مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مشرکین نے جو دردناک اور ہوش ربا مظالم مٹھی بھر مسلمانوں پر روا رکھے اور مظلوم مسلمانوں نے جس صبر واستقلال اور معجز نما استقامت وللہیت سے مسلسل تیرہ برس تک ان ہول ناک مصائب ونوائب کا تحمل کیاٗ وہ دنیا کی تاریخ کا بے مثال واقعہ ہے۔ قریش اور ان کے حامیوں نے کوئی صورت ظلم وستم کی اٹھا نہ رکھی تاہم مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے ان وحشی ظالموں کے مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ صبر وتحمل کے امتحان کی آخری حد یہ تھی کہ مسلمان مقدس وطن، اعزہ واقارب، اہل وعیال، مال ودولت سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر خالص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا راستہ طے کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے۔ جب مشرکین کے ظلم وتکبر اور مسلمانوں کی مظلومیت اور بے کسی حد سے گزر گئی یہاں تک کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا کہ کوئی مسلمان ان کے دست ستم سے زخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ ہوتا اور پھر اہل ایمان کے قلوب وطن وقوم، زن وفرزند، مال ودولت غرض ہر ایک ماسوی اللہ کے تعلق سے خالی اور پاک ہو کر محض خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دولت توحید واخلاص سے ایسے بھرپور ہو گئے کہ گویا غیر اللہ کی گنجائش ہی نہ رہی، تب ان مظلوموں کو جو تیرہ برس سے برابر کفار کے ہر قسم کے حملے سہہ رہے تھے او روطن چھوڑنے پر بھی امن حاصل نہ کر سکے تھے، ظالموں سے لڑنے اور بدلہ لینے کی اجازت دی گئی:
’’اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ جاری ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جاتیں۔‘‘ (الحج آیت ۶۱)
مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’معارف القرآن‘ میں لکھا ہے کہ
’’یہ پہلی آیت ہے جو قتال کفار کے معاملے میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے ستر سے زائد آیتوں میں اس قتال کوممنوع قرار دیا گیا تھا۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنی تفاسیر میں ایسا ہی لکھا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دیگر اقوام اور مذاہب کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ سیاسی غلبہ کی صورت میں ان کے جان ومال، عزت وآبرو اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پہلے سال ہی اوس وخزرج اور قبائل یہود وغیرہ سے ایک معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ ترتیب دیا۔ یہ دستور مسجد نبوی کی تعمیر سے بھی پہلے مرتب ہوا۔ مستشرقین نے اس دستور کا ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ ویل ہاؤزن اور کستانی وغیرہ نے بہت سی شہادتیں اور دلائل پیش کرنے کے بعد اس دستاویز کو غزوۂ بدر سے پہلے کا تسلیم کیا ہے۔ اس دستورکی پچاس دفعات ہیں۔ دفعہ نمبر ۲۴، ۳۷ اور ۴۴ کے مطابق آپ ریاست مدینہ کے چیف جسٹس، سپہ سالار اور سربراہ قرار دیے گئے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ مدینہ کے یہودی قبائل اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رسول اللہ‘‘ مانے بغیر آپ کی متذکرہ بالا آئینی وقانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ اس دستور کے نفاذ سے اسلامی ریاست اور اس کے حلیف قبائل ایک ایسے سماجی اور سیاسی نظم کا حصہ بن گئے جس میں قبائلی امتیاز، معاشی تفوق اور سیاسی طوائف الملوکی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ یہ معاہدہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی بہت بڑی کام یابی تھی بلکہ معاشی اعتبار سے ان کی حکمت عملی کے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ اس ضمن میں دستور کی دفعات ۲۵، ۳۹ اور ۴۰ قابل ملاحظہ ہیں:
’’حالت امن میں یہود اپنے اخراجات برداشت کریں اور مسلمان اپنے اخراجات جبکہ حالت جنگ میں یہود اور مومنین مل کر اخراجات جنگ اٹھائیں گے جب تک دونوں دشمن کے خلاف حالت جنگ میں رہیں۔‘‘
یہاں یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ یہود مسلمانوں سے پہلے مدینے میں نہ صرف محفوظ تھے بلکہ اوس وخزرج کے بے تاج بادشاہ اب ریاست مدینہ کے تاج دار بننے والے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے ان کا یہ دیرینہ خواب نہ صرف ہمیشہ کے لیے پریشان ہو گیا بلکہ یہ لوگ اسلامی ریاست کے ماتحت ایک حلیف کی حیثیت میں چلے گئے۔
جدید اصطلاح میں آپ نے کسی بیرونی سیاسی پیش رفت سے پہلے اس وقت کی رائے عامہ کو، جو ’جوف مدینہ‘ پر مشتمل تھی، اپنے حق میں ہموار کر لیا۔ یہ داخلی سیاسی استحکام کا تقاضا تھا کہ آپ اپنے دینی اور سیاسی حریفوں اور دشمنوں پر اپنی قوت کی دھاک بٹھا دیتے۔ نیز یہ بات بھی آپ کے علم میں تھی کہ اگر مسلمان مدینہ میں محصور ہو کر بیٹھ بھی جائیں تب بھی ان کے دشمن ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ علاوہ ازیں آپ کا عالم گیر اور آفاقی مشن اب سیاسی ودفاعی مہم جوئی کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ربیع الاول ۲ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے جنگ کا ارادہ فرما لیا تھا۔ غالباً اس پس منظر میں آپ نے قریش کے جنگی اور تجارتی قافلوں کی نگرانی شروع کر دی تھی۔ ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء میں آپ نے دو سو سپاہیوں کی معیت میں ’ابواء‘ کا قصد کیا جو مدینہ سے اڑتالیس میل دور ایک وادی ہے۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپ کے پیش نظر امیۃ بن خلف الجمعی کا قافلہ تھا جس کے ساتھ سو قریشی اور دو ہزار اونٹ تھے۔ آپ نے اس قافلے سے کوئی تعرض نہ کیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ اسی نوع کی کچھ اور مہمات بھی مرتب ہوئیں لیکن ان مہمات کا مقصد کوئی فوجی تصادم نہ تھا بلکہ ’جوف مدینہ‘ کے قبائل سے معاہدات کرنا اور ان پر یہ ثابت کرنا تھا کہ مسلمان ایک متحرک اور بیدار قوت ہیں۔ ابواء کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن فحشی ضمری سے معاہدہ کیا اور ذو العشیرکے مقام پر، جو مکہ اور مدینہ کے مابین ایک مقام ہے، بنی مدلج اور بن ضمرہ سے معاہدہ کیا۔ یہ جمادی الاولیٰ ۲ھ بمطابق نومبر، دسمبر ۶۲۳ء کا واقعہ ہے۔ معروف دانش ور اور سیرت نگار جناب نعیم صدیقی صاحب نے ان کارروائیوں کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے ہیں: ریاست مدینہ کی حفاظت، مسلمان سپاہیوں کی جنگی تربیت اور قریش کو یہ باور کرانا کہ اب ان کی معاشی شاہ رگ مدینہ کے پنجے میں آ چکی ہے اور وہ ان کی تجارتی شاہراہ کو روک کر ان کے کاروانوں کا گزر جب چاہیں، بند کر سکتے ہیں۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے سورۂ انفال کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ
’’اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔‘‘
گویا آپ نے اس شاہراہ کو کنٹرول کر کے قریش پر معاشی اور سیاسی دباؤ بڑھا دیا۔
غزوۂ بدر کے حوالے سے ’غزوہ بہ تلاش کرز بن جابر الفہری‘، ’سریہ عبد اللہ بن جحش الاسدی‘ (نخلہ) اور قریش کا مشہور تجارتی قافلہ غور طلب چیزیں ہیں۔ پھر ان کی سیاسی اور معاشی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ مصنف ’’محسن انسانیت‘‘ نے اول الذکر دونوں واقعات کو غزوۂ بدر کے محرکات میں شمار کیا ہے جبکہ تجارتی قافلے کو جنگ کا دیباچہ قرار دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ موضوع کی مناسبت سے ان مہمات کا بحیثیت سیاسی اور معاشی اہمیت کے جائزہ لیا جائے۔
کرز بن جابر نے مدینے کی چراگاہ کو لوٹا اور مسلمانوں کے جانوروں کو بھگا کر لے گیا جس کے نتیجے میں غزوہ سفوان (ربیع الاول ۲ھ بمطابق ستمبر ۶۲۳ء) کی نوبت آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ الفہری کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ یہ ڈاکہ زنی قطعی طور پر ایک جنگی چیلنج تھی کیونکہ کوئی زندہ اور بیدار حکومت اپنی حدود میں غیروں کی ایسی مجرمانہ مداخلت کو جنگ کے ہم معنی سمجھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ گویا غزوہ بدر کے سیاسی اسباب میں اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اس واقعہ کو اپنے ذہن میں رکھا ہو اور سریہ عبد اللہ بن جحش میں جو کچھ ہوا، وہ اس کا رد عمل ہو لیکن سریہ مذکورہ کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تحریر میں فرمایا تھا کہ دو دون کے سفر کے بعد میری تحریر پڑھنا اور مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کے مقام پر اترنا ۔ تحریر میں یہ حکم درج تھا کہ ’’قریش کے ایک قافلہ کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتہ لگاؤ۔‘‘ یہ روایت طبقات ابن سعد کی ہے۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ ’’نخلہ میں رہ کر قریش کی کارروائیوں سے آگاہی حاصل کرتے رہو اور ان کی خبروں سے ہمیں آگاہ کرو۔‘‘ بہرحال عمرو بن حضرمی قتل ہوا اور اس کے دو ساتھی قید ہوئے۔
سریہ نخلہ (رجب ۲ھ بمطابق جنوری ۶۲۴ء) پہلی مہم ہے جس میں مسلمانان مدینہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کو کچھ مال غنیمت حاصل کرنے میں کام یابی ہوئی۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی کی تحقیق کے مطابق یہ مال غنیمت کچھ شراب ناب (خمر)، سوکھی کھجوروں (زبیب) اور کھالوں (ادم) کی غیر معینہ مقدار کے علاوہ قریش مکہ کے کچھ روایتی سامان تجارت (تجارۃ من تجارات قریش) پر مشتمل تھا۔ اس مال کے علاوہ دو قیدی بھی مسلم غازیوں کے ہاتھ لگے جن میں سے ایک نے چالیس اوقیہ چاندی یعنی ۱۶۰۰ دراہم بطور زرفدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی جبکہ دوسرے قیدی نے اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صدیقی لکھتے ہیں کہ نخلہ کی حاصل شدہ غنیمت کی صحیح مالیت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ مالیت بیس ہزار درہم کی رقم ہو سکتی ہے جس کی بدولت نخلہ کی مہم میں حصہ لینے والے مسلمان جن کی تعداد ۶، ۸، ۱۲ اور ۱۳ روایت کی گئی ہے، کسی حد تک مال دار ہو گئے تھے۔ اس غنیمت کا خمس مدینہ کی ریاست کاحصہ تھا۔ ابن ہشام اور ابن سعد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن جحش نے یہ خمس پہلے ہی نکال دیا تھا۔
یہاں یہ بات لائق توجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نخلہ کے مال غنیمت کو بدر کی واپسی تک موخر کیوں کیا؟ اس استفسار کا تعلق اس بحث سے ہو سکتا ہے جو بعض مستشرقین، مسلم مورخین اور مغازی نگاروں نے اٹھائی ہے اور جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانان مدینہ نے اپنے روز افزوں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اور دن بدن گھٹتے ہوئے مالی ومسائل کو بڑھانے کے لیے لوٹ مار کا سہارا لیا اور بلا استثنا تمام غزوات وسرایا کا منشا ومقصد اقتصادی وسائل کی فراہمی قرار دیا ہے۔ یہاں کسی بحث میں الجھنے کے بجائے صرف غزوہ بدر اور اس سے متعلق مہمات کے بارے میں ہی بات ہوگی لیکن سیرت کے حوالے اور حالات حاضرہ کے تناظر میں کسی ممکنہ غلط فہمی کے ازالہ کے لیے ایک آدھ مستند حوالہ کی نشان دہی اپنی اخلاقی اور علمی ذمہ داری خیال کرتا ہوں چنانچہ جو صاحب غزوات وسرایانبوی کی اقتصادی اہمیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیں، وہ ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کا وقیع مقالہ ’’غزوات وسرایا کی اقتصادی اہمیت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تحریر نقوش کی جلد ۱۱، شمارہ ۱۳، جنوری ۱۹۸۵ء مطبوعہ ادارہ فروغ اردو لاہور کے صفحات ۳۹۸ تا ۴۶۰ پر موجود ہے۔
آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ نخلہ کی مہم کی نوعیت اور حیثیت کیا تھی؟ نعیم صدیقی صاحب نے ’’محسن انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس واقعہ کی نوعیت ویسی ہی سرحدی جھڑپوں کی تھی جیسی حکومتوں اور جنگی کمانڈروں کی مرضی کے بغیر سپاہیوں کے درمیان ہر دو ملکوں کی سرحدوں پر واقع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
دوسری وضاحت اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب فاتحین نخلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا، ’’میں نے تمہیں ماہ حرام میں کسی جنگ کا حکم نہیں دیا تھا‘‘ آپ نے اس واقعہ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار یوں بھی فرمایا کہ آپ نے قافلے کے اونٹوں اور دونوں قیدیوں کے معاملے کو ملتوی رکھا اور اس میں سے کچھ لینے سے انکار فرما دیا تھا۔
جب قریش اور یہود کی چہ میگوئیاں بڑھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے ماہ حرام کو بھی حلال کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیات نازل فرمائیں:
’’لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (۲/۲۱۷)
ابن ہشام نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اگر تم نے انہیں ماہ حرام میں قتل کیا ہے تو انہوں نے تمہیں اللہ کے انکار کے ساتھ اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روکا ہے۔ تمہیں نکالنا جو وہاں کے رہنے والے تھے، اللہ کے ہاں اس قتل سے بڑا گناہ ہے جو تم نے ان کے کسی شخص کو کیا ہے۔ جب قرآن میں یہ حکم نازل ہوا تو اللہ نے مسلمانوں کا وہ خوف وہراس دور کر دیا جس میں وہ مبتلاتھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کے اونٹوں اور قیدیوں کی طرف توجہ دی۔ ابن ہشام نے مزید لکھا ہے کہ ان آیات کے بعد عبد اللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھیوں کو اطمینان حاصل ہو گیا تو انہیں اجر کی امید ہوئی اور انہوں نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا ہم اس بات کی امید رکھیں کہ جو کچھ ہوا، یہ غزوہ تھا اور ہمیں اس کے متعلق مجاہدوں کا سا ثواب دیا جائے گا؟‘‘ تو ان کے متعلق پھر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’بے شبہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
ابن سعد کے ایک بیان سے بھی سریہ نخلہ کی حیثیت کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس سریہ میں عبد اللہ بن جحش کا نام امیر المومنین رکھا گیا۔
غزوہ بدر کے حوالے سے نخلہ اور قریش کے تجارتی قافلہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا بھی بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش کے مذموم جنگی عزائم کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔وہ جانتے تھے کہ قریش مناسب تیاری اور وقت کے منتظر ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ قریش کو سیاسی طور پر اس قدر مرعوب کر دیا جائے کہ وہ مدینہ پر حملے کا ارادہ ترک کر دیں اور معاشی طور پر اس قدر مفلوج کر دیا جائے کہ وہ اس اقدام کے قابل ہی نہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نخلہ کے بعد اس تجارتی قافلہ کا قصد فرمایا جو جنگی تیاریوں کے سلسلے میں ابو سفیان کی قیادت میں شام سے واپس آ رہا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ اہل مکہ نے اس تجارت میں اپنا زیادہ سے زیادہ مال لگایا یہاں تک کہ غیر تاجر عورتوں تک نے اپنے زیورات اور اندوختے لا لا کر دیے۔ ابن سعد نے بھی ابو سفیان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’مرد وزن میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس نے اس موقع پر حصہ نہ لیا ہو۔ مدعا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے اور اس کی آمدنی سے ریاست مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔‘‘
قریش اس قافلے سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ اس میں ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم از کم چالیس ہزار دینار (دو سو ساڑھے باسٹھ کلو سونا) کی مالیت کا ساز وسامان بار کیا ہوا تھا۔ قریش کا یہ قافلہ تجارت کے بجائے خود جنگی کارروائی کا دیباچہ تھا۔ یوں کہیے کہ اسلامی تحریک کا گلا کاٹنے کے لیے یہ قافلہ سونے کا خنجر لینے نکلا تھا اس لیے اہل مدینہ کے لیے بڑا زریں موقع تھا جبکہ اہل مکہ کے لیے اس مال فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس قافلہ کی طرف جانے کی ترغیب دی: ’’یہ قریش کا قافلہ مال ودولت سے لدا چلا آ رہا ہے۔ اس کے لیے نکل پڑو۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت تمہارے حوالے کر دے۔‘‘ اس روایت کو ابن ہشام اور ابن سعد کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی روایت کیا ہے۔ آپ نے طلحہ بن عبید اور سعید بن زید کو اس قافلہ کی کھوج میں بھیجا تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ اقدامات بتاتے ہیں کہ جنگوں میں اقتصادی حرج اختیار کرنا اور اقتصادی طور پر اپنے دشمن کو کمزور کرنا غیر شرعی نہیں ہے۔ آج کل دور جدید کی ساری جنگیں اقتصادی بنیادوں پر ہی لڑی جا رہی ہیں۔ پھرکیا وجہ ہے کہ مدینہ میں اس قافلہ پر چھاپہ مارنے کا جو رجحان پایا جاتا تھا، اس کے سلسلے میں کچھ بھی معذرت کی جائے اور کسی بھی درجے میں اس کو سیاسی یا دفاعی گناہ تصور کیا جائے۔ ’’اس قافلہ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اگر مسلم طاقت میں کچھ داعیہ موجود تھا تو وہ اپنی جگہ بالکل بجا تھا۔‘‘ (محسن انسانیت ص ۳۷۵)
بہرحال یہ قافلہ سالم وثابت مکہ پہنچ گیا اور جیش مکہ جس کی تعداد ایک ہزار تھی، ابو جہل کی قیادت میں بدر پہنچ گیا۔ قریشی سپاہ میں چھ سو زرہ پوش، سو سوار، بے شمار اونٹ ، اسلحہ کی فراوانی اور شراب وشباب کے سامان موجود تھے۔ قریش کے اس کبر واعجاب کا ذکر سورۂ انفال میں بھی ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں لشکر اسلامی کی تعداد مشہور روایت کے مطابق ۳۱۳ تھی۔ پوری فوج میں دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مدد مانگی جس کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت ۶ میں ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں جنگی حکمت عملی کے بارے میں جو بے چینی اور اضطراب تھا، وہ اللہ نے بارش اور نیند کے ذریعے سے زائل فرما دیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ انفال کی آیت ۱۱ میں ہوا ہے۔ جنگ شروع ہوئی، گھمسان کا رن پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مشہور ومعروف دعا فرمائی: ’’اے اللہ اگر آج ترے یہ بندے ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک تری پرستش نہ ہوگی۔ پس اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، اسے پورا فرما۔‘‘ آپ نے اس قدر تضرع کے ساتھ دعا فرمائی کہ آپ کے دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے چادر درست کی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول، بس کیجیے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ نے فرشتوں کو وحی کی: ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کر رہا ہوں‘‘ (الانفال ۹) آپ نے اللہ کی طرف سے مدد کی خوش خبری سیدنا ابوبکرؓ کو سنائی۔
آپ عریشہ سے باہر تشریف لائے۔ آپ نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ آپ آگے بڑھتے جا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔‘‘ (سورہ قمر ۴۵) اس کے بعد آپ نے مٹھی بھر کنکریاں اٹھائیں اور یہ فرماتے ہیں کفار کی طرف پھینک دیں : شاہت الوجوہ (چہرے بگڑ جائیں) اور مسلمان کو حکم دیا کہ بھرپور حملہ کریں۔ کافروں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ۷۲ کافر مارے گئے۔ بدر میں کل ۱۴ مسلمان شہید ہوئے جن میں سے چھ انصار اور آٹھ مہاجر تھے۔
غزوہ بدر پہلا غزوہ تھا جس میں مسلمانوں کو مال غنیمت ملا جو ہتھیاروں، مویشیوں، گھوڑوں اور سامان رسد کے علاوہ قریشی تجارتی مال پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر محمد یٰسین صدیقی کی تحقیق یہ ہے کہ غنیمت میں کل ایک ہزار ہتھیار ہاتھ آئے۔ اونٹوں کی کل تعداد ایک سو پچاس تھی اور گھوڑے دس تھے۔ اس کے علاوہ دوسرا سامان کپڑا، چٹائیاں وغیرہ تھی جن کی تعداد اور مقدار کا صحیح علم نہ ہو سکا۔ اگرچہ بدر کی غنیمت کا صحیح تعین مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق تمام اموال غنیمت کی مالیت اکتیس ہزار پانچ سو دراہم ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں نسبتاً قابل ذکر غنیمت وہ زر فدیہ تھا جو قیدیوں سے ان کی رہائی حاصل کرنے کے لیے حاصل ہوا۔ تمام اسیران بدر سے وصول ہونے والے فدیہ کی رقم ایک لاکھ پندرہ دراہم لکھی ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے یہ رقم ڈھائی لاکھ درہم بیان کی ہے۔ اگرچہ یہ جنگ قریش کے لیے ایک بہت بڑا معاشی سانحہ تھی اور مسلمانان مدینہ کو بھی اس سے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوا لیکن اس غنیمت سے تمام غازیان بدر اس وقت اتنے مال دار نہیں ہوئے تھے کہ اسے کسی معاشی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا جائے۔ تاہم خلفاء راشدین کے زمانے میں جب روم وایران فتح ہوئے تو یہ مال غنیمت ہی تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کچھ معاشی آسودگی حاصل ہوئی۔
بہرحال اس غزوہ کی معاشی اہمیت کے علاوہ سیاسی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مکہ کے علاوہ قبائل عرب میں ریاست مدینہ کی حیثیت مستحکم ہو گئی۔ بعض قبائل اور یہود مدینہ جنگ بدر کے بعد ہی میثاق مدینہ میں شامل ہوئے۔ بکثرت باشندگان مدینہ ایمان لائے اور بقول جناب نعیم صدیقی ’’صحیح معنوں میں اسلام معرکہ بدر کے بعد ہی ایک مسلمہ عام ریاست بنا کیونکہ اس نے اپنا سیاسی قوت ہونا بیچ کھیت منوا لیا۔‘‘
قرآن حکیم نے اس کے سیاسی اور معاشی اثرات کا جائزہ ان الفاظ میں لیا ہے:
’’اور یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے اور تم کمزور خیال کیے جاتے تھے۔ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا۔‘‘ (الانفال ۲۶)