پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات

ڈاکٹر زاہد عطا

یوں تو قیامِ پاکستان سے ہی اس مملکتِ خداداد کے نظامِ حکومت کے بارے میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے۔ بڑے بڑے علماء اور فضلاء اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک کمیشن نظامِ حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے بنایا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کمیشن کی اکثر سفارشات پر تو عمل نہ کیا گیا، صرف ایک  سفارش یعنی غیر جماعتی انتخابات کو ۱۹۸۵ء میں اختیار کیا گیا، اور اسی غیر جماعتی اسمبلی نے فورًا جماعت سازی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم لیگ (جونیجو) کے تحت منظم کر لیا جس سے اس سفارش کی بھی نفی ہو گئی۔

جنرل ضیاء کی وفات کے بعد چار انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہو چکے ہیں لیکن ملکی حالات خواہ وہ معاشی ہوں، معاشرتی ہوں یا سیاسی، پہلے سے بھی ابتر ہو چکے ہیں۔ عوام و خواص پریشان بلکہ مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو عوامی اکثریت کی حمایت حاصل رہی لیکن اکثر باشعور مسلم لیگی بھی یہ کہتے تھے کہ نواز شریف صاحب اور ان کے ساتھی ملکی حالات کو فورًا سدھارنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور فی الواقع وہ اپنے کسی بھی دورِ حکومت میں ملکی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ لا سکے۔

فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر قائم مذہبی سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں میں بھی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو اس کرپٹ معاشرے اور نظام کو سیدھی راہ پر ڈال سکے۔ پاکستان میں اس وقت کچھ جماعتیں موجودہ نظام کے تحت ہی ملکی نظام کو چلانا چاہتی ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سرفہرست ہیں۔ کچھ چھوٹی علاقائی اور شخصی پارٹیاں مثلاً اے این پی، جمہوری پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ بھی جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت ہی رہنا چاہتی ہیں۔

جماعت اسلامی جو پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے اور تربیت یافتہ کارکنوں کی ایک کثیر تعداد رکھتی ہے، ایک طرف مکمل اسلامی نظام کی داعی بھی ہے اور دوسری جانب موجودہ سسٹم کے تحت ہونے والے ہر الیکشن (سوائے ۱۹۹۷ء) میں حصہ بھی لیتی رہی ہے لیکن اپنی تنظیم، قربانیوں اور پاکستان اور اسلام کے ساتھ والہانہ لگن کے باوجود بادی النظر میں عوام کی اکثریت کو قائل نہیں کر سکی۔ ۲۴ جون ۱۹۹۶ء کو بے نظیر حکومت کی بدعنوانیوں کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور پھر ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۶ء کے اسلام آباد دھرنے کے پروگرام سے لے کر اب تک جماعتِ اسلامی مسلسل یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ موجودہ نظام کو بدلے بغیر اصلاح ناممکن ہے۔ قاضی حسین احمد کا یہ تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے جس کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی موجودہ لیڈرشپ میں نہ صلاحیت ہے اور نہ ان کی یہ سوچ ہے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی مملکت بنایا جائے۔

پاکستان میں آج کل لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد یہ سوچنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت اصلاح کے فوری امکانات نہیں ہیں۔ جبکہ کچھ تنظیمیں اور ان کے سربراہ مثلاً دعوت و ارشاد کے حافظ محمد سعید، تنظیمِ اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد، تنظیم الاخوان کے رہنما مولانا محمد اکرم اعوان، عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری جمہوریت اور جمہوری نظام کو بالکل غیر اسلامی قرار دیتے ہیں اور ان کی باتوں میں خاصا وزن بھی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی اب تک ہم بحیثیت قوم کسی ایسے نظامِ حکومت کو اختیار کیوں نہیں کر سکے جو تسلسل سے جاری رہے؟ شاید پاکستانی عوام کے سماجی، معاشرتی، معاشی و مذہبی حالات و رجحانات کا پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تجزیہ ہی نہ کیا گیا ہو۔

یوں تو یہ پولیٹیکل سائنس کے ماہرین کا کام ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو موجودہ کنفیوژن سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تجویز کریں، لیکن حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر باشعور پاکستانی اپنی استطاعت کے مطابق پاکستانی قوم کے مزاج، رویوں اور رجحانات کا بے لاگ تجزیہ کرے اور پھر اس کی روشنی میں پاکستان کے لیے موزوں ترین نظامِ حکومت کا خاکہ تجویز کرے۔

میرے خیال میں مندرجہ ذیل وجوہ ابھی تک موزوں نظامِ حکومت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں:

  1. قراردادِ مقاصد منظور ہو جانے کے بعد پاکستانی نظامِ حکومت کی بنیاد تو طے ہو گئی تھی یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ مطلق ہے اور منتخب نمائندوں کو ایک مقدس امانت کے طور پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے دائرے میں رہ کر ہی استعمال کیا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے کسی پاکستانی حکمران نے اس کو عملی صورت دینے کی مخلصانہ کوشش نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک بے شمار ایسے کام ہو رہے ہیں جو صریحاً اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف ہیں، مثلاً سود اور سودی کاروبار۔
  2. دستورِ پاکستان میں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کو اختیار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن عملاً یہ ثابت ہوا ہے کہ پارلیمانی طرزِ جمہوریت پاکستانی عوام کے مزاج اور رجحانات کے مطابق نہیں۔ صدارتی جمہوریت جس میں صدر براہِ راست عوام کا منتخب کردہ ہو، پاکستانی عوام کے مزاج اور رویوں کے زیادہ قریب تر ہو سکتا ہے۔ ایسے تو قراردادِ مقاصد اور اسلام کے حوالے سے ’’جمہوری خلافت‘‘ کی اصطلاح زیادہ موزوں ہو سکتی ہے۔
  3. ایک اور چیز جو بہت ہی اہم ہے، یہ ہے کہ اکثر پاکستانی (عوام و خواص) دوسروں کی خامیوں اور کوتاہیوں پر تو فورًا سیخ پا ہو جاتے ہیں لیکن اپنی خامی کسی کو نظر نہیں آتی، یعنی ساری قوم دوہرے معیارات چاہتی ہے۔ اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے لیے کچھ۔ بڑے سے بڑا دانشور، صوفی و پیر، مولوی و عالم، فوجی و سیاسی راہنما سبھی اس خرابی میں مبتلا ہیں۔ شاید ہی کوئی شخصیت ہو جس کا ظاہر و باطن ایک ہو۔ ظاہر و باطن کا یہی تضاد ہمارے اکثر مسائل اور مشکلات کی وجہ ہے اور یہی رویہ اسلام، دستور اور قرارداد مقاصد کے نفاذ میں بنیادی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
  4. ایک اور اہم رویہ جو کئی مسائل کو جنم دیتا ہے وہ ہے پاکستانی قوم کا جذباتی پن۔ جذبات میں آ کر ایسے ایسے مطالبے اور نعرے لگائے جاتے ہیں جن پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی آئیڈیلزم کا بھی شکار ہیں اور حقائق کا سامنا نہیں کر سکتے۔ اسی آئیڈیلزم کا نتیجہ ہے کہ ایک جانب ہماری گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن دوسری جانب ہم اپنی ذرہ بھر اصلاح کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
  5. زیادہ تر پاکستانی بے صبری کا بھی شکار ہیں، اس وجہ سے وہ تین سالوں میں ہی حکمرانوں اور نظام سے اکتا جاتے ہیں۔ اور یہ رویہ بھی نظام کے تسلسل میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ دستور میں ترمیم کر کے حکومت کا دورانیہ چار سال کر دیا جائے تو امید ہے کہ لوگ چار سال تک صبر کر لیں گے۔
  6. جو طبقے قوم کی راہنمائی اور تعمیر کر سکتے ہیں مثلاً اساتذہ، صحافی، ججز، مذہبی پیشوا (مولوی، پیر، مشائخ وغیرہ) اور سیاستدان، وہ خود بھلائی اور برائی میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں، کجا کہ وہ افرادِ قوم کی تعمیر و اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ استاد، صحافی اور جج اپنے مقام سے ہی آگاہ نہیں ہیں۔ علماء اور پیر صاحبان اپنے مسلک اور فرقہ سے ہٹ کر کسی دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔ سیاستدان اپنے اقتدار کے لیے ملک و قوم کی ہر شے کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، کجا کہ وہ ملک اور قوم کو صحیح نظامِ حکومت تجویز کرنے کا سوچ سکیں۔
  7. پاکستانی عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے، اور جو خواندہ ہیں وہ بھی اپنے حقوق اور فرائض سے ناواقف ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی عوام کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن بہت ہی قلیل لوگ ہوں گے جن کو اسلام کا صحیح شعور اور فہم ہے، اور اکثر لوگ اسلام کو سمجھنے کے لیے تھوڑی سی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے۔ مگر اپنی گفتگو میں زیادہ تر افراد یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ اسلام کا فہم کسی اور کو نہیں ہے۔ اسلام ایک فرد کو جو حقوق دیتا ہے، ہم میں سے کوئی بھی دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اسلام جس طرح ہم سے مالی و جانی ایثار کا تقاضا کرتا ہے، بہت کم لوگ ہیں جو اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
    اسلام کے مطابق ہمارا الٰہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے، لیکن ہمارے عوام و خواص نے چھوٹے چھوٹے الٰہ بنا رکھے ہیں۔ کسی کا الٰہ اس کا افسر ہے تو کسی کا الٰہ اس کا جاگیردار ہے اور کسی کا الٰہ مولوی و پیر ہے۔ کسی کا الٰہ مال و دولت ہے تو کسی کا الٰہ حاکمِ وقت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جرأت اور بہادری کا اظہار نہیں کرتی بلکہ معمولی چیزوں پر اپنا ایمان اور عزتِ نفس کا سودا کر لیتی ہے اور اعلیٰ کردار کا مظاہرہ نہیں کرتی، جس کی وجہ سے ہر سطح پر مقتدر طبقوں کو من مانی اور ناانصافی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
    عام حالات میں بھی سچی اور کھری بات کم ہی لوگ کرتے ہیں بلکہ زیادہ تر لوگوں کا وطیرہ یہ ہو گیا ہے کہ برے سے برے آدمی اور بری سے بری بات کو ٹوکتے بھی نہیں۔ اور جو سچی اور کھری بات کرتا ہے اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس سے پاکستانی اکثریت کے عمومی رویے میں خود غرضی کا اظہار ہوتا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
  8. پاکستان میں جاگیرداری نظام کی موجودگی بھی بے شمار خرابیوں کا باعث ہے۔ اکثر جاگیردار مذہبی خانقاہوں کے متولی بھی ہیں اور اب تو یہ لوگ سرمایہ دار بھی بن گئے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دار طبقہ زمینیں خرید کر جاگیر دار بن گیا ہے۔ بیوروکریسی اور فوج کے اہم عہدوں پر انہی کے قریبی عزیز فائز ہوتے ہیں جو ہر حکومت میں ان کا تحفظ کرتے ہیں۔ غیر ملکی آقاؤں (امریکہ و برطانیہ) کی پالیسیوں پر بھی انہی لوگوں کے ذریعے سے عمل کروایا جاتا ہے۔

میرے خیال میں یہی رویے اور وجوہات ہیں جو ایک قابلِ عمل نظامِ حکومت کو اپنانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘۔ ملک اور قوم کو اس پیچیدہ اور نازک صورتحال سے نکالنے کے لیے ایسا نظامِ حکومت اختیار کیا جانا چاہیے جو

  • ایک جانب ہمارے عوام کی اخلاقی، تعلیمی، معاشی حالت کو پیشِ نظر رکھے اور ان کے نفسیاتی، معاشرتی اور مذہبی رویوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے۔
  • دوسری جانب یہ نظام تعطل  کا شکار نہ ہو بلکہ تسلسل سے چلتا رہے تاکہ پاکستان کو استحکام نصیب ہو اور قیامِ پاکستان کے مقاصد بھی پورے ہو سکیں۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اکتوبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۰

امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اختلافِ رائے کے آداب
مولانا قاری محمد طیبؒ

امریکہ میں دہشت گردی: محرکات، مقاصد اور اثرات
پروفیسر میاں انعام الرحمن

پاکستانی معاشرے کی نئی دو قطبی تقسیم
ڈاکٹر اسرار احمد

متعۃ الطلاق کے احکام و مسائل
محمد عمار خان ناصر

پاکستان کے نظامِ حکومت میں خرابی کی چند وجوہات
ڈاکٹر زاہد عطا

مولانا سعید احمد خانؒ ۔ چند یادیں
مولانا محمد عیسٰی منصوری

پروفیسر خالد ہمایوں کا مکتوب
پروفیسر خالد ہمایوں

ذکرِ الٰہی کی برکات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

تلاش

Flag Counter