فکر اسلامی کو درپیش عصری چیلنج ۔ تجمد اور تجدد کے درمیان راہ توسط کی تلاش

ڈاکٹر محمد امین

شارع مشفق ومہربان نے ختم نبوت کااعلان کرتے ہوئے دین حق کو تاقیامت قابل عمل رکھنے کے لیے جس حکمت عملی کااعلان فرمایا، اس کے اہم اجزا یہ تھے:سارے عالم کوہمیشہ کے لیے امت دعوت قراردینا، نصوص قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود لینا، مسلمانوں کو کار دعوت کی ذمہ داری سونپنا اور انہیں اجتہاد کی اجازت دینا۔ عقیدے سے قطع نظر عقل ومنطق کی رو سے بھی یہ انتظامات اس امر کی قطعی بنیاد مہیا کر دیتے ہیں کہ فکر اسلامی دنیا کے ہرخطے میں اور ہر عہد میں قابل عمل رہ سکتی ہے، لیکن ان اصولوں سے فائدہ اٹھانے اور ان پرعمل کرنے کا انحصار بہرحال انسانی کاوشوں پر ہے۔ اگر مسلم اہل علم ان اصولوں کونہ اپنائیں اور ان پر عمل درآمد نہ کریں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کرسکتا اورنہ اس سے شریعت کے کمال وشمول پر حرف آتا ہے۔

اجتہاد کی ضرورت اور سپرٹ یہ تھی کہ نصوص قرآن وسنت بہرحال محدود تھیں جبکہ قیامت تک آنے والی انسانی نسلوں کے مسائل محدود نہ ہو سکتے تھے کہ زمان ومکان کے تغیر کے ساتھ فکری اور تمدنی ارتقا بھی ناگزیر تھا۔ لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ تھا کہ نئے دعوتی، قانونی، سماجی، معاشی مسائل میں نصوص کی تعبیر نو، قیاس، مقاصد شریعت، مصالح مرسلہ وغیرہ جیسے ذرائع استعمال کرکے اجتہاد کی مستقل اجازت دے دی جائے۔ اس سلسلے میں صدر اول میں دو طرح کے رجحانات دیکھنے میں آئے۔ ایک نصوص کی تعبیر الفاظ نص کے قریب تر رہتے ہوئے کرنا (جسے Literal Interpretation کہا جا سکتا ہے) اور دوسرے الفاظ نص کی سپرٹ اور علت وغایت کو سامنے رکھتے ہوئے تشریح کرنا (یعنی Liberal Interpretaion کرنا)۔ انہی دو نوں رجحانات نے بعد میں اہل الرائے اور اہل الحدیث اور عصرتدوین میں مذاہب ائمہ اربعہ کی تدوین اور مسلک اہل الظاہر کی ترسیم کا روپ دھارا۔ اس دوران مسلمانوں میں تعلیم وتعلم اور تحقیق وتفتیش کے رویے پختہ ہو کر سامنے آئے۔ یونانی افکار کے تعارف نے علمی حلقوں میں تموج پیدا کیا اور اگرچہ کچھ عرصہ تک بعض مسلم حلقے اس سے مرعوب بھی ہوئے، لیکن مسلم فکر اس وقت تک بہرحال اتنی توانا تھی کہ اسے یونانی فکر کے حملے کو پسپا کردینے میں زیادہ دقت نہ ہوئی اور اعتزال کافتنہ بتدریج اشعریت اور ماتریدیت کی صورت میں مسلم فکر کے مرکزی دھارے میں جذب ہوتا چلا گیا اور بعد میں امام غزالی، امام رازی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے تابڑ توڑ حملے کرکے اس کی کمر ہی توڑ دی۔ لیکن متعدد عوامل کی بناپر (جن میں سیاسی عدم استحکام، منگولوں کاحملہ، تدوین فقہ کی کوششوں کی جامعیت وعبقریت، مذہبی انتشار، اخلاقی اضمحلال وغیرہ شامل ہیں) تحقیق وتفتیش اور فکری حریت کا یہ سفر اسی آب وتاب سے جاری نہ رہ سکا اورعلماے کرام کواجتہاد کی بجائے تقلید میں عافیت نظر آنے لگی۔

مسلم زوال کی ایک اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم وتزکیہ میں دراڑیں پڑ گئیں اور وہ فرد تیار ہونا بند ہوگیا جیسا کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ہوتاتھا۔ تاہم یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ بتدریج ہوا اور نورنبوت کی روشنی اتنی توانا تھی کہ منگولوں کے بڑے جھٹکے اور دیگر چھوٹے موٹے بے شمار دھچکوں کے باوجود تقریباً ایک ہزار سال تک مسلم دنیا کے دل و دماغ کو منور کرتی اور انہیں قوت عمل مہیا کرتی رہی، تاآنکہ مسلمانوں کے قلوب زنگ آلود ہونے اور عقلیں کند ہونے کی وجہ سے ان کی بے علمی وبے عملی اس حد کو جا پہنچی کہ نور نبوت سے اکتساب کے قابل نہ رہی اور مسلمان محض ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے تک محدود ہو کر رہ گئے۔

اسے کوئی سوئے اتفاق کہے، مسلمانوں کی کمزور منصوبہ بندی یا اللہ کی مشیت کہ مسلمان افریقہ، شرق اوسط، وسط ایشیا اور مشرق بعید تک کے علاقوں پر تواسلام کا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن یورپ کے قلب تک نہ پہنچ سکے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی یورپ ہمیشہ مسلمانوں کا حریف اور مدمقابل رہا اور صلیبی جنگوں میں کبھی جیتا اور کبھی ہارتا رہا۔ وہاں کے مذہبی اور سیاسی طبقے نے اپنے مفادات کے لیے مسلمانوں کے خلاف عوام میں نفرت کے گہرے بیج بو دیے اور جب مسلم ریاستیں اپنی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے مضبوط نہ رہیں اور اہل مغرب خواب غفلت سے بیدار ہو کر توانا ہو گئے توانہوں نے سازشوں سے مسلمانوں کوباہم لڑایا، کمزور کیا، پھر مل کر ان پر حملہ کیا اور انہیں غلام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلمانوں، خصوصاًعلماے کرام نے ان کی حتی المقدور مزاحمت کی لیکن ان کا راستہ نہ روک سکے۔ بالآخر بیسویں صدی میں غالباً ’تلک الایام نداولھا بین الناس‘ کے الہٰی اصول پر یورپی اقوام آپس میں لڑ کر کمزور ہوئیں اور مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا موقع مل گیا۔

بیسویں صدی میں مغرب کی غالب الحادی فکر وتہذیب کے ساتھ تعامل کے تناظر میں مسلم معاشرے میں اسلامی فکر کے تین پہلو ابھر کر سا منے آئے ہیں۔ ایک تجمد کا پہلو جس کی طرف میلان ہمارے روایتی علماے کرام رکھتے ہیں جن کے ہاتھ میں مسلمانوں کے مدارس ومساجد کی آبادی اور معاشرے کے مذہبی رسوم ورواج کی ادائیگی ہے اوروہی مسلم معاشرے میں اسلام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی حالت بقول اقبال یہ ہے کہ :

آئین نوسے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں 

وہ اپنے قدیم ائمہ فقہا کی آرا کو بھی تقدیس کادرجہ دینا گو اصولاً نہ تسلیم کرتے ہوں لیکن عملاً تودیتے ہی ہیں اور اسی طرح گو اجتہاد کا اصولاً انکار نہ کریں لیکن عصر حاضر میں کسی فرد میں عملاً مجتہد ہونے کی صلاحیت تسلیم کرنا یا اسے حق اجتہاد دینا انہیں ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جدید عصری مسائل کے وجود کے بھی وہ منکر نہیں، لیکن اپنے مدارس میں وہ ایسے فقہا تیارکرنے کے لیے آج بھی آمادہ نہیں جو اہل مغرب کی زبان سمجھتے ہوں، ان کی تہذیب کی فکری اساسات وفلسفے اور تہذیبی اداروں اور مظاہر سے واقف ہوں اور مغربی فکر وتہذیب سے تعامل کے نتیجے میں مسلم معاشرے جن مسائل سے دوچار ہیں، ان مسائل کے حل کی تربیت ان کے دینی مدارس میں انہیں دی جاتی ہو اور اس حوالے سے وہ امت کی رہنمائی کرسکتے ہوں۔

دوسرا رویہ تجدد کا ہے۔ اس رویے کے حامل وہ لوگ ہیں جو خود کو روشن خیال سمجھتے ہیں، تجمد کی مذمت کرتے ہیں اور بزعم خویش وہ اس کارخیر میں مصروف ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کی عقلیت کے مطابق ثابت کرسکیں جب کہ ان کے بارے میں دوسرے سب لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ مغرب کی الحادی فکر وتہذیب سے مرعوب ہیں اور اسلام کی کتربیونت کر کے اور مغربی تقاضوں کے مطابق اسلامی احکام کی تشریح کرکے مغربی لباس کو اسلام کے جسم پر فٹ کرناچاہتے ہیں۔ گویابقول اقبال :

خود بدلتے نہیں قرآں کوبدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

ان کو اسلام کی ہر وہ چیز قابل مدح لگتی ہے جو مغربی فکروتہذیب کے مطابق ہو اور اسلام کی ہر اس فکر، رائے اور ادارے کو وہ قابل تغیر اور قابل تاویل سمجھتے ہیں جو مغربی فکر وتہذیب کے مطابق نہ ہو، اوران کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ عقلی استدلال اور تاویل کے ہنر سے کسی نہ کسی طرح نصوص شرعیہ کی ایسی تشریح کر سکیں جس سے وہ مغربی فکرو تہذیب کے قریب نظر آئیں یا اس کے مطابق دکھائی دینے لگیں۔ برصغیر میں مغربی فکر وتہذیب سے مرعوب ومتاثر ان متجددین کی کاوشوں کی بھی ایک پوری تاریخ ہے جس کے سالار اول سرسید احمد خان تھے اور جن کی آج کے پاکستان میں نمائندگی جناب جاوید احمد غامدی صاحب کرتے ہیں۔

صحیح اور متوازن نقطہ نظر یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں فکری رویے افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔ نہ تجمد صحیح ہے اورنہ ہی تجدد، اعتدال اور توسط کی راہ ہی درست ہے اوراسی میں خیر ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے کہ ’خیر الامور اوسطھا‘ اور نماز وسطیٰ کوآپ نے بہترین نماز قرار دیا۔ اسی طرح قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ ہم نے تمہیں امت وسط بناکر بھیجا ہے۔ لہٰذا ضرورت ا س امرکی ہے کہ اسلام جس فکری حریت کا علم بردار ہے اورجس کا مظاہرہ ہمارے اسلاف کرتے رہے ہیں، آج بھی اسی کو اپنایا جائے۔ ہر نئی چیز بدعت اور مضر نہیں ہوتی سوائے اس کے جوخلاف اسلام ہو، لہٰذا قرآن وسنت کی روسے ہر اس جدید کو قبول کرنے میں کوئی مانع نہیں جو خیر اور معروف پر مبنی ہو، جوقرآن وسنت اور مقاصد شرعیہ کے خلاف نہ ہو اورجس میں مسلمانوں کی مصلحت ہو۔ تاہم اس امر کا شعوری ادراک بہت ضروری ہے کہ مغربی فکر وتہذیب (جو اس وقت دنیا کی غالب فکرو تہذیب ہے) وہ اپنی اصل میں غیر اسلامی ہے۔ سیکولر ازم، ہیومنزم، لبرل ازم وغیرہ (جن کے پیش نظر یہ دنیا اور اس میں انسان کی خدائی ہے) اسلامی تصور انسان، تصور کائنات اور تصورالٰہ کی ضد ہیں۔ لہٰذا اس فکر وتہذیب اور مسلم معاشرے کے تعامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں ذہنی بیداری کی ضرورت ہے کہ ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر اس غیر اسلامی (بلکہ اسلام دشمن) فکر وتہذیب سے مرعوب و متاثر نہ ہو جائیں اور ان کا ناخوب بھی ہمیں خوب نظر نہ آنے لگے۔ ہمیں اجتہاد کی ضرورت ہے، ہم حریت فکرکے علم بردار ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جدیدیت اور تجدید کے نام پر مغربی فکر کا ہر رطب ویابس قبول کرلیں۔ نہیں! ہمارے ردوقبول کے اپنے پیمانے ہیں اورہمیں انہیں پیمانوں کو استعمال کرنا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج فکر اسلامی کو درپیش چیلنج یہ ہے کہ تجمد اور تجدد کے افراط وتفریط پر مبنی رویوں سے بچتے ہوئے اعتدال وتوسط کی راہ پر چلا جائے اور ایسی تجدید کو قبول کیا جائے جو اسلامی معاییر کے مطابق ہو لیکن اس کے ساتھ ہی نہ صرف مغرب کی الحادی فکر وتہذیب کے مفاسد سے بچنے کی شعوری کوشش کی جائے بلکہ دوکام اوربھی کیے جائیں:

ایک تو یہ کہ مغربی فکر وتہذیب کا شعوری منصوبہ بندی سے علمی، فکری، تہذیبی اور عملی کوششوں سے رد کیا جائے اور اس کے مقابلے میں فکر اسلامی کی ہر لحاظ سے برتری اور بہتری کا عقل واستدلال سے اثبات کیا جائے۔

دوسرے فکر اسلامی کو مسلم فرد کے اذہان وقلوب میں راسخ کرنے اور مسلم معاشرے میں اس کے عملی غلبے واستحکام کے لیے تعلیم وابلاغ وتزکیہ پر مبنی درست سمت میں کوششوں کو فزوں تر کیا جائے تاکہ اس سے مطلوبہ نتائج عملاً نکلتے نظر آئیں۔

اسلام اور عصر حاضر

(ستمبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter