https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/crl.p._883_l_2022_urdu.pdf
بعدالتِ عظمٰی پاکستان
(اپیلیٹ اختیارِ سماعت)
موجود:
جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جناب جسٹس سید منصور علی شاہ
فوجداری درخواست نمبر 833-ایل آف 2022ء :
(فوجداری متفرق نمبر 18600-بی آف 2022ء میں لاہور ہائی کورٹ، لاہور، کے فیصلے مؤرخہ 12 مئی 2022ء کے خلاف)
سلامت منشا مسیح (اپیل کنندہ) --- بنام --- ریاست و دیگر ۔۔
مسئول علیہان:
اپیل کنندہ کے لیے: جناب عبد الحمید رانا، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ (لاہور سے وڈیو لنک کے ذریعے)
ریاست کےلیے: چودھری محمد سرور سدھو، ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل، پنجاب۔ جناب عاصم افتخار، تفتیشی افسر/ ایس پی ماڈل ٹاؤن، لاہور۔ سہیل کاظمی، ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن، لاہور۔
شکایت کنندہ کے لیے: سید رفاقت حسین شاہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
تاریخ سماعت:
23 اگست 2022ء
حکم
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ:
اس درخواست کے ذریعے درخواست گزار پولیس تھانہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان (‘پی پی سی‘) کی دفعات 295-اے، 295-بی اور 295-سی کے تحت درج شدہ ایف آئی آر نمبر 61، مؤرخہ 13 فروری 2021ء، سے بننے والے مقدمے میں بعد از گرفتاری ضمانت چاہتا ہے۔ دفعہ 295-اے اس جرم کے بارے میں ہے جو ”دانستہ اور بدنیتی کے ساتھ شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرے۔۔۔ اس طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے یا اس کی کوشش کرے“۔ دفعہ 295-بی قرآن مجید کے کسی نسخے کی قصداً توہین ، اسے نقصان پہنچانے یا بے حرمتی کرنے کو جرم قرار دیتی ہے ۔ اور دفعہ 295-سی ”حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کی توہین “ کو جرم قرار دیتی ہے۔ 295-اے کے جرم پر دس سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے، دفعہ 295-بی عمر قید کی سزا مقرر کرتی ہے، جبکہ 295-سی سزاے موت مقرر کرتی ہے۔
2۔ اس مقدمے کی بنیاد بننے والے واقعے کی اطلاع پولیس کو 13 فروری 2021ء کو رات 11 بج کر 20 منٹ پر دی گئی اور ایف آئی آر رات 11 بج کر 30 منٹ پر درج کی گئی۔ شکایت کنندہ (مسئول علیہ نمبر 2) نے، جو خواجہ رفیق شہید انٹرمیڈیٹ کالج واقع والٹن روڈ لاہور (‘کالج‘)کا طالب علم ہے، قرار دیا کہ وہ تین دیگر طلبہ، اپنے دوستوں (‘چار دوست‘) ،کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پارک (‘پارک‘) آیا ہوا تھا جہاں درخواست گزار اپنے ایک دوست کے ساتھ، جو کہ دونوں مسیحی تھے، تبلیغ اور گستاخانہ باتیں کررہے تھے۔ یکم اپریل 2021ء کو درخواست گزار کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل قید میں رہا ہے۔ اس کی درخواستِ ضمانت فاضل سیشنز جج اور فاضل جج ہائی کورٹ نے مسترد کردی؛ دونوں فاضل ججز نے ضمانت مسترد اس لیے کی کہ انھیں ایف آئی آر کے مندرجات اور چار دوستوں کے بیانات پر مکمل اعتماد تھا۔
3۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر ایک کِتابچے ”زندگی کا پانی“ کا حوالہ دیتی ہے جس میں کوئی گستاخانہ مواد نہیں ہے؛ ایف آئی آر کا اندراج 8 گھنٹوں کی بلا جواز تاخیر کے بعد ہوا حالانکہ ماڈل ٹاؤن تھانہ پارک کے قریب واقع ہے؛ چار دوستوں نے، جن میں ہر ایک کے پاس موبائل فون تھا، وقوعے کو ، جو تقریباً تیس منٹ تک جاری رہا، ریکارڈ نہیں کیا؛ چار دوستوں نے ظاہر نہیں کیا کہ ان تیس منٹوں میں ان کی جانب سے کیا کہا گیا تھا، اور یہ کہ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ وہ کسی کو تیس منٹ تک گستاخانہ باتیں کرنے دیں اور آرام سے ایک طرف کھڑے ہو کر چپ چاپ سنتے رہیں؛ پارک کا انتظام ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے پاس ہے جس نے پارک کےلیے دن رات مسلسل محافظین کا بندوبست کیا ہوا ہے لیکن نہ تو کسی محافظ نے، نہ ہی پارک میں آنے والے کسی اور شخص نے شکایت کی نہ اپنے بیانات ریکارڈکروائے؛ اور وہ دو مسیحی نرے احمق ہوں گے اگر انھوں نے چار نوجوان مسلمانوں کے سامنے وہ کچھ کہا جس کا ان پر الزام لگایا گیا ہے، وہ بھی ایسے پارک میں جہاں تمام نہ سہی، زیادہ تر لوگ مسلمان ہوں۔
4۔ فاضل ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل پنجاب (‘اے پی جی‘) ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس رپورٹ[1] (چالان) جمع کرائی جاچکی ہے، فردِ جرم عائد کردی گئی ہے اور ٹرائل کورٹ نے پانچ گواہوں کے بیانات تحریر کرلیے ہیں اور استغاثہ کے پانچ گواہوں کی گواہی باقی ہے۔ اس لیے اس مرحلے پر ملزم کو ضمانت کی رخصت عطا کرنا مناسب نہیں ہوگا، اور ایف آئی آر کے مندرجات اور چار دوستوں کے بیانات کی رو سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ملزم نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی فردِ جرم اس پر عائد کی گئی ہے۔ جناب سید رفاقت حسین شاہ ، جو شکایت کنندہ کی نمائندگی کررہے ہیں، فاضل اے پی جی کے موقف کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو گواہ گواہی دے چکے ہیں ان پر جرح نہ کرکے درخواست گزار مقدمے کی تکمیل میں تاخیر کررہا ہے۔
5۔ ہم نے مقدمے کے فریقوں کے وکلا کے دلائل سنے اور ریکارڈ پر موجود دستاویزات کے علاوہ فاضل اے پی جی کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کا جائزہ لیا۔ مقدمے کی تفتیش پولیس کے سپرنٹنڈنٹ (‘ایس پی‘) نے کی۔[2] ہمارے پوچھنے پر فاضل اے پی جی اور ایس پی نے بتایا کہ ایف آئی آر میں مذکور کتاب (زندگی کا پانی) میں کوئی توہین آمیز مواد نہیں ہے۔ پھر ہم نے معلوم کیا کہ کیا گرفتاری کے وقت یا بعد میں جرم ثابت کرنے والا کوئی مواد درخواست گزار سے برآمد کیا گیا ہے، اور ہمیں بتایا گیا کہ ایسا کوئی مواد برآمد نہیں کیا گیا۔ ایس پی نے ہمیں بتایا کہ پارک کا اس کالج سے فاصلہ، جہاں یہ چار دوست پڑھتے ہیں اور جہاں سے یہ اس پارک میں آئے تھے، تقریباً دس کلومیٹر ہے لیکن ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ دکھائے کہ یہ وہاں کیوں گئے؟ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ درخواست گزار لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں خاکروب کے طور پر ملازم ہے۔
6۔ ہم نے ایف آئی آر بھی پڑھی اور چالان بھی جس میں ایف آئی آر ہی کی باتیں دہرائی گئی ہیں اور اس میں کوئی اضافی ثبوت نہیں ہے جس سے ملزم کا جرم ثابت ہوتا ہو۔ فرد جرم 5 اپریل 2022ء کو فاضل ایڈیشنل سیشنز جج نے عائد کی جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
کہ تم ملزم نے اپنے شریک ملزم /ایوب مسیح (اشتہاری مجرم) کے ساتھ مل کر 13 فروری 2021ء کو 4 بج کر 35 منٹ پر ماڈل ٹاؤن پارک لاہور میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی، اور توہین آمیز کلمات کہے اور حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کی توہین کی۔ پس تم ملزم سلامت مسیح اور تمھارے شریک ملزم ایوب مسیح (جو تب سے اشتہاری مجرم ہے) نے زیرِ دفعہ 295-اے، 295-بی اور 295-سی، مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان، جرم کیا ہے، جو اس عدالت کے اختیار کے تحت آتا ہے۔
اور میں حکم دیتا ہوں کہ تم ملزم سلامت مسیح پر اس عدالت میں مذکورہ بالا فردِ جرم کی رو سے مقدمہ چلایا جائے۔
فرد جرم کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں متعدد بنیادی خامیاں ہیں اور اس میں فردِ جرم عائد کرنے کے متعلق کئی اہم مقررہ شرائط نہیں پائی جاتیں۔[3] ضروری ہے کہ فردِ جرم میں جرم کی مختصر توضیح ہو اور ساتھ ہی ان حالات کا مختصر ذکر ہو جن سے وہ جرم تشکیل پاتا ہے۔ فردِ جرم میں (جس طرح وہ عائد کی گئی ہے) تین جرائم کو ملا کر ایک جرم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہر جرم کے الگ عناصر ہیں لیکن فردِ جرم ایسا نہیں کہتی۔ ضروری ہے کہ فردِ جرم ملزم کو اس کے خلاف مقدمے سے پوری آگاہیدے جس کا اس نے جواب دینا ہے، اور اس کا اس قابل ہونا ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے خلاف دفاع کرسکے جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا ہے۔[4] درخواست گزار کے خلاف قرآن مجید کی بے حرمتی کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا (نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی چالان میں)، لیکن پھر بھی اس پر دفعہ 295-بی کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی۔
7۔ درخواست گزار کے خلاف استغاثہ کا مقدمہ چار دوستوں کے بیانات پر مبنی ہے ۔ ہم نے ان کی گواہی کا جائزہ لیا ہے جو اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ درخواست گزار کے شریک ملزم نے کتاب ”زندگی کا پانی“ پیش کی اور ”دونوں ملزمان نے قصداً مسیحیت کی تبلیغ شروع کی“۔ مسیحیت کی تبلیغ کوئی جرم نہیں ہے، نہ ہی اسے جرم بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ”مذہب پر عقیدہ رکھنا، عمل کرنا اور اس کی تبلیغ” بنیادی حق ہے۔[5] وہ اس کے بعد کہتے ہیں کہ دونوں ملزمان نے حضرت محمد ﷺ کی ازدواجی حیثیت پر بات کی اور اس کا موازنہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کیا اور ذومعنی جملہ کہااور پھر قرآن مجید اور بائبل کے متعلق بات کی۔ ہم مبینہ توہین آمیز الزامات نہیں دہرارہے کیونکہ اس سے گریز ضروری ہے، اور اس لیے بھی کہ وہ غیر ضروری اذیت اور اشتعال کا باعث بن سکتے ہیں۔[6]
8۔ بدقسمتی سے ایسے مقدمات کی بہت تشہیر ہوتی ہے جس کا غلط اثر ہوتا ہے اور اس سے منصفانہ سماعت کا حق بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز نشر و اشاعت کے ذریعے بار بار وہ کچھ دہرایا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ملزم نے کہا یا کیا ہوتا ہے؛ جبکہ اسے دہرانے والے شاید خود وہی جرم کررہے ہوں۔ مذہب سے متعلق جرائم بہت سنگین ہیں اور دفعہ 295-سی کے جرم پر صرف موت کی سزا مقرر ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ افراد پر یہ یقینی بنانا لازم ہے کہ عدل کے نفاذ میں کوئی بے انصافی نہ ہوجائے۔ عدالتوں نے اس حقیقت کا نوٹس لیا ہے کہ کئی بار حساب برابر کرنے کےلیے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں اور مذموم مقاصد کےلیے یا غلط محرکات کی وجہ سے مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔[7]
9۔ فوجداری نظام کے تبدیل ہونے اور اسلامی اصولوں پر قائم ہونے سے قبل انسانی زندگی اور بدن پر اثر انداز ہونے والے جرائم[8] کو ریاست کے خلاف جرائم تصور کیا جاتا تھا۔ اب ان جرائم کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایسے جرائم ہیں جن سے متاثرہ افراد یا ان کے ورثا کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس عدالت کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے اس تبدیلی کی توضیح یوں کی ہے:
”اسلامی احکام کی رو سے۔۔۔ متاثرہ فرد یا اس کے ورثا کا ابتدا سے آخر تک پورے معاملے پر، بشمول اور مجرم کے، مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ چاہیں تو اس کی اطلاع نہ دیں۔ وہ چاہیں تو مجرم کے خلاف استغاثہ نہ کریں۔ وہ چاہیں تو اپنی آزادانہ مرضی سے استغاثہ چھوڑ دیں۔ وہ چاہیں تو مجرم کو کسی بھی مرحلے پر سزا کی تنفیذ سے قبل معاف کردیں۔ جرم اور مجرم کی معافی کےلیے وہ مالی یا کوئی اور عوض لے سکتے ہیں۔ وہ صلح کرسکتے ہیں۔ وہ مجرم سے قصاص لے سکتے ہیں۔ ریاست رکاوٹ نہیں بن سکتی، لیکن اپنی حد تک بھرپور کوشش کرتی ہے کہ ان کا مقصد پورا ہونے اور ان کے حقوق کے مناسب استعمال میں ان کی معاونت کرے۔“[9]
مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء (‘مجموعہ‘) کی دفعہ 345 اور دوسرے جدول میں بھی ترمیم کرکے قتل کے علاوہ زخم کی بہت سی اقسام[10] کو قابلِ صلح بنادیا گیا۔ تاہم ”مذہب سے متعلق جرائم“[11] میں کوئی بھی جرم قابلِ صلح نہیں ہے (سواے کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے نسبتاً معمولی جرم کے[12] جس پر زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید کی سزا ہے)۔ مذہب کے متعلق جرائم کے بارے میں ریاست کی حیثیت غالب ہے اور ان جرائم پر استغاثے کےلیے ریاست ذمہ دار ہے ۔ایسے مقدمات میں جب نجی شکایت کنندہ بہت ہی زیادہ دلچسپی لے تو اس سے اس کے قابلِ اعتبار ہونے پر شک ہوسکتا ہے اور یہ فساد یا کسی غلط محرک کی علامت ہوسکتی ہے۔تاہم چند ایک مقدمات میں دیکھا گیا کہ شکایت کنندگان بڑا جتھا بنالیتے ہیں اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جو استغاثہ اور عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ مقدمے میں شکایت کنندہ، جو ایک طالب علم ہے، لاہور سے اسلام آباد اس مقصد کےلیے آیا کہ ضمانت کی مخالفت کرے۔ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس معاملے کی پیروی کےلیے ریاست اور اس کے قانونی افسران موجود تھے۔ اور جب ہم فاضل اے پی جی اور ایس پی سے سوالات پوچھ رہے تھے، تو شکایت کنندہ اور اس کے وکیل اے پی جی اور ایس پی کو جوابات فراہم کررہے تھے۔
10۔ درخواست گزار تقریباً ڈیڑھ سال سے قید میں ہے اور اس ساری مدت میں (جیسا کہ اوپر ذکر کر دیا گیا) اس سے کوئی ایسا مواد برآمد نہیں کیا گیا جس سے اس کا جرم ثابت کیا جاسکے۔ ایس پی اور فاضل اے پی جی کا کہنا ہے کہ درخواست گزار کا موبائل فون بھی چیک کیا گیا، لیکن اس سے بھی کوئی ایسا مواد نہیں ملا جس سے جرم کو ثابت کیا جاسکے، نہ ہی ایسا مواد ملا جس سے اندازہ ہو کہ درخواست گزار کا رجحان اس فعل کی طرف تھا جس کا اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ ایف آئی آر اور چالان کے مطابق درخواست گزار تبلیغ کررہا تھا لیکن اس بات کی تائید کےلیے کوئی مواد نہیں ہے اور اس بات کا وزن کم ہوجاتا ہے جب اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کوئی مبلغ نہیں بلکہ ایک عام خاکروب ہے۔ استغاثہ کا پورا مقدمہ چار دوستوں کی گواہی پر قائم ہے۔ تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے ان کی گواہی کیتائیدہوسکے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تائید کا ہونا ضروری ہے؟
11۔ تائید (corroboration) سے مراد ہے تقویت اور تصدیق، اور تائیدی ثبوت اس ثبوت سے الگ ہوتا ہے جس کووہ تقویت دیتاہے۔[13] تائید سے عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کا امکان کم ہوجاتا ہے اور یہ عقل کا تقاضا ہے۔ تائید کا مقصد مجرم کی سزا یقینی بنانا اور بے گناہ کو سزا سے بچانا ہے۔ تاہم تائیدی ثبوت کسی بے اعتبار گواہ یا ثبوت کو بااعتبار نہیں بنا دیتا۔[14] اس مقدمے میں درخواست گزار کے خلاف صرف چار دوستوں کی گواہی ہے۔ ہمیں جرائم کی سنگینی کی بات ذہن میں رکھنی ہے اور یہ بھی کہ دفعہ 295-سی کے جرم کےلیے مقرر کی گئی صرف سزاے موت ہی ہے۔ اس لیے عقل کا تقاضا ہے کہ ان کے بیانات کو، جو اس مرحلے پر غیر یقینی نظر آتے ہیں، دوسرے ثبوتوں سے تائید ملے جو واقعاتی، دستاویزی اور/یا سائنسی ہوسکتے ہیں۔ اسلامی اصول بھی بعض حالات میں گواہی کےلیے تائید کے ہونے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔[15]
12۔ ملزم کے بنیادی حقوق متعلقہ بہ منصفانہ سماعت اور قانونی طریقہ[16] کی ضمانت ضروری ہے، بالخصوص ان مقدمات میں جن میں سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اشتعال دلانے والوں نے جذبات مشتعل اور برانگیختہ کردیے، اور ہجوم اکٹھا کرکے اسے ابھارا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے، جس نے ملزم کو زخمی کیا اور یہاں تک کہ قتل بھی کردیا، قبل اس کے کہ اسے عدالت مجرم قرار دیتی۔ خواہ عدالت کسی شخص کو مجرم قرار دے کر اسے سزاے سنائے، تب بھی اس سزا کا نفاذ اگر کسی ایسے فرد نے کیا جسے اس کےلیے اختیار نہ دیا گیا ہو، تو اسلامی اصولوں کے مطابق ایسا شخص افتیات (ریاست کا حق ضائع کرنے) کےلیے ذمہ دار ٹھہرتا ہے جس پر اسے سزا دی جائے گی۔[17]
13۔ اسلامی اصول[18] مذہب کے متعلق جرائم کو خدا کے خلاف جرائم قرار دیتے ہیں؛ فقہاء کی اصطلاح میں، جو انھیں حدود میں شمار کرتے ہیں، یہ ”خدا کے حقوق “سے متعلق ہوتے ہیں۔حد کے جرم میں کسی ملزم کا جرم ثابت کرنے کےلیے اسلامی اصولوں کی رو سے ثبوت کا سخت ترین، یا بہترین، معیار مقرر کیا گیا ہے اور کوئی شبہ ملزم کو بری کردیتا ہے۔ نبی ﷺ کی ایک مشہور مستند حدیث[19] میں، جس کی روایت کئی صحابہ نے کی ہے، آیا ہے:
ادْرَءُوا الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ
(شبہات کی موجودگی میں سزاؤں سے گریز کرو۔)[20]
دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس اصول کو ان الفاظ میں دہرایا:
ادْرَءُوا الْحُدُودَمَا اسْتَطَعتُمْ
(سزاؤں سے گریز کرو جس حد تک تم کرسکتے ہو۔)[21]
اس عدالت نے دفعہ 295-سی کے ایک مقدمے میں اس اصول کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ”یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اصول (شک کا فائدہ) اسلامی قانون میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ: قاضی کسی مجرم کو چھوڑنے کی غلطی کرے تو یہ کسی بے گناہ کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔“[22]
میکگل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر وائل بی حلاق (1995-) نے بہت خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے:
”حدود جرائم پر سخت سزاؤں کا مقصد لوگوں کو ان کے ارتکاب سے باز رکھنا (زجر) تھا اور اس لیے عملاً ان کا نفاذ کم ہی کیا گیا۔۔۔ ان کے ارتکاب پر اس دنیا میں سزا نہ ہونے کی صورت میں مجرم ابدی جہنم میں جا گرتا، مابعد الموت زندگی کا ایسا تصور جس کے نتیجے میں اخلاقی ذمہ داری کا احساس نفسیات میں راسخ ہوجاتا۔ حدود کے اطلاق میں بہت زیادہ ااحتیاط کا ماخذ یہ قاعدہ تھا جو ایک حدیث سے نکلا تھا کہ “معمولی ترین شبہے کی موجودگی میں بھی” ان سے گریز ضروری ہے۔“[23]
14۔ اسلامی قانون کے اصولوں کی پابندی ، منصفانہ سماعت اور قانونی طریقے کے بنیادی حقوق کا اطلاق جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، اور معقول طریقے پر عمل پیرا ہونا تاکہ یہ یقینی بنایا جائےکہ مذہب سے متعلق جرائم میں کسی بے گناہ کو غلطی سے سزا نہ ملے،ان سارے امور کا تقاضا ہے کہ جب صرف گواہوں کی غیر یقینی گواہی ہو، تو اس کے ساتھ تائیدی ثبوت کا ہونا ضروری ہے۔ بسا اوقات پارسائی کا جذبہ، اخلاقی جوش اور/یا اشتعال بھی فوجداری مقدمات میں عمومی معیارِ ثبوت ، یعنی ”معقول شبہے سے بالاتر“،[24] کو دھندلا کردیتا ہے اور استغاثہ کو ایک پہلے سے طے شدہ ہدف کی طرف دھکیلتا ہے۔
15۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تفتیشی ایس پی نے دو ملزمان کی بات نہ مانی اور چار دوستوں کی بات قبول کی ۔ ایسی ترجیح کےلیے کوئی معقول وجہ بیان کرنا تو درکنار، سرے سے کوئی وجہ ہی ذکر نہیں کی۔ کسی تفتیشی افسر کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کے ساتھ امتیاز برتے یا مذہبی بنیاد پر ترجیح دے۔[25] دفاع کا بیانیہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔[26] اس بات کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا کہ وفاقی شرعی عدالت[27] نے بعض معروف علماے اسلام کی آرا نقل کی تھیں جنھوں نے راے دی تھی کہ جہاں گستاخی کا ارتکاب بھی کیا گیا ہو، وہاں بھی اگر ملزم نے توبہ کرلی تو اسے سزا نہیں دینی چاہیے۔[28]
16۔ ہمیں بتایا گیا کہ درخواست گزار کا پیشہ عوامی مقامات کی صفائی ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔ مذہبِ اسلام ذہن، بدن اور ماحول کی صفائی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس سے محبت رکھتا ہے۔ قرآن مجید کا کہنا ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلمُتَطَهِّرِينَ
یقیناً، اللہ محبت کرتا ہے توبہ کرنے والوں سے، اور محبت کرتا ہے پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے۔[29]
نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
اَلطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ
صفائی نصف ایمان ہے۔[30]
نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مشاہدہ کیا کہ آپ خود گھر کے معمولی کام کیا کرتے تھے۔[31] پہلے خلیفۂ راشد ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک بوڑھی نابینا خاتون کے گھر جا کر اس کا کوڑا کرکٹ اور گندگی صاف کرتے تھے۔[32]
17۔ اب ہم آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا مقدمے کے اختتام سے قبل درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے؟ یہ ہیں مقدمے کے حقائق اور ریکارڈ پر موجود ثبوت جنھوں نے ہمیں اس درخواستِ ضمانت کا فیصلہ کرنے میں مدد دی ہے۔ چار دوست اپنے کالج سے پارک میں آئے جو ان کے کالج سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، لیکن انھوں نے وضاحت نہیں کی کہ انھوں نے اتنی دور واقع پارک کو کیوں چنا، یا یہ کہ وہ کالج سے وہاں کیسے پہنچے؟ اہم بات یہ ہے کہ پارک میں موجود دوسرے لوگوں یا پارک میں تعینات محافظین نے درخواست گزار پر الزام کےلیے انگلی نہیں اٹھائی، نہ ہی ان کو تفتیش میں شامل کیا گیا۔ چار دوستوں نے گواہی دی کہ درخواست گزار ”قصداً مسیحیت کی تبلیغ“ کررہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں یہ جرم تھا (جبکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا)۔ درخواست گزار کے مبلغ ہونے کے متعلق ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا، جس سے ان کی گواہی کا وزن کم ہوجاتا ہے۔ پھر شکایت کنندہ نے پولیس کو اطلاع دینے میں تقریباً آٹھ گھنٹے لگائے، اگرچہ پولیس تھانہ مزعومہ موقع واردات کے بالکل قریب تھا۔ مسلمہ طور پر درخواست گزار، جوکہ ایک خاکروب ہے، چار دوستوں کی بہ نسبت بہت کم تعلیم یافتہ ہے جس کی وجہ سے یہ بات قبول کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ انھوں نے ان اس کے مزعومہ بیانات کا جواب نہیں دیا ہوگا، اور تیس منٹ تک خاموش کھڑے رہے ہوں گے۔ نیز درخواست گزار سے جرم ثابت کرنے والا کوئی مواد برآمد نہیں کیا گیا۔ یہ تمام عوامل اسے مزید تحقیق کا مقدمہ بنا دیتے ہیں اور درخواست گزار کو ضمانت کا مستحق کردیتے ہیں۔
18۔ اس لیے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے، اس شرط پر کہ وہ مبلغ 50 ہزار روپے کا مچلکہ، مع ایک ضامن اسی مقدار کے مچلکے کے ساتھ،جو ٹرائل کورٹ کےلیے قابلِ اطمینان ہو، جمع کرائے۔اس درخواست کو اپیل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اعتراض شدہ حکم کو منسوخ کرتے ہوئے اس درخواست کو مذکورہ شرائط کے ساتھ منظور کیا جاتا ہے۔
19۔ ہم نے انتہائی احتیاط کی ہے کہ مقدمے کی صحت و عدم صحت کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے درخواست گزار یا ریاست کے مقدمے پر غلط اثر پڑے، سواے اس بات کے جو ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرنے کےلیے ضروری تھی۔ تاہم چونکہ درخواست گزار کا مقدمہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں چل رہا تھا، تو ہم اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہوتے اگر ہم مذکورہ خامیوں کی نشاندہی نہ کرتے۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کے فاضل جج بھی ان امور کی طرف توجہ کریں گے۔
20۔ اس حکمنامے کی نقل چاروں صوبوں اور اسلام آباد وفاقی علاقے کے محکمہ ہاے استغاثہ کی طرف اطلاع اور عمل درآمد کےلیے بھیج دی جائیں تاکہ وہ یقینی بنائیں کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے باب 15 میں مذکور مذہب کے متعلق جرائم کی تفتیش آئین اور قانون کے مطابق اسی طرح سرانجام دی جائے جیسا کہ یہاں بتایا گیا اور واضح کیا گیا۔
نوٹ: یاد رہے کہ عوامی سہولت کے پیش نظر فیصلے کا اردو مفہوم ترجمے کی شکل میں جاری کیا جارہاہے۔ تاہم عدالتی یا سرکاری استعمال کے لیے انگریزی فیصلے کی طرف رجوع کیا جائے۔ (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل 251)
جج
جج
اسلام آباد
23 اگست، 2022ء
اشاعت کےلیے منظور شدہ
حوالہ جات
[1] زیرِ دفعہ 173، مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء۔
[2] مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء، کی دفعہ 156-اے لازم کرتی ہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت جرم کی تفتیش ایسا افسر کرے جو پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم نہ ہو۔
[3] مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء، کا انیسواں باب زیرِ عنوان”فرد ہاے جرم کی صورت“۔
[4] ایس اے کے رحمانی بنام ریاست (2005 ایس سی ایم آر 364، فقرہ 20، ص 381-382)؛ محمد بخش بنام ریاست، وفاقی شرعی عدالت کا ایک فیصلہ (2021 ایم ایل ڈی 1725، فقرہ 7، ص 1730)۔
[5] دفعہ 20-اسے، آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان۔ مزید دیکھیے: ایس ایم سی نمبر 1 آف 2014ء (پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 699، ص718)۔
[6] پنجاب ریلیجس بکس سوسائٹی بنام ریاست، تین فاضل ججز پر مشتمل بنچ کا فیصلہ (پی ایل ڈی 1960 لاہور 629، ص 640)۔
[7] یہ امور ان مقدمات میں بھی نوٹ کیے گئے ہیں: محمد محبوب بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 لاہور 587، فقرہ 30، ص 601)؛ ایوب مسیح بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ 1048)۔
[8] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا باب 16۔
[9] وفاقِ پاکستان بنام گل حسن خان (پی ایل ڈی 1989 سپریم کورٹ 633، ص 684-685)۔
[10] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے باب 16 کے تحت جرائم۔
[11] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا باب 15۔
[12] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298۔
[13] ارشاد احمد بنام ریاست (1990 پی سی آر ایل جے 374، 383-اے)۔
[14] ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیشنز بنام کلبورن (]1973[ اپیل کیسز 729) جس میں دار الامراء نے قرار دیا تھا(ص 746) کہ: ”تائید صرف اس گواہ کو دی جاسکتی ہے، یا وہ دے سکتا ہے جس پر اس کے بغیر اعتبار کیا جاسکتا ہو۔اگر کسی گواہ کی گواہی خود اپنی کمزوری کی بنا پر ساقط ہوجائے، تو اسے تائید کی ضرورت، یا اس کی جانب سے کسی کو تائید دیے جانے کی اہلیت، کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔“ اور ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیشنز بنام بورڈمین (]1975[ اپیل کیسز 421) میں دار الامراء نے قرار دیاتھا (ص 455) کہ: ”جب تک کسی گواہ کی گواہی ذاتی طور پر قابلِ اعتبار نہ ہو، وہ نہ کسی کو تائید فراہم کرسکتا ہے، نہ ہی یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اسے تائید کی ضرورت ہے۔“ ارشاد احمد بنام ریاست (1990 پی سی آر ایل جے 374، 385-بی)۔
[15] ابو عیسیٰ الترمذی (824-892)، سنن، کتاب 11، حدیث 1180؛ ابو بکر السرخسی (1009-1090)، المبسوط، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1997ء، ج16، ص 122۔
[16] آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان، دفعہ 10-اے۔ نوید اصغر بنام ریاست (پی ایل ڈی 2021 سپریم کورٹ 600، 618 ایچ)۔
[17] سرخسی، المبسوط، ج 9، ص 121؛ ابن عابدین الشامی (1784-1836)، رد المحتار، مصطفیٰ البابی، القاھرۃ، ج 3، ص 176؛ ابن عبد البر الاندلسی (978-1071)، التمهید، وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، المغرب، 1967ء، ج 21، ص 256؛ ابو اسحاق الشیرازی (1003-1083)، المهذب، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 2002، ج3، ص 258۔ مثال کے طور پر اگر کسی جنگی مجرم کو گرفتاری کے بعد سزاے موت کا مستحق قرار دیا گیا ہو اور اسے کسی شخص نے ریاست کی اجازت کے بغیر قتل کردیا، تو اس شخص کو افتیات کے ارتکاب پر سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ سرخسی، شرح السیر الکبیر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1997ء، ج3، ص 126۔
[18] اگرچہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں ایسا نہیں کہا گیا۔
[19] نبی ﷺ کی روایت۔
[20] ابو یوسف (729-798)، کتاب الخراج، دار المعرفۃ، بیروت، 1979، ص 152؛ علاؤ الدین الحصکفی (1616-1677)، مسند أبي حنیفة، کتاب الحدود، حدیث 4؛ ابو عیسیٰ الترمذی (824-892)، سنن، کتاب 15، حدیث 1424۔
[21] محمد بن الحسن (749-805)، کتاب الأصل، دار ابن حزم، بیروت، 2014، ج 7، ص 150۔
[22] ایوب مسیح بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ 1048، 1056 بی)۔
[23] Sharia: Theory, Practice, Transformation, Cambridge University Press 2009, part II, chapter 10, p. 246.
[24] نوید اصغر بنام ریاست (پی ایل ڈی 2021 سپریم کورٹ 600، 617 ایف)؛ سلمان رفیق بنام قومی احتساب بیورو (پی ایل ڈی 2020سپریم کورٹ 456)؛ رحمت بنام ریاست (پی ایل ڈی 1977 سپریم کورٹ 515، ص 527 ای)۔
[25] آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی دفعات 14، 20، 25 (1) اور 26 (1)۔
[26] عبید اللہ بنام ریاست (1991 ایس سی ایم آر 1734، 1736 بی)۔
[27] محمد اسماعیل قریشی بنام پاکستان (پی ایل ڈی 1991 وفاقی شرعی عدالت 10)۔
[28] ایضاً۔ مولانامفتی غلام سرور قادری، فقرہ 5، ص 17، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، فقرہ 6، ص 17، اور مولانا سعد الدین شیرکوٹی، فقرہ 10، ص 18۔
[29] سورۃ البقرۃ (2)، آیت 222۔ نیز دیکھیے، آیت 151۔
[30] مسلم بن الحجاج القشیری (815-875)، صحیح مسلم، باب 2، حدیث 223۔
[31] محمد بن اسماعیل البخاری (810-870)، صحیح البخاري، باب 10، حدیث 676۔
[32] ابن عساکر (1106-1176)، تاریخ دمشق، دار الفکر، بیروت، 1995ء، ج 30، ص 322۔