سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں قائم مذہبی حکومتوں میں معاشرے کی اسلامی تشکیل کا جو تصور اور حکمت عملی اختیار کی گئی ہے، وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے محل نظر ہے۔
دینی اعتبار سے اس میں دو بڑی خرابیاں ہیں:
ایک یہ کہ جن دینی اقدار اور آداب کی پابندی کو رواج دینے کا اصل طریقہ وعظ ونصیحت اور اخلاقی تربیت ہے (جبکہ قانونی اقدام کو کسی انتہائی سنگین اور واضح تجاوز تک محدود ہونا چاہیے) ان کو ریاستی طاقت کے زور پر نافذ کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔
دوسری یہ کہ جن مسائل میں ایک سے زیادہ دینی تعبیرات موجود یا ممکن ہیں، ان میں کسی ایک خاص تعبیر کو بزور قانون نافذ کر دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں خود دینی اخلاقیات اور تصورات سے متصادم ہیں۔
دنیوی اعتبار سے اس کا بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں دینی اقدار کے تحفظ یا غلبے کو تھیاکریسی کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے جس کو، واضح اسباب سے، آج کا اجتماعی انسانی شعور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس امتزاج کے نتیجے میں معاشرے میں مذہبی احکام واقدار کا فروغ اور جبر، لازم وملزوم بن کر سامنے آتے ہیں جس کا انسانی شعور اور نفسیات پر قطعاً کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوتا۔
تیسرے نکتے کے حوالے سے مزید یہ عرض ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں علماء کے، سیاسی اقتدار کی اعلی ترین ذمہ داری یعنی خلافت وامامت سے الگ رہنے کا انتظام نہایت حکیمانہ تھا۔ یہ تقسیم کار اس بات کی گنجائش رکھتی تھی کہ معاشرے کے اخلاقی حالات جیسے بھی ہوں، مذہبی علماء ریاستی اختیار کے ساتھ وابستہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے الگ رہتے ہوئے، پوری توجہ علم اور عمل کی سطح پر دینی راہ نمائی پر مرکوز رکھیں۔ ان کی ذمہ داری دینی آئیڈیلز کو تصور اور نمونے کی سطح پر زندہ رکھنا ہو، نہ کہ معاشرے کو لازمی طور پر ایک مکمل اور بے عیب اسلامی معاشرہ بنا کر دکھانا۔
بدقسمتی سے اس انتظام کی معنویت اور حکمت، مذکورہ تینوں حکومتوں میں بالکل درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی۔ سعودی عرب میں اب اس کے ادراک کی ابتدا ہو گئی ہے۔ باقی دونوں حکومتیں بھی جتنا جلدی اس کا ادراک کر لیں، ان کے لیے بھی اور دین ومعاشرہ کے باہمی تعلق کے لیے بھی بہتر ہوگا۔
عدالت میں زیربحث مقدمات سے متعلق غیر عدالتی فیصلے
گذشتہ دنوں ایک سوال یہ زیر بحث رہا کہ اگر توہین رسالت کے کسی ملزم کے خلاف تفتیشی اداروں کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملزم واقعی جرم میں ملوث ہو اور مختلف علماء کرام نے بھی صورت حال کا جائزہ لے کر الزام کی درستی پر اطمینان ظاہر کیا ہو تو کیا ملزم کا یا اس کے متعلقین کا یہ شرعی وقانونی حق ختم ہو جاتا ہے کہ جب تک عدالتی فیصلہ جرم کے ثبوت پر مہرتصدیق ثبت نہ کر دے، ملزم کو عدالتی وغیر عدالتی سطح پر مجرم قرار دینے سے گریز کیا جائے اور ملزم اور اس کے متعلقین کو قانونی دفاع کا پورا موقع دیا جائے ؟
اسلامی قانون، عدل وانصاف میں "غیر جانب داری" کے حوالے سے کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ اس فقہی بحث سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر قاضی کے ذاتی علم کے مطابق کسی شخص نے ارتکاب جرم کیا ہو تو کیا وہ اس کے خلاف فیصلہ کر سکتا ہے؟ فقہاء کا کہنا ہے کہ جن معاملات کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، یعنی اللہ کا کوئی حق بندے پر نافذ کرنا مطلوب ہے، جیسے حدود کے مقدمات، ان میں قاضی بالاتفاق اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ وہ گواہیوں اور دیگر قانونی شواہد کا پابند ہے جو اس کے سامنے پیش کیے جائیں اور نقد وجرح کے عمل سے گزر کر درجہ اعتبار کو پہنچ جائیں۔
جہاں تک انسانوں کے باہمی لین دین یا دیگر معاملات کا تعلق ہے تو حنفی فقہاء یہاں بھی اسی اصول کے قائل ہیں، جبکہ بعض شافعی اہل علم ایسے معاملات میں علم القاضی کو فیصلے کی جائز بنیاد تسلیم کرتے ہیں۔ قصاص کے مقدمات سے متعلق حنفی روایت میں کچھ اختلاف اقوال بھی ہے، لیکن متاخرین کا کہنا ہے کہ فرض کریں، اصولاً اس کی گنجائش ہو بھی تو ہمارے دور میں قاضی حضرات اتنے دیانت دار نہیں ہیں کہ ان کو یہ اختیار دیا جا سکے۔
یہ بحث عدالتی نظام کے اس فرد سے متعلق ہے جس کے پاس باقاعدہ فیصلہ کرنے کی قانونی اتھارٹی موجود ہے۔ باقی تمام اطراف جن کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی بھی نہیں، ان کی ذمہ داری اور حدود کیا ہیں اور کیا ہونی چاہییں، وہ اس سے واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہیں۔
خواجہ سرا کمیونٹی: بنیادی مسئلہ
خواجہ سرا طبقے سے متعلق گذشتہ دنوں میں متعدد فورمز پر گفتگو کا موقع ملا۔ ایک بات جو ہر جگہ عرض کی گئی، یہ ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ ایسے افراد کا خاندانی نظام سے نکال دیا جانا اور نتیجتا انھیں اس پر مجبور کر دینا ہے کہ وہ اپنی الگ کمیونٹی بنا کر زندگی گزاریں اور زمانے کے سرد وگرم کا سامنا کریں۔
ایسا ہمارے معاشرے میں کن تاریخی اسباب سے ہوا، یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ یہ علم میں آیا کہ بعض مغربی مصنفین نے اس ضمن میں ہندوستان میں استعماری ریاستی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن سردست ہمیں اس کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بعید نہیں کہ اس سے پہلے بھی ایک الگ طبقے کے طور پر ان کی شناخت بن چکی ہو اور استعماری پالیسی نے اس کو مزید بڑھاوا دے دیا ہو۔
لیکن تاریخی اسباب جو بھی ہوں، ایسے افراد کو گھر اور خاندان کے فطری ماحول اور انسانی رشتوں سے محروم کر کے مجبور کر دینا کہ وہ اپنے لیے گرو اور چیلے کی صورت میں ایک الگ سماجی پناہ گاہ بنائیں اور سماج کا ایک حقارت زدہ اور دھتکارا ہوا طبقہ قرار پائیں، مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ اس طبقے پر سستی اور بے ہودہ تفریح مہیا کر کے، بھیک مانگ کر اور جسم فروشی کر کے روزی روٹی کمانے کا جو سماجی داغ لگا ہوا ہے، وہ صرف اس بنیادی مسئلے کے منطقی اور ناگزیر نتائج ہیں۔
تاہم اس کے نتائج وقت گزرنے کے ساتھ، صرف اس طبقے تک محدود نہیں رہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ خود کو مصنوعی طور پر خواجہ سرا کہلانے والے افراد بھی ایک بڑی تعداد میں اس نیٹ ورک کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور اس پیشے کے ساتھ وابستہ مالی مفادات بہت سے افراد کو مسلسل اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔
صورت حال میں ایک تیسری، اور غالبا سب سے اہم اور دور رس تبدیلی سرمایہ داری اور غالب تہذیب کے بعض ڈسکورسز کی باہمی معاونت سے اب سامنے آ رہی ہے۔ ایل جی بی ٹی کے حقوق کا بیانیہ ایک پوری عالمی مارکیٹ کو بنیادیں فراہم کرتا ہے اور اس نوعیت کی بحثیں اپنے فکری اور مادی وسائل کے ساتھ غیر مغربی معاشروں پر ایک تہذیبی جارحیت کے انداز میں حملہ آور ہیں۔
2018 کے ایکٹ میں، سماج کے ایک حقیقی اور جینوئن مسئلے کو موضوع بناتے ہوئے اور بعض بہت ضروری اقدامات کو حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل کرتے ہوئے، تعیین صنف کے حوالے سے ایک تہذیبی اور اعتقادی نزاع کو بالکل بلا ضرورت اور بلاجواز اس میں گھسیڑ دینا اسی صورت حال کا ایک مظہر ہے۔ جن لابیوں یا اشرافیہ کے جن طبقات نے یہ سب کیا ہے، اگر پورے شعور کے ساتھ کیا ہے تو بھی، اور اگر اس تہذیبی نزاع کی نزاکت کو سمجھے بغیر فکری سادگی سے دنیا کے ایک چلتے ہوئے ڈسکورس کو اپنا لیا ہے تو بھی، دونوں صورتوں میں ان کی قوم کے سامنے جواب طلبی ہونی چاہیے۔