لندن،۱۶ اگست ۲۰۰۷ء
حضرت مولانا !
اگست کے شمارے میں اپنا استفتاء اور اس کا جواب دیکھ کر حیران ہوا ہوں۔ اور ایسا لگا جیسے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
آپ برطانوی مسلمانوں کے موجودہ حالات و گھمبیر مسائل سے بالکل ہم لوگوں ہی کی طرح واقف ہیں۔پھر بھی کیاآپ نے یہ چاہا ہے کہ دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء کا وہ جواب جو صرف مجھ تک اور آپ ہی تک تھا ،ایک معنیٰ میں آپ کی توثیق کے ساتھ، اسلامیانِ برطانیہ تک عام ہو، اور ان کے حالات کی نزاکت جلد سے جلد اپنے بقیہ مراحل ،خد ا نہ کردہ،طے کرلے !
آپ نے یقیناً یہ نہیں چاہا ہوگا۔ لیکن ذرا غور تو فرمائیے۔جب ہمارے ایک بڑے دارالافتاء کا یہ فتویٰ، ادارہ الشریعہ کی سند سے ،لوگوں تک پہنچے کہ برطانوی مسلمانوں کیلئے بھی ملعون رشدی کے قتل کا فتویٰ اصلاً اسی طرح واجب العمل ہے جس طرح پاکستان جیسے کسی مسلم ملک کے مسلمانوں پر،اِلّا یہ کہ وہ راہِ عزیمت چھوڑ کر رخصت کی آسان راہ پہ قناعت کریں، تویہ ہمارے یہاں کے روز بروز شکنجہ کستے ہوئے حالات میں بہتری کی کوئی تدبیر ہوگی یا بد تری کی طرف ایک قدم اور بڑھانے کا ہمت افزا اشارہ؟
اور ،کسی اور کو نہیں تو آپ کو تو آپ کی کتاب’’ حدود آرڈیننس ‘‘کا وہ مقام اس موقع پر یاد دلایا ہی جا سکتا ہے جہاں پاکستان میں اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ کے مسئلہ کی مشکلات میںآپ نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کا عمل دخل بتا تے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہمارے یہاں سپریم کورٹ میں ایک کیس کے حوالے سے اس پر بحث ہو چکی ہے اور عدالتِ عظمیٰ نے اسی اصول پر(کہ ہم نے اس پر دستخط کر رکھے ہیں،اس لئے ہمیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہئے)فیصلہ کیا تھاکہ انسانی حقوق کا یہ منشور بین الاقوامی معاہدہ ہے اور اس معاہدہ کی پابندی ہم پر لازم ہے۔۔۔ ۔‘‘(صفحہ ۱۶)۔نہ آپ کا مقصد اس فیصلہ کی تائید تھا جس میں حالات کے آگے بالکل سر نگوں ہونے کا سبق ہے نہ میرا اس کو دوہرانے سے مقصد یہ ہے۔البتہ حالات سے آنکھیں بند کرکے باتیں کرنا تو زندگی کی راہ نہیں ہے۔ اللٰھُمَّّ اَلْھِمْنا مَراشِدَ اُمورِنا ۔
والسلام
نیازمند
عتیق سنبھلی