خبرِ واحد کی شرعی حیثیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ترتیب و تحریر: حافظ رشید الحق خان عابد

خبرِ واحد اگرچہ عقائد کے باب میں موجبِ علم نہیں لیکن عمل کے باب میں حجت ہے۔ چنانچہ شرح العقائد ص ۱۰۱ میں ہے کہ خبرِ واحد ظن کا فائدہ ہی دے گا بشرطیکہ اصولِ فقہ میں مذکورہ تمام شرائط اس میں موجود ہیں اور ان شرائط کے باوجود بنا بر ظنیت کے اعتقادیات میں اس کا کچھ اعتبار نہیں ہو گا۔ اور تقریباً اسی مفہوم کی عبارات شرح الموافق ص ۷۲۷، المسامرۃ ص ۷۸، اور شرح فقہ اکبر ملا علی ن القاریؒ ص ۶۸ میں بھی موجود ہیں۔ اور نبراس ص ۲۵۰ میں ہے کہ ظن کا اعتبار علمیات میں ہوتا ہے اور ظن کے ساتھ ثابت حکم واجب ہوتا ہے۔

خبرِ واحد کی حجیت پر قرآنِ کریم سے اختصارًا بعض دلائل

پہلی دلیل

حضرت موسٰی علیہ السلام سے خطأً جب ایک اسرائیلی (جس کا نام قاب یا فانون یا فلثیون تھا) قتل ہو گیا اور فرعون کی کابینہ نے حضرت موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنے کی ٹھان لی تو ’’وَجَاء رَجُلٌ (فرعون کا چچا زاد جس کا نام عند الاکثر حزقیل و عند البعض حبیب یا شمعان اور بعد میں حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان بھی لایا تھا) مِّنْ اَقْصَی الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی قَالَ یَا مُوْسٰی اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النَّاصِحِیْنَ‘‘ (القصص ۲۰) حضرت موسٰیؑ نے صرف اس ایک آدمی کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے مدین کی طرف روانگی اختیار فرمائی اور ظالم قوم سے نجات پائی۔ اگر ایک آدمی کی بات قابلِ اعتماد نہ ہوتی یا بالفاظِ دیگر اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتی تو حضرت موسٰی علیہ السلام اس پر اعتماد نہ کرتے۔ 

دوسری دلیل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘ (التوبہ ۱۲۲)۔

حضرت مجاہدؒ بن جبیرؒ تابعی فرماتے ہیں کہ طائفۃ کا لفظ ایک سے ہزار تک بولا جاتا ہے اور مسند عبد بن حمید میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے ’’قال الطائفۃ رجل فصاعدًا‘‘ کہ طائفہ کا لفظ ایک پر بھی اور زیادہ پر بھی بولا جاتا ہے (درمنشور ص ۲۵۵ ج ۳)۔ اور امام بخاری ص ۱۰۷۶ ج ۲ پر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے ’’وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا (الآیۃ) اگر دو آدمی آپس میں لڑائی کریں تو وہ بھی آیت کے لفظ طائفتان میں داخل ہوں گے۔ اور آخر میں فرمایا کہ اگر خبر واحد حجت نہ ہوتی تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک ایک امیر کو مختلف جہات میں کیوں بھیجتے؟

اس دلیل کا خلاصہ یہ ہوا کہ طائفہ یعنی ایک کی بات دینی اعتبار سے قوم کو عذابِ خداوندی سے ڈرانے کے لیے معتبر اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ خبرِ واحد حجت ہو کیونکہ اگر طائفہ کا اطلاق رجل پر نہ ہو تو دو آدمیوں کی لڑائی میں مصالحت کرانا آیت سے ثابت نہ ہو سکے گا اور امراء کو اکیلے اکیلے بھیجنا بیکار ثابت ہو گا۔

تیسری دلیل

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ‘‘ (آل عمران ۱۸۷)

امام علیؒ بن محمد المعروف بفخر الاسلام البزدویؒ (المتوفی ۴۸۲ھ) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں تصریح ہے کہ اہلِ کتاب میں سے ہر آدمی حکمِ خداوندی کے بیان کرنے کا مکلف تھا اور کتمانِ علم اس پر حرام تھا کیونکہ اس امر کے وہ مکلف نہ تھے کہ سب کے سب اجتماعی شکل میں شرقاً و غرباً بیان کرنے کے لیے نکلتے۔ تو اس سے بھی خبرِ واحد کی حجیت ثابت اور واضح ہو گئی (محصلہ مقدمۂ فتح الملہم ص ۸)

رہا یہ شبہ کہ یہ حکم تو پہلی امتوں کے بارے میں ہے  جو کہ اہلِ کتاب تھے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتب اصولِ فقہ میں تصریح موجود ہے مثلاً نور الانوار ص ۲۱۶ میں ہے ’’وشرائع من قبلنا تلزمنا اذا قص اللہ ورسولہ من غیر نکیر الخ‘‘ تو وہ سب احکام ہمارے حق میں بھی حجت ہیں جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی امتوں کے بلانکیر بیان فرمائے ہیں۔

بعض احادیث

حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ بعمر ۶۴ سال ایک ماہ بارہ دن) فرماتے ہیں کہ خبرِ واحد پر (بشرطیکہ اس کے راوی عادل ہوں) عمل کرنا عملیات میں واجب ہے کیونکہ تواتر کے ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ سے خبرِ واحد پر عمل کرنا ثابت ہے اور بے شمار واقعات سے اس کا ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر یہ واقعات حضراتِ صحابہ کرامؓ کے اجماعِ قولی کا فائدہ دیتے ہیں یا کم از کم اخبارِ آحاد پر ایجابِ عمل کے بارے میں اجماعِ قولی کی مثل ضرور ہیں۔ ان واقعات میں سے چند مشہور یہ ہیں:

(۱) حضرت ابوبکر صدیقؓ (م ۱۳ھ) کا وراثتِ جدہ کے مسئلہ میں حضرت مغیرہؓ بن شعبۃ (م ۵۰ھ) اور محمدؓ بن مسلمۃ (م ۴۳ھ) کی خبر پر عمل کرنا جیسے کہ ابوداؤد ص ۴۵ ج ۲ اور ابن ماجہ ص ۱۰۰ میں ہے۔

(۲) حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) کا مجوس سے جزیہ لینے کے بارے میں حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف (م ۳۳ھ) کی خبر پر عمل کرنا (جیسا  کہ ابوداؤد ص ۷۵ میں ہے)۔ اور طاعون کی خبر کے بارے میں بھی انہی کی خبر پر عمل کرنا (جیسا کہ بخاری ص ۸۵۳ ج ۲ میں ہے)۔

(۳) حضرت عمرؓ کا ’’ایجاب غرہ فی الجنین‘‘ کے بارے میں حضرت حملؓ بن مالک ابن النابعۃ کی خبر پر عمل کرنا (ابوداؤد ص ۲۷۲ ج ۲)۔

(۴) نیز حضرت عمرؓ کا خاوند کی دیت سے عورت کی وراثت کے مسئلہ میں ضحاکؓ بن سفیان کی خبر پر عمل کرنا (جیسا کہ ابوداؤد ص ۵۰ ج ۲ و مؤطا مالک ص ۳۴۰ میں ہے)۔

(۵) حضرت عمرؓ کا انگلیوں کی دیت کے بارے میں حضرت عمروؓ بن حزم (م ۵۳ھ) کی خبر پر عمل کرنا (جیسا کہ نسائی ص ۲۱۸ ج ۲) میں حضرت  عمروؓ بن حزم کی طویل حدیث میں ہے کہ ہاتھ اور پاؤں کی ہر انگلی میں دس دس اونٹ ہیں۔ اس حدیث کی تخریج علامہ ابوالبرکات بن تیمیہؒ نے بھی منتقٰی الاخبار المنسلک مع نیل الاوطار ص ۶۱ ج ۷ میں کی ہے۔ قاضی شوکانیؒ نیل الاوطار ص ۶۴ ج ۷ میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ وہ جھنگلیا میں چھ اونٹ، اس کے ساتھ والی میں نو اونٹ، درمیانی میں دس اونٹ، سبابہ یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی میں بارہ اونٹ، اور انگوٹھے میں تیرہ اونٹ دیت دلانے کے قائل تھے۔ پھر حضرت عمرؓ سے اس بات میں رجوع بھی ثابت ہے۔

(۶) حضرت عمرؓ اپنے ہمسائے حضرت عتبانؓ بن مالک کی اخبار کا قبول کرنا (جیسے کہ بخاری ص ۱۹ اور ص ۳۳۴ ج ۱ کی طول حدیث ایلاء میں ذکر ہے کہ میں اور میرا ہمسایہ باری باری حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور وحی وغیرہ کی خبر لا کر مجھے بتاتے اور ایک دن میں حاضری دیتا اور آکر اس کو نئی خبر وغیرہ بتاتا)۔

(۷) حضرت ابنِ عمرؓ کا (م ۷۳ھ) مسح علی الخفین کے بارے میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص (م ۵۵ھ) اور حضرت عمرؓ کی خبر پر عمل کرنا (جیسے کہ مؤطا مالک ص ۱۲ میں ہے)۔

(۸) حضرت عثمانؓ کا متوفی عنھا زوجھا کی عدت کے دوران ’’قیام فی بیتھا‘‘ کے بارے میں حضرت فریعۃؓ بنت مالک بن منان کی خبر پر عمل کرنا (جیسے کہ ابوداؤد ص ۳۱۵ میں ہے)۔ اور اسی طرح تواتر سے ثابت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اکیلے آدمی کو بھی تبلیغِ احکام کے لیے بھیجا کرتے تھے مثلاً حضرت معاذؓ بن جبل کا یمن بھیجنا جیسے کہ بخاری ص ۱۸۷ ج ۱ میں ہے۔

غرضیکہ اس کثرت سے اخبارِ آحاد پر عمل ذخیرۂ احادیث سے ثابت ہے کہ شمار میں نہیں آ سکتا۔ پھر اگر اخبارِ آحاد کا قبول کرنا واجب نہ ہوتا تو حضور علیہ السلام کا اکیلے اکیلے کو تبلیغِ احکام کے لیے بھیجنے کا کیا فائدہ تھا؟ (مقدمہ فتح الملہم ص ۷)

مزید چند حوالے

منجملہ ان احادیث سے حضرت براءؓ کی روایت بھی ہے جس کے آخر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی (حضرت عبادؓ بن نہیک) کسی مسجد کے قریب سے گزرے اور اہلِ مسجد رکوع میں تھے۔ حضرت عبادؓ کہنے لگے، بخدا میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نماز مکہ کی طرف رخ کر کے پڑھ کر آیا ہوں۔ اہلِ مسجد اسی حالت میں کعبۃ اللہ کی طرف پھر گئے، جیسے کہ بخاری ص ۱۱ ج ۱ میں ہے۔

منجملہ ان احادیث سے حضرت براء اور عبد اللہؓ بن ابی اوفٰی کی روایت ہے جس میں ہے کہ ایک منادی (ابو طلحہؓ) نے آواز دی کہ ہنڈیوں میں جو کچھ پک رہا ہے انڈیل دو جیسے کہ بخاری ص ۶۰۷ ج ۲ میں ہے۔ 

ان احادیث میں حضرت انس ؓ بن مالک کی روایت بھی ہے کہ میں ابو طلحۃ (زیدٌ بن سہل م ۳۱ھ)، ابوعبیدہؓ (عامرؓ بن عبد اللہ م ۱۸ھ) اور ابیؓ بن کعب (م ۱۹ھ) کو فضیح شراب، جو کچی اور پکی کھجوروں سے تیار کی گئی تھی، پلا رہا تھا کہ اچانک ایک آنے والے نے کہا شراب حرام کر دی گئی ہے، تو حضرت ابو طلحہؓ فرمانے لگے کہ انسؓ اٹھ کر یہ شراب انڈیل دو، پس میں نے انڈیل دی (بخاری ص ۸۳۶ ج ۲)۔

امام دارقطنیؒ نے بھی دارقطنی ص ۴۹۰ ج ۲ میں اپنی مسند کے ساتھ حضرت انسؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوطلحہؓ کے پاس ابیؓ بن کعب (م ۱۹ھ) اور سہل بن بیضاء تمر اور بسر کی، یا فرمایا کہ تمر اور رطب کی شراب پیتے تھے اور میں پلا رہا تھا۔ وہ اتنی تیز تھی کہ قریب تھا کہ ان کو مدہوش کر دیتی۔ پس ایک مسلمان آدمی گزرا اور کہا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ انسؓ جو کچھ برتن میں ہے انڈیل دو۔ اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ٹھہرو ذرا تحقیق کر لیں، بلکہ بلا تحقیق ہی صرف ایک آدمی کے کہنے پر انہوں نے کہا اور میں نے وہ انڈیل دی۔ محدث ابو عبد اللہؓ (جن کی نسبت یوں ہے عبید  اللہؒ بن عبد الصمدؓ بن المتہدی باللہؒ) فرماتے ہیں کہ بخدا یہ روایت خبرِ واحد کے موجب عمل ہونے پر دال ہے اور مقدمہ فتح الملہم ص ۸ میں ہے۔

امام فخر الاسلامؒ نے فرمایا کہ خبرِ واحد کے حجت ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ خبر راوی کے صدق کی موجودگی میں حجت ہو گی۔ اور خبر چونکہ صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے لہٰذا راوی میں اخبار کی اہلیت کے بعد عدالت صدق کو ترجیح دے گی۔ اور فسق کذب کا مرجح ہو گا تو رجحانِ صدق کی بنا پر عمل واجب کہنا پڑے گا تاکہ خبرِ واحد عمل کے لیے حجت ہو۔ البتہ چونکہ غیر معصوم میں ایک گونہ سہو اور کذب کا احتمال موجود ہے اس لیے علم الیقین کا فائدہ نہ دے گی۔ اور عمل تو بغیر علم الیقین کے بھی صحیح ہے جیسے کہ قیاس پر غالب رائے کے ساتھ عمل کرنا صحیح ہے۔ اسی طرح گواہوں کی گواہی پر ظنِ غالب کے ساتھ حکام کا فیصلہ کرنا صحیح ہے۔ لہٰذا عادل کی خبر بھی علمِ ظنی کا فائدہ دے  گی اور عمل کے لیے اسی قدر علم کافی ہے۔ البتہ چونکہ علم کی اس قسم میں کچھ اضطراب بھی ہے لہٰذا یہ علم طمانیت سے کم درجہ رکھے گا۔ رہا خبرِ واحد سے علم الیقین کے حصول کا دعوٰی کرنا تو بالکل باطل ہے کیونکہ مشاہدہ صراحتاً اس کا رد کرتا ہے۔ باقی رہی خبر متواتر تو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ خبرِ واحد پر اگر امت کا عمل اور تلقّی بالقبول ہو تو پھر معاملہ جدا ہے۔ علامہ القاضی صدر الدین ابن ابی العزا الحنفیؒ فرماتے ہیں:

وخبر الواحد اذا تلقتہ الامۃ بالقبول عملاً بہ و تصدیقاً لہ یفید العلم (الیقینی) عند جماھیر الامۃ وھو احد قسمی المتواتر الخ (شرح عقیدۃ الطحاویۃ ص ۳۹۹ المکتبہ السلفیہ لاہور)

ترجمہ: ’’خبر واحد کو جب امت نے عملی طور پر قبول کیا ہو اور اس کی تصدیق کی ہو تو جمہور امت کے نزدیک وہ علمِ یقین کا فائدہ دیتی ہے اور یہ بھی متواتر کی ایک قسم (بن جاتی) ہے۔‘‘

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جولائی ۱۹۹۰ء)

جولائی ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۷

شریعت بل اور تحریک نفاذ شریعت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اجتماعیت اور آبادی کا محور
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

خبرِ واحد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تعوذ اور قرآن مجید
مولانا سراج نعمانی

’’شریعت بل‘‘ پر مختلف حلقوں کے اعتراضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عیسائی اور یہودی نظریۂ الہام
محمد اسلم رانا

نسخ و تحریف پر مولانا کیرانویؒ اور ڈاکٹر فنڈر کا مناظرہ
محمد عمار خان ناصر

’’جمہوریت‘‘ — ماہنامہ الفجر کا فکر انگیز اداریہ
ادارہ

ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قرآنِ کریم اور سود
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

برص ۔ انسانی حسن کو زائل کرنے والا مرض
حکیم محمد عمران مغل

عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے
سرور میواتی

تعلیم کے دو طریقے
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کیلئے چند تجاویز
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

تلاش

Flag Counter