غامدی صاحب کا تصور فطرت چند توضیحات

سید منظور الحسن

’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ محمد زبیر صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی کی تصنیف ’’اصول و مبادی‘‘ کے بعض اصولی تصورات پر تنقیدی مضامین تحریر کیے تھے ۔ یہ مضامین پہلے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے اور بعد ازاں ’’فکر غامدی، ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں طبع ہوئے۔یہ کل تین مضامین تھے جن میں سے پہلے کا عنوان ’’جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت‘‘ تھا اور اس میں خیر و شر کے فطری الہام کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر تنقید کی گئی تھی۔اس مضمون کے جواب میں ہم نے ایک مفصل مضمون تحریر کیا تھا جس میں عقل و نقل کے دلائل کی بنا پر جملہ تنقیدی نکات کے سقم کو واضح کیا تھا۔ ہمارا یہ مضمون ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۰۷ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کے جواب میں ہمیں یہ توقع تھی کہ زبیر صاحب کو اگر ہمارے تجزیے سے اتفاق ہوا تو وہ کسی تعصب کے بغیر اس کا اظہار کریں گے اور اگر اختلاف ہوا تو ہمارے دلائل کی تردید میں اپنا استدلال پیش کریں گے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث تعجب ہے کہ اس کے جواب میں جو تحریر لکھی گئی ہے، اس میں ہمارے دلائل اور ہماری توضیحات کے بارے میں کامل خاموشی کا رویہ اختیار کیا گیاہے ۔

قارئین کی یاددہانی کے لیے اس علمی مکالمے کے جملہ نکات حسب ذیل ہیں جو فاضل ناقد کی نظر عنایت سے محروم رہے ہیں: 

۱۔ فاضل ناقد کی بنیادی تنقید یہ تھی کہ سورۂ شمس کی آیت ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ سے غامدی صاحب نے یہ غلط مفہوم اخذ کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے خیر و شر کا احساس اور شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہے جس کی بدولت وہ نیکی اور بدی سے پوری طرح شناسا ہے۔

اس کے جواب میں ہم نے گزارش کی تھی کہ نیکی و بدی کے شعور کا انسانی فطرت میں ودیعت ہونا سورۂ شمس کی مذکورہ آیات کے علاوہ سورۂ اعراف کی آیت ۲۲، سورۂ دہر کی آیت ۳، سورۂ بلد کی آیت ۱۰ اور سورۂ قیامہ کی آیات ۱۴۔۱۵ سے بھی واضح ہے۔ اس ضمن میں ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسے جلیل القدر علماے امت کے اقتباسات نقل کیے تھے۔

فاضل ناقد کی تحریر میں ہمارے اس جواب پرکوئی تبصرہ نہیں ہے ۔

۲۔فاضل تنقید نگار نے انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے نصوص کی بنا پر تین دلائل پیش کیے تھے: ان کی پہلی دلیل یہ تھی کہ سورۂ بقرہ کی آیت۳۸ اور سورۂ طٰہٰ کی آیت ۱۲۳ میں ’مِّنِّیْ ہُدًی‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو دنیا میں بھیجنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے ذریعے سے انسان کو نیکی اور بدی سے روشناس کرایا۔ 

اس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ بنی آدم کے لیے روز اول سے سلسلۂ وحی جاری کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان کا فطری علم کسی بھی درجے میں اس کی رہنمائی نہیں کر سکتا اور یہ کہ انسان ہر معاملے میں ’وحی‘ ہی کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ اس موقف کی تائید میں ہم نے علماے امت کی تحریریں بھی نقل کی تھیں۔

ہمارے اس جواب پربھی مذکورہ تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں ہے ۔

۳۔انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے فاضل تنقید نگار کی دوسری دلیل یہ تھی کہ سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ۷۸ میں بیان ہوا ہے کہ ’اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے‘۔ اس بنا پر انھوں نے یہ استدلال کیا تھا کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ نیکی و بدی کے شعور سے بے بہرہ ہوتا ہے۔

اس پر ہم نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘،’’ تفسیر عثمانی‘‘، ’’تدبر قرآن‘‘ اور ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اقتباسات نقل کر کے یہ بات واضح کی تھی کہ مذکورہ آیت میں انسان کی پیدایش کے وقت اس علم کی نفی ہوئی ہے جو اسے حواس اور مشاہدات کے ذریعے سے خارجی دنیا کے بارے میں حاصل ہوتا ہے، اس کے فطری علم کی یہاں ہر گز نفی نہیں کی گئی۔

اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔

۴۔انسان کی فطرت میں نیکی و بدی کے شعور کی نفی کے لیے تیسری دلیل کے طور پر فاضل تنقید نگار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی تھی کہ ’اللّٰھم آت نفسی تقواھا‘، ’’پروردگار، میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما۔‘‘ اس پر انھوں نے لکھاتھا کہ اگر ’فجور‘ اور ’تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے ا للہ سے مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟گویااگر نفس کا تقویٰ انسان کو فطری طور پر ودیعت ہوتا تو آپ اسے اللہ تعالیٰ سے ہر گز طلب نہ کرتے۔ 

اس ضمن میں ہم نے گزارش کی تھی کہ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ دعا سے اس چیز کی عدم دستیابی لازم آتی ہے جس چیز کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے۔ بلا شبہ ناحاصل کے لیے دعا مانگی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم حاصلات کے لیے بھی پروردگار کے حضور میں دست دعا بلند کرتے ہیں۔ اس سے مقصود اس حاصل میں ازدیاد اور اس کا دوام و استمرار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر صالح مسلمان صراط مستقیم پر گا م زن رہنے کے باوجود دن میں کم سے کم پانچ مرتبہ ’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘ کی دعا مانگتا ہے۔

ہمارا یہ جواب بھی فاضل ناقد کے تبصرے سے محروم ہے۔

۵۔ فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں یہ الزام لگایا تھا کہ غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو حلال وحرام کا اختیار تفویض کر کے اسے شارع بنا دیا ہے اور اس طرح نعوذ باللہ اسے اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔

اس کے جواب میں ہم نے کہا تھا کہ یہ بات بدیہی طور پر سوء فہم پر مبنی ہے کہ فطری علم کی روشنی میں طیبات و خبائث کی تعیین تحلیل وتحریم کے زمرے میں آتی ہے اور یہ بات انسان کو شارع کے منصب پر فائز کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ چیز اگر فطرت کے مستقل ماخذ دین قرار پانے یا انسان کے تحلیل وتحریم کے منصب پر فائز ہونے کو مستلزم ہے تو اس ’جر م‘ میں جمہور فقہا بھی غامدی صاحب کے ساتھ پوری طرح شریک ہیں۔ 

اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔

۶۔فاضل تنقید نگار نے ایک الزام یہ بھی لگایا تھاکہ غامدی صاحب ہر انسان کو تو حلال وحرام کا فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں، مگر نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا حق تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

اس کے جواب میں ہم نے واضح کیا تھا کہ جس دائرے میں قرآن نے چار چیزوں کی حرمت بیان کی ہے، اس پر اضافے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں ان محرمات میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اس سے مختلف ایک دوسرے دائرے میں بعض جانوروں کی حرمت کو واضح کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ کے ارشادات اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے جانوروں کی حرمت کے بارے میں فقہا کے فیصلے، دونوں خبائث کی حرمت کے اس اصول پر مبنی ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، لہٰذا قرآن کی بیان کردہ حرمتوں پر اضافے کا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ ماننے اور عام انسانوں کے لیے تسلیم کرنے کا اعتراض بالکل بے معنی ہے۔ ہم نے امام شافعی کی کتاب ’’الام‘‘، فقہ حنفی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘، ابن قتیبہ کی ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘،فقہ حنبلی کی نمائندہ کتاب ’’المغنی‘‘ اور ابن حزم کی ’’المحلیٰ‘‘ کے اقتباسات نقل کر کے یہ واضح کیا تھا کہ جانوروں کی حلت و حرمت کے معاملے میں طیبات اور خبائث کو بنیادی اصول قرار دینا غامدی صاحب کی کوئی منفرد رائے نہیں ہے، بلکہ جمہور فقہا بھی اسی رائے کے قائل ہیں۔

اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔

۷۔فاضل ناقدنے یہ نکتہ بھی پیدا کیا تھا کہ انسانی فطرت کو خبیث و طیب کے تعین کا اختیار دینے کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانوں کے مختلف گروہ اپنے اپنے فطری میلان کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف نتائج پر پہنچیں تو ان میں سے ترک و اختیار کا فیصلہ کس اصول کی بنا پر کیا جائے گا؟ انھوں نے اس سوال کا از خود یہ جواب وضع کر کے کہ اس کا فیصلہ انسانی فطرت سے ہو گا،اسے جناب جاوید احمد غامدی کی نسبت سے بیان کیا تھا۔

اس پر ہم نے یہ توجہ دلائی تھی کہ غامدی صاحب سے اس بات کی نسبت صریح طور پر غلط ہے اور یہ واضح کیا تھا کہ غامدی صاحب نے نہایت صراحت سے اپنی تصنیف ’’اصول و مبادی‘‘ میں یہ بات بیان کی ہے کہ اختلاف کی صورت میں ذریت ابراہیم کا رجحان فیصلہ کن ہو گا، کیونکہ معروف و منکر سے متعلق ان کے رجحانات کو گویا انبیا کی تصویب حاصل ہے۔

اس جواب پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔

۸۔زبیر صاحب نے اپنی بحث کے آخر میں ’’غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف‘‘کی سرخی قائم کی تھی اور اس کی مثال کے طور پر ڈاڑھی کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تضاد بیان کیا تھا کہ ایک جانب غامدی صاحب فطرت کو دین قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب ڈاڑھی جیسی فطری چیز کو دائرۂ دین میں شامل ہی نہیں کرتے۔

اس پر ہم نے گزارش کی تھی کہ ڈاڑھی کے ایک فطری چیز ہونے سے غامدی صاحب نے ہر گز انکار نہیں کیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس فطری چیز کو شریعت نے باقاعدہ دینی رسم کی حیثیت دی ہے یا نہیں؟

اس جواب پر بھی مذکورہ مضمون میں کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔

یہ فاضل ناقد کی تنقیدات اور ان پر ہمارے جوابات کا خلاصہ ہے۔ فاضل ناقد نے اپنی تازہ تحریر میں ان میں سے کسی نکتے پر کلام کرنا تو پسند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایک جامع کلمہ ارشاد فرما کر بحث کو سمیٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

’’... میں جناب منظور الحسن صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ واقعۃً اس بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانا چاہتے ہیں تو اس ادھر ادھر کی تاویلات میں پڑکر بحث کو طویل کرنے ا ور الجھانے کی بجائے درج ذیل تین آپشنز پر غور کریں:
الف) اگر تو غامدی صاحب ’الشریعہ‘ کے کسی شمارے میںیہ لکھ دیں کہ ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں جناب منظور الحسن صاحب نے میری نسبت سے جو چار مصادر دین بیان کیے ہیں، اس میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اور میں ان کی اس عبارت سے متفق نہیں ہوں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ب)یاجناب سیدمنظورا لحسن صاحب خود یہ لکھ دیں کہ میری ماہنامہ’اشراق‘ مارچ۲۰۰۴ء میں شائع شدہ عبارت منسوخ ہے، پہلے میرا خیال یہ تھا کہ غامدی صاحب کے مصادر دین چار ہیں لیکن اب مجھ پرواضح ہوا ہے کہ’فطرت‘ ان کے مصادر دین میں سے نہیں ہے۔ 
ج)یا سید منظور الحسن صاحب مجھے کم از کم غامدی صاحب کے بارے میں اتنالکھنے کی اجازت دیں جتنا کہ خود انھوں نے لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ 
’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ ‘‘
اور چوتھی اور آخری صورت وہ ہے کہ جو جناب منظور الحسن صاحب عملاً کر رہے ہیں کہ اس بحث کو اتنا طویل کر دو اور الجھا دو کہ قارئین کے ذہن منتشر ہو جائیں اور اصل نکتے تک کوئی نہ پہنچ سکے۔‘‘  (ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۷،۴۵)

’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ اور ’’تین آپشنز‘‘ یہ اس بحث کا انجام ہے جو ’’فکر غامدی ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کے نام سے موسوم ہونے والی اور ’’تین آپشنز‘‘ تک محدود رہ جانے والی اس بحث کا آغاز بھی فاضل ناقد نے کیا تھا اور اس کے تمام تنقیدی نکات کا انتخاب بھی ان کی اپنی صواب دید پر مبنی تھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کا حکم لگا کر اور ’’تین آپشنز‘‘ کی راہ دکھلا کر مذکورہ علمی مباحث سے جو گریز کیا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے تصور فطرت پر اپنی تنقیدات سے رجوع کر لیا ہے؟ اگر اس کے یہی معنی ہیں تو فاضل ناقد کی جانب سے اس کا برملا اظہار ہی حق پرستی کا تقاضا ہے۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ فاضل ناقد کو ہمارے پیش کردہ دلائل سے اتفاق نہیں ہے؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ میں پڑنے کے بجائے ہمارے دلائل کی تردید میں اپنا استدلال پیش کرنا چاہیے۔ یہی علم ہے، یہی اخلاق ہے اور یہی دین ہے۔ لیکن اگر صورت یہ ہے کہ میرے پاس آپ کے استدلال کا جواب بھی نہیں ہے اوراپنے موقف کی مدافعت میں کوئی دلیل بھی نہیں ہے اور اس کے باوجود میں آپ کی بات کو غلط کہنے اور اپنی بات کو صحیح کہنے پر اصرار کرتا ہوں اور مستزاد یہ کہ میرا یہ رویہ کسی دنیوی معاملے میں نہیں، بلکہ اللہ کے دین کے معاملے میں ہے تو پھر مجھے اس دن کے بارے میں متنبہ رہنا چاہیے جس دن ہمارے ہر قول و فعل کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

فاضل ناقد نے اپنی جوابی تحریر میں اس بحث پر ہمارے دلائل سے تو کوئی تعرض نہیں کیا، البتہ اس بحث کے حوالے سے بعض اضافی باتوں پر مبنی ایک تقریر ارشاد فرمائی ہے۔ یہ تقریرفاضل ناقد کے چند تبصروں کا مجموعہ ہے۔ایک تبصرہ یہ ہے کہ اہل ’’المورد‘‘ جب چاہتے ہیں امت کی متفقہ رائے کو نظر انداز کر کے اس کے مقابل میں منفرد رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فقہا کی شاذ آرا کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لیتے ہیں۔ (الشریعہ ، اگست ۲۰۰۷،۴۵)

اس تبصرے پر بصد ادب ہمارے دو سوال ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ’’جب چاہتے ہیں‘‘کے الفاظ سے کیا مراد ہے؟اہل ’’المورد‘‘کی جو آرا فاضل ناقد نے تنقید کے لیے منتخب کی ہیں، کیا اہل ’’المورد‘‘ نے انھیں عقل و نقل کے دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو پھر علم و اخلاق کی رو سے ’’جب چاہتے ہیں‘‘کا فتویٰ صادر کرنے کی کیا گنجایش ہے؟ اس صورت میں کیا واحد راستہ یہ نہیں ہے کہ زیر تنقید رائے کے دلائل کو چیلنج کر کے ان کی غلطی کوواضح کیا جائے؟

دوسراسوال یہ ہے کہ ’’فقہاء کی شاذ آراء کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کر لینے‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ ’’شاذ آراء‘‘ کی اس تعبیر کا مصداق اگر امام رازی، علامہ آلوسی، مفتی محمد شفیع اور مولانا مودودی جیسے مفسرین اور امام شافعی، علامہ کاسانی حنفی، امام ابن قتیبہ،ابن قدامہ حنبلی اور ابن حزم جیسے فقہا کے وہ حوالے ہیں جنھیں ہم نے اپنے موقف کی تائید میں نقل کیا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ فاضل ناقد لغت میں سے’’شاذ‘‘ کے معنی و مفہوم کو تبدیل کر دیں۔ بصورت دیگر، انھیں یہ بتانا ہو گا کہ وہ کون کون سے علما و فقہا ہیں کہ جن کے حوالے اگر پیش کر دیے جائیں تو مذکورہ رائے ’’ شاذ‘‘ کے دائرے سے نکل کر معروف ، متداول اورمتفق علیہ قرار پا سکتی ہے۔

فاضل ناقد نے اپنی اس تقریر میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی شرح و تفسیر میں جن علما و فقہا کے حوالے دیے گئے ہیں، اگر ان کا فہم ہمارے لیے حجت ہے تو ر جم کی سزا، ارتداد کی سزا، نزول مسیح، تصویر کاجواز اور قراء توں کے اختلاف جیسے مسائل پر بھی ہمیں ان علما و فقہا کے فہم پر اعتماد کرنا چاہیے۔

فاضل ناقد کی اس بات کے معنی یہ ہیں کسی صاحب علم کی اگر ایک رائے قبول کی ہے تو لازم ہے کہ اس کی باقی آرا کو بھی قبول کیا جائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ علم و استدلال کی دنیا میں اس مطالبے کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔جن اصحاب علم کے لیے یہ استحقاق طلب کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے خود بھی کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ فرد کے بجائے اس کے موقف اور اس موقف کے استدلال کو موضوع بنایا۔ سلف صالحین کا یہی منہج ہے جسے بعد میں آنے والوں نے بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اختیار کیا اور اس میں کبھی تامل نہیں کیا کہ اگر ایک معاملے میں طبری اور ابن کثیر کی رائے قبول کی ہے تو دوسرے معاملے میں رازی اور زمخشری کی رائے کو اختیار کیا جائے۔ اہل علم کی یہی روایت ہے جسے دور جدید میں علامہ شبلی نعمانی، مولانا حمید الدین فراہی ،سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے پوری شان کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ 

فاضل ناقد نے اپنی تقریر میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ’الطیبات‘ اور ’الخبائث‘ کی تفسیرمیں جن علما و فقہا کے حوالے نقل کیے گئے ہیں، ہم نے ان کی آرا تو نقل کر دی ہیں، مگر ان کا استدلال بیان نہیں کیا۔ 

اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فاضل ناقد مذکورہ بحث میں ہمارے پیش کردہ حوالوں کا توجہ سے مطالعہ نہیں کر سکے ۔ ہم نے جو حوالے نقل کیے تھے، ان میں علما و فقہا کا استدلال نہایت واضح طور پر بیان ہوا ہے۔ فاضل ناقد اگر ایک مرتبہ پھر ان کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہو گا کہ ان میں طیبات کی حلت اور خبائث کی حرمت کے لیے سورۂ اعراف کی آیت ’وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ ‘ (یہ پیغمبر ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھیراتا ہے) کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی شرح و تفسیر کے ضمن میں ہم نے امام رازی کا اقتباس نقل کیا تھا جس میں انھوں نے فرمایا:

’’’ویحل لہم الطیبات‘: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ طیبات سے مراد وہ اشیا ہیں جن کے حلال ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، مگر یہ بات دو پہلووں سے بعید ہے۔ ایک یہ کہ اگر اس کا معنی یہ ہوتا تو پھر الفاظ یہ ہوتے کہ ’ویحل لہم المحلات‘ (اور پیغمبر ان کے لیے حلال چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے) اور یہ محض تکرار ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ معنی لینے سے آیت فائدے سے خالی ہوجاتی ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جن اشیا کو اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے، وہ کیا ہیں اور کتنی ہیں۔ لازم ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہوں جو طبیعت کو اچھی لگیں اور جن کو کھانے میں لذت کا فائدہ حاصل ہو۔‘ ‘ (تفسیر کبیر۱۵/ ۲۴)

فاضل ناقد نے حالیہ تحریر میں اپنی تمام علمی تنقیدات اور ان پر ہمارے جوابی دلائل سے تو پوری طرح قطع نظر کیا ہے، البتہ راقم کے ایک گزشتہ مضمون کا یہ جملہ نقل کر کے کہ ’’ دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اورقدیم صحائف بھی ہیں‘‘،سارا زور قلم اس بات پر صرف کیا ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک فطرت بھی ہے۔فاضل ناقد نے یہ مقدمہ ’’ جاوید احمد غامدی کا تصور فطرت‘‘ کے زیر عنوان اپنے گزشتہ مضمون میں بھی پیش کیا تھا، مگر ہم نے اسے موضوع بحث نہیں بنایا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ مقدمہ غامدی صاحب کی تحریر پر مبنی نہیں تھا اور اس پر گفتگو ’’فکر غامدی، ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے اس دائرے سے باہر نکلتی تھی جسے خود فاضل ناقد نے قائم کیا تھا۔ لیکن اب جبکہ فاضل ناقد نے اپنی مختصر سی تحریر میں ہمارے اس جملے کو پانچ مرتبہ نقل کر کے اپنے ’’تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے‘‘ میں اس کی غیر معمولی اہمیت کا تاثر دیا ہے تو اس سے صرف نظر کرنا ان تحقیقات کی قدر ناشناسی پر محمول ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں بھی اپنی معروضات پیش کر دی جائیں۔

مذکورہ جملہ راقم کے ایک مضمون ’’اسلام اور موسیقی‘‘سے منتخب کیاگیا ہے جو مارچ ۲۰۰۴ کے ماہنامہ’’ اشراق‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ اس کی ایک بحث ’’قرآن اور موسیقی‘‘ کے تمہیدی نوٹ کا جز ہے۔ قارئین کے ملاحظے کے لیے یہ نوٹ حسب ذیل ہے: 

’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں ، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بالعموم ان مسلمات کی تفصیل نہیں کرتا جو دین فطرت کے حقائق کی حیثیت سے انسانی فطرت میں ثبت ہیں یا سنت ابراہیمی کی روایت کے طور پر معلوم و معروف ہیں ۔ (۱۱)
اس عبارت میں ’’دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں‘‘ کے تحت فٹ نوٹ میں ہم نے لکھا ہے کہ ’’اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔‘‘ 

ہمارے اس نوٹ سے فاضل ناقد نے جو معنی اخذ کیے ہیں اور ہماری تحریر کو اپنے مفہوم کا جامہ پہنانے کے لیے جس جاں فشانی سے کام لیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

  • لکھا گیاہے:’’منظور الحسن صاحب کا دعویٰ تھا کہ غامدی صاحب نے ’اصول و مبادی‘ میں ’فطرت کے حقائق ‘ کو ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر بیان کیا ہے ‘‘۔ (ماہنامہ الشریعہ اگست ۲۰۰۷، ۴۳)
  • حالانکہ اس طرح کا کوئی دعویٰ زیر بحث اقتباس میں مذکور نہیں ہے۔
  • لکھا گیا ہے کہ منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں۔
  • ’’مآخذ دین‘‘، ’’چار مآخذ دین‘‘ اور ’’غامدی صاحب کے چار مآخذ دین‘‘، ان میں سے کوئی الفاظ ہماری تحریر میں موجود نہیں ہیں۔
  • لکھا گیا ہے کہ منظور الحسن نے اپنی اس عبارت کی نسبت غامدی صاحب سے کی ہے۔
  • یہ بات بھی درست نہیں ہے ۔ ہم نے یہ نہیں لکھا کہ ’’یہ غامدی صاحب کی بات ہے‘‘، بلکہ یہ لکھا ہے کہ’’ اس موضوع پر مفصل بحث غامدی صاحب کی تالیف ’’میزان‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے‘‘ ۔ یہ دونوں جملے ظاہر ہے کہ بالکل الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں۔پہلا جملہ مصنف کی نسبت سے ہے، جبکہ دوسرا جملہ موضوع کی نسبت سے ہے۔
  • لکھا گیا ہے: ’’منظور الحسن صاحب نے واضح لکھا ہے کہ غامدی صاحب کی’’میزان‘‘ کی عبارت کو کوئی صاحب صرف ان کا فلسفہ نہ سمجھے، بلکہ یہ ان کے مصادر شریعت ہیں۔‘‘

ہمارے اقتباس میںیہ کہیں بیان نہیں ہوا کہ غامدی صاحب کی بات کو ان کا فلسفہ نہ سمجھا جائے۔ ’’مصادر شریعت‘‘ کے الفاظ بھی استعمال نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔فاضل ناقد اس بات سے واقف ہوں گے کہ شریعت دین کا ایک حصہ ہے، کل دین نہیں ہے۔ شریعت کے علاوہ دین کا ایک بہت بڑا جز ایمانیات اور اخلاقیات پر مبنی ہے۔چنانچہ ’’مصادر شریعت‘‘ اور’’ دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ کو ہم معنی تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اس تقابل اور تجزیے سے یہ بات اگر چہ پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے مذکورہ اقتباس کو الفاظ و معانی کا جو جامہ پہنایا گیا ہے، وہ قرین حقیقت نہیں ہے، تاہم اگربرسبیل تنزل یہ مان بھی لیا جائے کہ فاضل ناقد کا اخذ و استنباط حرف بہ حرف درست ہے ، تب بھی اس تحقیق انیق پر حسب ذیل بعض ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے کم سے کم ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہیں۔ 

فاضل ناقد نے اپنی تنقید ’’فکر المورد ایک تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے نہیں لکھی ۔ اگر عنوان یہ ہوتا تو انھیں اس کا حق حاصل تھا کہ ’’المورد‘‘ کے کسی بھی مصنف کی تحریر کو منتخب کرکے اس کا تجزیہ اور تحلیل کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس پر کسی صاحب فہم کو اعتراض نہ ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے جو عنوان قائم کیا ہے، وہ ہے: ’’فکر غامدی ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ ‘‘۔فکر غامدی کے’’تحقیقی وتجزیاتی مطالعے‘‘کے لیے غامدی صاحب کی تحریر کے بجائے کسی اور کی تحریر کا انتخاب علم و اخلاق کے کن مسلمات کی رو سے روا سمجھا گیا ہے؟

اس سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

’’اصول و مبادی‘‘ میں مآخذدین کے موضوع پر غامدی صاحب کی مفصل تحریر موجود ہے جس میں انھوں نے بیان کیا ہے :

’’دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲ )
’’وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘ ‘ 
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے : 
۱۔ قرآن مجید 
۲ ۔سنت۔ ‘‘ (اصول ومبادی، ۹)

’’اصول و مبادی‘‘ وہ کتاب ہے جسے فاضل ناقد نے اپنی تنقیدات کے لیے منتخب کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا آغاز ہی مآخذ دین کی درج بالابحث سے ہوتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے مآخذ دین پر تنقید کے لیے قلم اٹھایا ہے اور انھیں غامدی صاحب کی اس واضح تحریر کو چھوڑ کر راقم کی ایک ایسی تحریر کا انتخاب کرنا پڑا ہے جس میں مآخذ کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوا؟

اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

فاضل ناقد کے منظور نظر مذکورہ اقتباس کے تحت حاشیے میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔‘‘ فاضل ناقد کو اگر غامدی صاحب پر اسی موضوع کے حوالے سے تنقید کرنی تھی تو وہ بآسانی ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷سے ’’دین کی آخری کتاب ‘‘ کے مندرجات کونقل کر کے ان پر اپنا زور قلم صرف کر سکتے تھے۔ انھیں اس کو چھوڑ کر ہمارا اقتباس منتخب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟

اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

’’اسلام اور موسیقی‘‘ کے زیر عنوان ہمارے جس مضمون میں سے فاضل ناقد نے مذکورہ اقتباس اٹھا کر درج بالا مضمون آفرینی کی ہے ، اسی مضمون کی تمہید میں ہم نے نہایت صراحت کے ساتھ حکم شریعت اخذ کرنے کے ذرائع بیان کیے تھے۔ ہم نے لکھا تھا:

’’... دین میں کسی چیز کے جواز یا عدم جواز کے لیے فیصلہ کن حیثیت قرآن و سنت کو حاصل ہے ۔ ان کی سند کے بغیر شریعت کی فہرست حلت و حرمت میں کوئی ترمیم و اضافہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایمان کا تقاضا ہے کہ جن امور کو یہ جائز قرار دیں،انھیں پورے شرح صدر کے ساتھ جائز تصور کیا جائے اور جنھیں ناجائز قرار دیں ، فکر و عمل کے میدان میں ان کے جواز کی کوئی راہ ہر گز نہ ڈھونڈی جائے۔
کسی معاملے میں دین کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے اہل علم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے شریعت کے یقینی ذرائع یعنی قرآن و سنت سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھرحدیث کی کتابوں میں درج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کی تحقیق کی جاتی ہے۔اگر موضوع سے متعلق روایات موجود ہوں تو عقل و نقل کے مسلمات کی روشنی میں ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ضرورت ہو تو قدیم الہامی صحائف کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے اور صحابۂ کرام کے آثار کی روایتیں بھی دیکھی جاتی ہیں ۔انجام کار قرآن ، حدیث اور فقہ کے علماے سلف و خلف کی شروح اور توضیحات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‘‘  (اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۸)

فاضل ناقد کو اگرراقم کے مضمون ’’اسلام اور موسیقی‘‘ ہی سے مآخذ دین کی بحث برآمد کرنی تھی تو اس کے لیے واحد جگہ یہی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ اس سے صرف نظر کر کے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں یہ موضوع اصلاً زیر بحث ہی نہیں ہے؟

اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

مذکورہ اقتباس میں ہم نے اپنی بات کی تفہیم کے لیے ’’دین کے مآخذ‘‘ کے نہیں، بلکہ ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے ۔ یہ تعبیر اختیار کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ کوئی شخص اس بحث کو مآخذ دین کی بحث پر محمول نہ کر لے۔

ہمیں اگر مآخذ دین ہی کی بحث کرنی ہوتی تو اس کے لیے نہ ’’قرآن اور موسیقی‘‘ کایہ مقام موزوں تھا اور نہ ’’مصادر‘‘ کا لفظ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلامی علوم میں دین اخذ کرنے کے ذرائع کے لیے ’’مصادر‘‘ کا نہیں، بلکہ ’’مآخذ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ لفظ ایک اصطلاح ہے جس کا ایک متعین مفہوم اور مصداق ہے۔ ’’مآخذ‘‘ کا یہ لفظ اس مفہوم میں اس قدر صریح اور اس قدر متداول ہے کہ فاضل ناقد کو مذکورہ اقتباس پر تنقید کرنے کے لیے جابجا’’مصادر‘‘ کے لفظ کو ’’مآخذ‘‘ کی اصطلاح سے تبدیل کرنا پڑا ہے۔چند جملے ملاحظہ کیجیے:

’’غامدی صاحب کے حوالے سے میں نے وہی بات بیان کی ہے جو کہ منظور الحسن صاحب نے بھی لکھی ہے کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں ۔...میں سید منظور الحسن صاحب سے یہ استفسار کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کا اپنے اس فہم کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس میں انھوں نے غامدی صاحب کے مآخذ دین چار بتلائے ہیں؟...سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء میں منظورا لحسن صاحب کی یہ عبارت ’اشراق‘ میں شائع ہوئی کہ غامدی صاحب کے مآخذ دین چار ہیں اور ان میں سے ایک ’فطرت‘ بھی ہے۔‘‘ (الشریعہ، اگست ۲۰۰۷، ۴۳)

بہرحال،مذکورہ جملے میں’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ کے بارے میں فاضل ناقد اگریہ کہتے کہ مضمون کی تمہید میں شریعت اخذ کرنے کے ذرائع کا بیان، جملے کا سیاق و سباق اورغامدی صاحب کی محولہ عبارت جیسے واضح قرائن اگرچہ اس میں مانع ہیں کہ’’دین کے مصادر‘‘ کے الفاظ سے ’’مآخذ دین‘‘ کی اصطلاح مراد لی جائے، لیکن ’’مصادر‘‘ کا لفظ چونکہ لغوی مفہوم کے اعتبار سے ’’مآخذ‘‘ کے لفظ کے قریب ہے، اس لیے اس کا استعمال خلط مبحث کا باعث بن سکتا ہے اور کوئی شخص اسے ’’مآخذ‘‘کی اصطلاح پر بھی محمول کر سکتا ہے۔ وہ اگر یہ تنقید کرتے تو ہم اسے ہر لحاظ سے صائب قرار دیتے اور اظہار تشکر کے ساتھ قبول کرتے۔ ہم اب بھی ان کے شکر گزار ہیں کہ ان کی تنقید کے نتیجے میں ہمیں اپنی تحریر کے ایک ناموزوں لفظ کو تبدیل کرنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم،فاضل ناقد نے یہ تنقید نہیں کی۔ اس کے بجائے انھوں نے ’’مصادر‘‘ کے لفظ کونہایت بے تکلفی سے ’’مآخذ‘‘ کی اصطلاح اور اس کے جملہ اطلاقات سے تبدیل کیا اور اسی زاویے سے اس پر نقد و جرح کی۔ کیا وجہ ہے کہ یہ تبدیلی کرتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ مصنف نے ’’مآخذ‘‘ کی معروف اصطلاح چھوڑ کر ’’مصادر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ہے؟

اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

فاضل ناقد کی تنقید کے جواب میں ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ غامدی صاحب فطرت کو ہرگز ’’مآخذ دین‘‘ میں شامل نہیں کرتے۔ ہم نے لکھا تھا کہ غامدی صاحبنے ’’اصول ومبادی‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیا ہے، لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا، ورنہ وہ ’’مبادی تدبر قرآن‘‘، ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کی طرح ’’مبادی تدبر فطرت‘‘ کا بھی باقاعدہ عنوان قائم کرتے اور اس کے تحت فطرت اور اس کے تقاضوں کی تعیین کے اصول وضوابط بیان کرتے۔ ۲۰۰۷ء کی ہماری اس وضاحت کے بعد فاضل ناقد ۲۰۰۴ء کے اقتباس کو زیر بحث لانے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟

اس سوال کا بھی ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل ناقد کے پاس بھی ان سوالوں کا جواب ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا وہ اس کو اگلے مضمون میں زیر بحث لائیں گے یا انھیں بھی ’’ادھر ادھر کی تاویلات‘‘ کا عنوان دے کر کچھ مزید ’’آپشنز‘‘ پر غور کرنے کا حکم صادر کریں گے۔

خاتمۂ کلام کے طور پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذکورہ اقتباس کے مدعاکی وضاحت کر دی جائے جو فاضل ناقد کے لیے خلط مبحث کا باعث بنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ غامدی صاحب کی جس بحث کا حوالہ ہم نے اپنے اقتباس میں دیا تھا، اس کی نوعیت اور اس کا مفہوم ہمارے فہم کے لحاظ سے کیا ہے۔

مذکورہ اقتباس میں ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ قرآن مجید کا پس منظر بیان کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ دین قرآن مجید سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ اس پر مکمل ہوتا ہے اور قرآن کے پس منظر میں دین کی جو تاریخ ہے، اس کا آغاز فطرت کے حقائق سے ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ تحریر اپنے مدعا کے کامل ابلاغ سے قاصر ہو، لیکن جہاں تک غامدی صاحب کی ’’میزان ‘‘کے صفحہ ۴۷ کی بحث کا تعلق ہے، جس کا حوالہ ہم نے اس اقتباس کے ساتھ درج کیا تھا، وہ اپنے مدعا میں اس قدر واضح ہے کہ اس سے کم سے کم فطرت کے ماخذ دین ہونے کا مفہوم ہرگز اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے یہ بات بیان کی ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے ،تاریخی طور پر اس کی وہ پہلی نہیں،بلکہ آخری کتاب ہے۔ دین فطرت، سنت ابراہیمی اور نبیوں کے صحائف تاریخی لحاظ سے اس سے مقدم ہیں۔چنانچہ قرآن کی شرح و تفسیر میں پس منظر کے ان مقدمات کو لازماً ملحوظ رکھا جائے گا۔ انھوں نے لکھا ہے :

’’(قرآن پر غور و تدبر کے اصولوں میں سے )چھٹی چیز یہ ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے ،اس کی وہ پہلی نہیں،بلکہ آخری کتاب ہے۔اس دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ ..... ان کتابوں کے متن جب اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہے تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا اور انھیں یہ قرآن دیا ۔ ...یہ دین کی تاریخ ہے ۔‘‘ (اصول و مبادی ۴۷)

بات کا آغاز بھی اس جملے سے ہوا ہے کہ ’’اس دین کی تاریخ یہ ہے ‘‘ اور اختتام بھی اس جملے پر ہوا ہے کہ ’’یہ دین کی تاریخ ہے۔‘‘ دین کی تاریخ کی بحث کو دین کے مآخذ کی بحث تصور کرنا کیسے ممکن ہوا ہے، اس کا جواب ظاہر ہے کہ فاضل ناقد ہی دے سکتے ہیں۔ 

آراء و افکار

(ستمبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter