مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

حضرت مولانا الیاسؒ کا طریقۂ دعوت

مولانا سعید احمد خانؒ کو مولانا الیاسؒ سے اس درجے کا تعلقِ خاطر اور محبت تھی کہ جب مولانا الیاسؒ کی تربیت، دعوت، حکمت کے واقعات سنانے لگتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ طوفان کا بند کھل گیا ہے جو اب بند نہیں ہو گا۔ اپنے خاص انداز میں گھنٹوں واقعات سناتے۔ اسی طرح حضرت مولانا الیاسؒ کے خاص الخاص خادم و رفیق میاں جی عبد الرحمٰن میواتی، جو نو مسلم اور مستجاب الدعوات تھے، کی دعوت و حکمت کے عجیب و غریب واقعات گھنٹوں تک سناتے۔ فرماتے اللہ تعالیٰ نے میاں جی عبد الرحمٰن کو خاص حکمت عطا فرمائی تھی، ان کی روحانیت اور زبان کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی غیر مسلم جامع مسجد دہلی سے بستی نظام الدین تک یکے (گھوڑا گاڑی) میں ساتھ بیٹھتا تو نظام الدین پہنچنے تک وہ مسلمان ہو چکا ہوتا، ان کے ہاتھ پر ہزارہا غیر مسلم دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔

فرمایا ایک بار ہم لوگ (مولانا الیاسؒ، میاں جی عبد الرحمٰنؒ اور مولانا سعید احمد خانؒ) میوات میں پیدل سفر کر کے کسی بستی میں جا رہے تھے، راستے میں کچھ میواتی بھی سفر کر رہے تھے، میاں جی نے ان میواتیوں کو آواز دی اور کہا، اے میوؤ، تم فاتحہ دلواؤ۔ اس دور کا میوات شرک و بدعات کی رسوم میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا، ہاں کیوں نہیں۔ پوچھا، فاتحہ کون پڑھے؟ کہنے لگے ہمارا میاں (یعنی مکتبی مولوی) پڑھے۔ فرمایا، باپ دادا تو اس کے بھی مرے ہیں، کیا پتہ وہ چپکے سے اپنوں کو بخش دیتا ہو۔ پھر کہا گنجی (گڑ چاول کا خاص میواتی کھانا) تمہاری گئی اور ثواب اس نے اپنے باپ دادا کو بخش دیا۔ اس طرح پہلے انہیں شبہے میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا، یہ بتاؤ کھیر اس کا، دودھ گڑ چاول تمہارے یا میاں جی کے؟ کہنے لگے وہ تو سب ہمارے ہیں۔ فرمایا، جب دستر خوان پر میاں جی کا کچھ ہے ہی نہیں تو وہ کیا بخشتا ہے؟ وہ تو تم بخشو (یعنی نیت کرو) جن کا ہے۔ سادہ دل میواتی کہنے لگے، سمجھ میں آگیا۔ اب ہم رسمی فاتحہ نہیں دلوائیں گے۔ پھر میاں جی عبد الرحمٰن نے مولانا سعید احمد خانؒ سے مخاطب ہو کر فرمایا، تم مولوی اگر ان سے بات کرتے تو کہتے بدعت ہے۔ اور وہ کہتا وہابی ہے، اور وہیں جھگڑا اور مناظرہ شروع ہو جاتا۔

مناظروں سے وحشت و تنفر

مولانا سعید احمد خان رحمۃ اللہ علیہ بار بار فرماتے، بھائی ہمیں حکمت اور لوگوں کو اپنا بنانا نہیں آتا۔ حضرت مولانا الیاسؒ کو اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت دی تھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے اخلاقِ عالیہ عطا فرمائے تھے جن کی بدولت وہ لوگوں کو اپنا بنا لیا کرتے تھے۔ مولانا الیاسؒ رسمی مناظروں کے سخت خلاف تھے، فرمایا کرتے تھے کہ ان مناظروں سے اصلاح نہیں ہوتی، عناد بڑھتا ہے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ دعوت سے دل جڑتے ہیں اور مناظرے سے دل پھٹتے ہیں۔ فرمایا، مولانا الیاسؒ ایک بار کہیں جا رہے تھے، راستے میں ایک شخص کو دعوت دینی شروع کر دی۔ کسی نے آپ سے کان میں کہا یہ شخص تو شیعہ ہے۔ فرمایا کلمہ تو پڑھتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مانتا ہے، یہ کہہ کر اس سے لپٹ گئے کہ میرا مسلمان بھائی ہے۔ وہ شخص شیعوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ مولانا الیاسؒ کے طرز عمل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ساری زندگی جب کوئی مولانا الیاسؒ کے متعلق پوچھتا تو وہ کہتے، وہ خدا کے خاص الخاص مقرب بندے ہیں، ہو سکے تو ان کی خدمت میں ضرور جاؤ۔ یہی حال مولانا سعید احمد خانؒ کا تھا، جو ایک بار آپ کی مجلس میں بیٹھ جاتا، ہمیشہ کے لیے آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔

حضرت مولانا سعید احمد خانؒ فرمایا کرتے تھے حق کے دلائل غیب کے ہیں جو ہر ایک کے جلدی سمجھ میں نہیں آنے کے، اور باطل کے دلائل مشاہدے کے ہیں جو عوام کو فورًا سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اگر بات مناظروں تک ہی رہے تو عوام کے دلوں پر اہلِ باطل (اہلِ بدعات) کی بات ہی حاوی رہے گی۔ وہ تو حق کی محنت ہے جو باطل کو مٹا دے گی۔ غرض مولانا سعید احمد خانؒ نے برس ہا برس تک اس صدی کے سب سے بڑے داعی الی اللہ حضرت مولانا الیاسؒ کی صحبت اٹھائی۔ ان سے دعوت کی حکمت سیکھی اور ان کے فیضِ تربیت سے کندن بن کر نکلے۔ آپ پر دعوت کا ایسا رنگ چڑھا کہ زندگی کا مقصدِ وحید ہی امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت و طریقہ (دعوت و اتباعِ سنت) پر لانا بن گیا۔ اور آپ مولانا الیاسؒ کے دامن سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کے مصداق بن گئے۔

سادگی اور جفاکشی

حضرت مولانا سعید احمد خانؒ کو عیش و آسائش سے وحشت اور فقر و زہد سے رغبت تھی۔ سادگی اور زہد مولانا کی طبیعتِ ثانیہ بن گئی تھی۔ شروع زندگی میں اپنے گاؤں میں جو لباس، کھانا اور معاشرت تھی وہی آخر وقت تک برقرار رہی۔ وہی موٹا چھوٹا لباس، وہی سخت جوتا جو آپ کے گاؤں سے بن کر آتا تھا۔ مدینہ منورہ میں چند سال پہلے تک مولانا کی رہائش کچی مٹی کی بنی دیواروں کے سادہ سے مکان میں تھی۔ فرمایا کرتے تھے جسم کی بہت ساری بیماریاں جدید فیشن کی پختہ عمارتوں میں رہنے کی وجہ سے ہیں، مدینہ منورہ میں ہمارے گھر کی دیواریں مٹی کی ہیں اور تین چار فٹ چوڑی ہیں جو خودبخود سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رہتی ہیں۔ کھانا انتہائی سادہ تناول فرماتے، تنعم و آسائش کے نقشوں سے بہت ڈرتے اور اسے بڑا فتنہ سمجھتے۔ فرماتے دشمنانِ اسلام نے سازش کے تحت ہمیں سادگی اور جفاکشی سے ہٹا کر آرام طلب زندگی کا عادی بنا دیا ہے تاکہ ہم جہاد اور دین کی محنت کے قابل نہ رہیں۔

خوبصورت و عالی شان اور مزین مساجد میں جاتے تو ملول اور رنجیدہ رہتے۔ یہاں (انگلینڈ میں) لوٹن اور برمنگھم میں مرکز کی مساجد بننے سے پہلے عارضی طور پر نماز کے لیے سادہ سا ہال بنا دیا گیا تھا۔ مولانا ان سادہ سی مساجد کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ فرمایا، یہاں نماز میں خوب دل لگا ہے، کاش یہ مسجد ہمیشہ اسی طرح رہے، مگر تم لوگ ہماری بات کہاں مانو گے۔ بھارت کی ایک بستی میں لوگ دینی جامعہ کی شاندار عمارتیں دکھانے لے گئے، فرمایا تم میرے پاس مکہ مکرمہ آؤ، میں تمہیں اس سے بڑھ کر عالی شان عمارتیں دکھاؤں گا۔ مجھے تو یہ بتاؤ کہ طلبا میں تقوٰی کتنا بنا ہے؟ اگر ایک وقت کا کھانا نہ ملے تو کتنے طلبا مدرسے میں رہیں گے؟ مولوی فاروق صاحب کراچی والوں کے یہاں دینی اجتماع اور پیٹ کے آپریشن کے سلسلے میں چند ہفتے رکنا پڑا تو خط لکھا جلدی سے بھاگ آؤ، جتنا کھا پی لیا وہی بہت ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہاں کی آسائش و راحت کے نقشے ہمارے آدمی کو بگاڑ نہ دیں۔

ایک بار ایک عرب ملک میں ایک ساتھی کا نرم و عمدہ بستر دیکھ کر فرمایا، آدھی بات امریکہ کی صحیح ہے، آدھی بات روس کی صحیح ہے۔ بندہ نے عرض کیا کہ سمجھ میں نہیں آیا، تو فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو مال دیا ہے وہ عیش کرنے کے لیے نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس مال و دولت کے خرچ کے لیے آٹھ مصارف بنا دیے کہ یہاں خرچ کرو۔ جب مسلمان نے مال و دولت کو اپنے کھانے، کپڑے، سواری اور رہائش کے اعلیٰ سے اعلیٰ بنانے پر لگا دیا تو اس نے آٹھ لوگوں کا حق مارا۔ ان آٹھ کا ساتھی روس ہے کہ مال دار کا مال صرف اس کے عیش و راحت کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔ روس کی یہی آدھی بات صحیح ہے۔ آگے جو روس کہتا ہے کہ مال دار کا پیٹ پھاڑ کر سر پھوڑ کر زبردستی چھین لو، اس کی یہ آدھی بات غلط ہے۔ امریکہ کی یہی آدھی بات صحیح ہے کہ زبردستی مال چھین کر لینے کا حق نہیں ہے۔ امریکہ کی دوسری آدھی بات غلط ہے کہ انسان کو جتنا مال ملے سب کو اپنے عیش و عشرت پر خرچ کرو۔ فرمایا، مسلمان کے مال کے خرچ کے غلط ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس پر دو عذاب مسلط کر دیے یعنی ایک کمیونزم اور دوسرے سرمایہ داری۔

علماء کی قدردانی و اکرام

آپ اہلِ علم اور طلبا کی بڑی قدر اور ان سے محبت فرماتے۔ ان سے ایسے گھل مل جاتے گویا گھر کے اصل لوگ یہی ہوں۔ مولانا کی خدمت میں تبلیغی کام کی نسبت سے جو علما پہنچتے ان سے بہت جلد بے تکلف ہو جاتے۔ اس کی کوشش فرماتے کہ ان کی علمی ترقی بھی ہو، مطالعہ و تحقیق کی عادت پڑے۔ جن علما کرام کو مطالعے کا عادی پاتے، ان کی خصوصی رعایت فرماتے، اور بسا اوقات ان سے علمی تحقیق کا کام بھی لیتے۔ عام طور پر سفر و حضر میں مولانا کے ساتھ کوئی ایسے عالم ضرور ہوتے جن کے ذمے مختلف احادیث و واقعات کی تخریج و جستجو و تلاش لگاتے، ان کی محنت پر خوب ہمت افزائی فرماتے، بعض اوقات خوش ہو کر انعام بھی دیتے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ قیام کے دوران حج و عمرہ کے لیے آئے ہوئے علما کی خصوصی دعوتیں کرتے۔ حج کے دنوں میں دعوت کا اہتمام عموماً جمعہ کے دن ہوتا۔ علما کے لیے کھانے اہتمام سے تیار کرواتے، کھانے کی مجلس علمی مذاکرے کی مجلس بن جاتی۔ صحابہ کرامؓ اور اکابر کے واقعات سناتے اور کوشش فرماتے کہ ان میں عوام پر دین کی محنت کا جذبہ پیدا ہو۔ فرماتے کہ امام کا اپنے نمازیوں سے ایسا دلی تعلق ہونا چاہیے جیسا خاندان کے سربراہ کا اپنی آل و اولاد سے ہوتا ہے۔ صرف نماز پڑھا کر امام کی ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی بلکہ نمازیوں کی خبر گیری، بیمار ہو جائیں تو عیادت کرنا، ان کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، ان کے اپنی دنیاوی و معاشرتی مسائل کی فکر کرنا بھی امام کی ذمہ داری ہے۔ ان مجالس میں علما بے تکلفی سے اشکالات پیش کرتے اور مولانا دلائل سے جواب مرحمت فرماتے۔

تواضع اور کسرِ نفسی

حضرت مولانا کی تواضع اور کسرِ نفسی کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی تنقید بھی قبول فرماتے۔ اس دور میں یہ چیز بالکل نایاب ہو گئی ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے، لندن تبلیغی مرکز کے خصوصی کمرے میں بندہ ملاقات کے لیے پہنچا۔ دیکھا مولانا کی پاکستانی جماعت کے رفقا اور انگلینڈ کے متعدد اہلِ شورٰی تشریف فرما ہیں اور کوئی چیز پڑھی جا رہی ہے۔ سنا تو پتہ چلا کہ کسی بیاض (کاپی) میں سے مبشرات پڑھے جا رہے ہیں۔ یعنی کسی جماعت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی، خواب میں حضرت مولاناؒ کو حضورؐ کے ہمراہ دیکھا وغیرہ وغیرہ۔ چند منٹ بعد بندہ نے عرض کیا، حضرت! آپ کی مجلس میں اس طرح مبشرات سننا سنانا مناسب نہیں۔ آپ یہ مبشرات بعض بزرگوں کے لیے، خلفاء کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ بزرگ الٹے سیدھے خواب دیکھتے ہیں اور انہیں چھاپ کر یہاں ہمیں ابتلا میں ڈالتے ہیں۔ سنا ہے حضرت مولانا الیاسؒ نے دعا مانگی تھی ’’اے اللہ! ہمارے اس کام کو مبشرات اور کرامات پر مت چلانا‘‘۔

یہ سننا تھا کہ اسی وقت حضرت مولانا نے بیاض بند کر دی۔ فرمایا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مبشرات سے دل کو تقویت پہنچتی ہے، مگر یہ پہلو بھی قابلِ لحاظ ہے بلکہ زیادہ اہم ہے، اس سے کئی فتنے پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے عمومی طور پر مبشرات کے سننے سنانے سے احتیاط کرنی چاہیے۔

اسی طرح ایک بار انگلینڈ کے سالانہ اجتماع کے اختتام پر ڈیوزبری میں مختلف شہروں کی مساجد والی جماعتوں کے (روزانہ ڈھائی گھنٹے فارغ کرنے والے) احباب جمع تھے، ان میں حضرت مولاناؒ نے بیان شروع فرمایا۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا، ہمیں اپنی قربانی کی مقدار کو بڑھانا چاہیے، روزانہ اڑھائی گھنٹے سے بڑھا کر آٹھ گھنٹے فارغ کرنے چاہئیں۔ بندہ بیان کے درمیان بول پڑا، حضرت! یہ آپ رہبانیت کی دعوت دے رہے ہیں، اگر ایک شخص روزانہ آٹھ گھنٹے فارغ کر لے، اس کے بعد عصر سے اشراق تک، جمعرات کا اجتماع، مہینے کے تین دن، سال کا چلہ، جماعتوں کی نصرت، یہ سب ملا کر نصف سے زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ رہبانیت ہے۔

ہم میں سے ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے اگر یہ واقعہ ہمارے ساتھ بھرے مجمع میں پیش آتا تو ہمارا کیا ردعمل ہوتا؟ بندہ کم از کم اپنی بابت کہہ سکتا ہے کہ میرا نفس تو اسے برداشت نہ کرتا، نہ جانے کیا کہہ دیتا۔ مگر حضرت مولانا نے مجھ جیسے معمولی طالب علم کی بات توجہ سے سنی اور قبول فرمائی۔ بعد میں مجھے اپنی اس حماقت پر سخت ندامت و افسوس ہوا کہ مجھے یہ اشکال تنہائی میں عرض کرنا چاہیے تھا۔ مگر واہ مولانا سعید احمد خانؒ، کیا بے نفسی کی انتہا ہے کہ پورے سکون و بشاشت سے اشکال سن رہے ہیں اور قبول فرما رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کیا مولانا کے بعد اس کی مثال مل سکے گی؟

؏  اس کوہ کن کی بات گئی کوہ کن کے ساتھ

آپ کی مجلس کے علمی منافع

آپ کی مجلس نہایت باوقار، نصیحت آموز اور علمی منافع کی حامل ہوتی۔ آپ اکثر سکوت و تفکر کی حالت میں ہوتے۔ مجلس لایعنی باتوں، سیاست، حالاتِ حاضرہ پر تبصروں، کسی فرد یا جماعت پر حرف گیری، ابتذال اور استہزا سے بالکل منزہ ہوتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا کہ ایک روحانی مجلس ہے جس پر فرشتوں نے نورانی چادر تانی ہوئی ہے۔ رفقا کی علمی تربیت و ترقی کے لیے مولانا کا ایک خاص طرز یہ تھا کہ کبھی کبھی مجلس میں موجود علما و طلبا سے سوالات فرماتے۔ اس طرح ان میں مطالعہ و تحقیق کا ذوق ابھارتے۔ اکابرین خصوصاً حضرت مولانا الیاسؒ کے بے شمار واقعات سناتے لیکن استشہاد قرآن و سنت اور حضرات صحابہؓ کے واقعات سے کرتے۔ آپ کی مجلس میں لوگ سوالات کرتے اور آپ نہایت بشاشت سے ہر قسم کے سوالات کے جواب مرحمت فرماتے۔

تبلیغی جماعت میں حضرت مولانا ایسی شخصیت تھے کہ جن سے تبلیغ کے متعلق بھی آزادی سے سوالات کیے جا سکتے تھے۔ آپ نہایت بشاشت سے جواب مرحمت فرماتے۔ بندہ نے عرض کیا بعض تبلیغ والے بیان کرتے ہیں کہ ہر پیر اور جمعرات کو امت کے اعمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں، احادیث سے اس کا ثبوت ہے؟ فرمایا، میری نظر سے نہیں گزرا البتہ جمعہ کے بارے میں ایک روایت نظر سے گزری ہے کہ اللہ کے حضور میں اعمال پیش ہوتے ہیں۔

پھر بندہ نے عرض کیا کہ جماعت کے ایک شخص نے بیان کیا کہ حجۃ الوداع میں حضورؐ کے ارشاد فلیبلغ الشاھد الغائب کے بعد صحابہ کرامؓ وہیں سے دنیا بھر میں پھیل گئے اور لاکھوں صحابہ کرامؓ میں سے صرف دس ہزار کی قبریں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں ہیں۔ فرمایا، وہاں سے تو ایک بھی نہیں گیا تھا، رہا قبروں کا معاملہ تو اول تو سارے صحابہؓ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے رہنے والے نہیں تھے اور مقبروں کی تعداد کس نے گنی ہے؟ البتہ یہ صحیح ہے کہ بہت سے صحابہ کرامؓ جہاد اور تجارت وغیرہ کے سفروں میں گئے اور دنیا بھر میں مدفون ہیں۔

شبِ عید ہے، مولانا رفقا کو ہدایات دے رہے ہیں کہ یہاں (مدینہ منورہ) کی عید کی نماز بالکل اول وقت میں ہوتی ہے، تمہیں تو شبہ ہو گا کہ ابھی تو اشراق کا وقت بھی ہوا کہ نہیں، اور نمازِ عید ہو جائے گی۔ اس لیے تہجد کی نماز مسجد نبویؐ میں پڑھ کر اپنی اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہنا اور جتنی بار امام تکبیر کہے تم بھی کہتے رہنا۔ (مدینہ منورہ میں تکبیرات زوائد کی تعداد نو یا تیرہ ہوتی ہے)۔ ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا، حضرت! عید کا مصافحہ تو ثابت نہیں ہے۔ فرمایا، میاں یہ مسئلے تم اپنے ملکوں میں رکھو، یہاں تو مصافحہ و معانقہ سے بھی آگے بہت کچھ ہو گا (یعنی پیشانی اور شانوں کا بوسہ)۔ وہ عجیب دن تھے، محفلِ پیر مے خانے کے دم سے پر رونق رہتی۔ ساتھ ہی ایسا علمی و عملی دعوتی ماحول بنتا کہ چند دنوں میں انسان کو آخرت کی فکر پیدا ہو جاتی اور بقدرِ استعداد ہر شخص پر دین کی محنت و دعوت کا رنگ چڑھ جاتا۔

اعتدال و جامعیت

آپ دین کے دوسرے شعبوں میں مشغول علما کی پوری قدر و منزلت فرماتے۔ ہر طبقے اور ہر شعبے سے متعلق علما و مشائخ کثرت سے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ہندوپاک کے کتنے ہی علما و مشائخ ہیں جن سے بندہ پہلی بار حضرت مولانا کی مجلس میں متعارف ہوا۔ اسی طرح بندہ بہت سے ایسے علما و مشائخ کو جانتے ہے جو بوجوہ تبلیغی جماعت اور کام سے دور اور وحشت زدہ ہیں، مگر وہ حضرت مولانا سعید احمد خانؒ کو اللہ کا خصوصی مقرب بندہ اور ولیٔ کامل سمجھتے ہیں، حضرت مولانا کے اخلاقِ عالیہ و صفاتِ جلیلہ کے آگے سر جھکا دیتے ہیں، فرماتے ہیں بھائی! مولانا سعید احمد خانؒ کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں، وہ اللہ کے مخصوص بندے اور کامل ولی ہیں، ان کی ہستی خدا کا خصوصی انعام ہے۔ حضرت مولانا مرحوم کی وسعتِ قلبی کا یہ عالم تھا کہ لندن تشریف آوری کے موقع پر متعدد بار بندہ سے فرمایا، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور بریلوی اکابر کے پاس ملاقات کے لیے لے چلو۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کی نقل بلکہ مقابلے پر مولوی الیاس قادری نے کچھ عرصے سے ایک سنی تبلیغی جماعت شروع کر رکھی ہے، حضرت مولانا نے کئی بار ان سے ملاقات کا واقعہ سنایا۔ حضرت مولانا، مولوی الیاس قادری صاحب سے ملنے خود تشریف لے گئے۔

حضرت مولانا کے مزاج میں عجیب جامعیت تھی۔ آپ کسی بھی دینی شعبے کی ناقدری یا اس کی اہمیت کم کرنے کو برداشت نہیں فرماتے تھے۔ فرماتے، اگر اخلاص ہو تو دین کا کوئی کام بھی چھوٹا نہیں ہے۔ ساتھیوں کے بیان میں اگر کوئی ایسی بات محسوس فرماتے تو فورًا تنبیہ فرماتے۔ ایک بار ایک مولوی صاحب نے دعوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے غیر شعوری طور پر علم یا ذکر کے شعبے کا اس طرح ذکر کر دیا جس سے ان کے دعوت سے کم تر ہونے کا پہلو نکل سکتا تھا۔ فورًا بلا کر فرمایا کہ بعض مقررین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ کے فضائل میں حضرات انبیاء علیہم السلام سے تقابل کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر حضورؐ کی سیرت و فضیلت کے بیان میں کسی بھی نبی میں نقص کا شائبہ بھی پیدا ہوا تو اس کے یہ معنٰی ہوا کہ نعوذ باللہ ہمارے نبیؐ ناقص نبیوں کے سربراہ و امام تھے۔ چاہیے کہ ہر نبی کا کمال و فضیلت ثابت کر کے پھر یہ ثابت کریں کہ ہمارے نبی ایسے کاملین اور فضیلت مآب گروہ کے سردار اور امام ہیں۔ اسی طرح بعض مقررین دعوت کی اہمیت اس طرح بیان کرتے ہیں جس سے علم یا ذکر کی تنقیص مترشح ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ علم و ذکر کی پوری اہمیت و فضیلت بیان کریں، پھر کہیں کہ ایسے اوصاف والے لوگ دعوت میں لگیں تو نور علیٰ نور ہو جائے گا، دعوت کے کام کے اصل حقدار تو یہی لوگ ہیں۔

حضرت مولانا جیسی جامع الصفات ہستی کا اٹھ جانا امت کے لیے سخت ابتلا و آزمائش ہے، خصوصاً تبلیغی جماعت کے لیے۔ اب آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگا ہے کہ تبلیغی جماعت کے بعض ذمہ داروں میں دین کے دوسرے شعبوں کی بے وقعتی پیدا ہو رہی ہے اور کسی قدر کام میں غلو بڑھ رہا ہے اور علما کی ناقدری روزافزوں ہے۔ ایسے وقت میں مولانا جیسی دین کے ہر شعبے کی قدردان اور معتدل مزاج ہستی کا دنیا سے اٹھ جانا تبلیغی جماعت کا سخت نقصان ہے۔ یوں تو اس قحط الرجال کے دور میں جو بھی شخصیت اٹھتی ہے اپنی جگہ خالی چھوڑ جاتی ہے، حضرت مولانا کی وفات سے تبلیغی جماعت کا ایک زریں دور ختم ہو گیا ہے۔

شخصیات

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter