وطن کی خستگی وجہِ شکستِ بربطِ دل ہے
وطن کی اس تباہی میں ’’انا‘‘ کا ہاتھ شامل ہے
چمن کی رونقیں سب نذرِ صَرصَر ہوتی جاتی ہیں
نہ شادابی گلوں میں ہے نہ گل بانگِ عنادل ہے
شکستہ جام و مینا خشمگیں ساقی سبو خالی
یہ بزمِ ذی شعوراں ہے کہ دیوانوں کی محفل ہے
امنگیں مرثیہ خواں ہیں تمنائیں ہیں پژ مُردہ
حُدی خواں گنگ بیچارہ نہ ناقہ ہے نہ محمل ہے
تلاطم خیز دریا ہے سفینے کا خدا حافظ
ہے نوآموز کشتی باں نہاں نظروں سے ساحل ہے
جمالِ آشتی سے ہے مزاجِ یار بے گانہ
رعونت اُس بتِ طنّار کی فطرت میں شامل ہے
نہ ہو جائیں کہیں دہلیز و در ہی نذرِ ہنگامہ
نہ یہ گرنے پہ آمادہ نہ وہ جھکنے پر مائل ہے
دلِ نازک میں ہو پیدا کہاں سے ہمتِ مرداں
انانیت کی جب اس راہ میں دیوار حائل ہے
ہوا کا رخ پلٹ دے ہمت و تدبیر سے سرور
عمل کا معجزہ حق ہے سکوت و ضبط باطل ہے