مطیع سید : کھڑے ہوکر پانی پینے کے متعلق مختلف اور متضاد روایات آتی ہیں۔ اس میں درست بات کیا ہے؟
عمار ناصر : جی روایات مختلف ہیں۔ بعض میں تو بہت سخت ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے جو سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مثلا صحیح مسلم میں روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کھڑا ہو کر پانی پینے والے کو پتہ چل جائے کہ اس نے کیا پیا ہے تو وہ قے کردے۔
مطیع سید : حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ وہ خاص طورپر کھڑے ہو کر پانی اس لیے پیتے تھے کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ اس طرح بھی درست ہے۔تو پھر اس کی کیا توجیہ کریں؟
عمار ناصر : احناف کے ہاں یہ رائے ہے کہ آپ ﷺ نے کسی شرعی پہلو سے اس کی ممانعت نہیں کی، بلکہ اس پہلو سے کی ہے کہ کھڑے کھڑے پانی پینے سے کوئی بیماری وغیرہ نہ لاحق ہو جائے۔ یعنی آدمی کو جلدی میں اور کھڑے کھڑے نہیں، بلکہ اطمینان سے بیٹھ کر اور سکون سے پانی پینا چاہیے۔
مطیع سید : ایک روایت میں ہے کہ بخیل جنت میں نہیں جائے گا، (کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخیل، حدیث نمبر ۱۹۶۳) لیکن ایک موقع پر آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مومن بخیل تو ہوسکتا ہے، لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
عمار ناصر : ایک بخل تو طبعی ہے جس پر آدمی کا اختیار نہیں ہوتا، لیکن کچھ بخیل ایسے ہیں جو اللہ کے واحب حقوق بھی ادا نہیں کرتے۔ بخل اگر اس درجے کو چلا گیا ہے کہ آپ کے ذمے جو حقوقِ واجبہ ہیں، وہ بھی آپ ادا نہیں کرتے تو وہ قابل ِ مذمت ہے۔
مطیع سید : یہ سوال جامع ترمذی سے ہٹ کر ہے۔کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکاراجائے گا۔ کیا اس طرح کی کوئی روایت ہے؟
عمار ناصر : نہیں، ایسی کوئی قابل اعتماد روایت نہیں ہے۔ مستند روایات کی رو سے لوگوں کو ان کے والد کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔
مطیع سید : آپ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات فرشتوں کے جس بھی گروہ کے پاس سے گزرا، انہوں نے مجھے پچھنے لگوانے کا کہا۔(کتاب الطب، باب ما جاء فی الحجامۃ، حدیث نمبر ۲٠۵۲) کیا یہ اتنی اہم چیز تھی کہ فرشتوں نے بھی کہا کہ یہ ضرور لگوائیں؟
عمار ناصر : دیکھیں، عرب کے پاس علاج معالجے کی چند ہی چیزیں تھیں جو میسر تھیں۔ ان کے ماحول میں لگتا ہے کہ پچھنے لگوانا بہت سی بیماریوں کے لئے مفیدتھا۔اب وہ فن بظاہر ختم ہو گیا ہے،یا ممکن ہے کہ اب بھی ہو۔ ہمارے طب ِ نبوی والے حضرات اس کے کچھ فوائد بتاتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس اس کے بارے میں پتہ نہیں کیا کہتی ہے۔معلوم نہیں، اس کا تصور بھی ہے کہ نہیں۔
مطیع سید : میں ایک ویڈیو میں دیکھ رہاتھا کہ ا ب تو خون کو کھینچنے کے لیے باقاعدہ کپ بنا لیے گئے ہیں۔
عمار ناصر : اس کا مطلب ہے، لوگوں نے کچھ ترقی کی ہے اور یہ فن محفوظ بھی ہے۔
مطیع سید : ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے دو کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور فرمایا کہ ایک میں جنتیوں کے نام ہیں اور دوسری میں جہنمیوں کے نام ہیں۔(کتاب القدر، باب ما جاء ان اللہ کتب کتابا لاہل الجنۃ ولاہل النار، حدیث نمبر ۲۱۴۱) وہ کتابیں کہاں گئیں؟ کیا وہ واقعی کتابیں تھیں یا غائب ہوگئیں؟ یہ کیا واقعہ ہے؟
عمار ناصر : بظاہر قرین قیاس یہ ہے کہ عالم ِغیب سے تمثیلا آپ کو کچھ دکھایا گیا ہوگا اور اس خاص وقت میں وہ منظر صحابہ کو بھی نظر آ گیا ہوگا۔ فی الواقع ٹھوس شکل میں کوئی کتابیں آپ کو دی گئی ہوں، یہ بعید از قیاس ہے، کیونکہ اس صورت میں واقعتا یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ پھر وہ کتابیں کہاں گئیں۔
مطیع سید : مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں یہ روایت کیا درست ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں؟(کتاب القدر، باب ما جاء فی القدریۃ، حدیث نمبر ۲۱۴۹) یا بعدمیں کسی نے ان کی مذمت کے لیے یہ حدیث بنا لی ہے؟
عمار ناصر : ایسا ہی لگتا ہے،کیوں کہ مرجیہ اور قدریہ کو تو یہ لقب اسی وقت ملا جب بعد میں انہوں نے اپنے نظریات پیش کیے۔
مطیع سید : آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر سے واپسی پر رات کے وقت عورتوں کے پا س نہ جا ؤ۔ وضاحت میں امام ترمذی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ورزی کرتے ہوئے دو آدمی سفر سے واپسی پر رات کو اپنے گھر چلے گئے تو دونوں نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پایا۔ (کتاب الاستئذان والآداب، باب ما جاء فی کراہیۃ طروق الرجل اہلہ لیلا، حدیث نمبر ۲۷۱۲) سوال یہ ہے کہ اچانک گھر جانے سے اگر آدمی کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ گھر میں کیا معاملہ چل رہا ہے تو یہ تو اس کے لیے اچھا ہے۔ اس سے کیوں منع کیا گیا ہے؟
عمار ناصر : اصل میں تو یہ ہدایت اس پہلو سے کی گئی ہے کہ بلا اطلاع اچانک گھر نہیں پہنچ جانا چاہیے۔ دیگر احادیث میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ گھر والوں کو صفائی ستھرائی اور تیاری کا موقع ملنا چاہیے تاکہ سفر سے آنے والے کا اچھے انداز سے استقبال کیا جا سکے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ جب سفر سے واپس پہنچو تو شہر سے باہر رک جا ؤ تاکہ اہل خانہ تک اطلاع پہنچ جائے اور وہ استقبال کی تیاری کر لیں۔ یہ پہلو بھی ہے کہ گھر والوں کے متعلق خواہ مخواہ بداعتمادی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی کے ذہن میں ایسی کوئی کھٹک ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں جا کر اچانک چھاپہ ماروں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ غیر ضروری شک اور تجسس اپنے اہل خانہ کے متعلق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ امام ترمذی نے جو بات ذکر کی ہے، وہ اس ہدایت کی اصل وجہ نہیں ہے، یعنی یہ کہنا مقصود نہیں کہ اس وجہ سے گھر نہ جاؤ کہ وہاں کہیں کوئی آدمی موجود نہ ہو۔ یہ بات محض زجرا کہی گئی ہے کہ جب ان دو آدمیوں نے ہدایت کی خلاف ورزی کی تو پھر یہ نتیجہ دیکھنا پڑا۔
مطیع سید : عبد اللہ ابن ام مکتوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ ﷺ نے ازواج کو پردے میں جانے کا حکم دیا۔( کتاب الادب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، حدیث نمبر ۲۷۷۸) یہ صحابی تو نابینا تھے۔ جب وہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے تو کس سے پردہ مقصود تھا؟
عمار ناصر : دیکھیں، یہ لطیف بات ہے۔ اس میں پردہ اصل مسئلہ نہیں تھا، بلکہ بے تکلفی اور اختلاط کی اس کیفیت کو ختم کرنا مقصود تھا جو ایک ہی مجلس میں موجود ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ازواج مطہرات کے زاویے سے تھا۔ ابن ام مکتوم کے زاویے سے بھی یہ ہدایت ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نجی بات کرنی ہے تو ازواج مطہرات کی وہاں موجودگی سے شاید وہ کوئی حجاب محسوس کریں۔ تو اس طرح کی چیزوں کو ان پہلووں سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ہر بات کی نوعیت فقہی اور شرعی حکم کی نہیں ہوتی۔
مطیع سید : ابرووں کے بال اکھیڑنے سے آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا اور اس کو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا قرار دیا۔(کتاب الادب، باب ما جاء فی الواصلۃ والمستوصلۃ، حدیث نمبر ۲۷۸۲) کیا عورتوں کے ایسا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ غیر محرموں کو دکھانے کے لیے ایسا کریں؟ محض زینت کے لیے تو ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں لگتا۔
عمار ناصر : یہ دو الگ الگ اصول ہیں۔ غیر محرموں کے لیے تو زینت کا اہتمام کرنا ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے وہ زینت فی نفسہ جائز ہو۔ یہاں جس چیز سے منع کیا گیا ہے، وہ اللہ کی تخلیق میں بے وجہ تبدیلی کرنا ہے۔ فقہاء اس میں یہ تفصیل کرتے ہیں کہ اگر تو ابرووں کی بالوں کی وضع ایسی بھدی ہے کہ بدنما لگ رہی ہے تو اس کو ٹھیک کرنا اور بدنمائی کو دور کرنا اور چیز ہے، اس سے منع نہیں کیا گیا۔منع اس سے کیا گیا ہے کہ جیسی ابرو بنی ہوئی ہے اور اس میں کوئی بدنمائی بھی نہیں، لیکن آپ کو وہ وضع پسند نہیں اور آپ چاہ رہے ہیں کہ اس کی کوئی اور وضع بنا لی جائے۔ تو یہ دراصل ایک ذہنی رویے پر تنبیہ ہے۔
مطیع سید : آج کل اعضا کی سرجری بھی ہو تی ہے، مثلا کسی کی ناک ٹھیک نہیں ہے تو اسے ٹھیک کروالیا جاتا ہے۔
عمار ناصر : یہ بھی اسی کے تحت ہے۔ایک صورت یہ ہے کہ ناک کی شکل بگڑی ہوئی ہے یا پیدائشی طور پر ٹھیک نہیں ہے یا اس طرح کا کوئی نقص ہے جسے Abnormalسمجھا جاتا ہے تو اس کا علاج کرنا اور چیز ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ ناک کی وضع آپ کی پسند کی نہیں ہے،مثلا ناک تھوڑی موٹی ہے اور آپ کو ذراباریک چاہیےتو اس مقصد کے لیے سرجری کروانا اسی ممانعت کے تحت ہے۔
مطیع سید : خلوق اور زعفرا ن کی خوشبو سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔ایک صحابی لگا کر آئے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ دھو دد۔(کتاب الادب، باب ما جاء فی کراہیۃ التزعفر والخلوق للرجال، حدیث نمبر ۲۸۱۶) حالانکہ خوشبو کسی بھی قسم کی ہو، خوشبو ہی ہوتی ہے۔ ان خوشبوؤ ںمیں کیا مسئلہ تھا؟
عمار ناصر : خلوق اور زعفران میں شاید زرد رنگ کا مسئلہ تھا۔ مردوں کے لیے رنگوں میں بھی یہ مطلوب ہےکہ ان میں زنانہ جھلک نہ ہو۔ یا اگر خوشبو کے پہلو سے ناپسند کیا گیا تو شاید خوشبو میں کوئی ایسی چیز ہو جو آپ ﷺ کے ذوق کے خلاف ہو۔
مطیع سید : روایت میں ہے کہ آپ عبد اللہ بن رواحہ کے اشعار پڑھا کرتے تھے اور مثال کے طور پر اس شعر کا ذکر کیا گیا ہے کہ
ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا
ویاتیک بالاخبار من لم تزود
(کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، حدیث نمبر ۲۸۴۸)
یہ تو عبد اللہ بن رواحہ کا شعر نہیں ہے۔یہ تو غالبا سبع معلقات کے کسی شاعر کا شعر ہے۔
عمار ناصر : جی، یہ طرفہ بن عبد کا شعر ہے۔ لیکن روایت میں اس کو ابن رواحہ کا شعر نہیں کہا گیا۔ روایت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ابن رواحہ کے اشعار بھی موقع بموقع پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح مذکورہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس شعر کا ذکر الگ سے کیا گیا ہے، عبد اللہ ابن رواحہ کی نسبت سے نہیں کیا گیا۔
مطیع سید : لزوم ِ جماعت کے بارے میں آ پ ﷺنے جو باتیں فرمائی ہیں،(کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، حدیث نمبر ۲۱۶۵) اس تناظرمیں آپ پربسھی اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ آپ جمہور امت کی رائے سے ہٹ کر باتیں کیوں کرتےہیں۔
عمار ناصر : دیکھیں، لزومِ جماعت کی ہدایت کے دو محل ہو سکتے ہیں۔ آپ کو زیادہ تر روایات میں یہ سیاق ملے گا کہ آپ ﷺ مسلمانوں کی جو سیاسی اجتماعیت ہے، اس کے اندر اختلاف پیدا کرنے والوں کا ساتھ دینے سے منع فرما رہے ہیں اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں کہ طرح طرح کے امیدواراپنے اپنے اقتدار کے لیے اٹھیں اور لوگ ان کا ساتھ دینا شروع کر دیں۔دوسرا محل یہ ہو سکتا ہے کہ اس ہدایت کو آپ دینی لحاظ سے دیکھیں تو وہ بھی صحیح ہے۔ اس طرح کی وارننگ آپﷺ اپنی فورا بعد کی صورتحال کے لیے دے رہے ہیں جس میں ایک طرف صحابہ و تابعین کی صورت میں مسلمانوں کی جماعت ہے جو دینی اور اعتقادی لحاظ سے بالکل صحیح جگہ پر کھڑی ہے اور دوسری طرف بہت سے فرقے ہیں جو اِدھر اُدھر سے نکل رہے ہیں۔ جو لو گ اس اصول کو توسیع دے کر علمی اور فقہی اختلافات پر منطبق کرتے ہیں اور ہر زمانے کے جمہور کے ساتھ اتفاق کو لزوم جماعت کا تقاضا قرار دیتے ہیں،ان کی رائے میرے نزدیک درست نہیں۔ یہ اختلاف تو صحابہ کے دور میں بھی تھا۔ کیاصحابہ میں ایسے لوگ نہیں ہوتے تھے جن کی رائے بہت سے مسائل میں عمومی رائے سے مختلف ہوتی تھی؟
مطیع سید : آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ کسی غیر قوم سے دشمن کو میری امت پر مسلط نہ فرما۔(کتاب الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثا فی امتہ، حدیث نمبر ۲۱۷۵) کیا یہ دعا قبول ہو ئی؟ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا تو ہوا ہے۔صرف تاتاریوں کی ہی مثال دیکھ لیں۔
عمار ناصر : فتن سے متعلق احادیث میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک خاص تاریخی دور کے تناظر میں پیش آنے والے حالات کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے مراد اہل عرب ہیں جن میں آپ کی بعثت ہوئی۔ ان کا تاریخ میں غلبے اور زوال کا ایک خاص دور ہے۔ یہ دعا اس خاص تناظرمیں عربوں سے متعلق ہے اور آپ کے بعد جو ان کے اقتدار اور پھر اس کے زوال کا زمانہ ہے، اس کے حوالے سے ہے۔ مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح اہل عرب کے اقتدار کا خاتمہ اس انداز میں نہ ہو کہ کوئی غیر قوم ان پر مسلط ہو کر انھیں اپنا غلام یا محکوم وغیرہ بنا لے۔ کتاب الفتن میں مروی رسول اللہ ﷺ کی زیادہ تر پیشین گوئیاں اس خاص دور سے متعلق ہیں۔ان کو ہر طرح کے حالات پر منطبق کرنا درست نہیں ہے۔
مطیع سید : خوارج کے بارے میں جو روایات ہیں، ان میں بھی آخری زمانے کے الفاظ آتے ہیں۔ (کتاب الفتن، باب فی صفۃ المارقۃ، حدیث نمبر ۲۱۸۸) کیا وہ بھی اسی مفہوم میں ہیں؟
عمار ناصر : جی، آخری زمانے کے الفاظ آپ کو روایات میں کئی جگہ نظر آئیں گے اور یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے خاتمے کے زمانے کی بات نہیں کر رہے۔ آپﷺ کی مراد یہ ہے کہ آپ جس امت میں مبعوث کیے گئے ہیں، اس کے استحکام اور قوت کا دور جب ختم ہونے والا ہوگا تو یہ واقعات وقوع پذیر ہوں گے۔
مطیع سید : عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میرے والد کے پا س تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ میرے ساتھ باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے چلیں۔انہوں نے جواب میں فرمایا کہ حضورﷺ نے فرما یاتھا کہ جب ایسی کوئی صورت حال ہو کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو تم لکڑی کی تلوار بنا لینا اور اور لڑائی میں شریک نہ ہونا، اس لیے میں نے لکڑی کی تلوار بنا لی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہ سن کر چلے گئے اور و ہ ا ن کے ساتھ نہیں گئے۔(کتاب الفتن، باب ما جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنۃ، حدیث نمبر ۲۲۰۳) یہاں سوال یہ ہے کہ قرآن ِحکیم تو واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ باغیوں کے ساتھ لڑو اور یہ فرما رہے ہیں کہ انہیں حضور ﷺ نے لڑنے سے منع فرمایا۔
عمار ناصر : دیکھیں، صحابہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی میں دو طرح کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک صورت حال میں صحابہ کی جماعت مجموعی طور پر ایک طرف تھی اور خوارج وغیرہ کچھ گروہ ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس کے متعلق صحابہ کو کوئی شبہ نہیں تھا کہ حق کس طرف ہے اور کس کا ساتھ دینا چاہیے۔ دوسری صورت حال وہ تھی جس میں سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد خود صحابہ صورت حال کی نوعیت متعین کرنے میں باہم تقسیم ہو گئے، کیونکہ بالکل واضح طور پر یہ طے کرنا مشکل تھا کہ حق کس طرف ہے۔ حضور ﷺ نے دراصل اس تناظر میں یہ بات کہی تھی کہ مسلمان جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو تم نے لڑائی میں شریک نہیں ہونا۔ گویا عدیسہ کے والد، اہبان حضرت علی اور حضرت معاویہ کی لڑائی کو اسی تناظر میں دیکھ رہے تھے۔
مطیع سید : عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے کہ قریش قیامت تک خیر و شر میں لوگوں کے حکمران رہیں گے۔(کتاب الفتن، باب ما جاء ان الخلفاء من قریش الی ان تقوم الساعۃ، حدیث نمبر ۲۲۲۷) یہاں تو قیامت تک کے الفاظ آ گئے ہیں۔کیا یہ وہی تناظر ہے جس کا آپ نے نبی ﷺ کے متصل بعد کے زمانے کے حوالے سے ذکر کیا؟
عمار ناصر : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی ایک شرط کے ساتھ بیان فرمائی تھی کہ اگر قریش راہ راست پر قائم رہے تو ان کے اقتدار کا تسلسل بھی قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ کوئی غیر مشروط پیشین گوئی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میرے خیال میں فتن کی روایتوں میں راویوں کا فہم بھی کافی شامل ہوگیا ہے۔آپ کو شروع کے دور میں صحابہ کے ہاں بھی یہ تصور ملے گا اور بہت سے لوگ بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ جو بھی اس وقت صورت حالات قائم ہے،اسی کے رہتے ہوئے قیامت آجائے گی،یعنی قیامت کو لوگ بہت ہی قریب سمجھ رہے تھے۔اس لیے یہ بعید از قیاس نہیں کہ جو پیشن گوئیاں آپﷺ نے اس مخصوص دور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بیان کی تھیں، لوگوں نے اپنے فہم سے ان کو قیامت تک کے لیے سمجھ لیا ہو اور بالمعنیٰ روایت کرتے ہوئے اس طرح بیان بھی کر دیا ہو۔
مطیع سید : امام مہدی کے بارے میں جو روایات ہیں، (کتاب الفتن، باب ما جاء فی المہدی، حدیث نمبر ۲۲۳۰) کیا وہ ٹھیک ہیں؟ آپ کی ان کے متعلق کیا رائے ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان میں بڑا اضطراب ہے اور بڑے مسائل ہیں۔ ان میں سے بعض میں تو بڑی متعین قسم کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔
عمار ناصر : اگر چہ محدثین ان کو طرق مختلف کی بنیا دپر قبول کرتے ہیں، لیکن مجھے ان میں وضع کا پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ بعض سند کے لحاظ سے بھی بالکل موضوع ہیں۔زیادہ تر ضعیف ہیں اور ان میں معنوی طور پر بھی کافی مسائل ہیں۔ ان کی صحت پر اطمینان نہیں ہوتا۔ باقی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مطیع سید : آپ ﷺنے لوگوں کو ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنے سے منع فرما یا، (کتاب الزہد، باب فی من تکلم بکلمۃ یضحک بہا الناس، حدیث نمبر ۲۳۱۵) جب کہ ہم عام طورپر ایسا کرتے رہتے ہیں۔یہ تو تمام معاشروں میں عام ہوتا ہے، عرب میں بھی ہوتا ہوگا۔اس قدر سختی کیوں ہے؟
عمار ناصر : ایک یہ ہے کہ آپ لطیفہ سنا رہے ہیں اور سننے والے کو بھی پتہ ہے کہ ایک فرضی بات ہے۔یہ تو اور چیز ہے۔لیکن آپ ایک بات اس طرح سنا رہے ہیں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ واقعتا ایسا ہوا ہے اور اس غلط بیانی کا مقصد صرف یہ ہو کہ لوگ اس سے محظوظ ہوں۔اس کے متعلق آپﷺنے فرمایا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
مطیع سید : آپ ﷺ نے زمین پر ایک مربع کھینچا او ر کچھ لائنیں لگائیں اور فرمایا کہ یہ زندگی میں آنے والی آفات ہیں، ان سے اگر آدمی بچ جائے تو بالآخر مو ت سے ہمکنار ہوگا۔(کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، حدیث نمبر ۲۴۵۴) اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ موت کا وقت متعین نہیں، کسی آفت سے انسان اگر بچ گیا تو آخر میں پھر مر ہی جائےگا۔
عمار ناصر : یہ ہمارے حالات کے لحاظ سے ہے۔ اللہ کے علم میں تو طے ہی ہے، لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ کب موت آجائے گی۔ہمارے تصور کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ آدمی کو زندگی کی ناپائیداری کا احساس رہنا چاہیے۔
مطیع سید : اسلام غریب تھا اور پھر دوبارہ غریب ہو جائے گا تو غربا ء کے لیے خوشخبری ہے۔(کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ان الاسلام بدا غریبا وسیعود غریبا، حدیث نمبر ۲۶۲۹) یہاں اسلام کے لیے غریب کا لفظ اجنبی کے معنوں میں ہے تو پھر غربا ء کے لیے خوشخبری کا اس سے کیا تعلق ہے؟ یعنی اسلا م کا غربت سے کیا تعلق ہے؟
عمار ناصر : یہاں غرباء سے مراد وہ نہیں جن کے پا س پیسے نہ ہوں۔ عربی میں فقر یا ناداری کے لیے غربت کی تعبیر استعمال نہیں ہوتی۔غرباء سے مراد بھی وہی لوگ ہیں جو حقیقی اسلام پر قائم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اجنبی بن جائیں گے۔
(جاری)