مقدمے کے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ سہراب والا، تحصیل و ضلع میانوالی، میں ایک شخص نصر اللہ خان کے خلاف 30 اگست 2021ء کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ ملزم نے مختلف مواقع پر دعوے کیے ہیں کہ اس نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کو بھی دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھا ہے اور اس کے اس طرح کے دعووں سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ (ایف آئی آر نمبر 337 آف 2021ء مورخہ 30 اگست 2021ء) چنانچہ اس کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-اے کے تحت مقدمہ درج کرکے پولیس نے تفتیش شروع کردی۔ ملزم نے اس ایف آئی آر کو کالعدم کرنے اور مقدمہ ختم کرنے کےلیے ہائی کورٹ میں رٹ درخواست دائر کردی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے یک رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کے بعد یہ درخواست منظور کرکے اس کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا حکم دیا ہے (رٹ درخواست نمبر 60241 آف 2021ء، نصر اللہ بنام ایس ایچ او ، تھانہ صد، میانوالی)۔
سیشن کی عدالت کے بجاے ہائی کورٹ کیوں؟
آگے بڑھنے سے قبل اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ ملزم نے عام طریقہ اختیار کرنے کے بجاے رٹ درخواست کا راستہ کیوں چنا؟ عام طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خلاف مقدمے میں سیشن کی عدالت میں اپنا دفاع کرتا اور ایسی صورت میں استغاثہ پر لازم ہوتا کہ وہ اس کے خلاف جرم ثابت کرے، اور جرم ثابت نہ کرسکنے کی صورت میں سیشن کی عدالت اسے بری کردیتی۔ تاہم اس نے سیشن کی عدالت میں مقدمہ لڑنے اور اپنا دفاع کرنے کے بجاے ہائی کورٹ کا رخ کیا اور براہِ راست وہاں درخواست دائر کرکے ایف آئی آر ہی ختم کرنے کی استدعا کردی۔
جہاں تک مقدمہ ختم کرنے کےلیے ہائی کورٹ میں رٹ درخواست کا تعلق ہے، استثنائی حالات میں یہ درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور ہائی کورٹ مطمئن ہو، تو وہ استثنائی حالات میں مقدمہ ختم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، قبل اس کے کہ سیشن کی عدالت فیصلہ سنادے اور پھر اپیل ہائی کورٹ میں آجائے، لیکن اس سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہائی کورٹ میں رٹ درخواست کی سماعت اور فوجداری عدالت میں فوجداری مقدمے کی سماعت میں فرق ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ اس صورت میں ٹرائل کورٹ کے طور پر مقدمہ نہیں دیکھتی، بلکہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ ملزم کے وہ بنیادی حقوق تو متاثر نہیں ہورہے جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ موجودہ مقدمے کے تناظر میں دیکھیں، تو ہائی کورٹ نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ منصفانہ سماعت (fair trial) کا حق تو متاثر نہیں ہورہا؟ یعنی مثلاً کیا اسے دفاع کا مناسب موقع فراہم کیا جارہا ہے یا نہیں؟ کیا اس کے دفاع کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی ہے؟ کیا اسے اپنے خلاف ثبوت اور شواہد دیکھنے سے روکا گیا ہے؟ کیا اسے گواہوں پر جرح سے روکا گیا ہے؟ کیا اسے اپنی مرضی کا وکیل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے؟ وغیرہ۔ باقی رہا یہ معاملہ کہ اس نے واقعتاًجرم کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں، یا اس کے خلاف ثبوت کس نوعیت کے ہیں، گواہ قابلِ اعتماد ہیں یا نہیں؟ وغیرہ، تو یہ امور ہائی کورٹ اس رٹ درخواست کی سماعت کے موقع پر نہیں دیکھ سکتی تھی، نہ ہی ان امور پر وہ کوئی فیصلہ دے سکتی تھی۔ یہ امور تو اس کے سامنے تب آتے، جب سیشن کی عدالت ملزم کے خلاف فیصلہ کرکے اسے سزا سنادیتی اور پھر وہ اپیل میں ہائی کورٹ میں آتا۔ بدقسمتی سے موجودہ فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے رٹ درخواست اور اپیل میں فرق کو نظر انداز کرکے ان امور پر بھی بحث کی ہے اور ان پر حتمی راے دی ہے جو اس مرحلے پر بحث میں نہیں آسکتے تھے۔
کہیں قانون کو حقوق کی خلاف ورزی کےلیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟
یہ امور بحث میں کیوں آگئے اور جسٹس شیخ نے ان پر حتمی راے دینی کیوں ضروری سمجھی؟ اس سوال کا جواب جسٹس شیخ نے فقرہ نمبر 15 اور 16 میں دیا ہے جو کچھ یوں ہے کہ اگر مقدمہ دائر کرکے قانونی کارروائی شروع کرنے کے نتیجے میں ایسی صورت بن جائے کہ قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال (abuse of the process of law) کرکے ملزم کے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہو جن کے تحفظ کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، تو پھر ہائی کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سرے سے مقدمہ ہی ختم کردے تاکہ ملزم کے بنیادی حقوق محفوظ ہوجائیں۔ موجودہ مقدمے میں ایسا کیا تھا، جس کی بنا پر جسٹس شیخ اس نتیجے پر پہنچے، اس پر آگے بحث آرہی ہے، لیکن اس وقت اس بات پر توجہ کریں کہ اس فیصلے میں میں ہائی کورٹ نے ملزم کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ ختم کرنے کا حکم تو دے دیا، لیکن اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے والے کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ دائر کرنے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کا حکم نہیں دیا! سوال یہ ہے کہ جب آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے دراصل قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال کررہے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کا حکم آپ نے کیوں نہیں دیا؟ کیا آپ کے خیال میں ملزم کے بنیادی حقوق کے تحفظ کےلیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے خلاف دائر مقدمہ ختم کردیا جائے اور اس کے بعد اس کی مرضی کہ وہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے یا نہ کرنے جنھوں نے اس کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا تھا؟ یہ ہمارے عدالتی نظام کی وہ خصوصیت ہے جس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ انصاف نہیں ہوپاتا بلکہ مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پہلو پر مزید بحث کو کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں۔
اب آئیے اس سوال پر کہ ہائی کورٹ اس نتیجے پر کیسے پہنچی کہ موجودہ مقدمے میں قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال ہورہا ہے؟ درخواست گزار (جو فوجداری مقدمے میں توہینِ مذہب کا ملزم تھا) کے وکیل کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ ایف آئی آر میں یہ تو کہا گیا ہے کہ ملزم نے اللہ تعالیٰ کو اور رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کو خواب میں دیکھنے کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے، لیکن ان امور سے وہ جرم وجود میں نہیں ہوتا جس کا اس پر الزام ہے کیونکہ اس کےلیے ایسے الفاظ یا افعال کا ہونا ضروری ہے جو توہین آمیز ہوں، اور ایف آئی آر میں ایسے الفاظ یا افعال کا ذکر ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکار کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کا موقف یہ تھا کہ ملزم نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ ایسی کہانیاں گھڑی ہیں جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور یہ کہ اس کے خلاف گواہوں کے بیانات بھی باضابطہ طور پر ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔ ان امور کی بنا پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی راے یہ تھی کہ ملزم کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں اور مقدمہ ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ سیشن کی عدالت کو فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔
دفعہ 295-اے کی تعبیر و تشریح
فریقین کے وکیلوں کے دلائل مختصر ذکر کرنے کے بعد جسٹس شیخ نے اپنا تجزیہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کی تاریخ سے شروع کیا اور بتایا کہ 1860ء میں انگریزوں نے مجموعۂ تعزیراتِ ہند کے نام سے جو قانون نافذ کیا، اس کے باب پندرہ میں توہینِ مذہب کی مختلف صورتوں کے متعلق دفعات 295 تا 298 شامل کی گئی تھیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان دفعات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے کثیر المذاہب معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر دنگا فساد کی روک تھام ہو۔ چنانچہ ان دفعات کے ساتھ بالعموم دفعہ 153-اے بھی متعلق ہوجاتی تھی۔ تاہم یہ انتظام اس وقت ناکافی ثابت ہوا جب راج پال کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی کتاب کے متعلق لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اس پر دفعہ 153-اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس موقع پر توہینِ مذہب کے باب میں دفعہ 295-اے کا اضافہ کیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ اگر کسی نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ اپنے الفاظ یا افعال سے کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، تو اس کو اس دفعہ کے تحت سزا دی جائے گی۔
اس کے بعد اس دفعہ کی تعبیر و تشریح کےلیے جسٹس شیخ نے بھارتی مصنفین، ایک انگریز مصنف اور 1950ء اور 1960ء کی دہائی سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے طویل اقتباسات پیش کیے ہیں اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ موجودہ مقدمے کے حقائق پر دفعہ 295-اے کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس مقدمے میں ملزم کے خلاف ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ اس نے خواب وغیرہ کے جو دعوے کیے تھے وہ اس نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کےلیے کیے تھے۔ یہ بات انتہائی حیران کن ہے کیونکہ ابھی تو سیشن کی عدالت میں مقدمہ جاری تھا، استغاثہ کے دو گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جاچکے تھے اور انھوں نے دیگر امور کے علاوہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کی بات خصوصاً کی تھی۔ ایسے میں سوال صرف یہ باقی رہتا تھا کہ کیا ملزم نے مذہبی جذبات قصداً مجروح کیے اور یہ کہ کیا اس نے ایسا بدنیتی سے کیا؟ قانونی اصطلاح میں کیا mens rea یا قصد مجرمانہ کا عنصر موجود تھا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب مقدمے کی سماعت پوری ہونے سے قبل صرف ایف آئی آر دیکھ کر کیسے دیا جاسکتا تھا؟
مقدمہ ختم کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟
ایک لمحے کےلیے مان لیجیے کہ واقعتاً اس عنصر کی موجودگی کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور اس بنا پر جسٹس شیخ نے نتیجہ نکالا کہ دفعہ 295-اے کا اطلاق نہیں ہوتا اور مقدمہ ختم کردینا چاہیے، تو فیصلہ یہیں پر ختم کردینا چاہیے تھا، لیکن جسٹس شیخ نے آگے بڑھ کر ان امور پر بھی تفصیلی راے دی جس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ مثلاً انھوں نے دو صفحات اس بات کی توضیح میں لکھے کہ خواب ہوتے کیا ہیں، انسان خواب کیوں دیکھتے ہیں، خواب کا کوئی مطلب بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے اس ضمن میں سگمنڈ فرائڈ، کارل یونگ، ایلن ہوبسن اور رابرٹ میکالےکی آرا ذکر کی ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکالا ہے کہ کسی شخص پر اس بنا پر مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس صاحب بھول گئے تھے کہ ملزم پر مقدمہ اس وجہ سے دائر نہیں کیا گیا تھا کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا ہے، بلکہ اس بنا پر قائم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خواب دعووں کی صورت میں بیان کرکے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے؟
بہرحال، مقدمہ ختم کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہو کہ ملزم کےلیے mens rea کا عنصر ثابت نہیں کیا جاسکا یا یہ کہ خواب میں جو کچھ بھی دیکھا جائے اس کی بنا پر کسی پر مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا، یہ دونوں بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔ پہلی بنیاد اس وجہ سے کمزور ہے کہ اس کا فیصلہ تو ثبوت اور شواہد دیکھنے کے بعد سیشن کی عدالت ہی کرسکتی تھی یا پھر اس کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں آتی، تو اس وقت ہائی کورٹ کرلیتی؛ موجودہ مقدمے میں جب ابھی ثبوت اور شواہد ہائی کورٹ نے دیکھے ہی نہیں تو وہ اس بنیاد پر فیصلہ کیسے کرسکتی تھی؟ دوسری بنیاد اس کےلیے کمزور ہے کہ ملزم پر مقدمہ اس بنا پر نہیں دائر کیا گیا تھا کہ اس نے خواب میں کیا کچھ دیکھا ہے، بلکہ اس بنا پر قائم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خوابوں کو دعووں کی صورت میں پیش کرکے دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے۔
پھر بھی اگر ان دو بنیادوں پر ہائی کورٹ صرف مقدمہ خارج کرنے کے حکم تک محدود رہتی، تو یہ کئی دیگر کمزور فیصلوں کی طرح ایک عام سا کمزور فیصلہ ہوتا، لیکن جسٹس شیخ نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ایک اور مسئلے پر بھی راے دی ہے اور اس راے کو بنیاد بنا کر حکم بھی جاری کیا ہے۔ اس پر بحث ضروری ہے۔
مجرم یا نفسیاتی مریض؟
جسٹس شیخ نے ایک اور مصنف کی راے پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف نفسیاتی امراض کا شخص بعض اوقات گستاخانہ الفاظ بولتا ہے یا ایسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے جنھیں توہینِ مذہب کہا جاسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ انھیں سزا دینے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر انھوں نے منصفانہ سماعت کے بنیادی حق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ منصفانہ سماعت کے حق میں پولیس کی جانب سے مناسب تفتیش بھی شامل ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ تفتیش غیر جانب دارانہ اور غیر متعصبانہ ہونی چاہیے۔ ان امور کےلیے انھوں نے ایک دفعہ پھر بھارتی عدالت کے فیصلے پر انحصار کیا ہے حالانکہ ہمارے ہاں اس موضوع پر عدالتی نظائر کی کمی نہیں ہے۔ بہرحال ان امور پر بنا کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کے قانون کی رو سے ذہنی امراض کے شکار افراد کو تحفظ حاصل ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دو قوانین کا حوالہ دیا ہے۔ ایک مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 اور دوسری ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 464۔ انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی قرار دیا کہ اگر ملزم یا اس کے وکیل کی جانب سے دماغی صحت کا عذر نہ بھی پیش کیا جائے، تب بھی عدالت کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ انھوں نے عالمی تنظیمِ صحت کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں 4 فی صد یعنی تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ان ساری باتوں سے انھوں نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ جب بھی پولیس کسی جرم کی تفتیش کرے، اور بالخصوص جب وہ توہینِ مذہب کے باب کے تحت کسی جرم کی تفتیش کرے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے ملزم کا دماغی معائنہ کروا کر متعین کرے کہ اس کی ذہنی حالت درست ہے یا نہیں۔
فاضل جسٹس صاحب کے اس حکم پر میرے دو سوالات ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان کے سامنے مقدمے میں درخواست گزار نے سرے سے ذہنی مریض ہونے کا عذر پیش ہی نہیں کیا، نہ ہی اس کا ثبوت پیش کیا، نہ ہی اس دعوے اور ثبوت کے خلاف دوسرے فریق کے دلائل یا شواہد سنے گئے، تو وہ اس سوال پر فیصلہ کرکے حکم کیسے دے سکتے تھے؟ آخر کیوں ہمارے بعض فاضل جج صاحبان موقع نکال کر ان سوالات کو اپنے فیصلے میں شامل کرلیتے ہیں جو مقدمے میں ہوتے ہی نہیں ہیں؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ سوالات ان کی اپنی کسی پرانی ذہنی الجھن سے متعلق ہوتے ہیں اور اب انھوں نے موقع نکال کر اس الجھن پر اپنی راے حکم کی صورت میں دوسروں پر لازم کرنا ضروری سمجھا؟ جج صاحبان کا کوئی بھی مذہبی یا لبرل نظریہ ہوسکتا ہے لیکن مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں انھی قانونی سوالات تک محدود رہنا پڑے گا جو مقدمے میں ان کے سامنے آئے اور جن پر فریقین کی جانب سے دلائل اور شواہد پیش کیے گئے۔ اپنا نظریاتی ایجنڈا آگے بڑھانے کےلیے اپنے منصب کا استعمال جج صاحبان کےلیے مناسب نہیں ہے۔
دوسرا سوال اس سے زیادہ اہم ہے کہ ذہنی بیماری کا عذر ہو، ذاتی دفاع کا عذر ہو، اکراہ اور زبردستی کا عذر ہو، یا کوئی اور قانونی عذر، یہ سارے عذر استثنا کی حیثیت رکھتے ہیں اور استثنا کا بارِ ثبوت اسی پر ہوتا ہے جو قانون سے اپنے لیے استثنا کا دعوی کرتا ہے۔ مثلاً الف نے ب کو قتل کردیا لیکن الف کا کہنا یہ ہے کہ اس نے یہ قتل ذاتی دفاع میں کیا ہے، تو یہ ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہوگی اور اگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکا، تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔ یقیناً “ملزم قانون کا محبوب فرزند ہوتا ہے”، اور اس وجہ سے الف پر ب کا قتل ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہوگی، لیکن جرم ثابت ہوجائے (خواہ استغاثہ نے ثبوت پیش کیا ہو یا ملزم نے خود ہی آزادانہ اقرار کیا ہو)، تو اس کے بعد ملزم کی حیثیت مجرم کی ہوجاتی ہے اور اگر اس کا دعوی ہے کہ جرم کے باوجود اسے سزا سے استثنا حاصل ہے، تو اس استثنا کا ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہوگی۔ فاضل جسٹس صاحب نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 کا حوالہ تو دیا لیکن پتہ نہیں کیوں ان کی توجہ اسے طرف نہیں گئی کہ یہ دفعہ جس باب میں ہے اس کا عنوان ہے: “عمومی استثناءات” (general exceptions)! ان کو عمومی استثناءات اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تمام جرائم کی سزا سے بچنے کےلیے پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ہیں یہ استثناءات ہی۔ (بعض جرائم کےلیے مخصوص استثناءات بھی موجود ہیں، جیسے باپ نے بیٹے کو قتل کیا، تو باپ سے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔)
فیصلے میں کیا نہیں ہے؟
یہاں تک تو ان امور پر بحث ہوئی، جو اس فیصلے میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد آخر میں ہم ان امور کا ذکر کریں گے جو اس فیصلے میں مذکور نہیں ہیں حالانکہ ان کا ذکر بہت ضروری تھا اور وہ موجود ہوتے، تو شاید فیصلہ مختلف ہوتا، یا کم از کم اس میں وہ کمزوریاں نہ ہوتیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا۔
جسٹس شیخ نے، جیسا کہ ذکر ہوا، اس فیصلے میں پاکستان سے کیا دیگر ممالک سے بھی عدالتی نظائر پیش کیے، قانونی دلائل کے علاوہ سگمنڈ فرائڈ، کارل یونگ اور دیگر ماہرینِ نفسیات کی آرا بھی ذکر کیں، خوابوں کے تجزیے بھی کیے، سب کچھ کیا، لیکن جس بات کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا، وہ یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ایک عدالت کے جج ہیں، ایک ایسے ملک میں جس کا آئین اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اعلان سے شروع ہوتا ہے، جس کے آئین میں تصریح کی گئی ہے کہ یہاں کوئی قانون اسلامی شریعت سے متصادم نہیں بنایا جائے گا اور تمام موجودہ قوانین کو اسلامی شریعت سے ہم آہنگ بنایا جائے گا، اور جس کے قانونی نظام میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ عدالتیں قانون کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے اصولوں سے ہم آہنگ تعبیر و تشریح اپنائیں گی۔ عام قوانین اور عام مقدمات میں بھی یہ ذمہ داری عدالتوں پر ہے(دیکھیے، قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4)، لیکن بالخصوص یہاں تو مقدمہ ہی توہینِ مذہب کا تھا۔ کیا جسٹس صاحب کو قانون کی تعبیر کرتے ہوئے “قرآن و سنت میں مذکور احکامِ اسلام” (دیکھیے، آئین کی دفعہ 227) کی طرف رجوع کرکے یہ دیکھنا نہیں چاہیے تھا کہ کیا ان احکام کی رو سے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا دعوی کرنا یا صحابۂ کرام کو دیکھنے کا دعوی کرنا اور پھر لوگوں میں اس بیان کرنا قابلِ سزا جرم بنتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو کن صورتوں میں، اور اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟ اسی طرح کیا جسٹس صاحب کےلیے ضروری نہیں تھا کہ وہ سگمنڈ فرائڈ اور کارل یونگ کے تجزیے پیش کرنے سے قبل یہ دیکھتے کہ قرآن و حدیث میں خوابوں کی کتنی قسمیں ذکر ہوئی ہیں؟ خوابوں کے متعلق آیات و احادیث کی تشریح مسلمان اہلِ علم مفسرین، محدثین، فقہاء، اصولیین اور متکلمین نے کیسے کی ہے؟ خواب اور الہام کا کیا تعلق ہے؟ سچے خواب کیا ہوتے ہیں؟ ان کی تعبیر کیسے پیش کی جاتی ہے؟ ان امور پر بحث کیے بغیر کیسے آپ یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ جب مسلمانوں کے ہاں کوئی خواب میں اللہ تعالیٰ کو یا صحابۂ کرام کو دیکھنے کا دعوی کرتا ہے، اور یہ دعوی وہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے، تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ خوابوں کی حقیقت کے متعلق جدید دور کے مباحث کی طرف توجہ نہ کریں، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اور مسلمانوں کے سماج میں کسی عمل کا مفہوم متعین کرنے کےلیے مسلمانوں کے علوم کو ہمارے جج صاحبان درخورِ اعتنا کیوں نہیں سمجھتے، بالخصوص جبکہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں قانون کی تعبیر ان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے؟