متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل

محمد عمار خان ناصر

متعۃ یا متاع عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی بھی قسم کا فائدہ یا منفعت حاصل کی جا سکے، کل ما ینتفع بہ علی وجہ ما فھو متاع و متعۃ۔ اسلامی شریعت میں متعۃ الطلاق سے مراد وہ مالی فائدہ ہے جو طلاق یافتہ عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے تحفے کی صورت میں ملتا ہے۔ ذیل میں اس مسئلے کے بعض اہم پہلوؤں کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

متعۃ الطلاق کی حکمت

حسنِ معاشرت کی بنیاد عقلِ عام اور دین کی رو سے ایثار و قربانی، اعلیٰ اخلاق اور تعاونِ باہمی کے جذبے پر ہے۔ دین کی تعلیم یہ ہے کہ انسان زندگی کے تمام معاملات میں حسنِ اخلاق، مروت، رواداری اور شائستگی کا مظاہرہ کرے۔ حتٰی کہ معاملہ اگر تعلق توڑنے کا بھی ہو تو اسے بھی اس طرح عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دیا جائے کہ ناگزیر طور پر پیدا ہونے والی رنجشوں کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ یہی صورت نکاح کے معاملات میں ہے۔

قرآن مجید مرد کو اس کی فطری صلاحیتوں اور معاشی ذمہ داریوں کی بنا پر خاندان کا قوم اور سربراہ قرار دیتا ہے:

الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علیٰ بعض وبما انفقوا من اموالھم۔ (النساء ۳۴)

’’مرد اپنی بیویوں کے سربراہ ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں ان کی بیویوں پر فضیلت دی ہے اور وہ اپنے مال بھی (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔‘‘

اس فضیلت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ قرآن مجید خانگی امور میں مرد کی رائے کو فیصلہ کن قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پہلو سے اس کو عورت پر ایک درجے کی فضیلت حاصل ہے۔

وللرجال علیھن درجۃ (البقرہ ۲۲۸)

’’اور مردوں کو اپنی بیویوں پر ایک درجے کی فضیلت حاصل ہے۔‘‘

لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ مرد عورت کے ساتھ اپنے برتاؤ اور رویے میں بھی مردانگی اور بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرے۔ اور فتوت اور بلند کرداری کا یہ مظاہرہ قیامِ نکاح کی حالت میں ہی نہیں بلکہ اس صورت میں بھی ہونا چاہیے جب کسی وجہ سے رشتہ نکاح کا قائم رکھنا ممکن نہ رہے اور اسے توڑنے کی نوبت آجائے۔ چنانچہ قرآن مجید اس حالت میں تسریح باحسان اور مفارقۃ بالمعروف کی خاص طور سے تاکید کرتا ہے:

الطلاق مرتان فامساک بمعروف اور تسریح باحسان (البقرہ ۲۲۹)

’’(رجعی) طلاق دینے کا حق دو دفعہ ہے۔ اس کے بعد یا تو دستور کے موافق بیوی کو رکھ لیا جائے یا خوش اسلوبی سے اسے چھوڑ دیا جائے۔‘‘

فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف (اطلاق ۲)

’’اپنی بیویوں کو دستور کے موافق نکاح میں رکھو یا دستور ہی کے موافق ان کو جدا کرو۔‘‘

ہمارے نزدیک طلاق کی صورت میں عورت کو متعۃ دینے کا حکم بھی اس تسریح باحسان کی فرع ہے۔ قرآن مجید نے تسریح باحسان کے حکم کی جو تفصیل کی ہے وہ حسبِ ذیل ہے:

(۱) طلاق دینے کے بعد عورت کی عدت کو طویل تر کرنے اور اس کو تنگ کرنے کی غرض سے رجوع نہ کیا جائے:

ولا تمسکوھن ضرارًا لتعتدوا ومن یفعل ذالک فقد ظلم نفسہ (البقرہ ۲۳۱)

’’(طلاق کے بعد) اپنی بیویوں کو تنگ کرنے اور حد سے تجاوز کرنے کے لیے ان کو مت روکو، جو ایسا کرتا ہے یقیناً وہ اپنی جان پر بڑا ظلم ڈھاتا ہے۔‘‘

(۲) مرد نے نکاح کے وقت یا اس کے بعد جو بھی مال عورت کو دیا ہے وہ واپس نہ لیا جائے چاہے وہ کتنا ہی زیادہ ہو:

وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واٰتیتم احداھن قنطارًا فلا تاخذوا منہ شیئا اتأخذونہ بہتانا واثما مبینا وکیف تاخذونہ وقد افضٰی بعضکم الیٰ بعض واخذن منکم میثاقًا غلیظا (النساء ۲۰ و ۲۱)

’’اگر تم ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور پہلے بیوی کو تم نے ڈھیروں مال دے رکھا ہے تو اب اس سے کچھ بھی واپس مت لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلے گناہ کا ارتکاب کر کے مال واپس لیتے ہو؟ اور تم کیسے یہ مال واپس لے سکتے ہو جبکہ تمہارے ایک دوسرے سے ازدواجی تعلقات رہے ہیں، اور (نکاح کے وقت) تمہاری بیویوں نے تم سے (وفاداری کا) نہایت مضبوط پیمان لیا تھا۔‘‘

(۳) مہر کی ادائیگی میں مرد وسعتِ قلبی اور ایثار کا مظاہرہ کرے:

وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم الّا ان یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدۃ النکاح وان تعفوا اقرب لتقوٰی ولا تنسوا الفضل بینکم (البقرہ ۲۳۷)

’’اور اگر تم اپنی بیویوں کو ہمبستری سے پہلے طلاق دے دو اور ان کے مہر کی مقدار تم نے طے کر رکھی ہو تو اب (طلاق کی صورت میں) انہیں طے شدہ مہر کا نصف ادا کرو۔ ہاں اگر وہ معاف کر دیں (تو تم سارا مہر رکھ سکتے ہو) یا اگر (خاوند) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرے (تو عورت سارا مہر بھی لے سکتی ہے) اور تم شوہروں کا ایثار کرنا ہی تقوٰی کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ نے تمہیں جو فضیلت دی ہے اس کو فراموش نہ کرو۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

’’قرآن نے مرد کو اکسایا ہے کہ اس کی فتوت اور مردانہ بلند حوصلگی اور اس کے درجے مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عورت سے اپنے حق کی دستبرداری کا خواہشمند نہ ہو بلکہ اس میدانِ ایثار میں خود آگے بڑھے۔ اس ایثار کے لیے قرآن نے یہاں مرد کو تین پہلوؤں سے ابھارا ہے۔ ایک تو یہ کہ مرد کو خدا نے یہ فضیلت بخشی ہے کہ وہ نکاح کی گرہ کو جس طرح باندھنے کا اختیار رکھتا ہے اسی طرح اس کو کھولنے کا بھی مجاز ہے۔ دوسرا یہ کہ ایثار و قربانی، جو تقوٰی کے اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ہے، وہ جنسِ ضعیف کے مقابل میں جنسِ قوی کے شایانِ شان زیادہ ہے۔ تیسرا یہ کہ مرد کو خدا نے اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے عورت پر جو ایک درجہ ترجیح کا بخشا ہے اور جس کے سبب سے اس کو عورت کا قوام اور سربراہ بنایا ہے، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس کو عورت کے ساتھ کوئی معاملہ کرتے وقت مرد کو بھولنا نہیں چاہیے۔ اس فضیلت کا فطری تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت سے لینے والا نہیں بلکہ اس کو دینے والا بنے۔‘‘(۲)

(۴) بیوہ عورت کی عدت اگرچہ چار ماہ دس دن ہے لیکن خاوند اگر قریب الوفاۃ ہو تو وہ اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کر جائے کہ وہ اس کی وفات کے بعد ایک سال تک بیوہ کو اسی گھر میں رہنے دیں:

والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجًا وصیۃ لازواجھم متاعًا الی الحول غیر اخراج (البقرہ ۲۴۰)

’’اور تم میں سے جو مرد قریب الوفات ہوں اور اپنے پیچھے بیوہ چھوڑ کر جا رہے ہوں تو وہ ان کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نکالے بغیر اسی گھر میں رہنے کی سہولت دی جائے۔‘‘

(۵) طلاق کی صورت میں عورت کی دلجوئی اور اس کے غم کو کم سے کم کرنے کے لیے خاوند مہر اور نفقہ کی لازمی ادائیگیوں کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی چیز بطور تحفہ عورت کو دے۔

وللمطلقات متاع بالمعروف حقًا علی المتقین (البقرہ ۲۴۱)

’’اور اپنی مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کرو، یہ اہلِ تقوٰی پر لازم ہے۔‘‘

یا ایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحًا جمیلا (الاحزاب ۲۸)

’’اے نبی، آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ اگر تم دنیا کی آسائشیں اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور اچھے طریقے سے تمہیں جدا کر دوں۔‘‘

متعۃ الطلاق کی قانونی حیثیت

طلاق یافتہ عورتوں کی چار حالتیں ہو سکتی ہیں:

ایک یہ کہ بوقتِ نکاح ان کا مہر مقرر کیا گیا ہو اور ہمبستری کے بعد ان کو طلاق دے دی جائے۔

دوسری یہ کہ مہر تو مقرر کیا گیا ہو لیکن ہمبستری سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے۔

تیسری یہ کہ مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق دے دی جائے۔

چوتھی یہ کہ مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دی جائے۔

ان مختلف صورتوں میں متعہ کی قانونی حیثیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلافِ رائے ہے:

پہلی رائے امام حسن بصریؒ کی ہے جن کے نزدیک متعہ ان تمام مطلقات کے لیے واجب ہے۔ ان کا استدلال وللمطلقات متاع بالمعروف سے ہے جو تمام مطلقات کے لیے عام ہے۔

دوسری رائے احناف اور شوافع کی ہے جن کے نزدیک اس عورت کے لیے تو متعہ واجب ہے جسے دخول سے قبل طلاق دی گئی ہو اور اس کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو، لیکن باقی تمام مطلقات کے لیے محض مستحب ہے۔ ان کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:

ایک یہ کہ قرآن مجید نے متعہ کا حکم خاص طور پر صرف اس مطلقہ کے لیے دیا ہے جس کا مہر طے نہ کیا گیا ہو اور دخول سے قبل اسے طلاق دے دی گئی ہو۔ ایسی عورتوں کے لیے یہ حکم قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ صیغہ امر متعوھن استعمال کیا گیا ہے جو کہ وجوب کی دلیل ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:

لا جناح علیکم ان طلقتم النساء ما لم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ ومتعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ متاعا بالمعروف حقا علی المحسنین (البقرہ ۲۳۶)

’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی ان بیویوں کو طلاق دو جن سے تم نے تعلقات قائم کیے ہیں نہ ان کا مہر مقرر کیا ہے، انہیں (رخصت کرتے ہوئے) کچھ دے دلا دو، خوشحال اپنی گنجائش کے مطابق اور تنگدست اپنی گنجائش کے مطابق، دستور کے مطابق کوئی تحفہ ہونا چاہیے جو احسان کرنے والوں پر لازم ہے۔‘‘

سورۃ الاحزاب میں فرمایا:

یا ایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن وسرحوھن سراحا جمیلا (الاحزاب ۴۹)

’’اے ایمان والو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر تعلقات قائم کیے بغیر انہیں طلاق دے دو تو ایسی صورت میں ان کے ذمے کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو، سو ان کو کچھ دے دلا دو اور شائستگی کے ساتھ ان کو رخصت کرو۔‘‘

دوسرے یہ کہ علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ میں علی کا لفظ بھی الزام اور وجوب کے لیے ہے۔

تیسرے یہ کہ اس حکم کے آخر میں حقًا علی المحسنین کے الفاظ بھی وجوب کی دلیل ہیں۔

چوتھے یہ کہ عقل و قیاس بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ شریعت کی ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقدِ نکاح میں عورت کو کوئی نہ کوئی مالی عوض ضرور ملنا چاہیے۔ چنانچہ نکاح کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

واحل لکم ما وراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم (النساء ۲۴)

’’ان عورتوں کے سوا باقی سب عورتوں سے مال دے کر نکاح کرنا تمہارے لیے حلال ہے۔‘‘

چونکہ عقدِ نکاح کو قبول کر کے عورت خاوند کو استمتاع کا حق سونپ دیتی ہے اس لیے نفسِ نکاح کے ساتھ ہی عوض لازم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگرچہ عملاً خاوند نے استمتاع نہ کیا ہو، عوض کی ادائیگی اس پر لازم ہو جاتی ہے۔

مطلقات کی باقی تین صورتوں میں یہ عوض مہر کی صورت میں حسبِ ذیل تفصیل کے مطابق عورت کو ادا کیا جاتا ہے:

اگر عورت کو مہر مقرر ہونے اور دخول کے بعد طلاق دی گئی ہو تو اسے پورا مہر ملے گا۔

اگر مہر مقررہونے کے بعد اور دخول سے پہلے طلاق دی جائے تو اسے نصف مہر ملے گا۔

اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور دخول کے بعد طلاق دی جائے تو ازروئے حدیث عورت کو مہرِ مثل ملے گا۔

اس اصول کی رو سے ضروری ہے کہ وہ عورت جس کو مہر مقرر کیے بغیر دخول سے پہلے طلاق دی گئی ہو اسے بھی کوئی نہ کوئی عوض دیا جائے۔ چنانچہ قرآن مجید نے ایسی عورت کو متعہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ چونکہ ایسی عورت کے لیے دوسرا کوئی عوض نہیں ہے اس لیے اس کے لیے متعہ واجب ہے، جبکہ باقی مطلقات کو چونکہ مہر کا پورا یا کچھ حصہ مل جاتا ہے اس لیے ان کے حق میں متعہ صرف مستحب ہے۔(۳)

وللمطلقات متاع بالمعروف سے امام حسن بصریؒ کے استدلال کا جواب دیتے ہوئے امام ابوبکر ابن العربیؒ اور امام جصاصؒ فرماتے ہیں کہ متاع کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جس سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ چنانچہ جن عورتوں کو پورا یا نصف مہر مل جاتا ہے ان کے لیے وہی متاع ہے اور جن عورتوں کو مہر نہیں ملتا ان کے لیے متاع کی صورت یہ ہے کہ خاوند اس کی دلجوئی کے لیے اس کو کوئی تحفہ پیش کرے۔(۴)

تیسری رائے امام مالکؒ کی ہے جو کہتے ہیں کہ متعہ کسی بھی مطلقہ کے لیے واجب نہیں بلکہ سب کے لیے مستحب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ومتعوھن کا حکم استحباب کے لیے ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ حقًا علی المحسنین کا جملہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ متعہ کا یہ حکم قانونی طور پر نہیں بلکہ احسان اور تقوٰی کے لحاظ سے لازم ہے۔(۵)

مذکورہ قانونی بحث سے قطع نظر اتنی بات واضح ہے کہ قرآن مجید نے متعہ کا حکم نہایت تاکید اور اہتمام سے بیان فرمایا ہے، اور قانونی لحاظ سے نہ سہی لیکن اخلاقی لحاظ سے اس کا درجہ وجوب ہی کا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ حقًا علی المتقین کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اوپر آیت ۲۳۶ میں مطلقہ عورتوں کو دے دلا کر رخصت کرنے کی جو ہدایت فرمائی تھی، آخر میں یہ پھر اس کی یاددہانی کر دی اور اس کو اہلِ تقوٰی پر ایک حق قرار دیا۔ جو حقوق صفات و کردار پر مبنی ہوتے ہیں بعض حالات میں وہ اس دنیوی زندگی میں تو قانون کی گرفت کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں لیکن خدا کے ہاں ان صفات کے لیے وہ حقوق ہی معیار ٹھہریں گے۔ اگر ایک چیز مومنین یا محسنین یا متقین پر حق قرار دی گئی ہے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ اسلام کا قانون اس دنیا میں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کوئی گرفت نہ کرے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آخرت میں بھی ان کی خلاف ورزی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا، آخرت میں آدمی کا ایمان یا احسان یا تقوٰی انہی حقوق کی ادائیگی یا عدمِ ادائیگی کے اعتبار سے وزن دار یا بے وزن ٹھہرے گا۔‘‘(۶)

متعہ کی مقدار

متعہ کی مقدار کی تعیین میں اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں:

ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ متعہ کی مالیت کم از کم تیس درہم ہونی چاہیے۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ متعہ کی اعلیٰ ترین صورت خادم ہے، اس کے بعد کپڑے اور اس کے  بعد نفقہ۔

عطاءؒ فرماتے ہیں کہ درمیانے درجے کے متعہ میں قمیص، دوپٹہ اور چادر شامل ہونے چاہئیں۔

حسن بن علیؒ نے متعہ کے طور پر بیس ہزار اور شہد کے کچھ تھیلے اپنی مطلقہ کو دیے۔

قاضی شریحؒ نے متعہ کے طور پر پانچ سو درہم دیے۔(۷)

یہ تمام تعیینات اپنے اپنے محل میں درست ہیں کیونکہ قرآن مجید نے صراحت کی ہے کہ  متعہ کی نوعیت اور مقدار کے باب میں کوئی چیز ازروئے شریعت متعین نہیں ہے بلکہ اس کا تعین مقامی رواج اور خاوند کے مالی حالات کے لحاظ سے کیا جائے گا۔

ومتعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ متاعا بالمعروف حقا علی المحسنین (البقرہ ۲۳۶)

’’انہیں (رخصت کرتے ہوئے) کچھ دے دلا دو، خوشحال اپنی گنجائش کے مطابق اور تنگدست اپنی گنجائش کے مطابق، دستور کے مطابق کوئی تحفہ ہونا چاہیے جو احسان کرنے والوں پر لازم ہے۔‘‘

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:

وقال الحسن: یمتع کل بقدرہ، ھذا بخادم و ھذا با ثواب و ھذا بثوب وھذا بنفقۃ۔ وکذلک یقول مالک بن انس، وھو مقتضی القرآن فان اللہ سبحانہ و تعالیٰ لم یقدرھا ولا حدودھا وانما قال ’’علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ‘‘۔

’’حسن کہتے ہیں کہ ہر شخص اپنی گنجائش کے مطابق متعہ دے، کوئی خادم کی صورت میں، کوئی زیادہ کپڑوں کی صورت میں، کوئی ایک کپڑے کی صورت میں، اور کوئی نفقے کی صورت میں۔ امام مالک بھی یہی فرماتے ہیں اور قرآن کا مدعا بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مقدار اور نوعیت متعین نہیں کی بلکہ فرمایا ہے کہ فراخ دست اور تنگ دست اپنی اپنی گنجائش کے مطابق دیں۔‘‘(۸)


حواشی

  1. راغب: المفردات فی غریب القرآن ص ۴۶۱ ۔ ابن الاثیر: النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ج ۴ ص ۲۹۳
  2. تدبرِ قرآن ج ۱ ص ۵۴۸
  3. ابن قدامہ: المغنی ج ۷ ص ۱۸۳ و ۱۸۴
  4. ابن العربی: احکام القرآن ج ۱ ص ۲۹۱ ۔ الجصاص: احکام القرآن ج ۱ ص ۵۸۳
  5. ابن رشد: بدایۃ المجتہد ج ۲ ص ۷۴
  6. تدبر قرآن ج ۱ ص ۵۵۶
  7. القرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج ۳ ص ۲۰۱ و ۲۰۲ ۔ ابن کثیر: تفسیر القرآن العظیم ج ۱ ص ۲۸۷ و ۲۸۸
  8. نفس المصدر ج ۳ ص ۲۰۱


فقہ / اصول فقہ

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter