پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم

ڈاکٹر اسرار احمد

امریکہ میں دہشت گردی سے پیدا شدہ تشویشناک ہی نہیں خوفناک عالمی صورتحال کے نتیجے میں جہاں افغانستان اور طالبان کے لیے شدید خطرات اور اندیشے پیدا ہو گئے ہیں، وہاں پاکستان بھی اپنی تاریخ کے مشکل ترین امتحان اور کٹھن آزمائش سے دوچار ہو گیا ہے، جس کے ضمن میں اختلافِ رائے میں شدت پیدا ہونے سے ملک کی سلامتی اور سالمیت تک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

افغانستان کے لیے تو دشمن یہ تک کہہ رہا ہے کہ ہم اسے دھات کے زمانے سے بھی پہلے کے دور یعنی پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے، اور اگرچہ بائیس سالہ جنگ کے نتیجے میں افغانستان میں جس قدر تباہی و بربادی پہلے ہی آ چکی ہے، اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بے پناہ عسکری قوت کے پیشِ نظر بظاہرِ احوال بالفعل ایسا ہو جانا بعید از قیاس بھی نہیں ہے، تاہم یہ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ فی الواقع کیا ہو گا اور مشیتِ ایزدی کس طور سے ظاہر ہو گی، اور کیا عجب کہ اصحابِ فیل کا واقعہ دنیا میں ایک بار پھر ظاہر ہو جائے، واللہ اعلم۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎

آج بھی جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

ادھر پاکستان میں ایک جانب حکومت اور اس کے ہم خیالوں اور دوسری جانب دینی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے مابین اختلاف کی جو خلیج نمایاں طور پر سامنے آ چکی ہے، اس کے ضمن میں جہاں یہ اندیشہ ہے کہ ملک میں محاذ آرائی بڑھ کر تصادم کی صورت اختیار کر لے اور امن و امان کے درہم برہم ہونے کے نتیجے میں قومی سطح پر عدمِ استحکام کی صورت پیدا ہو جائے، وہاں اس اعتبار سے ایک بہت بڑا خیر بھی برآمد ہو رہا ہے کہ ملک میں ایک جانب سیکولر اور مغرب زدہ عناصر، اور دوسری جانب دین و مذہب کے ساتھ عملی و جذباتی تعلق رکھنے والے لوگوں کے مابین واضح امتیاز اور جداگانہ تشخص کا احساس و ادراک نمایاں طور پر پیدا ہو گیا ہے۔ گویا پاکستانی معاشرے میں ایک نئی دو قطبی تقسیم (Polarization) پیدا ہو رہی ہے جو پاکستان میں اسلامی انقلاب کے اعتبار سے نہایت مفید ہے۔

چنانچہ اس مرحلے پر حکومتِ پاکستان نے جو طرزِ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر جو احتجاجی جلسے منعقد ہو رہے ہیں یا جلوس نکل رہے ہیں ان سے وہ سیکولر اور مغرب پرست حلقے بالکل غائب ہیں جن کا فکر اور فلسفہ خالص مادیت کے گرد گھومتا ہے۔ لہٰذا ان کی ساری دلچسپی صرف حیاتِ دنیوی اور اس کے مادی اسباب و وسائل تک محدود، اور ساری تگ و دو اور بھاگ دوڑ دنیاوی سہولتوں اور آسائشوں اور بن پڑے تو تعیّشات کے حصول کے چکر میں رہتی ہے۔ اور احتجاج کُل کا کُل ان حلقوں کی جانب سے ہو رہا ہے جن کے نزدیک، خواہ عملاً اور خواہ صرف جذباتی طور پر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر شے پر مقدم ہے۔ جن کا تعلق، خواہ فہم و شعور کے ساتھ، خواہ صرف عقیدے اور جذبے کی حد تک، دین و مذہب کے ساتھ اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ان کے لیے تن من دھن قربان کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک، خواہ شعوری یا بے شعوری طور پر، یہ حقیقت مسلّم ہے کہ ؎

دیں ہاتھ سے دے کر گر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اب ظاہر ہے کہ صورتحال جیسے جیسے آگے بڑھے گی اور افغانستان اور طالبان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کسی بالفعل اقدام میں حکومتِ پاکستان کے تعاون کے مظاہر منصۂ شہود پر آئیں گے، اس کے نتیجے میں پولرائزیشن میں مزید گہرائی و گیرائی اور سختی و پختگی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔

پاکستانی معاشرے کا یہ امتیاز و انقسام جہاں فی نفسہٖ مستقبل کے اسلامی انقلاب کے لیے نہایت مفید ہے، وہاں فوری طور پر ایک اور اعتبار سے بھی بہت مبارک ثابت ہو رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے ذریعے مختلف ہی نہیں متضاد قسم کے مذہبی عناصر کے مابین ازخود اور فطری طور پر اتحاد پیدا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ چنانچہ اس مسئلے میں اظہارِ اختلاف اور احتجاج کسی ایک خاص حلقے کی جانب سے نہیں بلکہ جملہ دینی حلقوں کی جانب سے ہو رہا ہے۔ گویا جملہ دینی عناصر اس معاملے میں رائے اور موقف کے اعتبار سے متحد اور یک زبان ہیں۔ خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، بریلوی ہوں یا دیوبندی، اہل سنت والجماعت ہوں خواہ اہل حدیث، اور خواہ قدیم طرز کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماء ہوں یا جدید احیائی تحریکوں سے وابستہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگ۔ اگرچہ ان جملہ عناصر پر مشتمل کوئی ’’گرینڈ الائنس‘‘ باضابطہ طور پر تاحال وجود میں نہیں آیا ہے اور اس وقت تک ’’دفاعِ افغانستان کونسل‘‘ میں، جو  ۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو وجود میں آئی تھی اور جس کا نام اب ’’دفاعِ پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ ہے، ابھی تک عامۃ المسلمین کے سواد اعظم کے ان نامور اور نمایاں علماء و زعماء کی فعال شمولیت نظر نہیں آ رہی ہے جنہیں عرف عام میں بریلوی مکتب فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم اپنے طور پر جداگانہ انداز میں احتجاج میں وہ بھی بھرپور طور پر شریک ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو انہوں نے اولیت کا شرف حاصل کیا ہے۔ گویا یہ بات بالکل قرینِ قیاس ہے کہ جیسے جیسے یہ معاملہ آگے بڑھا، وقت کے تقاضے کے طور پر پاکستان کے جملہ دینی و مذہبی عناصر کا یہ گرینڈ الائنس وجود میں آجائے گا۔

اس پولرائزیشن کے دوسرے ’’قطب‘‘ (Pole) پر ’’قطب الاقطاب‘‘ کی حیثیت تو سربراہِ حکومت، سپہ سالارِ افواجِ پاکستان، پرستارِ اتاترک جنرل پرویز مشرف صاحب کو حاصل ہے۔ اور ان کے گرد رفتہ رفتہ پاکستانی معاشرے کے جملہ سیکولر عناصر جمع ہوتے جا رہے ہیں، خواہ پہلے ان کا تعلق دائیں بازو سے رہا ہو خواہ بائیں سے، اور خواہ وہ میدانِ سیاست کے کھلاڑی ہوں یا اربابِ دانش و اصحابِ قلم، اور خواہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے حاضر یا ریٹائرڈ اکابر ہوں یا وہ جنہیں عرفِ عام میں تعلیم یافتہ سربرآوردہ طبقہ (Educated Elite) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کھلم کھلا ملحد اور دہریے ہیں، اور وہ بھی جو اسلام کو صرف ایک ’’مذہب‘‘ کے طور پر تو مانتے ہیں جو چند عقائد، چند عبادات اور چند معاشرتی رسوم تک محدود ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اسلام کے ’’دینِ حق‘‘ یعنی نظامِ عدلِ اجتماعی کی حیثیت سے مکمل سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظامِ حیات ہونے کے شعور سے عاری ہیں۔ گویا اس وقت پاکستان میں یہ دو نقطہ ہائے نظر بھرپور طور پر ممتاز و ممیز ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اگر ایک جانب حکومتِ پاکستان ’’خاموش اکثریت‘‘ کی اپنی پسندیدہ جہت میں یکجہتی کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب فعال دینی و مذہبی حلقے چاہتے ہیں کہ عوام ان کی جہت میں یکسو ہو جائیں۔

پاکستان میں تاحال دینی و مذہبی جماعتوں اور تحریکوں کی پیش قدمی میں ایک اہم رکاوٹ یہ بھی رہی ہے کہ اب تک ہمارے معاشرے میں یہ دونوں طبقے گڈمڈ رہے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ اکثر و بیشتر سیاسی تحریکیں اسی ’’اجتماعِ ضدین‘‘ کی اساس پر چلتی رہی ہیں بلکہ سماجی تقریبات میں بھی یہ دونوں عناصر ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کا نقشہ پیش کرتے رہے ہیں۔ جبکہ اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام اور قوانینِ شریعت کے نفاذ، یا بالفاظِ دیگر اسلامی انقلاب کے لیے لازم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں سورۂ آل عمران میں وارد شدہ الفاظِ مبارکہ ’’حتٰی یمیز الخبیث من الطیّب‘‘ کی کیفیت بالفعل رونما ہو جائے جس کے آثار اب بحمد اللہ نظر آ رہے ہیں۔

چنانچہ جمعہ ۲۱ ستمبر کی سہ پہر کو لاہور میں منعقد ہونے والا عظیم الشان جلسۂ عام اس حقیقت کا بہت بڑا مظہر تھا۔ اس لیے کہ اس کے سٹیج پر جہاں جملہ دینی عناصر کی نمائندگی اظہر من الشمس تھی وہاں معروف اربابِ سیاست کی غیر حاضری بھی بہت نمایاں تھی۔ حتٰی کہ اپوزیشن کے رہنما بھی کہیں نظر نہیں آئے جو عام حالات میں ہر وقت ایسے مواقع کی تلاش میں رہا کرتے ہیں کہ کسی بھی موضوع یا مسئلے پر حکومتِ وقت کے موقف کے خلاف جلسہ ہو رہا ہو تو اس میں شریک ہو کر خود اپنے لیے تقویت حاصل کریں۔ چنانچہ اس وقت کی احزابِ مخالف میں سے صرف ایک مسلم لیگ (ن) کے نوجوان رہنما سعد رفیق صاحب جلسے میں شریک ہوئے اور وہ بھی غالباً صرف اپنی ذاتی حیثیت میں شرکت کر رہے تھے۔ جماعتِ اسلامی کی مرکزی قیادت کی بھرپور موجودگی، جو کچھ عرصہ قبل طالبان کی زیادہ پرجوش حامی نہیں رہی تھی، بہت ہی نیک شگون ہے۔ چنانچہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو اس پر تہِ دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ اگرچہ دو سوا دو سال قبل انہوں نے مجوزہ ’’متحدہ اسلامی انقلابی محاذ‘‘ میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارا پختہ فیصلہ ہے کہ ہم آئندہ کسی بھی محاذ میں شامل نہیں ہوں گے‘‘ لیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے ’’دفاعِ افغانستان کونسل‘‘ میں نہ صرف یہ کہ اول روز سے شرکت اختیار کی بلکہ اس میں مسلسل فعال رول ادا کر رہے ہیں۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان میں دینی جماعتوں اور تنظیموں کا ایک وسیع تر اور منظم متحدہ محاذ قائم ہو جو نہ صرف امریکی جارحیت کی مخالفت کے منفی ہدف بلکہ پاکستان میں مکمل اسلامی انقلاب کے مثبت ہدف کے لیے مؤثر طور پر سرگرمِ عمل ہو، آمین یا رب العالمین۔

حالات و مشاہدات

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter