امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات

پروفیسر میاں انعام الرحمن

امریکہ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں کون ملوث ہے؟ یہ واقعات کس کے ایما پر ہوئے؟ ان کے محرکات اور مقاصد کیا ہیں؟ اور ان واقعات سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟ یہ چند سوالات ہیں جو آج کل تقریباً ہر ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں، آئیے اس ضمن میں چند امکانات پر غور کریں۔ کیا یہ دہشت گردی اسامہ بن لادن اور مسلمانوں کی طرف سے کی گئی ہے؟ لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:

  1. امریکی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات میں سے حملے کے لیے ایک ہی ممکن راستے کو تلاش کر لینا مسلمانوں کے بس کی بات نہیں۔
  2. مسلم تاریخ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی سول آبادی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ مسلم تاریخ کے مطالعہ سے مسلمانوں کی جو نفسیات (Psyche) ابھر کر سامنے آتی ہے، اس میں جنگ و جدل اور عسکریت کی موجودگی کے باوجود ایسے کسی رجحان کی علامت نہیں ملتی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ اسلام میں جہاد اور عسکریت غالب عنصر کے طور پر موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی حدود و قیود بھی متعین ہیں۔ ایسے لوگ جو مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر معذرت خواہانہ انداز سے اسلام میں عدمِ عسکریت تلاش کرتے ہیں اور دلائل و براہین کے ڈھیر لگاتے ہیں وہ اپنی فکری اپروچ میں ’’قادیانیت‘‘ کی سرحدوں کو چھو رہے ہیں۔

کیا حالیہ دہشت گردی میں جاپان ملوث ہو سکتا ہے کہ اس نے دوسری عالمی جنگ کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہو؟

عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات کے باوجود جاپانی حکومت کی امریکہ نوازی سے ایسی کسی حرکت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ حملے کا خودکش انداز جاپانی انداز سے ملتا جلتا ہے لیکن ایک تو امریکہ اور جاپان میں مفادات کے حوالے سے کوئی تصادم نہیں، دوسرے جاپان کو اب بھی چین کو روکنے کے لیے امریکی مدد کی ضرورت ہے، اور پھر جاپانی دوسری جنگ عظیم کے بعد عملاً فوجی برتری کی جانب راغب نہیں ہوئے۔

تو کیا حالیہ دہشت گردی میں چین ملوث ہے کیونکہ اس کے امریکہ سے تعلقات خاصے معاندانہ ہیں؟ نیز دہشت گردی جتنے منظم اور گہرے انداز سے کی گئی ہے وہ چینیوں کا خاصہ ہے۔

لیکن اس واقعہ کے بعد امریکہ نے جس تیزی سے ایشیا میں آنے کی کوشش کی ہے وہ اس مفروضے کے خلاف ایک ثبوت ہے کیونکہ یہ تصور کرنا درست نہ ہو گا کہ چینی قیادت امریکی ردعمل کا اندازہ نہ کر سکی ہو اور امریکہ کو اتحادیوں سمیت ’’چینی اثرات‘‘ کے علاقے میں اس طرح آنے اور قدم جمانے کا موقع دے۔ ویسے بھی ۱۹۴۹ء کے بعد چین کبھی ایسے واقعات میں ملوث نظر نہیں آیا۔ اس کے برخلاف امریکہ نے کئی بار چین کو جنگوں میں الجھانے کی کوشش کی لیکن چین کی مدبرانہ قیادت نے عسکری دوڑ اور جنگوں میں الجھنے کے بجائے معاشی ترقی کی طرف توجہ مبذول رکھی۔ مخصوص معروضی حالات میں چین کا یوں پینترا بدلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے بھی چینی قوت کا اظہار و اثرات عالمگیر نہیں بلکہ علاقے تک محدود ہے۔

تو پھر اس واقعے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اگر ہم واقعی بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ

  1. دہشت گردی کے اس واقعہ سے کس نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا؟
  2. اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو کسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا؟

اگر ہم ان دو باتوں کو ذہن میں رکھیں تو مجرم تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ اس واقعہ کے مقاصد و محرکات کے ڈانڈے بہت دور رس اور عالمی سیاست سے علاقائی سیاست تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ اکیسویں صدی فوجی برتری کے بجائے معاشی برتری کی صدی ہے۔ جو قوم یا ریاست اقتصادی امور پر چھائی رہے گی دنیا کی قیادت کرتی رہے گی۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ دنیا کے معاملات اگر اسی رفتار سے اور اسی نہج پر چلتے رہے تو کس قوم کو نقصان کا اندیشہ تھا؟

ماہرینِ معاشیات بتاتے ہیں کہ اگر دنیا کے حالات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئے تو اکیسویں صدی میں معاشی حوالے سے چین سب سے بڑی قوت ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ۲۰۲۵ء تک دنیا کی Output کا ۲۵ فیصد چین سے ہو گا، جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ تقریباً موجودہ شرح ہی برقرار رکھ سکے گا جو تقریباً ۲۰ فیصد ہے۔ یورپی یونین کے ۱۵ ممالک جن کی موجودہ آبادی ۳۷۵ ملین ہے اور جن کا مشترکہ جی ڈی پی امریکہ سے تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کم یعنی آٹھ ٹریلین ڈالر ہے، یہ اگلے پچیس سالوں میں تقریباً ۱.۵ کی اوسط سے بڑھے گا۔ اس طرح ۲۰۲۵ء تک یورپی یونین کا جی ڈی پی ۱۱.۴ ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اور انڈیا کا جی ڈی پی بھی یورپی یونین کے جی ڈی پی کے لگ بھگ ہو گا۔ یورپی یونین میں متوقع توسیع کے پیشِ نظر ان کا جی ڈی پی ۲۰۲۵ء تک ۱۳ ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، اس طرح یورپی یونین واضح طور پر تیسری بڑی معاشی قوت کے طور پر ابھرے گا اور بھارت کا نمبر چوتھا ہو گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے جی ڈی پی کا ۸۵ فیصد سروس سیکٹر سے آئے گا جبکہ چین اور بھارت کے جی ڈی پی کا نصف زراعت اور مینوفیکچرنگ سے ہو گا۔

یہ تو تھی معاشی صورتحال، اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں چین سب سے بڑی معاشی طاقت ہو گا لہٰذا چین کا دائرہ کار بھی ’’علاقے‘‘ سے بڑھ کر عالمگیر ہو سکتا ہے، جس سے امریکہ کے مفادات بری طرح متاثر ہوں گے۔ نیز چین کی یہ برتری حادثاتی اور وقتی نہیں ہو گی بلکہ اس میں زراعت اور مینوفیکچرنگ کے پچاس فیصد کردار کی بدولت اس کی بنیادیں مضبوط ہوں گی۔ جبکہ امریکہ کا سروس سیکٹر کسی بھی وقت بوجھ ثابت ہو سکتا ہے۔ چین اور امریکہ میں معاشی تفاوت ۲۰۲۵ء تک پانچ فیصد ہو گا جو کافی زیادہ ہے اور مزید بڑھ بھی سکتا ہے۔ امریکہ مختلف نسلوں، زبانوں اور مذاہب کے لوگوں کی سرزمین ہے، ان میں باہمی رنجشیں بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ سرمایے کے ارتکاز بہت بڑھ جانے سے عوام کی اکثریت عدمِ تحفظ کے خوف کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان کو دی گئی سہولتوں میں کمی ہو سکتی ہے جس سے امریکہ کو اندرونی طور پر سنگین مسائل پیش آ سکتے ہیں جس سے اس کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کا ہمسایہ وفاقی ملک کینیڈا اپنی اکائیوں کو مطمئن کرنے میں مصروف ہے، کینیڈین اثرات امریکہ کو مزید مسائل سے دوچار کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی رائے عامہ بھی امریکہ مخالف ہو چکی ہے۔ قوموں کے معاملات میں امریکہ کی بے اصولی نے تقریباً ہر ملک میں، کم از کم عوامی سطح پر، شدید اثرات مرتب کیے ہیں۔ مسلم ورلڈ، چین اور اب عیسائی بھی امریکی برتری سے خائف ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مساوات اور برابری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نسلی امتیاز کے خلاف ڈربن میں منعقد ہونے والی حالیہ کانفرنس میں امریکہ نے شرکت تک نہیں کی، لیکن بدلتا ہوا عالمی رویہ اکیسویں صدی میں نئے نظام کی نوید سنا رہا ہے جس سے امریکہ بجا طور پر خائف ہے۔

ابھی تک میں نے ہر جگہ لفظ ’’امریکہ‘‘ ہی استعمال کیا ہے اور چونکہ وہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے اس لیے تاثر عیسائی حکومت کا بنتا ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ امریکہ کے سیاسی و معاشی نظام میں یہودی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی پالیسیاں انہی کی مرضی سے بنتی ہیں۔ اگر امریکہ نے نسلی امتیاز کے خلاف کانفرنس میں شرکت نہیں کی تو یہ ’’برتر یہودی نسل‘‘ کے نظریے کا عملی اظہار ہے۔ ابھی تک امریکی پالیسی سازی میں بے پناہ اثرات رکھنے کے باوجود یہودی اب اس امر سے آشنا ہو چکے ہیں کہ امریکی عوام با خبر ہو چکے ہیں۔ اب امریکیوں کی اکثریت امریکہ سے یہودی اثرات ختم کرنا چاہتی ہے کیونکہ دنیا کے سمٹنے اور معلومات کی بھرمار کی وجہ سے تقریباً ہر قوم ذی شعور ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے امریکہ تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ امریکی عوام کی رائے نہیں بلکہ یہودیوں کی بنائی ہوئی پالیسیاں ہیں۔ یہ بات یہودی جان چکے ہیں کہ مستقبل میں ان کے اثرات امریکہ میں کم سے کم ہوتے جائیں گے۔

پھر بین الاقوامی سطح پر مساوات اور برابری کی باتیں ہونے کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کو بھی چند مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے اہم سلامتی کونسل کے مستقل ممبروں کی ’’ویٹو پاور‘‘ ہے۔ اب دنیا کی قومیں اور عوام چاہتے ہیں کہ یہ چودھراہٹ ختم کی جائے۔ اس کے خاتمے کی ایک صورت اس کے ویٹو پاور رکھنے والے ممبروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ صورت کوئی بھی ہو، چاہے ویٹو پاور کا مکمل خاتمہ ہو یا ویٹو پاور رکھنے والے ممبروں کی تعداد میں اضافہ، دونوں صورتوں میں امریکہ صرف ایک ریاست ہو گا جس کا صرف ایک ووٹ ہو گا۔ جبکہ بعض ایسے خطے جہاں یہودی اثرات موجود ہیں اور مزید جڑ پکڑ سکتے ہیں، وہاں ریاستوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے بجائے کوئی ایسا خطہ ہی یہودی مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے تاکہ اقوامِ عالم ایک ریاست کی برتری کے غیر جمہوری رویے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی مفادات کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

ان حقائق کے ساتھ ساتھ حسبِ ذیل امور پیشِ نظر رکھیے:

  1. چونکہ ۲۰۲۵ء تک چین سپرپاور ہو گا اور امریکہ دو نمبر ہو گا، اندریں صورت یہودی سپرپاور چین کو استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کے اثرات چین میں مفقود ہیں۔ جبکہ نمبر دو طاقت یہودی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے گی۔
  2. چین میں یہودی اثرات نہ ہونے کی وجہ اسرائیل بھارت تعلقات بھی ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں ان تعلقات میں بہت تیزی آئی ہے۔ اور خطے میں بھارت چین کشمکش سے کون واقف نہیں؟
  3. نئے عالمی نظام میں چین کے سپرپاور بننے سے ’’بے اصولی‘‘ کو خاصا دھچکا لگے گا۔ سلامتی کونسل کے مستقل ممبروں کی ویٹوپاور تنقید کا نشانہ بنے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس تنقید کو کم کرنے کے لیے پہلے مرحلے پر یہ اصول اپنایا جائے کہ ویٹوپاور رکھنے والے پانچ رکن ممالک کی اکثریت سے ویٹو کیا جا سکے گا، یا پھر ویٹو کرنے کے لیے کم از کم دو ویٹو پاورز متفق ہوں۔ بہرحال موجودہ قواعد میں تبدیلی لانی پڑے گی۔
  4. اس طرح عالمی منظرنامے میں معاشی پہلو کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے بھی امریکہ کمزور ہو جائے گا کیونکہ اس کا ایک ووٹ ہو گا جبکہ یورپی یونین کے دو ،اور اگر روس کو بھی شامل کر لیں تو تین۔
  5. اگر ویٹو پاور رکھنے والے ممبروں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو بھارت کو لازما شامل کیا جائے گا، بھارت کے اسرائیل سے دیرینہ مراسم ہیں۔
    اس کے علاوہ ممبروں میں اکثریت یورپ سے لی جائے گی کیونکہ یورپ کے ممالک ہی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

اگر ہم درجِ بالا نکات کے بین السطور کو ذہن میں رکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب یہودی ’’شفٹ‘‘ کریں گے یعنی امریکہ کے بجائے یورپی یونین کو اپنے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں گے کیونکہ یورپی یونین کی سیاسی افادیت امریکہ کی نسبت بہت مؤثر ثابت ہو گی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس اسکیم کے مطابق اکیسویں صدی کے لیے سیاسی طور پر تو یہودیوں کو ایک بڑا مضبوط پلیٹ فارم یورپی یونین کی صورت میں مل جائے گا لیکن یہودی معاشی امور پر کیسے کنٹرول حاصل کریں گے؟ کیونکہ ماہرینِ معاشیات کے مطابق معاشی میدان میں چین نمبر ایک، امریکہ نمبر دو، یورپی یونین نمبر تین، اور بھارت نمبر چار طاقتیں ہوں گی۔ امریکہ سے شفٹ ہونے کی صورت میں یہودیوں کے مفادات امریکہ سے وابستہ نہیں رہیں گے بلکہ امریکی عوام کی باخبری کی وجہ سے یہودی امریکہ مخالف ہو جائیں گے۔ اب یہودیوں کی کوشش ہو گی کہ ان کا نیا پلیٹ فارم یعنی یورپی یونین معاشی حوالے سے بھی ایک مؤثر اور نمبر ون پوزیشن اختیار کرے۔ یہودی ذہن کے مطابق اکیسویں صدی میں یورپی یونین کے لیے بھارت زرعی بنیاد کا کام دے گا۔ بھارت، اسرائیل اور یورپی یونین کے باہمی اتحاد سے نیا عالمی نظام قائم ہو گا جس کی ہیئت یہودی ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

اب سوال یہ تھا کہ تیسرے اور چوتھے نمبر والی طاقتوں کو اوپر کیسے لایا جائے؟ اگر عالمی حالات اسی نہج پر چلتے رہتے تو چین نمبر ایک اور امریکہ نمبر دو ہوتے۔ اس طرح موجودہ حالات یہودیوں، ہندوؤں اور یورپی یونین کے مفادات کے خلاف تھے، اور موجودہ حالات میں کوئی تغیر برپا کر کے ہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ امریکہ میں دہشت گردی کر کے اس ٹرائیکا نے درج ذیل مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے:

  1. امریکی معیشت پر ضرب اور امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس۔ اس واقعے کے بعد امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، اور امریکیوں میں باہمی عدم اعتماد جنم لے رہا ہے، پہلے سے موجود اندرونی اختلافات کو مزید ہوا دی جا سکتی ہے۔
  2. اس واقعے کے بعد امریکہ کا ایشیا کی طرف رخ کرنا۔ یہودیوں نے امریکی کارپردازوں کو مختلف آپشنز پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کیونکہ تاحال یہودی امریکہ فیصلہ سازی میں بہت مؤثر ہیں۔ ایشیا میں امریکی آمد سے ٹرائیکا کے بہت سے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ ایک تو اسلامی بنیاد پرستی کو روکنا، دوسرا سنٹرل ایشیا کی چھ مسلم ریاستوں اور افغانستان اور پاکستان کی ممکنہ ترقی کو لگام دینا، کیونکہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کر لینے سے ’’ایکو‘‘ کے پلیٹ فارم سے یہ ممالک حیرت انگیز تیزی سے اقتصادی ترقی کر سکتے تھے اور عالمی امور میں اجارہ داری کے خواہشمندوں کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے چیلنج کر سکتے تھے۔ ایکو ممالک کی گہری قربت اور ترقی انڈیا کے مفاد کے بھی خلاف تھی۔
  3. امریکہ چین کو بھی کسی ملٹری ایڈونچر میں الجھانے کی کوشش کرے گا تاکہ چین اپنی معاشی پالیسی میں تسلسل قائم نہ رکھ سکے۔ ایسی صورت میں چین اور امریکہ دونوں کی معیشتیں موجودہ روش برقرار نہیں رکھ سکیں گی۔ علاقے میں انڈیا اور عالمی سطح پر یہودی اور یورپی یونین اس کے خواہشمند ہیں۔
  4. دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد حسب توقع امریکہ سے غیر ملکیوں بالخصوص اسلامی ممالک کے باشندوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے۔ یہ لوگ واپس اپنے ممالک میں جا کر پہلے سے کمزور ممالک کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ کریں گے۔
  5. اس کے علاوہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں عوامی سطح پر باہمی عدم اعتماد کا اظہار ہو گا۔ بین الاقوامی سطح پر اس ابتری سے یہودی سرمایہ کار بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
  6. حالیہ امریکی بیانات سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ امریکی عزائم جز وقتی نہیں ہیں، امریکہ کا پروگرام طویل المیعاد ہے۔ امریکہ جتنا زیادہ عرصہ یہاں ٹھہرے گا اس کے چین سے تصادم کے امکانات اتنے ہی روشن ہیں، کوئی بھی واقعہ وجہ بن سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے دہشت گردی کرنے والوں نے اس حوالے سے کوئی منصوبہ تیار کر رکھا ہو۔ اگر امریکہ اور چین میں باقاعدہ تصادم نہیں بھی ہوتا پھر بھی دونوں ممالک ایک دوسرے پر نظر رکھنے میں مصروف ہوں گے اور اسی عمل کے دوران میں ان کے معاشی پروگرام ٹریک سے ہٹ جائیں گے۔
  7. زیادہ امکان یہی ہے کہ ایشیا بھی یورپی یونین کا ساتھ دے گا جس طرح اس نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔

اس سارے طویل المیعاد عمل کے دوران میں سب مغربی ممالک امریکہ کا ساتھ دیں گے اور امریکی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اپنے مخصوص مقاصد حاصل کریں گے بلکہ امریکہ کو بھی اس کے موجودہ مقام سے بہت پیچھے دھکیل دیں گے کیونکہ ان کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے۔

اگر ہم صورتحال کا ایک دوسرے زاویے سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اگر عالمی حالات موجودہ روش کے مطابق چلتے رہتے تو مسلمانوں کو نقصان کا سامنا نہیں تھا، مسلم ممالک موجودہ ماحول ہی میں آہستہ آہستہ مؤثر اہمیت حاصل کرتے جا رہے تھے۔ لیکن دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد مسلم ممالک بالعموم اور پاکستان اور افغانستان بالخصوص سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔ تو اس تغیر سے فائدہ اٹھانے والے مسلم ممالک نہیں ہیں اور افغانستان اور پاکستان تو بہت عجیب حالات کا شکار ہیں۔

اب اگر اس واقعہ سے فائدہ کے بجائے الٹا نقصان پہنچنے کا اندیشہ موجود ہے تو افغانستان، مسلم ممالک اور مسلمان ایسی دہشت گردی کیسے کر سکتے تھے؟ مسلمان اگرچہ زوال کا شکار ہیں لیکن ان کی سوجھ بوجھ اتنی بھی کم نہیں ہوئی کہ وہ ایسے کسی واقعے کے ردعمل کا اندازہ نہ کر سکتے، اور اپنا نقصان کرنے کے لیے ایسی دہشت گردی کے مرتکب ہوتے جو ان کے دین کے بھی منافی ہے۔

اب موجودہ صورتحال میں پاکستان کا موقف بہت ٹھیک ہے۔ اس ٹرائیکا نے یہ صورتحال پیدا کر کے پاکستان کے لیے بہت مشکلات پیدا کر دی تھیں لیکن حکومتِ پاکستان مدبرانہ انداز سے اس کا جواب دے رہی ہے۔ دینی طبقوں کو چاہیے کہ حکومتِ پاکستان پر اندر سے دباؤ ڈالتے رہیں تاکہ حکومت اندرونی دباؤ کا اظہار کرتے ہوئے بہتر سودے بازی کی پوزیشن میں آ سکے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ لیکن ان حکومت مخالف جلسوں اور جلوسوں کے دوران بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیوں کے ممکنہ اقدامات کو پیشِ نظر رکھا جائے، وہ علماء اور حکومت کے درمیان ’’حقیقی فاصلہ‘‘ قائم کر سکتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا مدبرانہ انداز اختیار کرے، حکومتی موقف کے ساتھ ساتھ عوامی جذبات کو بھرپور کوریج دے تاکہ ہم ’’اندرونی پریشر‘‘ کو بھرپور انداز سے دکھا سکیں۔ سرمایہ دار، تاجر، صنعتکار اور زراعت سے وابستہ افراد اپنے کام میں  لگے رہیں، کسی نام نہاد واقعے کو بنیاد بنا کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے خود کو محفوظ رکھیں، اس سے ملک بھی محفوظ اور مضبوط رہے گا۔ دانشور حضرات، اساتذہ اور طلبہ بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے فکری پراگندگی کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ ٹرائیکا اپنے مقصد میں کامیاب جا رہا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے لیکن پاکستان نے کمالِ تدبر سے ان کے منصوبے میں ایک دراڑ ڈال دی ہے۔ پاکستان کا موقف ان کی امیدوں کے خلاف ہے۔ اگرچہ اس معمولی دراڑ سے ان کے منصوبے کی کلیت کو بہت زیادہ خطرات لاحق نہیں لیکن بین الاقوامی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے ملٹری اسٹریٹجی میں سرپرائز سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست کے مؤثر کردار اس ٹرائیکا کو ’’سرپرائز‘‘ دیں گے۔

حالات و مشاہدات

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter