ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ: ایک تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 ء پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ مذہبی حلقوں  کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے  اور ان کے اعتراضات میں سب سے  بڑا اعتراض اس ایکٹ کو ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دے کر کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں جو تاثرات سامنے آرہے ہیں  ان کے حاملین کو دو انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک زیادہ سخت موقف والے اور دوسرے نسبتاً کم سخت موقف  والے۔زیادہ سخت موقف والے  احباب  کا خیال ہے  کہ اس ایکٹ کے ذریعے  لبرل لوگ مغربی تہذیب کے نقش قدم پر ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی  کو فروغ دینا چاہتے  ہیں  اور  نسبتاً  کم سخت موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ  اس ایکٹ میں ٹراسن جینڈرز کو جو مراعات   دی گئی ہیں، ان  کے نتیجے میں ہم جنس پرستی فروغ پائے گی۔  ہم ان سطور میں  اس بڑے اعتراض یا تاثر کو ایکٹ  کے متن کے تناظر  میں سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرکے    کسی معروضی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

پہلی چیز  لفظ ٹرانس جینڈر کو ایکٹ کا عنوان بنانے اور اس کی  تعریف  متعین کرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں بحث  کا اہم نکتہ اور قابل اعتراض پہلو یہ بیان کیا   جا رہا ہے کہ  ایکٹ میں   خنثی یا کھسرے (Intersex)، یونخ (Eunuch) ، خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر  مرد اور ٹرانس جینڈر عورت سب کو ٹرانس جینڈر کے عنوان کے تحت لایا گیا ہے، جس سے ایک ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ خنثی، کھسرے، خواجہ سرا یا  یونخ کے مسائل اور ان کو ایڈریس کرنے   سے اسلام اور مسلمانوں کو  کوئی مسئلہ نہیں، ان کے حقوق خود اسلامی روایت میں موجود  ہیں،  اصل مسئلہ ٹرانس جینڈر مرد یا عورت کا ہے، یہ تصور  ہی سرے سے خود تراشیدہ اور غیر فطری ہے؛  ٹرانس جینڈر مرد یا عورت تو  اصل میں  اور اپنی پیدایشی شناخت کے اعتبار سے مکمل مرد یا عورت ہوتے ہیں، بعد میں کسی وقت  کسی نفسیاتی عارضے یا  شوق اور خواہشِ نفس کے تحت وہ  اپنی پیدایشی شناخت  سے برعکس  شناخت اختیار کرتے یا کرنا چاہتے ہیں، جو اسلامی روایت اور مسلمانوں کے لیے  بالکل اجنبی  اور مغرب سے درآمد کردہ چیز ہے۔ اب ہم  اس  بحث اور موقف  کا تجزیہ کرتے ہیں:

مذکورہ  نکتہ یا اعتراض  Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 کی شق 2 کی ذیلی شق 1اور پھر اس کی ذیلی شق n کے تحت تین  نکات میں بیان کی گئی ٹراسن جینڈر پرسن کی تعریف سے متعلق ہے۔ یہاں ہم یہ تینوں نکات نقل کرکے اس پر بات کریں گے:

(i) Inter-sex (Khunsa) with mixture of male and female genital features or congenital ambiguities, or
( ii) Eunuch assigned male at birth, but undergoes genital excision or castration; or
(iii) a Transgender Man, Transgender Woman, Khawajasira or any person whose gender identity and/or gender expression differs from the social norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the time of their birth.

  پہلے نکتے  میں   انٹرسیکس جس کو بریکٹ میں خنثی کہا گیا ہے ، کی تعریف کی گئی ہے  کہ یہ وہ لوگ  ہوتے ہیں جو پیدائشی لحاظ سے مرد اور عورت دونوں کی  مشترک خصوصیات  رکھتے ہیں،  دوسرے پوائنٹ میں یونخ کی تعریف متعین کی گئی ہے کہ  یہ لوگ وہ ہیں جو پیدائشی طور پر مرد ہوتے ہیں لیکن بعد میں کسی وجہ سے خصی  ہو جاتے ہیں، اور تیسری ذیلی شق میں  ٹرانس جینڈر مرد اور عورت اور خواجہ سرا کی تعریف کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صنفی شناختت ان سماجی و ثقافتی تصورات سے مختلف ہوتی ہے، جو  پیدائش کے وقت  ان کی شناخت کی بنا پر متعین کی گئی ہو۔

یہ تعریفیں جان لینے کے بعد اب آتے ہیں  بحث کے اس نکتے کی طرف کہ ٹرانس جینڈر کا کھسرے  یا یونخ یا خواجہ سرا سے کچھ لینا دینا نہیں ؛ یہ  تو ایک نفسیاتی یا شوقیہ مخلوق ہے؛  اسے اس ایکٹ کے ذریعے تحفظ دینا غیر اسلامی ہے۔اس سلسلے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ اس ایکٹ کا عنوان  خواجہ سرا یا کھسرے وغیرہ کے حقوق کا تحفط ہو تو کوئی مسئلہ نہیں،  اس کا عنوان ٹرانس جینڈر رکھنا غیر اسلامی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اعتراض جزوی طور پر درست اور جزوی طور پر غلط ہے:

    1)  غلط اس لیے  ہے کہ جب کسی  ڈاکیومنٹ میں ایک چیز کی تعریف متعین کر دی گئی ہو تو اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ، کیونکہ اس سے متعلق قانونی اور عدالتی معاملات میں  اسی کا حوالہ شامل ہوتا ہے۔نیز ہمارے یہاں  جب سے ٹرانس جینڈر کی اصطلاح آئی ہے عمومی طور پر اس سے مراد  انٹرسیکس یا کھسرے وغیرہ ہی لیا  جاتا ہے ( یہ تو اب موجودہ بحث میں کرید کرید  کر لوگوں  کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ الگ مخلوق ہے ، تو وہ اس پر شور ڈالنے لگے ہیں) ،یہی وجہ ہے کہ جب بل پیش ہوا تو علما حضرات نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا، جس کی  ایک  اہم  وجہ واضح طور پر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس میں ٹراسن جینڈر سے مراد کھسرے اور خواجہ سرا ہی سمجھ رہے تھے۔(ابھی بھی عوام اور بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی جو موجودہ بحث سے واقف نہیں، یہ کہتے  میں نے خود دیکھے ہیں کہ یار بے چارے  کھسروں کے حقوق سے مولویوں کو کیا مسئلہ ہے ؟)دوسری بات یہ ہے کہ  تیسرے نکتے میں ٹرانس جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن  کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جس سے  یہ ابہام دور ہو سکتا ہے کہ ٹرانس جینڈر  مرد اور عورت اگرچہ پیدائشی طور پر کامل مرد اور عورت ہی ہوں ، لیکن  (خواہ کسی نفیساتی بیماری یا ہوائے نفس کی خاطر ہی یہ روپ اختیار کریں) یہ بہر حال مکمل مرد اور عورت کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ پھر ایکٹ  کی   اس شق میں ان کو واضح طور پر  شق کے عنوان ٹرانس جینڈر سے  الگ کرکے  ٹرانس جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن   کہا گیا ہے نہ کہ فقط  ٹرانس جینڈر، جس سے واضح  ہے کہ کم ازکم ایکٹ کی رو سے  ٹرانس جینڈر اور ہے اور ٹراسن جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن   اور۔تیسری بات یہ کہ بالفرض ایکٹ کے عنوان سے ٹرانس جینڈر کا لفظ نکال کر  اس کی جگہ خنثی، کھسرا، یونخ   یا خواجہ سرا یا یہ  سب الفاظ رکھ دیے  جائیں، لیکن نفسیاتی اور طبی اعتبار سے  کوئی ایسا واقعی شخص بھی پایا جائے جو ان لوگوں کی تعریف پر پورا نہ اترتا ہو  اور ٹرانس جینڈر مرد یا عورت کی تعریف پر پورا اترتا ہو، تو اس کو  اعتراض ہوگا کہ  مجھے ایکٹ میں ایڈریس نہیں کیا گیا۔

    2) اور  زیر بحث اعتراض  درست اس طرح سے ہے کہ ہمارے   قوانین  اور اس میں افراد  وغیرہ  کی تعریفوں کے تعین میں  معاشرتی تصورات و نظریات کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔اگرچہ مغرب میں ایسا نہ ہو، لیکن ہمارے معاشرے میں  پیدایشی لحاظ سے کسی مکمل مرد یا عورت کا  بعد میں   مخالف صنف میں ڈھلنا بہر حال ایک  مکروہ اور نا پسندیدہ رویہ ہے، جو عملی طور پر روایتی ہی نہیں  بہت سے لبرل لوگوں کو بھی خوش  نہیں آتا، اور بلاشبہ بہت سی سماجی ، ثقافتی اور قانونی  پیچیدگیوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا  اس ایکٹ کا عنوان تبدیل کیا جائے؟ تو عرض یہ ہے کہ   یہ نہ کوئی الہامی چیز  ہے اور نہ شیطانی۔ انسانوں کی اپنی ضروریات  کو محسوس کرتے ہوئے  وضع کی گئی ایک اصطلاح   ہے، جس کا تعلق ہماری سماجی و معاشرتی   حاجات سے ہے۔ اصطلاحیں اور الفاظ  وقت کے ساتھ ساتھ مختلف معانی پہنتے رہتے ہیں، قبل ازیں    ہم سمجھتے تھے کہ ٹرانس جینڈر ایسی مخلوق ہے ،جو نارمل مرد یا عورت نہیں ہوتے بلکہ کھسرے یا  خواجہ سرا وغیرہ ہوتے ہیں، تو ہمیں اس  لفظ یا اصطلاح میں کوئی مسئلہ نظر نہیں  آتا تھا، یہی وجہ ہے  ( جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ) کہ علما نے بھی اس کو  نارمل بات سمجھا اور پورے معاشرے نے بھی، اب  اگر ہم بال کی کھال کھال اتار اتار کر  لوگوں کو اس سے بدکا چھوڑیں گے اور وہ عمومی طور پر یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ  اس سے مراد نفسیاتی مسائل کی بنا پر یا شوقیہ جنس تبدیل کرنے والے لوگ ہی ہیں،  تو ایکٹ کا عنوان تبدیل کرنے میں   بھی کوئی حرج نہیں،  لبرلز کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کے نیچے اگر کھسروں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو  بالفرض کوئی جینوئن ٹرانس جینڈر ہوا تو  کھسروں کی اصطلاح کے نیچے اس کا کام بھی چل  ہی جائے گا۔  

اب آتے ہیں ایکٹ کے باب دوم اور شق 3 کی طرف جو ٹرانس جینڈر کی شناخت کو  تسلیم کرانے سے بحث کرتی ہے۔ اس شق کی  چار ذیلی شقوں میں  سے پہلی شق میں قرار دیا گیا  ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسن کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اسے اس کی   اپنی  خیال کردہ (Self-Perceived)  شناخت کی حیثیت سے شناخت کیا جائے۔ دوسری شق  کے مطابق   یہ  ٹرانس جینڈر پرسن  اپنی اس ذاتی محسوس کردہ شناخت  کے مطابق  خود کو نادرا  اور دیگر حکومتی شعبوں میں  رجسٹر کروانے کا اختیار رکھتا ہے۔ تیسری شق کہتی ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر 18 سال کی عمر تک پہنچنے پر اپنی اس سیلف پرسیوڈ شناخت کے مطابق  اپنا نام اور صنف نادرا    میں درج کرانے کا مجاز ہے اور اسی کے مطابق وہ اپنا  ڈرائیونگ لائسنس  یا پاسپورٹ وغیرہ حاصل کر سکتا ہے۔ چوتھی شق  ٹرانس جینڈر پرسن  کو اجازت دیتی ہے کہ  وہ نادرا سے پہلے سے حاصل  کردہ  شناختی کارڈ میں اپنی نئی  سیلف پرسیوڈ شناخت کے مطابق  اپنا نام یا  شناخت تبدیل  بھی کر اسکتا ہے۔

ان شقوں پر  مذہبی حلقوں کی جانب سے یہ بحث ہے کہ  اسلام کے نقطۂ نظر سے سیلف پرسیوڈ شناخت کوئی شناخت نہیں  ہوتی، اصل شناخت یہ ہوتی ہے کہ  کوئی شخص   پیدائشی طور پر کیا ہے اور معاشرہ اس کو کیا سمجھتا ہے؟  ان شقوں پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان کا دفاع کم ازکم ہمارے معاشرتی پس منظر کے لحاظ سے بہت مشکل ہے، بہ طور خاص چوتھی شق  تو صنفی شناخت کو ایک تماشا بناتی دکھائی دیتی ہے۔ اس شق  کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ نادرا میں  صنف کی تبدیلی کو کسی  بھی قسم کی  شہادت یا طبی   رپورٹ  وغیرہ سے مشروط نہیں کیا گیا۔ ٹرانس  جینڈر کی واقعی یا  غیر  واقعی صنف  سے قطع نظر    اس پر یہ قوی اعتراض وارد ہوتا ہے کہ  آخر 18 سال کی عمر میں ایک ٹرانس جینڈر نے اپنی ایک صنف درج کرا لی، تو اب اسے بدلنے کے لیے کوئی سوال  تو کیا جانا چاہیے کہ بھئی اب آپ کو  کیا مسئلہ ہوا؟ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اب آپ واقعی دوسری صنف بن گئے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ ہر کوئی ایسا نہیں کرے گا ، لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ بعض تماش بین اور آوارہ مزاج لوگ اسے تماشے اور آورگی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں اگر سیلف  پرسیوڈ شناخت کو ایک فرد کا حق مان بھی لیا جائے تو   اس کو یہ اختیار دینا نوع بنوع پیچیدگیوں کا باعث ہے کہ وہ جب چاہے بغیر کسی شہادت کے   نادرا وغیرہ میں جا کر اپنی صنف تبدیل کرا لے۔مثلاً ایک اشو یہ ہو سکتا ہے کہ  کوئی شخص جو نادرا میں پہلے  عورت تھا، اب مرد بن جائے  کہ اسے  اپنے باپ کی جاییداد سے زیادہ حصہ ملے، یا اس کو ہم جنسی پرستی کا شوق چڑھے اور وہ اپنی صنف تبدیل کرا کے بظاہر مخالف اور فی الاصل اپنی ہی جنس سے شادی رچا لے، وغیرہ وغیرہ۔

اس پر کوئی ہم سے سوال کر سکتا ہے کہ  بھئ آپ  صرف صنف کی تبدیلی کے اندراج کے بعد کسی شہادت کے بغیر  دوسری صنف میں  ڈھلنے کے اختیار پر اعتراض کر رہے ہیں، لیکن  یہ سوال نہیں اٹھا رہے کہ ایک پیدایشی  کامل مرد یا   عورت کو یہ اختیار دیا ہی کیوں جائے کہ  وہ اپنی مرضی سے  دوسری صنف بن جائے، تو اس پر عرض ہے کہ  ہمارے نزدیک اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ   کسی کو واقعی کوئی ایسا مسئلہ ہو، جس میں  اسے اپنی  پیدایشی صنف سے مخالف   جانا واقعی مجبوری بن گئی  ہو، اس لیے ہمارے نزدیک اس اختیار کو مطلق سلب کرنا  تو مذہب کا تقاضا بھی نہیں ، اس لیے کہ سب کو علی الاطلاق شوقیہ ٹرانس جینڈ رزکہنا کم ازکم ہمارے بس میں نہیں، اور یہ شاید کسی بھی شخص  اور بہ طورِ خاص کسی  بھی مذہبی عالم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ  سب کے سب  ٹرانس جینڈرز کے طبی اور نفسیاتی مسائل سے مکمل  آگا ہی حاصل کر کے  سب پر ایک ہی حکم  لگا سکے۔

ایک اور پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ  ٹرانس جینڈر مرد اور عورت اگر واقعی   خواجہ سراوں اور کھسروں وغیرہ کی سی صنف میں آتے ہیں  تو یہ قابلِ   رحم اور  ہمدردی و توجہ کے مستحق لوگ ہیں ، ان کے حقوق متعین کرنے میں اول الذکر لوگوں کی طرح  حساسیت کوئی بری بات نہیں ، لیکن اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ  ان میں یا تو  طبی یا نفسیاتی سطح پر کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے یا یہ ہواے نفس کی خاطر کبھی ایک اور کبھی دوسری صنف میں جانا چاہتے ہیں۔اگر تو طبی و نفسیاتی مسئلہ ہے تو ان سے ہمدردی ہونی چاہیے اور ان کے اول الذکر لوگوں ہی کی طرح حقوق  متعین کرنے اور مانے جانے چاہییں، لیکن اگر ان کا مسئلہ ہواے نفس ہے تو یہ کم ازکم ہماری سوسائٹی کے نارمز سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے اسے ہمارے ہاں مسئلہ بنا کر پیش کرنا مسئلہ ہی پیدا کرے گا ، حل نہیں نکالے  گا۔

ایکٹ کے سات ابواب اور 21 شقوں میں سے قابلِ بحث امور یہی ہیں، بقیہ  میں عموماً  متعین کردہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ معاشرتی اور قانونی سطح پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتنے اور ان  کے حقوق فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے،  جو ظاہر ہے ہمارے عمومی اخلاقی نظریات  کے مطابق ہے، جس کو سب تسلیم کرتے ہیں،  تنازعہ اصل میں کسی مکمل مرد یا عورت کے  اپنی آزاد  مرضی سے دوسری صنف بن کر وہ حقوق حاصل کرنے کا ہے، جو ہمار ے لوگوں کے نزدیک ہیجڑوں ، کھسروں اور خواجہ سراوں وغیرہ کے لیے تو درست ہیں، لیکن ٹرانس جینڈرز کے  لیے نہیں۔

نتائجِ بحث

اس بحث کوسمیٹتے ہوئے ا گر ہم اپنے  نتائج مرتب کریں تو کچھ  یوں ہو سکتے ہیں:

    1)  زیرِ بحث  ایکٹ کے ٹراسن جینڈرز کے حقوق کی حفاظت  کا ایکٹ  کہلانے میں بنیادی طور پر کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ جب ہے کہ اس کے ذریعے معاشرے میں ہم جنس پرستی اور آوارہ مزاجی کی راہ کھلتی ہو۔

    2)  مذکورہ عنوان سے جب ایکٹ منظور کیا گیا تو اسے کم ازکم علما کی جانب سے خاموش  حمایت اس لیے حاصل ہوئی کہ ان کے نزدیک اس سے مراد خواجہ سراؤں  اور کھسروں وغیرہ کے حقوق کا بل تھا ( جیسا کہ معاشرے میں عموما بھی یہی سمجھا جاتا رہا ہے، اور موجودہ بحث سے پہلے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہی سمجھتے تھے)، جس پر ظاہر ہے ان کے نزدیک بھی کوئی اعتراض  نہیں بنتا تھا۔

    3) الفاظ اور اصطلاحات میں معاشرتی  پس منظر  اور فہم و پرسپشن  کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، اس لیے  اب  اگر عوام   اور ممبرانِ پارلیمنٹ اس پر قائل ہو جاتے ہیں کہ ایکٹ میں  ٹرانس جینڈر کی اصطلاح تلے ہم جنس  پرستی  کے فروغ کا خدشہ ہے، تو اس کا عنوان تبدیل کیا جا سکتا ہے،  لیکن یہ معاشرتی پرسپشن ہی  کی بات ہے، اس سے زیادہ  محض مبالغہ ہے۔

    4) ہمارے نزدیک ٹرانس جینڈر مرد اور عورت کو محض  ہوائے نفس کے علمبردار سمجھنا بھی مبالغہ آرائی ہے، جب تک طبی اور نفسیاتی سطح پر یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ ایسا کوئی جینوئین کیس نہیں ہو سکتا، اور ایسا   کم ازکم مذہبی علما کے لیے ممکن نہیں اور نہ یہ ان کا شعبہ ہے۔

    5)  ایکٹ میں سیلف پرسیوڈ شناخت کے حوالے سے ٹرانس جینڈر کو جو مطق اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنی  ایک صنف ڈکلیئر کرانے  کے  بعد جب چاہے بغیر کسی پوچھ پرتیت کے دوبارہ دوسری صنف بن جائے،  بہت سی  معاشرتی   ، اخلاقی اور قانونی پیچیدگیوں کا باعث ہے، اسے کسی  نہ کسی شہادت سے مقید کرنا ضروری ہے۔ اول تو رجسٹریشن کے وقت بھی  اگر کسی  کی سیلف پرسیوڈ  شناخت   اس کی پیدایشی یا معاشرتی شناخت کے خلاف ہے، تو اس پر  اسے کوئی  نہ کوئی شہادت لانی چاہیے، تاہم یہاں لازم نہ بھی کیا جائے تو دوبارہ تبدیل کرانے پر شہادت لازمی  ہونی چاہیے۔

ایکٹ کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کو  ذکر کردہ مجوزہ اصلاحات  و ترامیم کے بعد نافذ العمل رکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(اکتوبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter