قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد کے نقد پر کچھ وضاحتیں

ڈاکٹر محی الدین غازی

راقم کامضمون”قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟“ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا۔ اس پر ہمارے دوست ڈاکٹر عرفان شہزاد کا نقد ماہنامہ الشریعہ کے شمارہ ستمبر 2022 میں شائع ہوا۔ یوں تو ہمارا موقف پوری وضاحت کے ساتھ آچکا ہے، اور جو باتیں اس نقد میں کہی گئی ہیں ان کی بھی وضاحت موجود ہے، کیوں کہ ان کے مضمون کا بیشتر حصہ غامدی صاحب کے نکات کا اعادہ ہے۔ تاہم شہزاد صاحب کے اٹھائے گئے کچھ نکات کا جواب دینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

شہزاد صاحب نے ہمارے نقد کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

”غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔“

اس کے بعد اس خلاصے پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے:

”غازی صاحب نے دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔ انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ اگر کوئی عمومی فرض ہے تو اس کا مستقل اثبات کرنا ضروری ہے۔“

یہاں دو باتیں کہی گئی ہیں:

(۱) دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔

(۲) انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ہیں۔

(۱) ہم نے دعوت دین کے فریضے کی عمومی فرضیت کے لیے براہ راست قرآن مجید کی ان آیتوں سے استدلال کیا ہے، جو صریح عموم کے ساتھ تمام ایمان والوں کو مخاطب کرتی ہیں۔

(۲) ہم نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کرکے اس کی عمومیت کا تحقق فرض نہیں کیا ہے، بلکہ دعوت دین کی ذمے داری کے عام ہونے کی واضح اور صریح دلیلوں کی بنا پر بے دلیل تخصیصات کی نفی کی ہے۔

ہم اپنی بات دو مثالوں سے واضح کریں گے۔

قرآن کی درج ذیل آیتیں شہادت حق کی ذمے داری بیان کرتی ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ وَجَاہِدُوا فِیْ اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلّةَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔ (الحج: 77، 78)

جب یہاں خطاب صاف صاف یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا سے ہے، تو پھر شہادت حق کی ذمے داری ایمان والوں کی ہوئی، یا صرف بنو اسماعیل کی؟ ان آیتوں میں ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ بھی آیا ہے، فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ بھی آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے احکام تمام اہل ایمان کے لیے ہیں یا صرف بنی اسماعیل کے لیے؟

اسی طرح درج ذیل آیت دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داری بیان کرتی ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُون۔ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء  فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔ وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون۔ وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَئکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (آل عمران: 102 – 105)

اور اسی سیاق میں آگے:

کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (آل عمران: 110)

یہاں بھی خطاب یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ سے ہے، تو یہاں مذکور فرائض کو انجام دینے کی مکلف امت پوری امت مسلمہ ہے، یا صرف بنو اسماعیل؟

قرآن مجید میں تو کہیں ایک بار بھی بنو اسماعیل کا نام نہیں آیا اور یہاں امت کے سب سے بڑے فریضے کو امت سے لے کر بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردیا جارہا ہے۔

شہادت حق کے فریضے کو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردینے کی بنیاد کیا ہے اور اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ اس سے قطع نظر، سنگین بات یہ ہے کہ یہ طریقہ استدلال وہاں تک لے جاتا ہے جہاں آدمی یہ کہے کہ قرآن صرف بنو اسماعیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوا، امت مسلمہ صرف بنو اسماعیل ہیں اور قرآن کے جملہ احکام بنو اسماعیل کے لیے خاص ہیں۔ بلکہ فریضہ شہادت کو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کرنے سے زیادہ آسان قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺکو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردینا ہے۔ ہمارے ان احباب کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ نظریہ سازی اور استدلال کی جو راہ وہ اختیار کر رہے ہیں وہ کہاں تک جاتی ہے۔

اللہ تعالی نے ایسی ہر گمرہی کا دروازہ بند کرنے کے لیے قرآن مجید میں یا ایھا العرب اور یا بنی اسماعیل کے الفاظ استعمال ہی نہیں کیے، بلکہ یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کے الفاظ سے خطاب کیا۔

ہم دوبارہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اہل مکہ اور پھر اہل عرب کی یہ خصوصیت تو ضرور ہے کہ وہ اس دعوت کے پہلے مخاطب اور امت مسلمہ کی عمارت کی پہلی اینٹ تھے۔ لیکن وہ اصل مخاطب یا کل مخاطب نہیں تھے اور وہ کل امت مسلمہ یا اصل امت مسلمہ نہیں تھے۔ دراصل اسی حیثیت میں ابراہیم علیہ السلام اور اہل عرب کے رشتے کو قرآن مجید میں اجاگر کیا گیا ہے۔

شہزاد صاحب لکھتے ہیں:

”غازی صاحب نے سورہ حج کی آیت 41 تمکین فی الارض کو بغیر حکومت کے کسی جگہ مسلمانوں کے امن و سکون سے رہنے کے معنی میں بھی لیا ہے۔ یہ معنی لینا کسی طرح درست نہیں۔ یہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد ان آیات کے تناظر میں نازل ہوئی ہے جن میں جہاد اور معابد کے دفاع کا مضمون بیان ہوا ہے۔ چنانچہ تمکین فی الارض سے بغیر حکومت اور اختیار کے کسی جگہ مسلمانوں کا محض امن و سکون سے رہنا مراد نہیں لیا جا سکتا۔“

واضح کردیں کہ ہم نے تمکین کا مطلب امن و سکون سے رہنا مراد ہی نہیں لیا۔ بلکہ ہم نے تو یہ کہا کہ یہاں افراد کی صورت میں ارباب اقتدار کی بات نہیں بلکہ پوری امت کو غلبہ وتمکین حاصل ہونے کی بات ہورہی ہے۔ ہمارے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

”دوسری آیت میں افراد کو اقتدار دینے کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ امت کو غلبہ وتمکین دینے کی بات ہے، کہ جب ایمان والوں کو کسی علاقے میں دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنا یہ فرض بھول نہیں جاتے ہیں، بلکہ تن دہی سے ادا کرتے ہیں۔چناں چہ ان فرائض میں زکوٰۃ وصول کرنا نہیں بلکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ ان تعلیمات کی روشن عملی مثال عہد رسالت ہی میں سامنے آگئی تھی۔ اہل ایمان کو مدینہ میں تمکین حاصل ہوئی اور انھوں نے یعنی تمام اہل ایمان نے ان فرائض کو وہاں بحسن وخوبی انجام دیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت انھی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھیں اپنے گھروں سے نکالا گیا اور انھیں مدینے میں ٹھکانا حاصل ہوا۔ اور پھر یہ لوگ رہتی دنیا تک تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ بنے۔“

ہماری اس تفسیر کی تائید قرآن خود کرتا ہے، یہاں کہا گیا:

الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃ وَآتَوُا الزَّکَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔ (الحج: 41)

”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے“۔(جالندھری)

دوسری جگہ کہا گیا:

أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ۔ (الانعام: 6)

”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے“۔ (جالندھری)

تیسری جگہ کہا گیا:

وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُون۔ (الاعراف: 10)

”اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے سامان معشیت پیدا کیے۔ (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو“۔(جالندھری)

قوم عاد کے سلسلے میں کہا گیا:

وَلَقَدْ مَکَّنَّاہُمْ فِیْمَا إِن مَّکَّنَّاکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعاً وَأَبْصَاراً وَأَفْئِدَۃً۔ (الاحقاف: 26)

”اور ہم نے ان کو ایسے مقدور دیے تھے جو تم لوگوں کو نہیں دیے اور انہیں کان اور آنکھیں اور دل دیے تھے“۔ (جالندھری)

گویا قرآن میں تمکین جہاں بھی جمع کے صیغے میں آیا ہے، پوری قوم کا غلبہ مراد ہے اور غلبہ سے وابستہ پوری قوم کی ذمے داری مراد ہے۔ جہاں تمکین واحد کے صیغے میں آیا وہاں فرد کا اقتدار اور اس سے وابستہ ذمے داری مراد ہے۔ جیسے ذوالقرنین کے بارے میں کہا: إِنَّا مَکَّنَّا لَہُ فِیْ الْأَرْضِ وَآتَیْْنَاہُ مِن کُلِّ شَیْْء ٍ سَبَباً (الکہف: 84) یا یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا: وَکَذَلِکَ مَکَّنِّا لِیُوسُفَ فِیْ الأَرْضِ (یوسف: 56)

شہزاد صاحب کہتے ہیں:

”غازی صاحب دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان فرد پر عائد کرتے ہیں اور استدلال میں "یا ایھا الذین آمنوا" اور "یا ایھا الناس" کے عمومی خطابات کو پیش کیا ہے کہ دین کے مخاطب بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام لوگ ہیں اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری بھی تمام لوگوں کی ہے۔ دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت ثابت کرنے کے لیے یہ کوئی استدلال نہیں ہے۔ دین کی دعوت تو ہر ایک کے لیے ہے، مگر دین کی دعوت دینے کی ذمہ داری بھی کیا ہر ایک پر عائد ہوتی ہے؟ یہ استدلال تو یہاں نہیں ہو سکتا۔ کیا جہاد کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ کیا حج کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ بلکہ دین کا ہر ہر حکم ادا کرنا کیا سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتا ہے یا وہ اپنی شرائط کے پورا ہونے کے بعد افراد پر لاگو ہوتا ہے؟ شریعت کے اس عمومی قاعدے سے دعوت دین کو استثنا دینے پر اصرار کیوں ہے؟“

یہاں شہزاد صاحب عجیب باتیں کہہ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز پڑھنا، زکات دینا، جہاد کرنا، حج کرنا اور دین کے تمام عمومی احکام کی تعمیل کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔ البتہ وجوب اور صحت کی شرطیں ہیں جن سے ان احکام کی عمومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ شرطیں متغیر ہوتی ہیں، کبھی کسی فرد پر پوری ہوسکتی ہیں، اور کبھی اسی فرد پرپوری ہوجاتی ہیں۔ ایک شخص آج صاحب استطاعت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے، کل صاحب استطاعت ہوجائے گا تو حج فرض ہوجائے گا۔ بہرحال حج کی فرضیت کا خطاب عمومی طور پر سب مسلمانوں سے رہے گا۔ قانون حج میں وجوب اور صحت کی ان شرطوں کو بتایا جائے گا۔ اسی طرح قانون دعوت میں بھی وجوب اور صحت کی شرطوں کو تو بتایا جائے گا لیکن اس کے عموم کو باقی رکھا جائے گا۔

بالفاظ دیگر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جس طرح نماز (شرائط کے ساتھ) سب پر فرض ہے اسی طرح دعوت بھی (شرائط کے ساتھ) سب پر فرض ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ہمیں اعتراض اس پر ہے کہ دین کا ایک عمومی حکم کسی ایک نسل یا قبیلے یا گروہ کے ساتھ خاص کر دیا جائے۔ اس کی نظیر شریعت میں نہیں ملتی ہے۔

آراء و افکار

(اکتوبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter