پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب

پروفیسر خالد ہمایوں

لاہور

۱۵ اگست ۲۰۰۱ء

مدیر محترم ’’الشریعہ‘‘

السلام علیکم

’’الشریعہ‘‘ باقاعدگی سے مل رہا ہے، بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فہم دین میں مزید اضافہ فرمائے۔ ’’الشریعہ‘‘ مواد اور پیش کش کے اعتبار سے بہت بلند ہو گیا ہے۔ سنجیدہ فکری جریدے کے یہی نین نقش ہونے چاہئیں۔ یہ جو آپ نے دوسرے حلقہ ہائے فکر کے بارے میں کافی صلح پسندانہ رویہ رکھا ہوا ہے تو یہ امر قابلِ تحسین ہے، اس کی آج بہت ضرورت ہے۔ اگست کے شمارے میں امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان پر آپ نے فکر انگیز اداریہ تحریر کیا ہے۔ عمار خان ناصر کا مضمون ’’غیر منصوص مسائل کا حل‘‘ اس حوالے سے پسندِ خاطر ہوا کہ اس میں جدید ترین مسائل کا نہایت سلاست کے ساتھ دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔

مدیر محترم! یوں تو ہمارا معاشرہ مسائلستان بنا ہوا ہے اور سب مسائل کا احاطہ کرنا ناممکن ہے، لیکن میرے خیال میں اگر آپ دو مسئلوں پر علما اور دانشور حضرات سے مسلسل کچھ لکھواتے رہیں تو بہت مفید ہو گا۔

ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں جادو ٹونے کے اڈے گلی گلی میں کھل گئے ہیں، ان کی وجہ سے بے شمار گھر تباہ اور برباد ہو گئے ہیں۔ تھوڑا عرصہ پہلے میں نے ٹی وی پر ایک نابینا بچے کی گفتگو سنی، وہ قرآن کا حافظ تھا، اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم پیدائشی طور پر نابینا ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ میری نظر بالکل ٹھیک تھی، محلے کی کسی عورت نے اپنے بچے کی صحت یابی کے لیے جادو ٹونہ کروایا اس کا اثر مجھ پر یوں پڑا کہ میری بینائی جاتی رہی لیکن اس کا بچہ صحت یاب ہو گیا۔ کئی سال سے میں خود بھی ایسے اثرات کا سامنا کر رہا ہوں۔ اس حوالے سے جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا، اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو یہ کتنا اذیت ناک روگ لگا ہوا ہے لیکن کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ ہم کس قدر بے حس اور سنگ دل ہو گئے ہیں۔ ہم تیزی سے زوال کی نشانیاں قبول کر رہے ہیں لیکن احساس تک نہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ پاکستان کے امیر طبقے کا ہے۔ میرا خیال ہے اسلام اجازت تو نہیں دیتا کہ طبقاتی منافرت پیدا کی جائے لیکن عملاً یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ چند نہایت با اختیار اور نہایت امیر طبقے ساری قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امیر طبقے میں کچھ خدا ترس لوگ بھی ہیں لیکن کثیر تعداد ایسے لوگوں ہی کی ہے جن کے دلوں اور دماغوں پر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے اور اپنے رہن سہن کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش بنانے کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ اس معاملے میں وہابی، سنی، مقلد، غیر مقلد، شیعہ، سیکولر یا اسلام پسند کی کوئی تخصیص نہیں، الا ما شاء اللہ۔ تمام تاجر اور صنعت کار لوگ تقریباً ایک جیسی ذہنیت اور طرزعمل رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے حقوق اور مفادات کے لیے اکٹھے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ یہ دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان نسل کے لیے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہو رہے ہیں، خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں، ڈکیتیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں، کئی کئی کنالوں پر پھیلی ہوئی کوٹھیوں سے ڈاکو کئی کئی سو تولے زیور، بانڈز اور قیمتی پارچہ جات لے کر راہِ فرار پکڑتے ہیں۔

مدیر محترم! مجھے تو فرقہ واریت کی بھڑکتی ہوئی آگ کے پیچھے سراسر اقتصادی محرکات ہی نظر آتے ہیں۔ بالائی طبقوں کو پھیلتے ہوئے اسلحہ پر بہت تشویش ہے، انہیں خطرہ رہتا ہے کہ کہیں یہ اسلحہ بردار لوگ سیدھے سیدھے ان کی کوٹھیوں کے اندر نہ آجائیں اور حضرت ابوذرغفاریؓ کا وہ سوال ان کی زبانوں پر نہ ہو کہ تم نے یہ اتنی دولت کہاں سے لی ہے؟

مدیر محترم! آپ جانتے ہی ہوں گے کہ قرنِ اول کے مسلم معاشرے میں جب اونچے اونچے مکانات بننے لگے تھے اور لوگ ذرا با سہولت زندگی بسر کرنے لگے تھے تو حضرت ابوذرغفاریؓ نے کتنا احتجاج کیا تھا۔ میں نے ابھی جادو ٹونے کا ذکر کیا ہے، دیکھا جائے تو اس کاروبار کو بھی مستحکم کروانے والے یہی دولت مند لوگ ہیں، انہی کی پالیسیوں کے نتیجے میں دولت چند ہزار گھرانوں میں مرکوز ہو گئی ہے اور باقی معاشرہ تنگ نظری، کمینگی، حسد اور کڑھن کی آگ میں جل رہا ہے۔

میری تجویز ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ میں ایسی تحریریں زیادہ سے زیادہ شائع کریں جن میں ان طبقوں کو سمجھایا جائے کہ وہ دولت کے حصول کے ذرائع بھی ٹھیک کریں اور دولت کی نمائش سے بھی گریز کریں۔ حضرت مولانا سرفراز صاحب نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی خواب میں زیارت کا واقعہ لکھا ہے، میری ان سے التماس ہے کہ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ اگر وہ حضرت مسیح علیہ السلام پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو اس پر لکھیں کہ اس وقت جناب مسیح کو یہ کیوں کہنا پڑا تھا کہ میں بتاتا ہوں کہ تمہارے پیٹوں میں کیا ہے اور گھروں میں کیا بچا کے آئے ہو۔ بعض علما اس واقعہ سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی غیب دانی ثابت کرتے ہیں حالانکہ حضرت عیسٰی کا مطلب یہ تھا کہ میں جانتا ہوں کہ جو حرام تمہارے پیٹوں میں ہے اور جو کچھ تم گھروں میں ذخیرہ کر کے آئے ہو۔ یہی بات اس طبقے کے لیے تکلیف دہ تھی اور اسی وجہ سے وہ حضرت عیسٰی کے درپے آزار ہو گئے تھے۔

دراز نفسی کی معافی چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی خدمت کے لیے اور زیادہ توفیق اور ہمت سے نوازے۔


والسلام، خیر اندیش

خالد ہمایوں

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ پنجابی

یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور


مکاتیب

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter