صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)

مولانا مشرف بيگ اشرف


بسم الله الرحمن الرحيم!  یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

مفہوم: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے!

آپ فیروز اللغات کھول کے"جنس" کے مادے کے تحت دیے گئے معانی شمار کیجیے تو اس میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "ذات، نوع، صنف، جماعت" اور اگر آپ صفحے پلٹاتے ہوئے "صنف" کے مادے کے تحت مذکور الفاظ  تک پہنچیں تو آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "نوع، جنس، قسم"۔

جنس، نوع وصنف یہ سب الفاظ ہماری زبان میں ایک ہی معنے کے لیے برتے گئے ہیں۔ اس میں آپ کو کوئی ایسا فرق نہیں ملے گا کہ ان میں سے ایک انسانی کی جسمانی  خصائص کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس کے سماجی مظاہر کی طرف۔

اسی طرح، انگریزی زبان میں gender and sex دو نوں کلمات کو  ۱۹۵۰ تک ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن اسی صدی میں جنسی انقلا ب آیا اور اس  کے جلو میں، ان دونوں میں فرق ہونا شروع ہوا۔اس فرق میں بنیادی عنصر یہ تھا کہ "جنس" انسان کے جسمانی خصائص سے وابستہ ہے جو  مختلف معاشروں کے لحاظ سے بدلتے نہیں جب کہ "صنف" اس جنس سے وابستہ سماجی رویوں، مفروضوں  واعراف سے عبارت ہے جو  مختلف سماجوں میں جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں لباس، زبان کا استعمال، پیشوں کی تقسیم (کہ کون سے پیشے سے مرد وابستہ ہوتے ہیں اور کون سے پیشے زنانہ شمار ہوتے ہیں) وغیرہ شامل ہیں۔

ذیل میں ہم اس جاری بحث کو شریعت اسلامی کے قواعد ، کتاب، سنت ،عمل صحابہ اور امت کے اہل اجتہاد  کے تناظرمیں پیش کریں گے۔اور جنس وصنف کے حوالے سے شرعی قواعد واضح کیے جائیں گے۔ساتھ ساتھ ، علم جینیات ونفسیات میں موجود ان تصورات  کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

اس گفتگو میں مندرجہ ذیل سوالات زیر بحث ہوں گے:

۱: اسلام کا تصور  جنس کیا ہے؟ نیز اسلامی شریعت میں اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟

۲:اسلام اشیا اور کائناتی مظاہر سے معنویت کیسے وابستہ کرتا ہے؟ نیز کیا اشیا کی تعیین شریعت کا موضوع ہے؟

۳: خنثی  کسے کہتے ہیں؟نیز خنثی مرد ہے یا زن یا تیسری جنس؟خنثی اور Intersex میں کیا تعلق ہے؟

۴:  علم جینیات جنس  کو کیسے دیکھتا ہے؟

۵: نفسیات  کی بنیاد پر انسانی جنس ونوع کے تعلق کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟نیز کیا انسانی نفسیات فقہ وقانون کی بنیاد بننے کے لیے کافی ہے؟

۶: خنثی کے تفصیلی احکام کیا ہے؟

۶: خنثی مشکل کسے کہتے ہیں؟ اور اس کے کیا احکام ہیں؟

۷: تبدیلی جنس کا کیا حکم ہے؟ کیا اعضا کی تبدیلی، یا شعور کے بدلنے یا ہارمونز کے تغیر سے جنس بدل جاتی ہے؟ کسی انسان کے مرد یا زن ثابت ہوجانے کے بعد، اس طرح کی تبدیلی کا کیا حکم ہے؟ نیز اس طرح کے اقدام کا شرعی حکم کیا ہے؟

۸: کیا جنس کے اصول کا اطلاق غیر مسلم اور ذمی پر بھی ہوگا؟

۹: ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ سیرت طیبہ میں مسلمان ٹرانس جینڈرز کے لیے کیا رہنمائی موجود ہے؟

صنف وجنس  شرعی نقطہ نگاہ سے

قاعدہ : جنس دو ہی ہیں اور باہمی جدا جدا ہیں:

جنس سے متعلق اسلام جو پہلا قاعدہ طے کرتا ہے وہ یہ کہ جنس دو ہی ہیں اور یہ ایک دوئی پر مبنی تصور ہے جسے Sex/Gender Binary سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ کوئی رنگوں کی طرح نہیں کہ ایک رنگ کا جھکاؤ دوسری طرف ہو سکتا ہے۔ جیسے عنابی یعنی سیاہی مائل سرخ رنگ کہ نہ اسے پورے طرح سیاہ کہہ سکتے ہیں نہ سرخ۔ اس لیے، اسلامی شریعت کے ہاں جنس (اورصنف )دو ٹوک انداز سے دو ہی ہیں ، نیز ان میں نوع کا فرق ہے، درجات کا نہیں۔ اس امر پر امت کے علما کا اجماع ہے۔

قرآن مجید کی متفرق آیات میں اس امر کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو "نر ومادہ" (الذكر والأنثى) میں تقسیم کیا ہے۔ اس کی ایک مثال سورة النجم کی ہے۔ آیت پر غور کیجیے:

وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوجَينِ ٱلذَّكَرَ وَٱلأُنثَىٰ مِن نُّطفَةٍ إِذَا تُمنَىٰ [النجم: 45-46]

ترجمہ: (کیا انہیں موسی وابراہیم کے صحیفوں میں موجود باتوں کی خبر نہیں کہ جس میں سے یہ بھی ہے) کہ اس نے مرد وزن کو نطفے سے پیدا کیا جب وہ ٹپکتا ہے۔۱۲

مشہور حنفی مجتہد علامہ جصاص رازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

۱: اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ جنس دو ہی ہیں: نر ومادہ اور کوئی بھی انسان نر ہے یا مادہ۔

۲: جہاں تک خنثی مشکل کا تعلق ہے، اس کا معاملہ اگرچہ ہمارے اوپر واضح نہیں۔ تاہم وہ بھی ان دو میں سے ایک ہے۔

یہاں "خنثی مشکل" کی اصطلاح استعمال ہوئی اس سے مراد وہ خنثی (Intersex) ہے جس میں اعضائے تناسل دونوں ہوں اور اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔اس سے واضح ہوا کہ خنثی بھی شریعت کی نگاہ میں مرد ہے یا عورت۔ (اس پر مزید تفصیل آگے آئے گی)

۳: نیز احناف نے خاص طو ر سے، اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی کی جنس میں اشتباہ اس کے بچپن تک ہی رہتا ہے۔ بالغ ہونے کے بعد یہ دور ہو جاتا ہے۔ یہ خنثی برادری سےمتعلق ایک اہم اصول ہے۔ جس کی طرف اس گفتگو کے اخیر میں آئیں گے۔

علامہ فرماتے ہیں:

«لما كان قوله: {الذكر والأنثى} اسما للجنسين استوعب الجميع، وهذا يدل على أنه لا يخلو من أن يكون ذكرا أو أنثى، وأن ‌الخنثى وإن اشتبه علينا أمره لا يخلو من أحدهما; وقد قال محمد بن الحسن: إن ‌الخنثى المشكل إنما يكون ما دام صغيرا فإذا بلغ فلا بد من أن تظهر فيه علامة ذكر أو أنثى. وهذه الآية تدل على صحة قوله»«أحكام القرآن للجصاص ط العلمية» (3/ 551)

مفہوم: چونکہ اللہ تعالی کا فرمان: "نر ومادہ" دو جنسوں کے لیے ہے، اس لیے اس میں سب کے سب انسانی افراد آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان نر یامادہ ، نیز خنثی کا معاملہ اگرچہ ہم پر واضح نہیں، تاہم وہ بھی نر یامادہ ہی ہے۔امام محمد کا کہنا ہے کہ خنثی مشکل صرف بچپن تک ہے۔ جو خنثی بالغ ہو جائے، تو نر یامادے کی کوئی نہ کوئی ایسی علامت ضرور نمودار ہوتی ہے(جس کی بنا پر فیصلہ ہو جاتا ہے)۔ یہ آیت ان کی اس رائے کی تائید کرتی ہے۔۱۲

اسی طرح، سورة النساء کی پہلی آیت بھی اس شرعی قاعدے کو واضح کرتی ہےجسے ہمارے ہاں نکاح خواں نکاح کے خطبے میں عام طور سے پڑھتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان ہر نکاح کے ساتھ کیا جاتا ہے:

یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے! ۱۲

مشہور مالکی مجتہد ومفسر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان جنس دو ہی ہیں۔ نیز "خنثی" کوئی جداگاہ جنس نہیں۔ بلکہ چونکہ وہ انسان ہے، اس لیے اسے مرد وزن میں سے کسی ایک ہی طرف لوٹایا جائے گا۔اور کسی ایک جنس سے جوڑنے میں اعضا کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہ فرماتے ہیں:

حصر ذريتهما في نوعين، فاقتضى أن ‌الخنثى ليس بنوع، لكن له حقيقة ترده إلى هذين النوعين وهي الآدمية فيلحق بأحدهما«تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 2)

ترجمہ: اس آیت میں اللہ تعالی نے انسانی جنس کو دو میں بند کر دیا۔ پس اس کا تقاضا یہ ہے کہ خنثی کوئی مستقل نوع نہیں۔ بلکہ اس میں حقیقت آدمیت پائی جاتی ہے جو اسے کسی ایک جنس کی طرف پھیر دیتی ہے اور اس طرح، اس کا الحاق کسی ایک سے کیا جائے گا۔۱۲

ان آیات میں یہ قاعدہ کس طرح گندھا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی اس پر نقل کرتے ہیں :

«أن الله تعالى خلق بني آدم ذكورا وإناثا ... وقد بين حكم كل واحد منهما ولم يبين حكم من هو ذكر وأنثى، فدل على أنه لا يجتمع الوصفان في شخص واحد، وكيف وبينهما مضادة »«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اللہ تعالی نے بنی انسان کو نر ومادہ پیدا کیا ہے ... اور ہر ایک کے حکم جداگانہ بیان کیے لیکن اس کا حکم نہیں بیا ن کیا جو نر ومادہ ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ کوئی ایک انسان ایک وقت میں نر ومادہ نہیں ہو سکتا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ ان کے بیچ میں تضاد ہے۔

خنثی وجودی سطح پر مرد یا عورت ہی ہے تاہم ہمارا علم اس کی دریافت سے ، وقتی طور سے، قاصر رہتا ہے۔ اور ایسا ہونا بھی دراصل اللہ تعالی کی قدرت کا اظہار ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے بہت محدود علم دیا جس سے وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے مرد وزن میں فرق کر لیتا ہے۔ تاہم چونکہ علم محدود ہے، اس لیے انسان کے سامنے چیلنجز آتے رہتے ہیں جہاں اس کا علم بے بسی محسوس کرتا ہےاور اگر اس کا عقیدہ درست ہو، تو وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی معنویت محسوس کرتا ہے جو اس موقع پر کہا گیا جب روح سے متعلق سوال ہوا:

وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلعِلمِ إِلَّا قَلِيلاً‌ [الإسراء: 85]

ترجمہ: تمہیں انتہائی کم علم دیا گیا ہے!

اس اصول سے ہمیں مزید دو قواعد ملے جن کا تذکرہ مناسب ہے۔

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ انسان میں "آدمیت" کی وجہ سے وہ کسی ایک جنس ہی پر ہو گا۔اس سےیہ اندازہ ہوا کہ انسان جس طرح جانداروں میں اپنی نوع (Species)لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ "انسان" ہے، "چڑیا " نہیں۔ اسی طرح، وہ اپنی "جنس" بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے اور "جنس" کوئی ایسا تصور نہیں جسے انسان اپنی خوائش اور اندرونی احساس کی بنا پر بدل ڈالے۔اگر کوئی انسان یہ کہے کہ وہ "انسان" نہیں بلکہ گھوڑا ہے یا اس کا "خاندان سگان" سے تعلق ہے، تو ظاہر ہے کہ معاشرہ اس پر سے انسان کے قانون کا اطلاق چھوڑ نہیں دے گا۔

اس سے ہمیں یہ قاعدہ ملا: قاعدہ: انسانی جنس ناقابل تغیر ہے۔اسے دریافت کرنے میں اشکال ہو سکتا ہےلیکن اسے دریافت کر کے بدلا نہیں جا سکتا۔

چونکہ مذکورہ بالا قاعدہ قانون شرعیت میں ایک "تسلیم شدہ حقیقت وامر واقعہ" ہے، اس لیے یہ اصول مسلمان معاشروں میں رہنے والے ذمیوں پر بھی ایسے ہی عائد ہو گا جیسے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ میں آگے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ جنگ کے دوران میں جن امور کا تعلق انسانی جنس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ بھی اسی اصول پر ہو گا۔ جیسے ان عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جو جنگجو نہیں۔ چناچہ مثلا اگر کوئی عیسائی مرد اپنے آپ کو عورت قرار دے، تو ایک مسلمان معاشرے کے لیے وہ مرد ہی رہے گا (قطع نظر اس بات سے کہ وہ اپنے ذاتی دینی معاملات میں کیا کرتا ہے)۔

قاعدہ: جنس کا قانون جس طرح مسلمان پر لاگو ہوتا ہے اسی طرح ذمی پر لاگو ہو تا ہے۔

اشیا اور ان میں قدر اسلامی شریعت کی روشنی میں

فقہا کے ہاں  جنس کا تعین انسان کی ظاہری ساخت واعضا اور زیادہ صحیح الفاظ میں، نظام تولید سے وابستہ اعضا سے کیا جاتا ہے۔اور اس پر اور خنثی پر ہم ایک ہی عنوان کے تحت گفتگو کریں گے۔لیکن اس سے پہلے اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ شریعت  ایک قدر پر مبنی نظام ہے جبکہ سائنس اور طبعی علوم، قدر سے عاری، کم از کم، اپنےاعلان میں۔اس لیے، جنس کی تعیین   پر گفتگو سے پہلے شریعت کے اس پہلو گفتگو ضروری ہے۔

شریعت کا اشیا او روقائع کی حدبندی کرنا:

فقہ ایک مقاصد پر مبنی (Purpose Drive)انسانی سرگرمی ہے۔ وہ کچھ امور کو ایک واقع (فیکٹ)کے طور پر لیتی ہے اور اس پر حکم عائد کرتی ہے  اور وہی "حکم شرعی " ہی اصل میں "قانون" ہے۔

اس لیے، اسلامی شریعت  پہلے یہ طے کرتی ہے کہ "واقع"  کیا ہے اور پھر اس کا "حکم/قانون"۔ مثلا  یہ جملہ دیکھیے:

"عاقل بالغ پر نماز فرض ہے"۔

واقع: عاقل بالغ ہونا

حکم/قانون: نماز کی فرضیت

شریعت کا کام صرف یہ بتانا نہیں کہ نماز فرض ہے، بلکہ شریعت یہ بھی طے کرتی ہے کہ "عاقل بالغ" کون ہے۔اسے ہمیشہ انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑتی۔اسے ایک مثال سے سمجھیے:

 شریعت کے ہاں بلوغت کے کچھ معیار ہیں جنہیں ذیل میں دیا جاتا ہے:

۱: شریعت نے ایک کم از  کم عمر مقرر کی ہے کہ اس سے پہلے انسان کو بالغ تصور نہیں کیا جا سکتا۔(فقہ حنفی میں، لڑکے کے لیے بارہ اور لڑکی کے لیے نو سال ہے۔)

۲: شریعت نے زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کی ہے کہ اس کے بعد، انسان کو نابالغ نہیں تصور کیا جا سکتا۔(جیسےحنفی فقہ میں امام ابو یوسف کے مطابق یہ عمر  مرد وعورت دونوں  میں پندرہ سال  ہے اور اس پرفتوی دیا جاتا ہے۔)

۳: ان دو حدود کے درمیان  میں، شریعت نے کچھ امور طے کیے ہیں کہ اگر وہ پائے جائیں تو انسان بالغ شمار ہو گا:

    1. احتلام ہونا،

    2. جاگتے میں انزال ہوجانا۔

    3. حیض آجانا(لڑکی کو)

    4. قرار حمل (فرض کریں کہ لڑکی کے ساتھ کسی نے تعلق قائم کیا، قطع نظر اس بات سے کہ وہ درست تھا یا نہیں، اور وہ امید سے ہوگئی، تو اس بندے کو سزا دیں یا نہ دیں، لیکن وہ بالغ شمار ہو گی۔)

    5. لڑکے کا کسی کو حامل کر دینا۔(احناف کے ہاں تفصیلات کے لیے دیکھیے، شرح الوقاية، كتاب الحجر، لصدر الشرعية الثاني)

واضح رہے کہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ کوئی رائے غلط ہو یا درست ہو کیونکہ یہ اجتہادی معاملات ہے اور ان میں ایک سے زیادہ رائے کا امکان ہے۔ مقصود یہ ہے کہ فقہا کی نگاہ میں شریعت یہ امور بھی طے کرتی ہے، ہمیشہ اسے لوگوں پر نہیں چھوڑ دیتی۔

اسی طرح، شریعت کے ہاں اسباب کی بحث دیکھ لیجیے۔مثلا:

"بیت اللہ کا حج مسلمان پر فرض ہے"

سبب: بیت اللہ

حکم/قانون: فرضیت

کعبہ شریف حج کی فرضیت کا سبب ہے۔ اور چونکہ وہ ایک ہی ہے اس لیے انسان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی بندہ مثلا پاکستان میں کعبہ بنا لے اور فرض کریں کہ جم غفیر اسے کعبہ تسلیم کرنے لگے، تو یہ نہیں کہا جائے گاکہ شریعت کا اصل مقصود "حکم وقانون" بنانا ہے اور "سبب ومحل" وغیرہ میں اس نے معاملات کو لوگوں کے عرف پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے اب لوگوں پر دو حج فرض ہوں گے یا انسان کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جس پر بھی قادر ہو اس کا حج  کرے (اس توجیہ کے ساتھ کہ اصلی کعبہ اور بعد والا کعبہ علی سبیل البدلیت سبب بن رہے ہیں جیسے اگر طواف میں کوئی جنایت ہو تواس پر اس کا اعادہ ہے۔تاہم اگر وہ دم دے دے، تو اعادہ نہیں کرنا پڑتا کہ دم اس کا بدل ہے)۔

اسی طرح، نماز کے لیے سورج کا ڈھلنا چڑھنا وغیرہ۔ اگر کسی علاقے میں لوگ چاند کو سورج ماننے لگیں اور سورج کو چاند ، تو یہ نہیں ہو گا کہ روزہ دن کے بجائے رات کو فرض ہو جائے گاکہ چلو لوگوں کے لیے بھی آسانی ہے کہ رات میں آرام سے روزہ رکھ کر سو جائیں۔دن کو اپنے کاروبار زندگی میں پوری طاقت سے مگن رہیں۔

آخری مثال، انسان کی خود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات میں  اپنے تشریعی ارادے کی تنفیذ کے لیے بھیجا ہے۔ اسے باکرامت بنایا (وہ اس وقت بھی باکرامت ہے جب وہ خنثی ہے)۔مسجود ملائک بنایا۔ ابلیس نے جب سجدے سے انکار کیا، تو اسے مردود ٹھہرایا۔اوران شرعی احکام کا "مخاطب" انسان ہے (اور جنات بھی)۔ سوال یہ ہے کہ کیا "انسان" کی ماہیت طے کرنا شریعت کا موضوع ہے یا نہیں؟ فرض کر لیں کہ اگر کسی عرف میں پہاڑوں کو انسانوں کی طرح  تصور کیا جائےیا دریا کو، تو کیا اس علاقے کا فقیہ یہ کہے گا کہ چونکہ اس کے عرف میں"انسان" کی تعریف میں  پربت بھی شامل  ہیں اس لیے،  وہ بھی انسان ہے۔ (کسی خاص معاملے میں کسی کو کسی کے "حکم" میں کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ جیسے مرض الموت میں واقع زندہ شخص کو بعض تصرفات میں "مردے" کے حکم میں کیا جاتا ہے۔لیکن تحقیق مناط میں  اسے بالکل "مردہ" کی کیٹیگری میں شامل کرنا درست نہیں۔)

اسی طرح، "جنس" کا معاملہ ہے۔ شریعت نے اس حوالے سے انسانوں کو ان کے عرف ورواج پر نہیں چھوڑ دیا۔ ہم اس معاملے کا  تجزیہ کرتے ہیں۔ذیل میں دیے گئے شرعی قضایا (Propositions) پر غور کیجیے:

۱: انسانی نر کے لیے انسانی مادہ سے جنسی تعلق قائم کرنا ، رشتہ ازدواج  یا ملکیت میں، جائز ہے۔

۲: انسانی نر کے لیے انسانی نر سے جنسی تعلق قائم کرنا ناجائز ہے۔

۳: انسانی مادہ کے لیے وہ لباس پہننا جو اس کے سماج میں انسانی مادہ پہنتی ہو، ناجائز ہے۔

۴: انسانی نر کے لیے کسی ایسی انسانی مادہ کے ساتھ تنہا ہونا جو نہ کے ساتھ نسبی رشتہ رکھتی ہو، نہ رضاعی نہ  مصاہرتی نہ ازدواجی، ناجائز ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔

ان سب قضایا میں شریعت نے ایک حکم یا قانون عائد کیا ہےاور ایک "محکوم علیہ "پر عائد ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح اوپر کی مثالوں میں شریعت نے   محکوم علیہ یا اسباب کی خود حد بندی کی ہے، اسی طرح شریعت نے یہاں بھی اس کی حد بندی کی ہے یا نہیں؟ ہمارے فقہا کے اس حوالے سے نقطہ نگاہ کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا نے اس حوالے سے حد بندی کی ہے اورہم نے آغاز میں جو کہا کہ فقہا اس حوالے سےانسان کے تولیدی نظام سے وابستہ اعضا کو بنیاد بناتے ہیں، وہ ان کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے، عرف کے لحاظ سے بدلتا نہیں۔چونکہ اس حوالے سے گفتگو خنثی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے ہم اس پر گفتگو کریں گے۔

اشیا ووقائع میں معنویت مقاصد سے آتی ہے:

اگلے بات یہ دیکھیے کہ سورج، چاند،مرد ہونا یا عورت ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ سورج چڑھتا ہے، ڈھلتا ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالی کے تکوینی ارادے کا مظاہر ہیں۔ تاہم اسلامی شریعت میں اس کی معنویت یہ ہے کہ ان دونوں کائناتی مظاہر کے ساتھ مجھے اپنے رب کے تشریعی ارادہے کا علم ہوتا ہے کہ میں دنیا کے سارے مشاغل پس پشت ڈال کر اس کے سامنے سربسجود ہوں اور نماز پڑھوں۔ اسی طرح،ماہ وسال آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور اپنے رب کے تکوینی ارادے کو نبھا جاتے ہیں۔ لیکن رمضان کے مہینے کی معنویت یہ ہے کہ یہ مجھے اپنے پروردگار کے تشریعی ارادے کا علم دیتا ہے کہ میں روزہ رکھو۔

اسی طرح، کسی کا "انسانی نر "  کے اعضا کا حامل ہونا یا "انسانی مادہ" کے اعضا کا اللہ تعالی کا ایک تکوینی فیصلہ ہے جو نہ اس نر کے ہاتھ میں ہے نہ مادہ کے ہاتھ میں۔لیکن اس تکوینی ارادے کے ساتھ اللہ تعالی کا تشریعی ارادہ جڑا ہوا ہےجو اس زنانہ ومردانہ مظہر کو معنویت دیتا ہے  کہ "نر" سے خاص مقاصد جڑے ہوئے ہیں اور "مادہ" سے مخصوص۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سائنس کا یہ طے کرلینا کہ وہ کسے "نر" اور کسی "مادہ" کہتی ہے یا علم نفسیات کا طے کرلینا کہ وہ کسے "زن" اور کسی "مرد" کہتا ہے، فقہی نقطہ نظر سے اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک وثوق سے ثابت نہ ہوکہ شریعت نے اس معاملے کو انسانوں کے اپنے معیار پر چھوڑ دیا ہے۔ جیسے مثلا  بیع کے قانون میں ، عقد کے تقاضے کے خلاف شرط کو فاسد قرار دینے کو شریعت  نے عرف پر چھوڑ ہے کہ جو شرط اتنی عام ہو جائے کہ اس سے نزاع نہ رہے تو اس سے سودا فاسد نہیں ہوگا ورنہ فاسد ہو گا۔اس پیمانے کا تعلق انسان کے اپنے تجربے سے ہے۔اور یہاں بھی آپ غور کریں تو دراصل "نزاع کا ظن غالب" وہ علت وسبب ہے جو شرعیت نے طے کر دیا ہے۔ تاہم یہ تصور ایسا ہے کہ زماں ومکا ں سے بدلتا رہتا  ہے، اس لیے اس کی حد بندی ہو ہی نہیں سکتی اور شریعت نے انسان کے  دست تجربہ میں اسے دے دیا ہے۔

جنس ومقاصد:

اب ہم مزید اس پر روشی ڈالتے ہیں کہ فقہا "نر ومادہ" دونوں جنسوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے ہاں "جنس" کی تعریف کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علم منطق کے جلو میں "جنس" ، "نوع" اور "فصل" وغیرہ اصطلاحات اسلامی علوم میں در آئیں اور ان کے تناظر میں مختلف علوم   میں گفتگو ہونے لگی۔ تاہم  شرعی علوم کے ماہرین یہاں محض خاموش تماشائی نہیں تھے بلکہ متحرک ناقد تھے اور انہوں نے ا  ن اصطلاحات کو اسلامی بنایا اور اسلامی علمیت واصول معرفت (اپسٹیم) سے ہم آہنگ بنایا اور یہی ہر دور کے ماہرین کا کام ہے۔ چناچہ علم منطق میں چیزوں کی ماہیت وحقیقت اور جس طرح  کہ "وہ ہیں"(الشيء كما هو) اس پر گفتگو ہوتی ہے۔ بالفاظ دگر، وہ وجودی سطح(آنٹولوجی) کا سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن فقہا نے جب یہ اصطلاح برتی تو اس کی کایا پلٹ دی۔ چناچہ فقہا نے یہاں ماہیت کے بجائے مقاصد کو بنیاد بنایا جو قدر کا سوال ہے اور جنس کی تعریف یہ کی  اس کے تحت آنے والے افراد وہ ہیں جن کے اغراض ومقاصد جدا جدا ہوں۔ چناچہ انسان جنس ہے کہ اس کے تحت مرد وعورت ہیں اور شریعت کی نگاہ میں دونوں مختلف ہیں۔مرد کے مقاصد کچھ اور عورت کے مقاصد کچھ ہیں۔

اسی حقیقت کے حوالے سے، مشہور علمی شخصیت محمد بن علی صابر فاروقی تھانوی فرماتے ہیں:

«وعند الفقهاء والأصوليين عبارة عن كلي مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض دون الحقائق كما ذهب إليه المنطقيون، كالإنسان فإنه مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض، فإن تحته رجلا وامرأة، والغرض من خلقة الرجل هو كونه نبيا وإماما وشاهدا في الحدود والقصاص ومقيما للجمع والأعياد ونحوه. والغرض من خلقة المرأة كونها مستفرشة آتية بالولد مدبرة لأمور البيت وغير ذلك. والرجل والمرأة عندهم من الأنواع، فإن النوع عندهم كلي مقول على كثيرين متفقين بالأغراض دون الحقائق كما هو رأي المنطقيين. »«كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم» (1/ 594 - 595)

ترجمہ: فقہا واصولی حضرات کے ہاں جنس اس کلی (کیٹیگری)کو کہتے ہیں جس کا اطلاق ایسے افراد پر ہو جن کے (شرعی)اغراض ومقاصد جدا ہوتے ہیں،  نہ کہ  ان کی ماہیت جیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔اس کی مثال انسان  کی کلی ہے جو مختلف اغراض  کے حامل افراد پر منطبق ہوتی ہے کہ اس کے  تحت زن ومرد ہیں اور مرد کی تخلیق سے مقصود نبوت، امامت، حدود وقصاص میں گواہی، جمعہ وعیدین کی نمازوں میں امامت وغیرہ ہے اور عورت کی تخلیق سے مقصود   جنم دینا، رشتہ ازدواج میں بندھ کر کسی ایک ہی مرد کی اولاد کو جنم دینا اور اس اولاد کا اس کی طرف منسوب ہونا  (عورت کے فراش ہونے کا فقہی تصور)، گھر گھرستی وغیرہ ہے۔اور مرد وزن فقہا کے ہاں انواع ہیں کہ نوع ان کے ہاں اس کلی سے عبارت ہے جو ہم غرض افراد پر لاگو ہو نہ کہ ہم ماہیت  پرجیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔

یہاں مندرجہ ذیل امور پر غور کیجیے:

۱: فقہا مرد وزن اور نر ومادہ کو ہم معنی برتتے ہیں۔

۲: فقہا کے ہاں  کسی انسان کا مادہ کے نظام تولید کا حامل ہونا  مادہ کے اغراض میں شامل ہے۔اسی وجہ سے، فقہی نقطہ نظر سے، کسی "مادہ"  کی تحدید دراصل اس کے نظام تولید سے ہوتی ہے۔ اور منطقی طور سے، اس کے برعکس نظام تولید کا حامل "نر" ہے۔(اس پرتفصیل بعد میں آئے گی)

۳: اسی طرح، عورت کا ایک وقت میں ایک ہی مرد سے وابستہ ہونا اس کے اغراض میں سے ہے۔

[نوٹ: اصول فقہ کی کتابوں میں "خاص" کی اقسام ، خاص الفرد، خاص النوع وخاص الجنس، کے تحت یہ بحث مل جاتی ہے۔ منار کی شرح نور الانوار میں بھی اس پر تفصیل سے گفتگو موجود ہے۔]

فقہا کے ہاں جنس وصنف میں فرق:

چونکہ یہاں جنس وصنف  کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس لیے اس پر لگے ہاتھ کچھ گفتگو کر لینا مناسب ہے۔

آغاز میں یہ بات گزری کہ بیسوی صدی کے جنسی انقلاب کے بعد، جنم لینے والی علمیت  کے مطابق جنس وصنف کے مابین فرق  کی بنیاد یہ  ہے کہ تولیدی نظام سے جنس طے ہوتی ہے اور صنف اس کے سماجی مظاہر سے عبارت ہے۔ نیز یہ علمیت مندرجہ ذیل امور کے مابین ڈور کاٹ دیتی ہے:

۱:جنس (Sex) ،

۲: جنسی رجحان(Sexual Orientation)،

۳: سماجی کردار (Gender Role)،

۴: اور سماجی مظاہر(Gender Expression)۔

چنانچہ ایسا نہیں کہ اگر آپ "جنس" کا جواب دے دیں تو باقی امور خود بخود طے ہو گئے۔

یہاں ہم نے دیکھا  کہ  فقہا   کے ہاں یہ تمام امور آپس میں اس طرح  ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں  کہ اگر پہلے کا جواب دیں تو  دوسرے کا جواب خود بخود آئے گا۔

تاہم، یہ واضح رہے کہ بعض سماجی مظاہر اور سماجی کردار ایسے ہیں جو عرف کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے، یہ ضروری نہیں کہ ایک عرف میں اگر کسی مظہر کو مرد وزن کے ساتھ خاص کیا گیا تو وہ ہر زماں ومکاں میں ایسا ہے۔ تاہم   یہاں بھی فقہا عرف کے احترام کی تلقین ، مقاصد شریعت کی حدود میں، کرتے ہیں۔

اس پوری گفتگو سے ہمیں مندرجہ ذیل قواعد حاصل ہوئے:

قاعدہ: شریعت ایک قدر پر مبنی نظام ہے جو اشیا کو اللہ تعالی کے ارادے کے تحت معنویت بخشتا ہے۔

قاعدہ: شریعت اشیا کی قدر طے کرتے ہوئے، اشیا کی تعیین وتحدید بھی کرتی ہے۔ تاہم جو امور زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلیں، وہاں شریعت انسانی تجربے پر معاملے کو چھوڑ دیتی ہے۔

قاعدہ: جنس کی تعیین وتحدید شریعت کا موضوع ہے  اور یہ زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلتی نہیں۔

اسلام میں جنس کا معیار اور خنثی

یہاں تک  یہ طے ہو گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے جنس دو ہی ہیں  اور وہ دونوں جداگانہ ہیں اور انسان اپنے پیدائش کے ساتھ  جس طرح اپنی نوعی شناخت ( Identity of being a specific species)لاتا ہے اسی طرح اپنی صنفی شناخت بھی لے کر آتا ہے۔ یہ ناقابل تغیر عنصر ہے۔نیز جنس وصنف فقہا کے ہاں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ تاہم بعض اوقات کسی انسان کی جنس کی دریافت میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور اسے "خنثی" کہا  جاتا ہے۔اب شریعت کے نقطہ نگاہ سے، یہاں بنیادی سوال خنثی کی تعریف ہے اور اسی کے تحت اسلام میں جنس کا معیار طے ہوگا۔

خنثی کی تعریف:

"خنثی " دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ایسے انسان کے ہیں جس میں مرد وزن دونوں کے اعضائے تناسل پائے جائیں۔

فقہا کے ہاں اس کی علمی تعریف بھی یہی ہے۔ البتہ وہ اس میں ایک مزید عنصر کا اضافہ کرتے ہیں۔وہ یہ کہ اگر کسی انسان کے دونوں اعضا سرے سے  نہ ہوں ، تو اس پر بھی "خنثی" ہی کا قانون نافذ ہو گا۔چناچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:

«وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

[خنثی وہ ہے جس  میں مرد وزن دونوں کے آلہ تناسل ہوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو۔]

خنثی مرد ہے یا عورت ہے:

فقہا کے ہاں ، فنی نقطہ نگاہ سے، خنثی کوئی تیسری باقاعدہ جنس نہیں، بلکہ خنثی مرد ہے یا عورت۔اور اس کا فیصلہ صحابہ کے دور سے فقہا کے ہاں اس کے  اعضائے تناسل سے کیا جاتاہے۔

اس حوالے سے ابن عدی کے ایک روایت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منسوب ہے لیکن اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چناچہ مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ جمال الدین زیلعی نے ہدایہ کی تخریج میں  بھی اسے ضعیف گردانا ہے۔ تاہم اس حکم کا دارومدار اس پر نہیں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے صحابہ سے روایا ت منقول ہیں۔

حضرت علی سے منقول ہےکہ:

«عن علي أنه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول»«مصنف عبد الرزاق» (8/ 389 ط التأصيل الثانية)

مفہوم:حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرد خنثی کو اس کی جائے پیشاب کی بنیاد پر وراثت دی۔

دیگر صحابہ سے منقول ہے:

عن جابر بن زيد، والحسن، في الخنثى قالا: «يورث من مباله»، قال قتادة: فكتب في ذلك لسعيد بن المسيب فقال: نعم، وإن بال منهما جميعا فمن أيهما سبق«مصنف ابن أبي شيبة» (6/ 277 ت الحوت)

مفہوم:حضرت جابر وحسن رضی اللہ تعالی عنہما سے  منقول ہے کہ خنثی کو اس  کی جائے پیشاب کی بنیاد پر میراث دی جائے گی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ  انہوں نے اس حوالے سے سعید بن المسیب کو خط لکھا۔ انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔ نیز فرمایا کہ اگر دونوں اعضا سے پیشاب کرے، تو جہاں سے پہلے شروع کیا ہو (اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔)

عن الشعبي، في مولود ولد ليس له ما للذكر ولا ما للأنثى، يبول من سرته، قال: «له نصف حظ الأنثى ونصف حظ الذكر»

علامہ زیلعی نے یہ روایات نقل کی ہیں بغیر کسی تنقید ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے ہاں قابل حجت ہیں۔

نیز یہاں  اصل استدلال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حدیث  نہیں جو کمزور ہے۔اور فقہی کتابوں میں منقول ہر حدیث یا ہر استدلال کا معتبر ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ فقہا کی عادت ہے کہ وہ ایک مسئلے پر کئی استدلالات اکھٹے کر دیتے ہیں جن میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں اور ہر فقہی مذہب کے ماہرین وقت کے ساتھ ساتھ اسے نکھارتے آئے ہیں۔  بلکہ بنیادی استدلال تین ہیں:

۱: شریعت کی طرف سے تقریر:

زمانہ جاہلیت میں بھی  یہ معاملہ رائج تھا  کہ ایسی صورتوں میں لوگ عضو تناسل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔شریعت آئی اور اس نے اس حوالے سے کوئی  تبدیلی نہیں کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی یوں سمجھیے کہ "استصناع" کو (فنی باریکی برطرف، استصناع  آرڈر پر چیز بنوانے  سے عبارت ہے جب کہ میٹیریل بنانے والے کا ہو) احناف درست کہتے ہیں اور دوسرے فقہا نادرست کہ اس میں ایسی چیز کا سودا ہے جو موجود نہیں اور یہ "سلم" میں بھی شامل نہیں۔ احناف کے استدلالات میں سے ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ یہ معاملات رائج تھے۔ اس لیے، اگر ان میں تبدیلی مقصود ہوتی تو شریعت اس حوالے سے باقاعدہ رہنمائی فرماتی۔ اسی طرح، صحابہ  وتابعین کے دور میں یہ رائج  رہا پر اس پر نکیر نہ ہوئی۔پس ایسے امور میں ، شریعت کی یہ خاموشی اس کی طرف سے قانونی سازی  و"تقریر"ہے کہ یہ جائز ہے۔  یہی بات فقہا جنس  اور اس سے وابستہ احکام کے  حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ "حکم جاہلی "تھا اور شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ اور صحابہ کا فیصلہ اس کی مزید توثیق ہوا۔اسے مختلف حنفی وغیر حنفی فقہا نے رقم کیا ہے۔ ہم علامہ سرخسی کی سنتے ہیں:

«وهذا حكم كان عليه العرب في الجاهلية على ما يحكى أن قاضيا فيهم رفعت إليه هذه الحادثة فجعل يقول هو رجل وامرأة فاستبعد قومه ذلك فتحير ودخل بيته في الاستراحة فجعل يتقلب على فراشه ولا يأخذه النوم لتحيره في هذه الحالة وكانت له بنية فغمزت رجليه فسألته عن تفكره فأخبرها بذلك وقالت دع الحال وابتغ المبال فخرج إلى قومه وحكم بذلك فاستحسنوا ذلك منه فعرفنا أن حكمه كان في الجاهلية قرره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وسيجيء من المعنى ما يدل عليه»«المبسوط للسرخسي» (30/ 103)

مفہوم: یہ معاملہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا جیسا کہ منقول ہے کہ ان کے ایک قاضی کے پاس یہ (خنثی کا )معاملہ لایا گیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ مرد وزن دونوں ہے۔ لوگوں  اس بات سے مطمئن نہ ہوئے۔ قاضی صاحب کشمکش کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنے گھر آرام گاہ میں گئے۔ لیکن اس مسئلے کے ساتھ انہیں ایک پل چین نہ آئے،نیند نہ آئے۔اس کی ایک بٹیا تھی۔اس نے (جب با پ کر پریشان دیکھاتو)اس کے پاوں کو دبایا اور پریشانی کی وجہ جاننا چاہی۔ اس نے ماجرا کہہ ڈالا۔ بیٹی نے کہا کہ:"اس بات کو چھوڑیے اور پیشاب گاہ کو بنیاد بنائیے"۔ قاضی صاحب نے لوگوں میں جاکر اسی کے مطابق فیصلہ کیا، تو انہیں یہ پسند آئی۔ (اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں )اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ خنثی کا حکم زمانہ جاہلیت میں تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے برقرار رکھا۔ نیز آگے اس  حکم کی علت سے بھی اس کی مزید تائید ہوگی۔

۲: فقہا کا اجماع:

دوسرا یہ کہ اس معاملے پر فقہا کا اجماع ہے جو خود ایک مستقل دلیل ہے۔ اس حوالے سے ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی  نے بھی واضح فرمایا ہے کہ خنثی کا دارومدار پیشاب گاہ پر ہونا فقہا کے مابین ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور ابن المنذر سے انہوں نے اس پر فقہا کا اجماع نقل کر کےصحابہ کے آثار اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب  احادیث پیش کی ہیں۔ اس لیے، واضح رہے کہ یہاں مسئلے کی بنیادنبی   صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خبر واحد پر نہیں۔ اور بلاشبہ، اس جیسے مسئلے کی بنا ایسے چیز پر نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ   رفع یدین جیسے مسئلے کی طرح اجتہادی مسئلہ بن جائے اور ساری بات زیادہ سے زیادہ "خلاف اولی" پر آجائے۔فقہا کے ہاں یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور صحابہ کے دور سے فقہا نے اس کے حکم کی بنا اس زمانے کے عرف پر نہیں، بلکہ انسان کے ظاہری عضویاتی فطری پر رکھی ہے اور وہ معلوم تاریخ کے مطابق ابھی تک ارتقا کر کے  بدلی نہیں۔ نیز جینیاتی علم نے آ کر اسے بدلا نہیں بلکہ محض اس کی تفسیر کی ہے جیسا کہ تفصیل سے آگے آئے گا۔ انسانی فطرت وہیں کی وہیں ہے۔

اور یہی سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ ایک فقہا نے ضعیف روایت اس لیے نقل فرمائی کہ وہ مسئلے کی بنا نہیں  بلکہ حکم اور دلائل سے ثابت ہے۔اس لیے، اگر یہ روایت نہ ہو، تب بھی یہ حکم ثابت ہے۔

بہر کیف، علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«الخنثى هو الذي له ذكر وفرج امرأة، أو ثقب في مكان الفرج يخرج منه البول ويعتبر بمباله في قول من بلغنا قوله من أهل العلم. قال ابن المنذر: أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل، فهو رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة، فهو امرأة. وممن روى عنه ذلك؛ على، ومعاوية، وسعيد بن المسيب، وجابر بن زيد، وأهل الكوفة، وسائر أهل العلم. »«المغني» لابن قدامة (9/ 108 ت التركي)

مفہوم: خنثی وہ ہے اس میں مرد وزن دونوں کی شرم گاہ ہو یا شرمگاہ کی جگہ پر سوراخ ہو جس سے پیشاب نکلے۔ ہم تک جن اہل علم کی رائے بھی پہنچی ہے ان کے مطابق اس کی جائے پیشاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ابن المنذر کہتے ہیں کہ جن اہل علم سے ہم نے علم نقل کیا ان سب کا اتفاق ہے کہ خنثی کو میراث جائے پیشاب کی بنیاد پر دی جائے گی۔ اگر وہاں سے کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو  وہ مرد ہے  اور اگر وہاں سے کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو وہ عورت ہے۔ جن جن سے یہ بات منقول ہے ان میں حضرت علی، معاویہ، سعید بن المسیب، جابر بن زید  شامل ہیں۔ نیز اہل کوفہ اور باقی حضرات سے بھی یہی منقول ہے۔۱۲

مشہور مالکی فقیہ علامہ قرطبی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خنثی میں اس کے اعضائے تناسل کا اعتبار ہے۔

أجمع العلماء على أنه يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة. «تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 65)

مفہوم:علما کا اتفاق ہے کہ خنثی کو اس کی جائےپیشاب کی بنیادپر میراث د ی جائے گی: اب  وہ ضرورت وہاں سے پوری کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو اسے مرد کی میراث ملے گی اور اگر وہاں سے ضرورت پوری کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو عورت کی میراث۔ ۱۲

۳: قول صحابی:

نیز جو فقہا قول صحابی کو حجت تسلیم کرتے ہیں ان کے ہاں صحابہ سے منقول اقوال بھی ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور احناف کے ہاں بھی قول صحابی حجت ہے۔

واضح رہے کہ اگر ہم جنس کے معاملے کو عرف  یا طب پر چھوڑ دیں، تو ہمارے پاس اس کی کوئی اصولی بنیاد نہیں رہے گی کہ ہم محض نفسیات واحساسات کو غیر معتبر ٹھہرائیں۔اور اس کے بعد، ہمارا یہ کہنا کہ "متبدل صنف" (ٹرانس جینڈر)کا اعتبار نہیں  ،بے بنیاد ہو جائے گا۔

یہاں قاری اس الجھن کا شکار نہ ہو کہ "جنس وصنف " میں فرق ہے۔ ہم واضح کر چکے کہ شریعت کے ہاں یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہیں اور "جنس" کو طے کرنا دراصل "صنف" (شریعت کے مختلف احکام)کے لیے ہے۔ ورنہ شریعت کو اس سے  کوئی سروکار نہیں کہ کسی چیز کی ماہیت کیا ہے۔ مثلا ماربل کی ماہیت کیا ہے، اینٹ کی کیا ہے؟

اس لیے، واضح رہے کہ اس ساری بحث میں کلیدی کردار اس بات ہے کہ "خنثی " کی تعریف کیا ہے۔ہم یہ طے کر آئے ہیں کہ شریعت   کے ہاں جنس غیر متبدل ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل تقدیر ہے۔

پس شریعت کی نگاہ میں خنثی وہ ہے جس کے نظام تولید سے وابستہ اعضا  دونوں ہوں یا ان میں ابہام ہو۔اس کے علاوہ ،ثانوی جسمانی خصائص جیسےچہرے پر بال یا ہونا یا نہ ہونا،چھاتی کا ہونا نہ ہونا(جنہیں طب میں ثانوی خصائص Secondary Traits کہا جاتا ہے ) خنثی کی تعیین میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اور نفسیات کا تو کیا ہی کہنا کہ اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح، واضح رہے کہ کسی مرد یا عورت کا آپریشن کروا لینا اسے خنثی یا خنثی مشکل نہیں بناتا۔ جنس صرف اعضا ئے تناسل کا نام نہیں۔ بلکہ کسی بچے کا مخصوص اعضائے تناسل کے ساتھ پیدا ہونا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی کی تقدیر ازلی میں وہ نر ہے یا مادہ۔ اس لیے، اگر کوئی مرد اپنے اعضا بدلوا لے، تو وہ خنثی نہیں ہو گا بلکہ وہ  بدستور مرد ہی رہے گا۔

تاہم جب کسی کا خنثی ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، فقہا کے ہاں بہت گنجائش  ہے۔ لیکن اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم جینیات اور انسانی نفسیات کے پہلو سے اس موضوع پرغور کریں تا کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ہمارے فقہا کے علمیات ان کے لحاظ سے کہاں ہے۔

(جاری)


دین و حکمت

(جنوری ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter