کسی عالم سے فرض کیجئے کہ آپ کسی مسئلے میں مختلف ہو جائیں، یا دوسرا عالم آپ سے مختلف ہو جائے، تو مسئلے میں اختلاف کرنا تو جائز ہے جب اپنے کو دیانتًا علی التحقیق سمجھے، لیکن بے ادبی اور تمسخر کرنا کسی حالت میں جائز نہیں ہے کیونکہ بے ادبی اور تمسخر کرنا دین کا نقصان ہے۔ اور اختلاف کرنا محبت ہے، یہ عین دین ہے۔ دین جائز ہے اور خلافِ دین جائز نہیں۔ اختلافِ رائے کا حق حاصل ہے حتٰی کہ اگر ذاتی رائے اور مشورہ ہو تو انبیاء علیہم السلام سے بھی آدمی رائے میں مختلف ہو سکتا ہے۔ احکام اور اوامر کا جہاں تک تعلق ہے، اختلاف اور رائے زنی جائز نہیں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کسی مومن اور مومنہ کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب حکم آجائے اللہ اور رسولؐ کا تو پھر اس کے سامنے چوں چرا کی جائے۔‘‘
تو جہاں تک احکامِ دین کا تعلق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ فرما دیں تو تامل بھی جائز نہیں، چہ جائیکہ قبول نہ کرے۔ لیکن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ میری ذاتی رائے یہ ہے، تو آدمی نہ مانے تو اس پر کوئی الزام و ملامت نہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اختلافِ رائے اگر اہل اللہ اور علماء میں ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔ لیکن بے ادبی یا تذلیل کسی حالت میں جائز نہ ہو گی، اس لیے کہ وہ بہرحال عالمِ دین ہے جس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس کا مقام و منصب بطور نائبِ رسول کے ہے، اس کی عظمت واجب ہو گی۔ ہم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پچاسوں مسئلوں میں ان سے اختلاف کرتے ہیں، مگر ادنٰی درجے کی بے ادبی قلب میں امام شافعیؒ کی نہیں آتی۔ اور جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ واجب التعظیم ہیں ویسے ہی امام شافعیؒ بھی۔ دونوں آفتاب و ماہتاب ہیں، دونوں سے نور اور برکت حاصل ہو رہی ہے، کسی طرح جائز نہیں کہ ادنٰی درجے کی گستاخی دل میں آجائے۔
گستاخی جہالت کی علامت ہے
گستاخی اور استہزا کرنا جہالت کی بھی علامت ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے جب قوم کو نصیحت کی اور فرمایا کہ فلاں مقتول زندہ ہو جائے گا اگر بقرہ (گائے) ذبح کر کے اس کا گوشت اس سے چھو دیا جائے۔ تو اس پر بنی اسرائیل کہتے ہیںٖ کہ ’’اتتخذنا ھزوا؟‘‘ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟ اس بات میں کیا تعلق ہے کہ گوشت سے مردے کو جلا دیا جائے۔ موسٰی علیہ السلام نے فرمایا ’’اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین‘‘ اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں شامل ہو جاؤں۔ یعنی دل لگی اور تمسخر کرنا جاہلوں کا کام ہے، عالموں کو مناسب نہیں کہ تمسخر کریں اس لیے کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ تو ایک ہے رائے کا اختلاف اور کسی عالم سے مسلک کا اختلاف، اور ایک ہے بے ادبی، بے ادبی کسی حالت میں جائز نہیں، اختلاف جائز ہے۔
حضرت مولانا تھانویؒ اور مولانا احمد رضا خانؒ
میں نے مولانا تھانویؒ کو دیکھا کہ مولانا احمد رضا خان صاحب مرحوم سے بہت سی چیزوں میں اختلاف رکھتے تھے۔ قیام، عرس، میلاد وغیرہ مسائل میں اختلاف رہا۔ مگر جب مجلس میں ذکر آتا تو فرماتے ’’مولانا احمد رضا خان صاحب‘‘۔ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھنے والے شخص نے کہیں بغیر ’’مولانا‘‘ کے ’’احمد رضا خان‘‘ کہہ دیا۔ حضرت نے ڈانٹا اور خفا ہو کر فرمایا: عالم تو ہیں، اگرچہ اختلافِ رائے ہے، تم منصب کی بے حرمتی کرتے ہو، یہ کس طرح جائز ہے؟ رائے کا اختلاف اور چیز ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کو ہم خطا پر سمجھتے ہیں اور صحیح نہیں سمجھتے مگر ان کی توہین اور بے ادبی کرنے کا کیا مطلب؟ مولانا تھانویؒ نے ’’مولانا‘‘ نہ کہنے پر برا مانا۔ مولانا تھانویؒ اہلِ علم میں سے تھے، وہ تو نام بھی کسی کا آتا تو ادب ضروری سمجھتے تھے، چاہے بالکل معاند ہی کیوں نہ ہو، مگر ادب کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیے۔
کفر کا فتوٰی لگانے والوں سے مولانا نانوتویؒ کا سلوک
میں نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ سنا کہ دہلی میں قیام تھا۔ حضرت کے خدام میں سے چند مخصوص تلامذہ ساتھ تھے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ دوسرے شاگرد مولانا احمد حسن امروہیؒ، حاجی امیر شاہ خان صاحب مرحوم، یہ بھی وہاں موجود تھے۔ مولانا احمد حسن صاحبؒ نے اپنے ہم جولیوں میں بیٹھ کر فرمایا کہ بھئی لال کنویں کی مسجد کے جو امام ہیں ان کی قراءت بہت اچھی ہے، کل صبح کی نماز ان کے پیچھے پڑھ لیں۔ تو شیخ الہندؒ نے غصے میں آکر فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی بے غیرت، وہ ہمارے حضرت کی تکفیر کرتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟ اور بڑا سخت لہجہ اختیار کیا۔ یہ جملے حضرت نانوتویؒ کے کان میں پہنچے، اگلے دن حضرت نانوتویؒ ان سب شاگردوں کو لے کر اسی مسجد میں صبح کی نماز پڑھنے کی خاطر پہنچے۔ اس امام صاحب کے پیچھے جا کر نماز پڑھی، سلام پھیرا، چونکہ یہ اجنبی تھے، نمازیوں نے دیکھا کہ ہیں تو علماء صورت۔ تو پوچھا کون ہیں؟ معلوم ہوا کہ مولانا محمد قاسمؒ ہیں اور وہ ان کے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، اور یہ مولانا احمد حسن محدث امروہیؒ ان کے شاگرد ہیں۔ امام کو سخت حیرت ہوئی کہ میں رات دن ان کو کافر کہتا ہوں اور یہ نماز کے لیے میرے پاس آگئے۔ امام نے خود بڑھ کر مصافحہ کیا اور کہا کہ حضرت، میں آپ کی تکفیر کرتا تھا، میں آج شرمندہ ہوں، آپ نے میرے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ میں آپ کو کافر کہتا رہا۔
حضرت نے فرمایا، کوئی بات نہیں، میرے دل میں آپ کے اس جذبے کی قدر ہے اور زیادہ عزت دل میں بڑھ گئی ہے۔ کیوں؟ اس واسطے کہ آپ کو جو روایت پہنچی کہ میں توہینِ رسول کرتا ہوں تو آپ کی غیرتِ ایمانی کا یہی تقاضا تھا۔ ہاں البتہ شکایت اس کی ہے کہ روایت کی تحقیق کرنی چاہیے تھی۔ فرمایا کہ میرے دل میں آپ کی غیرتِ ایمانی کی قدر ہے، ہاں شکایت اس لیے ہے کہ ایک بار تحقیق کر لیتے کہ خبر صحیح ہے یا غلط۔ تو میں یہ عرض کرنے آیا ہوں کہ یہ خبر غلط ہے اور میں خود اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں جو ادنٰی درجے میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔ اور اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کے ہاتھ پر ابھی اسلام قبول کرتا ہوں، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اب امام بے چارہ قدموں میں گر پڑا، بچھا جاتا ہے۔
تو بات صرف یہ تھی کہ ان حضرات کے دلوں میں تواضع للہ اور ادب مع اللہ اس درجہ رچا ہوا تھا کہ نفسانیت کا شائبہ نہ رہا تھا۔ استہزا اور تمسخر بجائے خود غلط ہے۔ اپنے معاندوں کی بھی بے قدری نہیں کرتے تھے بلکہ صحیح محمل پر اتار کر یہ کہتے کہ جو ہمیں کافر کہتے ہیں یہ ان کی قوتِ ایمانی کی دلیل ہے، البتہ یہ تحقیق کر لینی چاہیے کہ واقعہ میں ہم توہینِ رسول کرتے ہیں؟ ہم معاذ اللہ دشمنانِ رسول ہیں یا دوستانِ رسول؟ اس کی تحقیق ان کو واجب تھی، بلا تحقیق حکم نہیں لگانا چاہیے۔
تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ادب اور تادّب دین کی بنیاد ہے جس کو عارف رومی نے کہا ہے:
از خدا خواہیم توفیقِ ادب
بے ادب محروم گشت از فضلِ رب
حق تعالٰی شانہ کے ہاں اس کا کوئی مقام نہیں جو گستاخ اور بے ادب ہے۔ اس زمانے میں چونکہ بے ادبی اور گستاخی کے جذبات پیدا ہو چکے ہیں، فرقہ بندی زیادہ ہو گئی ہے، ایک دوسرے کے حق میں زبانِ طعن و ملامت اور زبانِ تضحیک کھولنا بہت معمولی بات بن گئی ہے، اس واسطے میں نے یہ سمع خراشی آپ لوگوں کی کی کہ اگر کسی عالم سے اختلاف آ بھی جائے تو اگر آپ خود عالم ہیں تب آپ پر فرض ہے کہ دوسرے کا احترام کریں۔ اور اگر آپ متّبع ہیں اور وہ اقتدا کر رہا ہے دوسرے عالم کی، تو عمل تو اپنے مقتدا و متبوع کی تحقیق پر کریں مگر دوسرے کے ساتھ تمسخر کرنا آپ کے حق میں بالکل جائز نہیں۔ بلکہ آپ یہ تاویل کریں کہ اس کے ہاتھ میں بھی حجت ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی، جو وہ کہتا ہے، عند اللہ وہ بھی مقبول ہے۔ ہر مجتہد خطا بھی کرتا ہے، اس پر عتاب اور عذاب بھیجنے لگیں تو یہ خدا کا مقابلہ ہو گا۔ حق تعالیٰ کے ہاں اجتہاد کی خطا پر بھی ملامت نہیں۔ آج کل فروعی اختلافات کی وجہ سے تمسخر بڑھ گیا ہے، یہ دین کے منافی ہے۔ بے شک آدمی عمل اپنی تحقیق پر کرے اور دوسرے کو معذور رکھے، ادب اور احترام میں کمی نہ آنے دے، یہ دانائی کی بات ہے۔
ائمہ مجتہدین کا باہمی طرزِ عمل
ائمہ مجتہدین کا بھی یہی طریقہ ہے کہ ایک دوسرے سے ظاہری اختلاف رکھتے تھے لیکن ادب اور عظمت میں کمی نہیں کرتے۔ جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بغداد تشریف لائے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوئے تو امام (ابوحنیفہ) صاحبؒ کا مسلک ہے کہ نماز میں فاتحہ کے بعد آمین آہستہ کہنا، اور امام شافعیؒ کے ہاں زور سے کہنا افضل و اولٰی ہے۔ مگر جب امام شافعیؒ نے مزار والی مسجد میں نماز پڑھی تو آمین کو آہستہ سے پڑھا اور فرمایا، مجھے حیا آتی ہے اس صاحبِ مزار سے کہ اس کے قریب آ کر اس کے اجتہاد کے خلاف کروں۔ یہ ادب اور تادّب ہے یعنی جس حد تک گنجائش ہو۔ ایک تو حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق ہے کہ ایک کے ہاں جائز دوسرے کے ہاں حرام، اس میں تو دوسرے کے مسلک پر عمل نہیں کر سکتے، مگر جہاں اولٰی و غیر اولٰی کا فرق ہے وہاں ادب ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ امام شافعیؒ نے افضل پر عمل ترک اور غیر افضل پر عمل کیا امام صاحبؒ کی رعایت سے، حالانکہ امام ابوحنیفہؒ اس وقت مزار میں ہیں، سامنے نہیں ہیں مگر یہ ادب کا عالم تھا اور یہ ادب اور تادّب کی بات تھی۔
مسائل اور جذباتِ نفسانی
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بھی اختلافات تھے۔ ائمہ مجتہدین میں اجتہادی مسائل پر جو اختلافات ہیں وہ صحابہ میں بھی تھے، لیکن باوجود اس کے اس ادب و احترام اور عظمت و تعظیم میں ذرہ برابر کمی نہ کی۔ اس لیے ہمارے ہاں جھگڑوں کی وجہ مسائل کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ہمارے نفسانی جذبات ہیں۔ ہم نے اپنے جذبات کو نکالنے میں مسائل کو آڑ بنا رکھا ہے۔ اگر یہ مسائل کی خاصیت ہوتی تو سب سے پہلے صحابہؓ لڑتے کیونکہ ان کے ہاں بھی اختلاف تھا۔ اس کے بعد ائمہ مجتہدین کے ہاں لاٹھی چلتی، پھر علماء ربانیین آپس میں لڑتے۔ مگر اختلاف بھی ہے اور ادب بھی۔ یہ دراصل اختلافِ رائے کے نام سے ہم اپنے جذبات نکالتے ہیں۔ اور میں تو کہا کرتا ہوں کہ لڑنے کی چیز اصل میں جائیداد ہے، مکان ہے، جاگیر ہے۔ جب مسلمان کے پاس یہ چیزیں نہ رہیں، نہ جائیداد، نہ مکان، نہ سلطنت تو سوچا کہ بھئی دین کو لڑنے کا ذریعہ بناؤ اور مسائل کو آڑ بناؤ۔ تو یہ مسائل کی خاصیت نہیں۔ اختلاف کرنے کی گنجائش ہے مگر لڑنے جھگڑنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
مسلمانوں کے فروعی اختلاف پر عیسائی جج کا طنز
ایک عرصہ پہلے ایک یورپین عیسائی کلکٹر تھا۔ اس کے زمانے میں احناف اور اہلِ حدیث میں لڑائی ہوئی ’’آمین‘‘ کہنے پر۔ حنفیوں نے آہستہ پڑھی، اہلِ حدیث نے زور سے کہی تو لاٹھی چل گئی، بہت سے لوگوں کا سر ٹوٹ گیا۔ مقدمہ کلکڑ کے ہاں گیا۔ فریقین کے وکلاء نے کلکٹر کو مقدمہ سمجھایا تو اس نے کہا کہ بھئی ’’آمین‘‘ کوئی جائیداد ہے یا بلڈنگ ہے کہ اس پر لڑتے ہیں؟ وکلاء نے کہا نہیں ’’آمین‘‘ ایک قول ہے جو زبان سے نکالتے ہیں۔ یہ یوں کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث آئی ہے کہ ’’آمین‘‘ زور سے کہو، دوسرے کہتے ہیں کہ حدیث آئی ہے کہ آہستہ پڑھو۔ اس نے کہا جس کو جو حدیث معلوم ہے اس پر عمل کرے، لڑتے کیوں ہو؟ اور اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اور سمجھ میں آنے والی بات بھی نہ تھی۔
بہرحال اس نے بڑا دانشمندانہ فیصلہ لکھا کہ میں مقدمہ کی مثل دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاں ’’آمین‘‘ کی تین قسمیں ہیں۔ ایک ’’آمین بالجہر‘‘ یعنی زور سے پڑھنا، ایک ’’آمین بالسّر‘‘ یعنی آہستہ پڑھنا، اور ایک ’’آمین بالشّر‘‘ یعنی جھگڑنے لڑنے کے لیے پڑھنا۔ لہٰذا میں دونوں کو سزا دیتا ہوں۔
گویا اس نے بتایا کہ اختلافی مسائل نہ لڑائی کے لیے ہوتے ہیں نہ باہمی نزاع کے لیے، وہ دیانتاً حجت سے رائے قائم کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ تو یہ ہمارے قلوب کا فساد ہے کہ ہم نے مسائل کو اپنے دل کے جذبات نکالنے کی آڑ بنا لیا ہے اور ہر دین کا مسئلہ جھگڑا ڈالنے اور گروہ بندی کے لیے رہ گیا ہے۔
اختلافی مسائل میں راہِ صواب
اگر اجتہادی مسئلہ ہے تو اسے بیان کرو مگر لڑنا کیوں ہے؟ وہ اپنی قبر میں جائے گا اور تم اپنی قبر میں جاؤ گے۔ کیونکر اس سے مسخرگی کرو؟ اور اسے کیا حق ہے کہ تمہارا استہزا کرے؟ آپ نے بیان کیا، امر بالمعروف کا حق ادا ہو گیا، اب اگر کوئی بات نہیں مانتا تو نہ مانے۔ اگر اس کے پاس کوئی حجت ہے تو وہ عند اللہ جواب دے گا، تم ذمہ دار نہیں ہو، نہ تم سے آخرت میں پوچھا جائے گا۔ اور پھر دین منوانا (یعنی اصولِ دین پر کسی کو مجبور کرنا) بھی ضروری نہیں، چہ جائیکہ فروعی اور اجتہادی مسائل کا منوانا ضروری ہو۔ بہرحال آج کل ذرا ذرا سے اختلافی مسائل پر لوگ نزاع کا دروازہ کھول دیتے ہیں، اس سے مسلمانوں میں جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی قوت زائل ہو رہی ہے۔
ایک شخص اجتہادی رائے کے بارے میں اتنا جمود کرے کہ کسی کو معذور بھی نہ سمجھ سکے، یہ درحقیقت عوام کی اصلاح نہیں، فساد ہے۔ تو ایک چیز، چلّانے کی ضرورت نہیں کہ بار بار کہے۔ بس ہو گیا ایک مسئلہ کا اعلان، ماننے والے مانیں گے، تم ذمہ دار اور خدائی ٹھیکیدار نہیں ہو۔ ایک مسئلہ کا ضد اور اصرار کے ساتھ پیش کرتے رہنا اور چباتے رہنا، اس سے خواہ مخواہ عوام میں نزاعات پیدا ہوتے ہیں۔ کہنے والا تو بچ گیا اور مصیبت عوام پر آ گئی۔ ہاں ایک ہیں دین کے اصول، نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، زکوٰۃ دینا فرض ہے، آپ زور سے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن فروعی اور اجتہادی چیزوں میں آپ زور دیں تو یہ تبلیغی چیزیں ہی نہیں، آپ زور کہاں سے دیتے ہیں؟ مثلاً حنفی مسائل ہیں جو تبلیغی مذہب ہی نہیں۔ آپ اسٹیج پر کھڑے ہو کر کہیں کہ لوگو، تم شافعی بن جاؤ، حنفی مت بنو۔ یہ ترجیحی مذاہب ہیں تبلیغی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاں عمل واجب یا افضل ہے اور فلاں عمل نہیں۔ تو ترجیحی مذاہب کو تبلیغی مذہب مت بناؤ کہ اگر کسی عالم کی کوئی جزئی تحقیق ہو، خواہ مخواہ اس کی تبلیغ پر ضد اور اصرار کیا جائے۔
بہرحال آج کل یہ چیز پیدا ہو گئی ہے، بہت گستاخی، جسارت اور جرأت ہو رہی ہے۔ اس واسطے یہ چند باتیں عرض کر دیں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے عمل کی۔ اللھم افتح لنا بالخیر واختم لنا بالخیر۔