’داستان عبرت‘ دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے۔جماعت کی سر پرستی میں چلنے والے علی گڑھ کے گرین اسکول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس پر سرے سے کسی آئڈیالوجی کا کوئی اثر نہیں ہے ۔اس میں اور عام اسکولوں میں کوئی فرق نہیں۔طلبہ کے والدین کی اکثریت اسکول کے پس منظر سے واقف بھی نہیں اس کے کارکنان کو اس کا احساس بھی نہیں۔ افراد اور ادارے کی سطح پر جماعت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جماعت کا دعوا خواہ جو بھی ہو، لیکن جماعت کی خاموش ترجیح سیکولر جمہوریت سے ہی قربت تلاش کرنا رہی ہے۔ اپنی تحقیق اور تجزیے کی بنیاد پر مصنف ا س خیال کو غلط ٹھہراتے ہیں کہ جماعت کے اندر یہ تبدیلی محض ظاہری ہے۔ ان کی نظر میں اس تبدیلی کا تعلق جماعت کے اندرون سے ہے ۔خود اس کے فکری ڈھانچے میں گہرائی کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ (ص:۲)
کتاب کا چوتھا ،پانچواں اور چھٹاباب جماعت اسلامی کی فکر کی بنیاد پر قائم ہونے والی دو طلبہ تنظیموں:سیمی (SIMI) اور ایس آئی او ((SIO کے تقابلی مطالعے پر کے مختلف اہم پہلووں پر مشتمل ہے۔ اس کے لیے مصنف نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اعظم گڑھ میں جماعت کی طرف سے قائم مدرسے جامعۃ الفلاح میں فیلڈ ورک کے طور پر کافی وقت گزارا اور دونوں تنظیموں سے منسلک طلبہ کی تنظیمی و اجتماعی سرگرمیوں کوقریب سے دیکھنے ،پڑھنے کی کوشش کی ۔دونوں جگہوں پروہاں کے طلبہ اور کارکنان واساتذہ سے پیہم ملاقاتیں کرکے دونوں گروپ کے طلبہ وکارکنان کی ذہن کی ساخت اور اس کے تشکیلی عوامل کو سمجھنے کی جد وجہد کی تاکہ ایک ہی پس منظر رکھنے والے دونوں طلبہ گروپوں کے بالترتیب اعتدال پسندی اور ریڈیکلزم کے رویے کے بنیادی اسباب کا اندازہ کیا جاسکے۔مصنف کی نظر میں سیمی کی انتہاپسندانہ ذہنی تشکیل میں بنیادی طور پر ہندوتو طاقتوں کے اسی اور نوے کی دہائیوں کے عروج نے اہم رول نبھایا ہے ۔خاص طور بابری مسجد کے انہدام اور اس کے ما بعد ملک گیر فسادات نے سیمی کو ہندوستان جیسے ملک میں بھی جہاد کا راستہ اختیار کرنے پرمائل کیا۔ قابل غور ہیکہ مصنف کے مطابق ،۱۹۹۱ سے قبل سیمی کے اندر جہاد کا رجحان نہیں پایا جاتا تھا۔ ان کا مطالعہ جن نتائج پر مشتمل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ا ن کی نظر میں سیمی کا ظاہرہ (phenomenon) ہندوستان کے سیکولر جمہوری نظام کی ناکامی کی پیداوار ہے۔سیمی کے جماعت کی سر پرستی سے محرومی اسی کے ساتھ اس سے متعلق طلبہ کے سماجی پس منظر کو بھی کافی دخل رہا ہے ۔سیمی کے کارکنان شہری علاقوں اورخوش حال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد اور سرپرستوں کی تعلیم مدارس کے ساتھ عصری درس گاہوں میں بھی ہوئی ہے۔وغیرہ۔ایس آئی او کی صورت حال بہت حد تک اس کے برعکس ہے۔جس کی قابل ذکر تفصیلات مصنف نے پیش کی ہیں۔
یہ مطالعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے اور مصنف کا اپنا نقطہ نظریہی ہے کہ اسلام پسندی کا نظریہ کوئی جامد اور بے لچک نظریہ نہیں ہے۔بلکہ وہ بہت سے دوسرے نظریات کی طرح ایک متحرک نظریہ ہے۔ جس میں زمانی و مکانی احوال وواقعات کے نتیجے میں ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے۔ہم اسے اس پورے مطالعے کا حاصل کہ سکتے ہیں۔اسلام پسندی سے متعلق خاص طورپر مغرب کے سیاسی وفکری حلقوں میں اس وقت جونظریات پائے جاتے ہیں،یہ نظریہ بہت حدتک ان سے مختلف اور حوصلہ افزا ہے۔اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصے میں مختلف ملکوں کی اسلامی تحریکات کے اندر جو انتہا پسندانہ رجحانات سامنے آرہے ہیں وہ عبوری ہیں مستقل نہیں ہیں۔مشرق وسطی میں ان رجحانات کی پرورش میں وہاں کے غیر جمہوری سیاسی ماحول کا بنیادی دخل رہا ہے جس کی بقا انہی عالمی طاقتوں کی رہین منت ہے جوان تحریکات سے سب سے زیادہ خائف ہیں۔یہ پیراڈاکس ،فکر کا اہم مقام ہے۔
اسلامی اور سیاسی حلقوں کے لیے یہ مطالعہ ایک اہم بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کمزوریوں اورکا جائزہ لے سکیں جو بعض مسلم گروپوں میں انتہا پسندی کے فروغ کا سبب بنی ہیں یا بن رہی ہیں۔خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ عرفان احمد نے نہایت مدلل طور پر اس بات کوثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں ریڈیکل رجحانات کی پیدائش اور افزائش کا تعلق مذہبی نظریات سے نہیں ،جیساکہ ہن ٹنگٹن اور برنارڈ لیوس جیسے لوگ کہتے رہے ہیں ،بلکہ اس کا تعلق سماجی حالات سے ہے۔مذہبی نصوص کی تشریح و تطبیق افراد او ر جماعتوں کی خود اپنی تاثر پذیر ذہنیت کا مر ہون منت ہوتی ہے۔یہ بشریاتی مطالعہ انتہا پسندی کی جڑوں کی تلاش و دریافت کے لیے کیے گئے حالیہ مطالعات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ہندوستان کے تعلق سے اپنی نوعیت کا یہ پہلا مطالعہ ہے۔جواس موضوع پرکا م کرنے والوں کے لیے ایک مضبوط زمین فراہم کرتا ہے۔امید ہے کہ اس کتاب سے سوچنے والوں کو نئی جہت ملے گی اور بہت سی ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گاجواب تک مسلم اور غیر مسلم فکری و سیاسی حلقوں میں پائی جاتی رہی ہیں۔
ڈاکٹرعرفان احمد ہندوستان کے صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والے نوجوان وذہین قلم کار ہیں۔طالب علمی کے زمانے سے مختلف اہم موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔ دہلی جواہرلال نہرو یونی ورسٹی سے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ اس وقت وہ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
(تبصرہ نگار: محمد وارث مظہری)